Notice: Function WP_Scripts::localize was called incorrectly. The $l10n parameter must be an array. To pass arbitrary data to scripts, use the wp_add_inline_script() function instead. براہ مہربانی، مزید معلومات کے لیے WordPress میں ڈی بگنگ پڑھیے۔ (یہ پیغام ورژن 5.7.0 میں شامل کر دیا گیا۔) in /home/zhzs30majasl/public_html/wp-includes/functions.php on line 6078
حواس کا فریب – روحانی ڈائجسٹـ
بدھ , 16 اکتوبر 2024

Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu
Roohani Digest Online APP
Roohani Digest Online APP

حواس کا فریب

 

 

اِن سطور کا مطالعہ کرتے ہوئے سامنے دیے گئےدائرے آپ کو حرکت کرتے نظر آئیں گے۔ یہ کوئی شعبدہ بازی نہیں بلکہ حواس کا فریب یا نظر کا پھیر ہے اور ظاہری بصارت اور بصیرت کےفرق کو واضح کرتا ہے۔


شاعر مشرق علامہ اقبال فرماتے ہیں
دل بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور ، دل کا نور نہیں
کہتے ہیں کہ اگر نورِ نگاہ کی طلب ہے تو دل کا نور مانگو، کیونکہ انسان اصل میں سر کی آنکھوں سے نہیں بلکہ دل کی آنکھوں سے دیکھتا ہے ۔

 


آپ کیا دیکھ رہے ہیں…. آیئے ایک تجربہ کریں
نیچے پانچ تصویریں دی گئی ہیں۔ ان میں پہلی ، دوسری اور تیسری تصویر میں آپ کو ایک کیوب نظر آرہا ہوگا، جبکہ چوتھی اور پانچویں تصویر میں سیاہ ٹرائی اینگل کے ساتھ آپ سفید ٹرائی اینگل کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔

 

آپ نے بالکل صحیح سمجھا، لیکن یہ سفید تصویریں ہم نے نہیں بنائی ہیں بلکہ یہ ہماری نگاہ کا دھوکہ ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ دوسری تصویر میں جو دائرے دیئے گئے ہیں، صرف ان دائروں کو مخصوص شکل میں کاٹ دیا گیا ہے۔ لیکن جب ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں ایک مکمل کیوب کی شکل نظر آتی ہے۔ اسی طرح تیسری تصویر میں سفید ٹرائی اینگل وہ اطلاع ہے جو ہماری نگاہ ہمیں دے رہی ہے۔ چوتھی تصویر اس کی بہت واضح مثال ہے کہ دائروں کو اس طرح کاٹاگیا ہے کہ وہ ایک چوکور خانے کی طرح بن گئے ہیں، لیکن ہم ایک غیر موجود اس مربع Square کو دیکھ رہے ہیں۔
ہمارے دماغ کی ایک صلاحیت یہ بھی ہے کہ وہ خالی جگہ (ایسی جگہ جہاں کچھ نہیں ہے) کو اپنے حساب سے بھرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں ان تصاویر میں سفید رنگ کی مکمل تصاویر نظر آرہی ہیں۔ کیونکہ جہاں جہاں ذہن کو خالی جگہ ملی وہاں وہاں ذہن نے خالی جگہ کو بھر دیا اور ہمیں مکمل تصویر نظر آنے لگی۔
قلندر بابا اولیا ءؒ اپنی کتاب لوح وقلم میں فرماتے ہیں کہ‘‘ ہم روشنی کے ذریعے دیکھتے یا سُنتے، سمجھتے اور چھوتے ہیں۔ روشنی ہمیں حواس دیتی ہے۔ جن حواس کے ذریعے ہمیں کسی شئے کا علم ہوتا ہے وہ روشنی کے دیے ہوئے ہیں۔ اگر روشنی درمیان سے حذف کردی جائے تو ہمارے حواس بھی حذف ہوجائیں گے۔ اس وقت نہ تو خود ہم اپنے مشاہدہ میں باقی رہیں گے اور نہ کوئی دوسری شئے ہمارے مشاہدے میں باقی رہے گی۔
مثال: اگر کوئی مصوّر سفید کاغذ پر رنگ بھر کے درمیان میں ایک کبوتر کی جگہ خالی چھوڑ دے۔ پھر وہ کاغذ دکھا کے کسی شخص سے پوچھا جائے تمہیں کیا نظر آتا ہے تو وہ کہے گا, میں ایک سفید کبوتر کو دیکھ رہا ہوں’’۔ (لوح وقلم: صفحہ 197)
اب آپ سامنے دی ہوئی تصویر کو دیکھیے جس میں آپ کو 6 بڑے اور 8 چھوٹے دائروں کے درمیان دو نارنجی دائرے نظر آرہے ہیں۔ غور کرنے پر آپ کو ایک دائرہ بڑا اور ایک چھوٹا لگے گا، جبکہ دونوں دائرے برابر ہیں۔


نیچے دی گئی تمام تصاویر میں بھی آپ کو غیر متوازی لائنیں نظر آرہی ہونگی جو حقیقتاً سیدھی ہیں، چاہیں تو اسکیل رکھ کر دیکھ لیں….


اب آپ اس تصویر کے درمیان میں موجود نقطہ کو غور سے دیکھیں اور صفحہ کو اپنی آنکھوں سے قریب اور دور کریں۔ کیا آپ کو اردگرد کے دائرے حرکت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں….؟ ایسا کمپیوٹر پر تو ہوسکتا ہے یا ٹی وی پر کہ اشیاء حرکت کررہی ہوں لیکن کاغذ پر ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟….

جی ہاں !…. تصویر میں حرکت ہمارے ذہن کی پیداوار ہے۔ اس کو آپ نظر کا دھوکہ کہیں، نگاہ بندی کہیں،سراب کہیں یا اور کچھ اور…. لیکن دراصل ہماری نگاہ ایک ایسی چیز دیکھ رہی ہے جو وہاں نہ ہے اور نہ کبھی تھی۔

اسی طرح سامنے نظر آنے والی تصویر میں آپ کو نظروں آپ کی نظروں کے ساتھ لہریں چلتی ہوئی نظر آئیں گی، جبکہ حقیقتا یہ آپ کی نظر کا فریب ہے ۔

اب اس تصویر میں آپ کو سیاہ مربعوں کے درمیان سفید جگہ میں چھوٹے اور کالے رنگ کے نقطے نظر آرہے ہیں۔ اب آپ ذرا غور سے اس تصویر کو دیکھیں۔ کیا آپ اس تصویر میں سفید اور کالے نقطے گِن سکتے ہیں….؟


کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ نقطے تو حرکت کررہے ہیں۔ اب اس تصویر کو دوبارہ دیکھیے۔ اس مرتبہ اس تصویر کو دیکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک ایک سفید دائرہ پر نگاہ کو جماکر غور سے دیکھیے۔ پھر تمام دائروں کو اس ہی طرح سے ایک ایک کرکے دیکھیے۔کیا آپ کو کوئی سیاہ نقطہ نظر آیا ….؟ نہیں!…. اس کا مطلب یہ ہے کہ تصویر میں سیاہ ہے ہی نہیں….
اب آئیے اپنی بائیں آنکھ بند کرکے، دائیں آنکھ سے نیچے دیے گئے نمبر ایک ایک کرکے دیکھیے….ہر نمبر پر آپ کو دائیں جانب دی ہوئی شبیہ نظر آرہی ہے سوائے ایک نمبر کے….اگر آپ نے یہ صفحہ اپنی آنکھوں کے 6 انچ فاصلے پر رکھا ہوا ہے تو یہ 1نمبردیکھنے پر شبیہ نظر نہیں آتی ۔ آپ جیسے جیسے فاصلہ بڑھائیں گے مثلاً اگر صفحہ ایک فٹ کے فاصلہ پر ہے تو نمبر 5 پر اور اگر ڈیڑھ فٹ فٹ کا فاصلہ ہے تو نمبر 8 پر یہ شبیہ غائب ہوجائے گی۔


ہم نے اب تک جو تجربات کیے ہیں وہ ہمیں اس بات کا سراغ دیتے ہیں کہ ہمارا دماغ آنکھ کی اطلاعات کو نا صرف سمجھتا ہے بلکہ ان میں اختراعات بھی کرتا ہے۔ یعنی دماغ اپنی مرضی سے منظر میں اطلاعات کا اضافہ ، کمی یا تبدیلی کردیتا ہے جو ہمیں وہ منظر دکھاتی ہے جو منظر موجود ہی نہیں ہے۔

 


 

 

 

حضرت قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں کہ علم کے بغیر تمام احساسات نفی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اگر کسی چیز کا ہم علم نہیں رکھتے تو ہمارے لیے اس چیز کا دیکھنا، سننا اور جاننا بھی ممکن نہیں ہوگا۔ ہم جس عمل کو دیکھنا کہتے ہیں وہ ہمارے دماغ میں گردش کرنے والی اطلاع یا برقی سگنلز کی تحریکات ہے۔ بصارت یعنی دیکھنے اور مشاہدے کاتعلق سوچ ، فکر یعنی بصیرت سے ہے۔ دراصل دیکھنا بیرونی نہیں بلکہ اندرونی عمل ہے۔
ریل گاڑی میں سفر کرتے ہوئے کبھی کبھی نظریں ایسا دھوکہ کھا جاتی ہیں کہ یہ محسوس ہوتا ہے، گاڑی نہیں بلکہ زمین بھاگ رہی ہے۔ کھلی چھت پر لیٹے آسمان پر چلتے بادلوں کو دیکھنے سے یہ احساس ہوتا ہےکہ بادل نہیں چل رہے بلکہ ہم ہوا میں تیر رہے ہیں۔ چاند کی چودھویں رات میں لانگ ڈرائیو پر جاتے ہوئے چلتی گاڑی سے چاند کو دیکھنے سے لگتا ہے کہ گاڑی کے ساتھ چاند دوڑ رہا ہے۔ کبھی کبھی آسمان پر چلتے بادلوں میں چاند کو دیکھیں تو ایسے لگتا ہے بادل فضا میں نہیں تیر رہے رہے شاید چاند تیزی سے سفر کررہا ہے۔کبھی کبھی نیم تاریک راستوں میں سڑک کے کنارے لگے درخت، دیوقامت انسان دکھائی دیتے ہیں ۔ تیز رفتار گاڑی میں سفر کرتے ہوئے ساتھ چلتی گاڑی کے پہیوں پر نظر ڈالیں تو وہ پہیے اُلٹے گھومتے نظر آتے ہیں۔ یہی کچھ تیزچلتے پنکھے کی پنکھڑیوں کو دیکھ کر بھی محسوس ہوتا ہے۔ ایسی بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے۔ ہمارے ظاہری حواسِ خمسہ سمجھنے میں کس طرح غلطیاں کرتے ہیں۔
عام طور پر اس بات کو نظرانداز کردیا جاتا ہے کہ دیکھناSighting سمجھنے Understanding کے بعد آتا ہے۔ یعنی پہلے سمجھ ہے پھر مشاہدہ۔ اگر سمجھنے میں غلطی کی جارہی ہے تو مشاہدہ بھی غلط ہوسکتا ہے۔
اس گفتگو کو آگے بڑھانے سے قبل ہم جدید سائنس کی روشنی میں اپنے ظاہری حواس کی کارکردگی پر ایک نظرڈالتے ہیں ….
ہم جس دنیا میں رہتے ہیں وہاں چیزوں کو محسوس کرنے کے لیے ہم اپنے حواسِ خمسہ کو استعمال کرتے ہیں۔ دیکھنے کا فریضہ آنکھیں انجام دیتی ہیں، سننے کا کام کان، سونگھنے کی ذمہ داری ناک کی ہے، زبان چکھنے اور جلد محسوس کرنے سے منسوب ہے۔ ہمارے لیے اگر دنیا کا وجود ہے تو ان پانچوں حواس کی بدولت….حسِ بصارت، لامسہ، شامہّ، ذائقہ اور سامعہ ہی آدمی کی پوری زندگی پر محیط نظر آتے ہیں۔ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک احساس آپ کے جسم میں پہنچنے سے پہلے ان حواس کے واسطے سے گزرتا ہے لیکن کیا مادّی اشیاء کو ہمارے حواس مادّی صورت میں محسوس کرتے ہیں….؟
جدید سائنس اِس کی تردید کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ ظاہری حواس چیزوں کو برقی اشاروں میں تبدیل کرکے قابلِ فہم بناتے ہیں۔
اب دیکھنے کی حس کو ہی لے لیں۔اگر آپ سے سوال کیا جائے کہ ‘‘آپ کیسے دیکھتے ہیں؟’’تو آپ کہیں گے کہ‘‘ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں !’’لیکن جب ہم دیکھنے کے عمل کا تکنیکی گہرائی سے جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ معاملہ یہ نہیں ہے….ہر چیز جو دیکھی جارہی ہے اس سے روشنی کی لہریں نکل کر ہماری آنکھوں تک پہنچتی ہیں اور آنکھوں کے لینس میں سے گزر کر ریفلیکٹ ہوتی ہیں، ریٹینا سے ٹکراکر یہ روشنی برقی سگنلز میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔ یہ برقی سگنلز نیوران کے ذریعہ دماغ کے اس حصہ میں منتقل ہوجاتے ہیں، جہاں فی الحقیقت دیکھنے کا عمل انجام پاتا ہے۔ یاد رہے کہ دماغ کے اس حصہ میں روشنی کا گزر بھی ممکن نہیں۔

جی ہاں ! قارئین ِ کرام ہمارے دماغ کے جس حصے میں دیکھنے کا عمل وقوع پذیر ہوتا ہے، اس جگہ مادّی دنیا کی کسی قسم کی روشنی کا گزر ممکن نہیں….وہاں گھپ اندھیرا ہے اور ہم اسی اندھیرے میں دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہم دیکھ رہے ہیں، تو ہم دراصل اپنے دماغ میں برقی سگنلز کے مجموعی تاثر کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ چنانچہ دیکھنے کا عمل آنکھ میں نہیں ہوتا بلکہ آنکھ تو صرف دیکھنے کے عمل میں ایک حصہ دار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جس عمل کو دیکھنا کہتے ہیں وہ ہمارے دماغ میں گردش کرنے والی اطلاع یا برقی سگنلز کی تحریکات یا تاثر کا دوسرا نام ہے۔ اِس سے یہ سائنسی حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ ‘‘دیکھنا’’ بیرونی نہیں بلکہ اندرونی عمل ہے۔ اگر کسی وجہ کے تحت دماغ رسّی کو سانپ کہہ دے تو اِس کا نتیجہ یعنی مشاہدہ سانپ ہوگا۔ یعنی چاہے ہمارے سامنے رسّی موجود ہے لیکن وہ ہمیں سانپ نظر آئے گی۔ یہی صورتحال دیگر تمام حواس کے ساتھ ہے، آواز، لمس، ذائقہ اور بُو سب دماغ کے برقی سگنلز کا کھیل ہے۔ چنانچہ بصارت، سماعت، بو، ذائقہ اور لمس کے تمام ادراک جو ہمیں حاصل ہوتے ہیں۔ ہمارے ذہن سے انجام پاتے ہیں حسی اعضاء ناک آنکھ، کان، ناک ، زبان و جلد سے نہیں….حسی اعضاء کے گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد یہی کہا جاسکتا ہے کہ انسان اپنے ذہن سے ادراک کرتا ہے۔
آئرلینڈ کے مشہور دانشور جارج برکلے (1753ء تا 1685ء)کا کہنا تھا کہ ‘‘ابتداء میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ رنگ، بُو وغیرہ واقعتاً موجود ہیں لیکن بعد میں ان نقطہ ہائے نظر کو چھوڑ دیا گیا اور دیکھا گیا کہ ان کا وجودہمارے ادراک پر منحصر ہے۔’’
بیسوی صدی کے معروف مغربی فلسفی اور سائنسی دانشور برٹرینڈ رسل (1872ء) اِس حوالے سے نہایت فکر انگیز نکتہ بیان کرتے ہیں ‘‘حسِ لامسہ کے معاملے میں جب ہم میز کو اپنی انگلیوں سے دباتے ہیں تو ہماری انگلیوں کے پروٹونز اور الیکٹرونز پر برقی بے ترتیبی پیدا ہوتی ہے، میز کے الیکٹرونز اور پروٹونزکی قربت کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اگر ہماری انگلیوں میں یہی بےترتیبی کسی اور وجہ سے ہو تو ہمیں تب بھی یہی احساس ہوگا خواہ میز کا وجود ہی نہ ہو۔’’


ان تمام معروضات سے یہ بات سامنے آئی کہ ظاہری حواس فکشن ہیں۔ مشاہدات کو معنی پہنانا ہمارے فہم، علم یا شعور کا کام ہے۔ ہم چیزوں کو اتنا ہی محسوس کرسکتےہیں جتنا کہ ہمارے علم کی حد اور شعور کی استعداد ہے۔ حواس ہمیں جو کچھ اطلاع فراہم کرتے ہیں۔ اُن سے ہمیں حقیقی اور مکمل معلومات حاصل نہیں ہوسکتیں، بلکہ اکثر حقائق اُن کے پس منظر میں موجود ہوتے ہیں جن سے حواس رہنمائی ہی نہیں لیتے اور ہمارا ذہن غلط تشریح کرجاتا ہے۔ مثلاً صحراؤں میں بھٹک جانے والے افراد کو دور کسی درخت یا ٹیلے کا عکس پانی میں دکھائی دیتا ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ آگے کوئی جھیل یا تالاب ہے، حالانکہ وہ نظر کا دھوکہ ہوتاہے اور وہاں کوئی چیز نہیں ہوتی۔
350 قبل مسیح کے مشہوریونانی فلسفی ارسطو کا کہنا ہے‘‘ہم اپنے فہم (سینس) پر بھروسا کرسکتے ہیں، لیکن اسے بہ آسانی بے وقوف بھی بنایا جا سکتا ہے۔’’
فارسی شاعر صائب تبریزی فرماتے ہیں۔
تفاوت است میانِ شنیدنِ من و تو
تو غلقِ باب و منم فتح باب می شنوم
‘‘میرے اور تمہارے سننے میں فرق ہوسکتا ہے۔ ایک آواز آتی ہے جسے تم دروازہ بند کرنے کی آواز سمجھتے ہو اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ دروازہ کھلنے کی آواز ہے۔’’
اسی بات کو قلندر بابا اولیاء نے آسان الفاظ میں اپنی رباعی میں بیان کیا ہے۔
خانے ہیں دماغ کے وہ خالی ہیں سب
چیزیں جو نظر آتی ہیں جعلی ہیں سب
ہر لمحہ بدلتا ہے جہاں کا منظر
نظّارے بھی آنکھوں کے خیالی ہیں سب
حضرت قلندر باباؒ نے بہت تفصیل کے ساتھ اس بات کو بیان کیا ہے کہ حواس سے ملنے والی اطلاعات کو ہم اپنے علم، شعور یا معلومات کے مطابق ہی اخذ کرتے ہیں، ‘‘لکڑی کے ایک فریم میں ایک تصویر لگاکر بہت شفاف آئینہ تصویر کی سطح پر رکھ دیا جائے اور کسی شخص کو فاصلے پر کھڑا کرکے امتحاناً یہ پوچھا جائے کہ بتاؤ تمہاری آنکھوں کے سامنے کیا ہے تو اُس کی نگاہ صرف تصویر کو دیکھے گی۔ شفاف ہونے کی وجہ سے آئینہ کو نہیں دیکھ سکے گی۔ اگر اُس شخص کو یہ بتادیا جائے کہ آئینہ میں تصویر لگی ہے تو پہلے اُس کی نگاہ آئینہ کو دیکھے گی پھر تصویر کو دیکھے گی۔’’
باباصاحبؒ ایک اور مثال پیش کرتے ہیں ‘‘ہیروشیما کی ایک پہاڑی جو ایٹم بم سے فنا ہوچکی تھی، لوگوں کودور سے اپنی اصل شکل و صورت میں نظر آتی تھی لیکن جب اُس کو چھوکر دیکھا گیا تو دھوئیں کے اثرات بھی نہیں پائے گئے۔ اس تجربے سے یہ معلوم ہوگیا کہ صرف دیکھنے والوں کا علم نظر کا کام کر رہا تھا۔’’
بابا صاحبؒ مزید فرماتے ہیں ‘‘علم کے بغیر تمام احساسات نفی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اگر کسی چیز کا علم نہیں ہے تو اس چیز کا دیکھنا ممکن ہے نہ سننا ممکن ہے۔ ’’
[لوح وقلم: صفحہ 53-54]
مذکورہ مثالوں اور سائنسی وضاحتوں کے بعد اب اگر ہم سے یہ سوال کرلیا جائے کہ ہم کہاں دیکھ رہے ہیں تو اس کا یہ جواب بھی کہ‘‘ہم اپنے دماغ میں دیکھ رہے ہیں’’بالکل بے معنی ہوگا۔ جی ہاں! اس لیے کہ دونوں صورتوں میں د یکھنے اور ادراک کرنے والا دماغ نہیں بلکہ وہ تو محض گوشت کا ایک ٹکڑا ہے۔ادراک کرنے والی قوت گوشت پوست سے ماوریٰ ہے۔ اس لیے کہ برقی مقناطیسی لہروں یا الیکٹرومیگنیٹک ویوز کو بھی ہم کسی طرح مادی شئے قرار نہیں دے سکتے…گویا بیرونی دنیا جس کا ہم ادراک کرتے ہیں، محض خواب ہے جو روح دیکھتی ہے۔ جس طرح خواب میں نظر آنے والے ہمارے جسم اور اس دنیا کی کوئی حقیقت نہیں، اسی طرح اس کائنات اور ہمارے جسم کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اصل شے یا اصل نوع روح ہے۔ مادّہ تومحض اُس ادراک پر مشتمل ہے جس کا مشاہدہ روح کرتی ہے۔ وہ ذہین مخلوق جو یہ سطور لکھتی اور پڑھتی ہے، چند ایٹموں، سالموں اور ان کے درمیان کیمیائی تعاملات کا مجموعہ نہیں ، بلکہ ‘‘روح’’ہے۔
سلسلہ عظیمیہ کے مرشد اور قلندربابااولیاءؒ کے ممثل حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی اس بات کی تشریح کرتے ہوئے کتاب خواب اور تعبیر میں فرماتے ہیں کہ: ‘‘جب انسانی ارادہ اور شعور کسی چیز میں مرتکز ہوجاتا ہے (خواہ بیداری ہو یا خواب) تو وہ تصور سے عمل میں بدل جاتی ہے۔ یعنی وہ چیز مظہر بن کر سامنے آجاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہنا چاہیے کہ کیمیکل امپلس Chemical Impulse ان تصورات کو خدوخال دے کر مظہر بناتے ہیں۔ الیکٹرک امپلس Electric Impulse جب کیمیکل امپلس میں تبدیل ہوجاتے ہیں تو تصور مادی نقش و نگار کا روپ دھار کر شکل و صورت میں رونما ہوجاتا ہے۔ جو چیز الیکٹرک امپلس سے کیمیکل امپلس میں بدل جاتی ہے، اس کا اثر خواب کی طرح بیداری کے حواس پر بھی معین وقفہ تک موجود رہتا ہے۔ خواب یا بیداری دونوں حالتوں میں یہ دونوں ایجنسیاں برسرِ عمل رہتی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ خواب میں الیکٹرک امپلس کی کارکردگی زیادہ ہوتی ہے اور بیداری میں کیمیکل امپلس کی کارکردگی نمایاں ہوتی ہے۔ اگر بیداری کی طرح خواب میں بھی کیمیکل امپلس نمایاں ہوجائے تو ایسی صورت میں خواب میں دیکھی ہوئی، محسوس کی ہوئی یا چکھی ہوئی کوئی چیز بیداری میں بھی خواب کی طرح نظر آتی ہے۔مثال کے طور پر خواب میں ہم سنگترہ کھاتے ہیں اور اس کا مزہ بھول جاتے ہیں،کیوں بھول جاتے ہیں…؟ اس لیے کہ سنگترہ اور سنگترے کا مزہ ہمیں الیکٹرک امپلس کے ذریعے موصول ہوا ہے…. لیکن یہی مزہ اگر خواب میں الیکٹرک امپلس سے کیمیکل امپلس میں بدل جائے تو ہم سنگترہ اور سنگترے کے ذائقے کو بیداری میں بھی محسوس کریں گے۔’’
ان تمام حقائق کی روشنی میں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ….ہم مادّی دنیا کی جس شے سے واقف ہوتے ہیں، اگر وہ محض ہماری روح کے ذریعے ہونے والا ادراک ہی ہے تو پھر اس ادراک کا منبع کیا ہے….؟
قلندر بابا ؒ کی تعلیمات میں ہمیں اس سوال کا جواب مل سکتا ہے، آپؒ اس ضمن میں ارشاد فرماتے ہیں:
‘‘ادراک کہاں سے آیا؟ وہ صرف اطلاع ہے۔ یہ اطلاع کہاں سے ملی ہے….؟اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں سماعت میں نے دی ہے، بصارت میں نے دی ہے۔ تو اس کا مطلب یہ نکلا کہ اطلاع میں نے دی ہے۔ ہم عام حالات میں جس قدر اطلاعات وصول کرتے ہیں، ان کی نسبت تمام دی گئی اطلاعات کے مقابلے میں کیا ہے….؟ شاید صفر سے ملتی جلتی ہو۔ وصول ہونے والی اطلاعات اتنی محدود ہیں جن کو ناقابلِ ذکر کہیں گے۔
اگر ہم وسیع تر اطلاعات حاصل کرنا چاہیں تو اس کا ذریعہ بجز علومِ روحانی کے کچھ نہیں ہے اور علوم روحانی کے لیے ہمیں قرآن پاک سے رجوع کرنا پڑے گا۔’’[لوح و قلم: صفحہ 275]

 

 

ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ۔ جنوری 2019 کے شمارے سے انتخاب

اس شمارے کی پی ڈی ایف آن لائن ڈاؤن لوڈ کیجیے!

یہ بھی دیکھیں

پراسرار مثلث برمودا ٹرائی اینگل – 2

پراسرار مثلث ۔ برمودا ٹرائی اینگل حقیقت کیا ہے؟ حصہ دوم کیا برمودا ٹرائی اینگل …

شیطانی مثلث برمودا ٹرائی اینگل – 1

شیطانی مثلث ۔ برمودا ٹرائی اینگل ایک نہ حل ہونے والا پُراسرار معمّا حصہ اول …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے