Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

خوشی کا حصول کس طرح ممکن ہے؟

 


نہ کلی وجہ نظر کشی نہ کنول کے پھول میں تازگی
فقط ایک دل کی شگفتگی سبب نشاط بہار ہے

ہمارے اندر کا موسم خوشگوار ہو گا تب ہی ہم اپنے باہر بھی پرُ بہار اور دلدار ماحول تعمیر کرسکیں گے ۔ یہ نہایت مختصر تحریر آپ کو اسی ماحول کی تعمیر میں مدد دے گی۔

خوشی کیا ہے؟  

خوشی کا حصول کس طرح ممکن ہے؟

یہ دو اہم سوال ہیں ، خوشی کے بارے میں  ہر انسان کا  اپنا ایک تصور ہے۔ کچھ لوگ دولت مند افراد کو خوش اور مسرور سمجھتے ہیں۔ کچھ مشہور لوگوں کو، کچھ کے خیال میں بڑے بڑے اعزازات پانے والے بہت خوش ہوتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخرخوشی ہے کیا….؟ ویبسٹر(Webster)کی ڈکشنری میں ‘‘خوشی’’ کے معنی یوں تحریر ہیں…. 

‘‘ایک مثبت احساس یا روح کی حالت جو اچھی قسمت یا کامیابی ملنے پر ظاہر ہو۔’’

کچھ کا خیال ہے کہ مشہور آدمی سب سے زیادہ خوش رہتا ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ غربت میں بھی آدمی خوش رہ سکتا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ خوشی سے مراد صرف یہ ہے کہ آپ جن حالات سے گزر رہے ہیں وہ آپ کو اچھے لگیں، آپ مطمئن ہوں اور زندگی سے ہر لمحہ، ہر وقت اپنا حصہ وصول کررہے ہوں۔

لفظ خوشی اپنے اندر ایک مٹھاس رکھتا ہے۔  ہم زندگی میں ہمیشہ خوشی کی تلاش میں رہتے ہیں۔کبھی کبھی چھوٹی سی بات ہمارے دل کو خوشی سے بھر دیتی ہے اور کبھی ہمارے اندر کی اداسیاں بڑی بڑی کامیابیوں پر بھی ہمیں خوش نہیں ہونے دیتیں۔  

مشہور انگریز مصنف تھامس ہارڈی نے لکھاہے۔  ‘‘درد کے ایک عام ڈراما میں  خوشی مختصر ساوقفہ ہے’’۔   اس مقولہ کا  مفہوم یہ ہے کہ زندگی مشکل ہے اور خوشی کا حصول بے حد مشکل….   یہ واقعی سچ ہے۔ لہٰذ ا زندگی کے صدمات کے باوجود خوشی کی طلب ہرکسی کو ہوتی ہے۔  

لیکن بعض اوقات  کئی لوگوں کو اس بارے میں خود بھی پتہ نہیں ہوتا کہ خوشی حقیقت میں کیا ہے؟….  کچھ لوگ اسے موج میلہ اور تفریح منانا سمجھتے ہیں۔ تفریح منانے کا خیال بھی فرداً فرداً مختلف ہوتا ہے۔  کسی کو بھی ہر وقت تفریح میسر نہیں آسکتی۔ خوشی تفریح سے ملنے والے احساسات  سے کہیں زیادہ گہرائی کی حامل ہے۔

جوبات کسی ایک کو خوشی فراہم کر تی ہے وہ دوسرے کے لئے رنج  وغم کا سبب بھی ہوسکتی ہے۔ مثلاً ریٹائرمنٹ کی خبر ایک شخص کے لئے افسردگی کا باعث ہے تو اسی سیٹ پر آنے والا بندہ پروموشن کے خیال سے خوش ہے۔

اکثر لوگ  اپنے سوا دنیا کے ہر آدمی کو خوش سمجھتے ہیں۔ دنیا میں ہر انسان کے ساتھ غم اور پریشانیاں لگی ہوئی ہیں۔ آج تک دنیا میں کوئی بھی ایسا انسان پیدا نہیں ہوا اور نہ آئندہ ہوگا جسے کوئی غم نہ ہو۔

بعض اوقات خوشی اور طرب غیر قانونی اور غیراخلاقی ذرائع سے  بھی حاصل کی جاتی ہے۔ کسی کو بھی اپنی خوشی کسی دوسرے کو تکلیف پہنچاکر یا دکھ دے کر حاصل نہیں کرنی چاہیئے۔ چاہے وہ کوئی جانور ہی کیوںنہ ہو۔   اپنی خوشی کی تلاش میں انسان کو اس بات کا احساس کرنا چاہے کہ وہ اپنی من مانی نہ کرے بلکہ دوسرے کے جذبات اوراحساسات کا بھرپور خیال رکھے۔

دولت کے ذریعے خوشی خریدی نہیں جا سکتی،  دولت اہمیت ضروررکھتی ہے۔ اس سے عیش وآسائش حاصل کیا جا سکتاہے۔لیکن اس کے ذریعے خوشیاں خریدی نہیں جا سکتیں۔

  جب مسعود کو کام کاج کے لیے گاؤں سے دبئی لایا گیا تھا تواس کے مالک نے بار ہا اسے یہ بات کہی تھی : ‘‘دیکھو تم بہت خوش رہوگے۔ تم میرے ایئر کنڈیشنڈگھر میں ٹھہرو گے۔ تمہیں بہترین کھانا ملے گا، عمدہ لباس پہننے کو دیئے جائیں گے۔ تمہارا وقت بہت اچھا  گزرے گا’’۔ اس کے مالک کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی تھی کہ مسعود ان تمام مادّی آسائشوں کے باوجود روتا کیوں رہتا ہے لیکن مسعود کے لئے ایک فلیٹ میں محدود رہنا خوشی نہیں تھی ۔ اسے اپنے گاؤں کی کھلی فضا، اپنا گھر بار اور وہ آزادی میسر نہیں تھی کہ جہاں اپنی مرضی سے وہ جوجی چاہا سوکرتا۔ یہاں تو اسے سارا دن کام کاج کرنا پڑتا تھا۔ مادی آسائشیں اس کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی۔

بنیادی طور پر ہماری پسند ناپسند ہی فرق پیدا کرتی ہے۔ جب باتیں یا واقعات ہماری پسند کے مطابق ہوتے ہیں تو ہمیں مسرت اور راحت محسوس ہوتی ہے۔

گزشتہ چند عشروں کے دوران ہونے والی مادّی ترقیوں سے آج کے انسان کو پہلے کے مقابلہ میں کہیں زیادہ آسائشیں اور سہولتیں تو حاصل ہوگئی ہیں، آمدنی اورتفریح کے ذرائع بھی بے شمار ہیں۔ لوگوں کے معیارزندگی میں غیرمعمولی حد تک بہتری بھی آئی ہے۔  اس کے باوجود بعض افراد کاخیال ہے کہ سب مثبت تبدیلیاں اپنی جگہ مگر آج بھی زیادہ تر لوگ اپنی زندگی سے غیرمطمئن اور ناخوش رہتے ہیں۔  جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھتا جارہا ہے،  خوشگوار تعلقات، حقیقی خوشی، ذہنی سکون اور قلبی اطمینان کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔

آخر ایسا کیوں ہے….؟ کیا ہم نے خوش رہنا چھوڑدیا ہے….؟آخر کیوں…..؟

نفسیات کے پروفیسر کیری کوپر کے خیال میں ‘‘مشرق ہویا مغرب…. بے اطمینانی اور سماجی تعلقات میں خرابی موجودہ تیزرفتار زندگی کا نتیجہ ہے۔اسے ہم ایک سماجی معاملہ یعنی سوشل ایشو کا نا م دے سکتے ہیں۔ ہر آدمی جد ید سے جدید سہولیت یا آسائش سے فائدہ اٹھا نا چاہتا ہے ۔  اس پر متزاد یہ کہ آسائشیں بھی آئے دن بدلتی رہتی ہیں۔ یہ تبدیلی زندگی کو مزید مشکل سے مشکل تر بنادیتی ہیں۔

تعیّشات کے حصول کے لئے ہم زیادہ دیر کام کرتے ہیں۔ اوور ٹائم لگا تے ہیں ۔ اس طرح ہمارے پاس دوسروں کے لئے تو درکنار!…. خود اپنے لئے  بھی وقت نکالنا مشکل ہوجا تا ہے۔ یہ چیز ہمیں مضطرب اور ناخوش کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے آپس کے تعلقات کو بھی بر ی طرح متاثر کرتی ہے’’۔

پروفیسر کو پر مزید کہتے ہے کہ :

‘‘تیز رفتار زندگی کے باعث ہماری نفسیاتی توانائی بھی کمزور پڑجاتی ہے۔ یوں تعلقات کے محاذ پرلڑنا ہمارے لیے مزید مشکل ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اگر بیوی بچوں والے ہوں تو اکثر یہ شکایت کرتے رہتے ہیں کہ مختلف مسائل نے انہیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے ۔ اگر غیرشادی ِشدہ ہوں تو انہیں مسلسل یہ احساس ستائے رکھتا ہے کہ ان کی زندگی میں کوئی بہت بڑ ا خلا موجود ہے’’۔

 مزید یہ کہ‘‘ خوشگوار تعلقات کا فقدان ہمارے لئے نفسیاتی طور پر ہی نہیں بلکہ طبی حوالے سے بھی نقصان کا باعث بنتا ہے۔ منشیات کا استعمال بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے کہ لوگ فرار کے لئے اس طرح کے راستے اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ بے اطمینانی اور مستقل پریشانی معدے کی خرابی ، نیند نہ آنے کا مرض ، قوت مدافعت میں کمی، ڈپریشن یہاں تک کہ ہارٹ اٹیک کا باعث بھی بن جاتی ہے‘‘۔

Hot Relationship نامی کتاب کی مصنفہ اور  ماہر نفسیات  ٹریسی کوکس Tracycox کے خیالات بھی خاصے غور طلب ہیں۔یہ لکھتی ہیں :

‘‘اپنی کسی بھی پریشانی اور مصیبت پر زمانے یا دَور (age)کو الزام دینا انسان کی بہت پرانی اور دقیانوسی روایت رہی ہے۔  پریشانی، دباؤ اورتعلقات میں بگاڑیا انتشار کے ذمہ دار صرف اور صرف ہم خود ہوتے ہیں۔ لوگوں نے اپنی تباہی کا بٹنSelf-Destruct Button خود اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے ۔آج کل کئی نوجوان اپنا بیشتر وقت دوسروں سے تعلقات کاجا ئز ہ لینے میں گزار دیتے ہیں۔  کچھ ایسے بھی ہیں جو ہاتھ پر ہا تھ دھرے کسی معجزے کے منتظر ہیں ۔ کچھ اپنے تعلقات  کے حوالے سے ایک دوسرے سے بحث وتکرار میں مصروف رہتے ہیں۔ حالانکہ ان میں سے اکثر کے تعلقات انتہائی مضحکہ خیز اور احمقانہ قسم کے ہوتے ہیں۔ ایسے تعلقات کو دماغی خلل کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا ۔ اگر ہم یہی توانائیاں اپنے کیرئیر کو مضبوط کرنے، آمدنی میں اضافے اور غیررومانوی تعلقات کو بہتر بنانے پر صرف کریں تو یہ ہمارے لیے کہیں زیادہ بہتر ہوگا۔

خوشی کے حصول کے لئے چند دانشوروں کے خیالات ۔

  • ایک دانش ور کا قول ہے ‘‘میں نے اپنی یہ عادت بنالی ہے کہ ہرروز کسی مسرور کن واقعے کے پیش آنے کی توقع رکھتا ہوں اور شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جب میں کسی نہ کسی مسرور کن واقعہ سے دوچار نہ ہوا ہوں۔ ’’جن لوگوں کے تصور میں یہ ہوتا ہےکہ کوئی مسرور کن واقعہ پیش آئے گا وہ یقینا خوش رہتے ہیں اور انہیں مسرتیں حاصل ہوتی رہتی ہیں۔
  • ایک رومی فلسفی کا قول ہے کہ خوش ہونے کے تصور سے محروم کوئی بھی شخص خوش نہیں رہ سکتا۔ اگر آپ کے ذہن پر نفرت اور خود غرضی کے گہرے سائے چھائے رہیں تو خوشی کی روشنی ان سے چھَن کر آپ تک نہیں پہنچ سکتی، اس لئے ضروری ہے کہ آپ برائیوں اور غلطیوں سے دور رہیں۔ ان سے بچنے کی کوشش کریں اور آگے قدم بڑھاتے رہیں۔ آپ کی آنکھیں سامنے کی طرف رہیں۔ پیچھے کی طرف نہیں، اس لئے آگے دیکھئے اور آگے بڑھئے کبھی کبھی ماضی کی طرف دیکھ لینے میں کوئی حرج نہیں لیکن ہروقت ماضی میں رہنا ناکامیوں کا رونا روتے رہنا عقل مندوں کا شیوا نہیں۔
  • اپنے ارد گرد لوگوں کے معاملات میں دلچسپی لیجیئے۔ ملنے جلنے والوں سے اچھی باتیں کیجئے۔ ان سے ہمدردی کرنے سے، ہمدردی کا لفظ کہنے سے ان کے دل میں بھی آپ کے لئے ہمدردی کے جذبات اُبھریں گے۔ فائدہ تو انہیں حاصل ہوگا لیکن اس کا نتیجہ آپ کے لئے زیادہ فائدہ مند ہوگا۔ ایک تو سچی خوشی کا لطف حاصل ہوگا اور دوسرے ذہنی تناؤ اور فکریں کم ہوں گی۔
  • زندگی کو پرمسرت بنانے اور زندگی سے لطف اٹھانے کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ آپ اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ آپ مشکلات اور پریشانیوں کا اچھی طرح مقابلہ کرکے کامیابی حاصل کرنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں۔ بعض لوگوں کا مزاج کچھ اس قسم کا ہوتا ہے کہ وہ کوئی کام شروع کرنے سے پہلے ہی اپنی ناکامی کا فیصلہ کرلیتے ہیں۔ ایسے آدمی واقعی ناکام ہوتے ہیں اور ناخوش رہتے ہیں۔
  •  انسان صرف اپنے لئے ہی نہیں وہ دوسروں کے لئے بھی زندہ رہتا ہے کیونکہ خود غرضی انسانیت کی موت ہے۔ دوسروں کی خدمت، ان سے ہمدردی اور ان سے اپنائیت انسان کے ذہن میں وسعت و فراوانی اور روشنی پیدا کرتی ہے ۔ دل و دماغ کی تنگی و تاریکی اور پستی دور ہوجاتی ہے، جو خود غرضی کے باعث پیدا ہوتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی مسرتوں میں اگر دوسروں کو بھی شریک کرلے تو اس کی مسرت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ اور خود غرضی سے زندگی بسر کرنے اور دوسروں کے دکھ درد کی طرف توجہ نہ کرنے سے مسرت کے بجائے محرومی کی تلخی کا شکار ہونا پڑتا ہے ۔

 

 یہاں قارئین کی خدمت میں خوشی کے حصول کے لیے کچھ گُرپیش کیے ہیں۔

خوش رہنے کے طریقے

خوش رہنا ہم میں سے کسی ایک کی خواہش نہیں بلکہ ہر انسان کے اندر یہ خواہش فطرتاً ہر وقت موجود رہتی ہے کہ ۔  خوش رہنا اتنا مشکل بھی نہیں ہے جتنا ہم لوگوں نے اسے سمجھ لیا ہے۔ اگر ہم اپنے اردگرد غور کریں تو پتہ چلے گا کہ زندگی میں ایسی لا تعداد باتیں ہیں جن کو تھوڑی سی توجہ دے کر ہم نا صرف خود کو خوش رکھ سکتے ہیں بلکہ دوسرے کے لیے بھی خوشی کا سامان کر سکتے ہیں۔  ذیل میں ایسی باتوں کو بیان کیا گیا ہے جن کی موجودگی اور اہمیت ہماری زندگی میں کوئی نئی نہیں ہے لیکن ان پر توجہ دینے سے ہم اور وہ لوگ جنہیں ہم اپنا کہتے ہیں ناصرف ایک خوشگوار زندگی گزار سکتے ہیں بلکہ زندگی میں پیدا ہونے والے کئی مسائل سے بچ سکتے ہیں۔

اپنا جائزہ لیں:

آپ ان حالات و واقعات کا جائزہ لیں جن کا آپ کو تجر بہ ہوچکا ہے اور ان کی وجوہات جاننے کی کوشش کریں۔ اپنے بارے میں یہ جان لیں کہ آپ اپنی کن باتوں اور عادتوں پر فخر  کرتے ہیں؟

آپ زندگی میں کیا کرسکتے ہیں؟ اہلیت کا اندازہ لگائیں پھر یہ طے کریں کہ آپ اپنی زندگی کو کس روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں ….؟

تھوڑی سی کوشش سے آپ اپنی موجودہ زندگی میں اپنی مرضی اور پسند کی تبدیلی لاسکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح کہ جب ایک بچہ نیا نیا چلنا سیکھتا ہے تو شروع میں وہ ڈرتا ہے، گرتا بھی ہے لیکن آہستہ آہستہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوجا تا ہے۔  آپ بھی اپنی زندگی کو اپنے خوابوں اور تصورات کے مطابق پر کشش بناسکتے ہیں۔

اپنے کاموں کا شیڈول بنالیں:

بہت سے حالات ایسے ہوتے ہیں جن پر ہمارا بس نہیں چلتا لیکن جن امور پر ہماری گرفت ہوان کے بارے میں منصوبہ بندی ضرور کرنی چاہئے۔ منظم زندگی بہت سے مسائل حل کرسکتی ہے۔ ٹائم ٹیبل کے مطابق کھانے، پینے اور سونے کے اوقات مقرر ہونے چاہئیں مثال کے طور پرکام اگر وقت پر کرلیا جائے ، ہر چیز صحیح جگہ پر رکھی جائے تویقینا آپ خود کو زیادہ چست اورپرسکون محسوس کرسکیں گے۔  اپنے بالوں کو صاف رکھیں ، دوتین دن کے کپڑوں کا انتخاب اور استری پہلے سے کرکے رکھیں۔  رات کو سونے سے پہلے تما م چیزیں سمیٹ کر کمرے کو ترتیب دیں تاکہ صبح خوشگوار تاثر لے کر بیدارہوں ۔  زندگی میں بے ڈھنگاپن یا بے ترتیبی آپ کے دل و دماغ پر اچھا تاثر نہیں ڈالتی اور آپ بوجھل پن محسوس کرتے ہیں۔

مزاج میں نرمی پیدا کریں: 

جہاں تک ممکن ہو دوسروں سے پیارو محبت اور رحمدلی سے پیش آئیں۔ ناپسندیدہ حالات و باتوں کو در گزر کریں۔ اکثر لوگ صرف اپنے آپ کو بہترین سمجھتے ہیں ، دوسروں کو اہمیت نہیں دیتے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ کرنے لگتے ہیں ۔ یہ سب باتیں طبیعت ومزاج میں چڑ چڑا پن پیدا کردیتی ہیں۔  دوسروں کو کمترنہ سمجھیں ، ہر شخص اپنی جگہ بہترین ہوتا ہے آپ جتنا صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں گے اتنا ہی پرسکون رہیں گے۔

زیادہ حساس نہ ہوں:

غیر ضروری سوچیں اور پریشانیاں ہماری صحت پر منفی اثرات ڈالتی ہیں۔ زیادہ حساس ہونا بھی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ زندگی کے مسائل پر صرف سوچنے اور پریشان ہونے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا لہٰذ ا حقائق کا سامنا دلیری سے کریں۔ حالات کے روشن پہلو پر نظر رکھیں اور اچھے اوربُرے نتائج کے لئے خود کو تیار رکھیں ۔  فضول سوچوں سے چھٹکا را حاصل کرنے کے لئے کوئی دلچسپ کتاب پڑھیں دوستوں سے ہنسی مذاق کریں۔ ایک بھر پور مسکراہٹ نا صرف آپ کو بلکہ آپ کے اطراف لوگوں کو بھی مطمئن کردیتی ہے۔

اپنے حال پر شکر اد ا کریں:

ہم میں سے بیشتر اپنے خوابوں کا تعاقب کرتے رہتے ہیں۔ دنیا کی آسائشیں حاصل کرنے کے چکر میں یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم ابھی بھی دوسروں سے لاکھ درجے بہتر ہیں۔  اپنے سے کمتر لوگوں کو دیکھ کر اپنے حال پر شکر ادا کرنے کی بجائے ہمیشہ اپنی کم مائیگی کا رونا روتے رہتے ہیں۔ اگر آپ اﷲ کی دی ہوئی نعمتوں کا جائزہ لیں اور شکر اد اکریں تو یقینا آپ پر سکون اورخوشگوار زندگی گزاریں گی ۔ اس کے لئے آپ ایک تجربہ کرسکتے ہیں اور وہ یہ کہ آپ اپنی زندگی کے ہر شعبے کا جائزہ لیں اور ان نعمتوں کو شمار کریں جو دوسروں کے پاس  نہیں ہیں۔  مثال کے طور اپنے گھر اورگھر والوں کے بار ے میں پسند یدہ بات ، اپنی صحت ، ذہانت ، مشغلے ، مالی حیثیت وغیرہ کے بارے میں اچھے خیالات اور مثبت پہلو کی ایک فہرست بنالیں۔  اس کا جائز ہ لیں تو آپ کو ضرور احساس ہو گا کہ اﷲ نے آپ کو کتنی اچھی حالت میں رکھا ہے۔

غصے پر قابو پانا :

ایک عام انسان کی زندگی میں جو چیز ہمیشہ اس کے ساتھ رہتی ہے اور وقت بے وقت اس کے اعصاب پر سوار ہو کر نا صر ف لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے بلکہ خود انسان کے لیے بھی سوائے گھاٹے کے سودے کے اور کچھ حاصل نہیں کرپاتی ، وہ ہے اس کے غصہ کرنے کی عادت…..! بعض اوقات نہایت معمولی باتوں پر لوگ ایک دوسرے کو مارنے تک پر تیار ہوجاتے ہیں۔  اور پھر جب ان کا غصہ ختم ہوجاتاہے تو ان کے پاس سوائے پچھتاوے اور افسوس کے کچھ نہیں بچتا۔ لیکن اس وقت یہ باتیں کسی بھی طرح سے ان کے لیے مددگار یا اچھی ثابت نہیں ہوتیں کیونکہ غصے کی حالت میں ان کے خود کے کیے ہوئیے فیصلے ان کے لیے مشکلات کا باعث بن جاتے ہیں۔

غصہ چند لمحوں پر مشتمل اس حالت کا نام ہے جس میں کوئی بھی انسان اپنی مرضی کے خلاف باتیں یا کام ہونے پر اپنی برداشت کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتا ہے اور وہ کچھ کربیٹھتا ہے جو وہ اپنی عام زندگی میں کرنا تو دو ر کی سوچنے کاروادار بھی نہیں ہوتا ۔ اس لیے زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے ٹھنڈے دل سے اپنا جائزہ لیں اور ان باتوں کو جاننے کی کوشش کریں جو آپ کو غصے میں لانے کا سبب بنتی ہے۔  جب وہ باتیں آپ جان لیں تو کوشش کرکے اپنی ان عادتوں پر قابو پانے کی کوشش کریں تاکہ چند لمحوں میں غصے کی حالت میں کی ہوئی کوئی حرکت یا کوئی فیصلہ آپ کے لیے زندگی بھر کا پچھتاوانہ بن جائے۔

روزمرہ کے کاموں میں تبدیلی لائیں:

روزانہ ایک ہی طرح کے کام انجام دینے سے آپ اکتاہٹ محسوس کرنے لگیں  گے لہٰذا کبھی کبھی اپنے معمولات میں تبدیلی لانا اچھا ہوتا ہے۔ ہر وقت ذمہداریوں اورفکروں کوسرپر سوار کرنے سے جھنجھلاہٹ بڑھ جاتی ہے۔  آپ کو چاہیے کہ آپ اپنے گھر والوں، دوستوں یا سہیلیوں یا پھر شوہر اوربچوں کے ساتھ سیرو تفریح پر جائیں ، کوئی فلم دیکھ لیں، بچوں کے ساتھ کھیلیں، شوہر سے مختلف موضوعات  پر تبادلہ خیال کریں۔  ضروری نہیں ہے کہ مہمانوں کے آنے پر ہی پرتکلف کھانے کا اہتمام ہویا اچھے کپڑے پہنے جائیں۔ کبھی کبھی صرف اپنے اور گھر والوں کے لئے بھی تقریب منعقد کریں ۔

خود کا فائدہ دیکھنے کی عادت:

یہ بات بنا کسی شک کے کہی جا سکتی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص ہروقت یہ جاننے میں لگا رہتا ہے کہ اسے کام کے کرنے یا نہ کرنے سے کیا فائدہ حاصل ہوگا۔ اس عادت کی بدولت ہماری زندگی میں جہاں ہمیں چند فوائد حاصل ہوتے ہیں، وہیں ہمیں بے شمار نقصانات بھی ہوتے ہیں۔  اکثر لوگ دوسروں کو اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ان پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے انہیں نقصان پہنچایا حالانکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر انہیں اپنے فائدے کے لیے نقصان پہنچانا پڑے تو یہی لوگ یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ آ خر ہمارا بھی توحق ہے ، ہم نے بھی تو بھاگ دوڑ کی تھی و غیرہ وغیرہ۔  دوسروں کی جانب اشارہ کرنے سے بہتر ہے کہ ہم پہلے خود اپنی ذات کا جائزہ لیں اور خود میں موجود سچائیوں اور برائیوں کو کھلے دل سے تسلیم کرکے خود میں بہتری پیدا کریں۔ 

منزل کا تعین کرنا :

ایک اچھی اور خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے لیے ایک منزل کا تعین کر لیں۔  اس منزل تک پہنچنے کے لیے سخت محنت اور لگن سے کام کریں لیکن اپنی جدوجہد کے دوران اس بات کا خیال ضرور رکھیں کہ اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے آپ دوسروں کے ساتھ زیادتی نہ کریں ۔

کس وقت رکنا یا راستہ تبدیل کرنا ہے:  یہ بات زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے بہت اہم ہے۔  انسان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کیا چاہتا ہے….؟ کیوں چاہتا ہے ….؟ اور کس حد تک چاہتاہے ….؟ 

یہ باتیں کسی بھی چیز کے متعلق ہو سکتی ہیں مثال کے طور پر دوستی کے لیے ، پیار کے لیے ،لڑائی کے لیے ، نفرت کے لیے ، تعلیم کے لیے ، سیر و تفریح کے لیے، کاروبار کے لیے ، جیون ساتھی کے بارے میں سوچنے کے لیے اور بھی بے شمار باتوں کے لیے یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ کس وقت آپ کو رکنا ہے….؟ آپ کو کہاں تک جانا ہے….؟ اور کہاں جا کر آپ کو راستہ تبدیل کرنا ہے….؟

 اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی زندگی میں جنم لینے والے بے شمار مسائل پیدا ہونے سے قبل ہی ختم ہوجائیں تو آپ پر لازم ہے کہ آپ اپنی ضرورت اور پسند کاخیال رکھتے ہوئے کچھ حدود مقرر کر لیں۔  ان حدود کو مقرر کرتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کی بنائی ہوئی حدیں دوسروں کے لیے بھی قابل قبول ہوں۔  انہیں بھی اتنی ہی آزادی ملے جتنی کہ آپ کے  حصے میں آرہی ہے۔

تعصب کی بنیاد پر لوگوں کو چھوٹا یا بڑا یا اچھا یا برا قرار دینا: کسی انسان کی اپنی اچھائی یا برائی کا ذمہ دار صرف اور صر ف انسان خود ہے ۔   پیدا کرنے والے نے اسے سوچنے سمجھنے کے لیے دماغ دیا ہے۔ بولنے کے لیے زبان اور کام دھندہ کرنے کے لیے ہاتھ اور پاؤں۔ کسی انسان کو اس بنیاد پر برا یا چھوٹا کہنا کہ وہ آپ کا ہم قوم یا ہم مذہب نہیں بلکہ کسی دوسری قوم یا مذہب سے تعلق رکھتا ہے سراسر غلط ہے۔ ایسا کرکے آپ یقیناً اس انسان کے ساتھ زیادتی کریں گے جو دوسری قوم یا مذہب سے تعلق رکھنے کے باوجودیانت دار، محنتی ، اور مخلص ہے ۔ اس لیے کبھی بھی کسی کی کارکردگی کو اس کی قوم ، زبان مذہب سے منسوب نہ کریں ۔  دنیا کی ہر قوم اور ہر مذہب میں اچھے اور برے دونوں طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ سب لوگوں کو ایک جیسا سمجھنا نہایت غلط ہے ، اس لیے اس سے جس قدر  ہو سکے اجتناب کیا جائے۔

خود پر اعتماد یا بھروسہ کرنا:

زندگی میں پیش آنے والی پریشانیوں سے نمٹنے کے لیے جس چیز کی آپ کو سب سے زیادہ ضرورت پڑے گی، وہ ہے آپ کی خو داعتمادی یا خود پر بھروسہ کرنے کی عادت ….! خدا نے انسان کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کے ساتھ فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے بھی نوازا ہے ۔  ایک صحیح اور بہتر فیصلہ اس وقت کرنا ممکن ہوتا ہے جب فیصلہ کرنے والے کو خود پر اعتماد ہو ۔

یہ وہ خاص باتیں ہیں جو ہماری زندگیوں میں ایک لازمی جز کی طرح سے موجو دہیں …. لیکن ہم میں سے اکثر لوگ ان پر ٹھیک طرح سے توجہ نہیں دیتے جس کے باعث ناصرف ہمارے لیے بلکہ ہمارے اردگرد موجود دیگر لوگوں کے لیے بھی مسائل جنم لیتے رہتے ہیں ۔ ہمیں اُمید ہے کہ لوگ ان باتوں پر عمل کرکے اپنی زندگی کو خوشگوار اور بہتر بنانے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔

زندگی خوشی، غم ، امتحان، آزمائش اور جدوجہد کا دوسرا نام ہے۔ جو انسان جتنا زیادہ محنتی، حقیقت پسند اور ہر حال میں ایڈجسٹ کرنے والا ہوگا وہی دراصل خوشی کو حاصل کرسکے گا۔

خوشی آدمی کے اپنے اندر ہوتی ہے اور جو شخص اندر سے خوش ہوتا ہے وہ اپنے باہر بھی خوشی کا سامان پیدا کرلیتا ہے۔ یاد رکھیے کہ اگر آپ کے اندر کا انسان زندہ ہو اور آپ واقعی خوش رہتے ہوں اور  دوسروں کو خوش رکھنے کے اصولوں پر عمل پیرا ہوں تو آپ کے لیے خوشی کا حصول بہت آسان ہے۔

انسان کی سوچ ہی اسے مثبت انداز  زندگی کے ساتھ خوشی بھی بخشتی ہے۔ اگر آپ واقعی دوسروں کے بارے میں دوستانہ اور ہمدردانہ  رویہ رکھتے ہیں تو آپ خوشی حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گے ۔ اگر آپ اندر سے زندہ ہوں ۔ زندگی کی سختیوں کو بھی مثبت انداز میں جھیلنے کا حوصلہ رکھتے ہوں اور اپنے قول وفعل میں یکساں ہوں، اپنے دل میں دوسروں کے لیے اچھے  جذبات رکھتے ہوں تو کوئی بھی آپ کو خوشی سے دور نہیں رکھ سکتا۔

جس طرح ہمارا چہرہ ہماری اندرونی سوچ اور ہمارے کردار کا غماز ہوتا ہے اسی طرح ہماری سوچ پوری شخصیت کی تشکیل کرتی ہے۔

وہ لوگ جو ہرحال میں مطمئن اور مستقبل سے پر اُمید ہوں، غم یا پریشانی انہیں کبھی بھی مایوس یا زندگی سے بیزار نہیں کرسکتی۔ زندگی کچھ دینے اور لینے کا نام ہے۔  اگر آپ کسی کو خوشی دیں گے تب ہی آپ امید رکھ سکتے ہیں کہ کوئی آپ کی بھی خوشی کا سبب بنے گا۔

یاد رکھیں….! اگر ہمارے اندر کا موسم خوشگوار ہوگا تب ہی ہم اپنے باہر بھی پربہار ماحول تعمیر کرسکیں گے۔  خوشی اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جب ہم دوسروں کو خوشی دینا جانتے ہوں۔ 

ہر جذبہ اپنی جگہ بہت نازک ہوتا ہے۔ جذبے انسان کے خیالات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ انسان کیونکہ حساس ہوتا ہے اور ہر اچھی اور بری بات کو محسوس کرسکتا ہے اس لیے بہتر یہی ہے کہ وہ خوبصورت اور نفیس جذبوں کو جلا بخشے۔

ایک دوسرے کے لیے اچھا سوچیے اور اچھا کیجیے پھر دیکھیے خوشی کس طرح آپ کی زندگی کا ایک مستقل جزو بن جاتی ہے۔  جو لوگ پرخلوص، بے غرض اور پراز محبت ہوتے ہیں وہ ہمیشہ خوش رہتے ہیں۔ اگر آپ کسی مشکل مسئلہ سے دوچار ہوں تب بھی اپنے اندر ہمت اور طاقت پیدا کیجیے تاکہ آپ ان نازک لمحات میں بھی خوش اور پرسکون رہ سکیں۔

اپنی زندگی کو کسی مقصد کے تحت گزارئیے۔ اگر آپ ایک بے مقصد زندگی گزار رہے ہیں تو آپ خوشی سے محروم رہیں گے ۔ اپنی زندگی کو دوسروں کے لیے گزار کر دیکھیے، اس طرح  آپ کو اندازہ ہوگا کہ اپنا وقت اور اپنی خوشیاں دوسروں میں بانٹنے سے آپ کو دی جانے والی خوشیوں سے کہیں زیادہ مقدار میں خوشیاں نصیب ہوں گی۔

اتنی سی بات یاد رکھیے کہ اگر آپ دوسروں کے لیے اچھا سوچتے ہیں اور  دوسروں کے خیالات، احساسات اور جذبات کا خیال رکھتے ہیں دوسروں کو خوشیاں بانٹنے میں سخی اور فیاض ہیں تو پھر خوشیاں آپ کے دروازے پر دیر سویر ضرور دستک دیں گی۔

خوشی کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ ہم ہرحال میں شکر کرنا سیکھ لیں۔ شکر گزار بن کر آپ دیکھیں گے کہ آہستہ آہستہ آپ کے مسائل کم ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں قناعت اور میانہ روی جیسی صفات اپنے اندر پیدا کرنا ہوں گی۔ یہ وہ اوصاف ہیں جنہیں اختیار کرلینے سے  ہماری زندگی آسان اور خوشیوں کا گہوارہ بن جائے گی۔ آزمائششرط ہے……!

 

مراقبہ

خوشی کا حصول ذہنی سکون اور اچھی صحت کے بغیر بھی ناممکن ہے ۔ ان دونوں کے حصول کا سادہ اور آسان سا طریقہ مراقبہ ہے۔ یہاں ہم مراقبہ کی مشق کے بارے میں آپ کو آگاہ کررہے ہیں۔
مراقبہ کا طریقہ: اپنے جوتے اُتار لیں اور کسی آرام دہ جگہ پر ٹانگیں سیدھی کرکے بیٹھ جائیں۔ اپنی آنکھیں بند کرلیں اور اپنی تمام تر توجہ سانس لینے اور خارج کرنے پر مرکوز کرلیں۔ جسم کو بالکل ڈھیلا چھوڑ دیں۔
آہستہ آہستہ اپنے جسم کی طرف توجہ کریں۔ اپنے پاؤں سے اس کا آغاز کریں۔ مراقبہ کے دوران یہ سوچیں کہ پاؤں ہرقسم کی تھکن سے آزاد ہورہے ہیں۔ پھر اپنی ٹانگوں کو اٹھا کر آلتی پالتی کے انداز میں بیٹھ جائیں۔ اگر آپ کسی بھی قسم کے تناؤ یا دباؤ میں تصور کریں کہ سانس کے اخراج کے ساتھ یہ دباؤ بھی خارج ہورہا ہے۔
اب اپنی توجہ کمر پر مرکوز کرلیں۔ کولہوں سے ریڑھ کی ہڈی اور پھر آہستہ آہستہ اوپر سر تک چلے جائیں۔ گہرے سانس لینے کا عمل جاری رہنا چاہیے۔ اسی طرح پیڑو، پیٹ وغیرہ پر اپنی توجہ مرکوز کردیں سانس لینے کے دوران باقاعدہ آپ کا پیٹ پھیلنا اور سکڑنا چاہیے۔
آپ کی توجہ اب سینے پر مرکوز ہوگی۔ ہر سانس کے ساتھ سینے کا پھیلنا اور سکڑنا بھی ضروری ہے۔
اب اپنی سوچ اپنے ہاتھوں کی طرف مرکوز کریں ۔ جو رانوں پر رکھے ہوئے ہیں۔ یاد رکھیں کہ اس دوران آپ کے ہاتھوں میں حرکت نہیں ہونی چاہیے۔ آپ کی انگلیاں اور ہتھیلی ایک جگہ جمی ہوئی ہوں۔
ہاتھوں کے بعد بازوؤں کی طرف سوچ کا رُخ آہستہ آہستہ منتقل کرنا شروع کریں۔ اسی طرح بازوؤں سے شانوں پر آجائیں۔ پھر گردن اور چہرے پر توجہ مرکوز کریں۔ پیشانی، ناک، گال، ہونٹ، کان یعنی چہرے کے تمام خطوط پر الگ الگ توجہ مرکوز کرتے رہیں ۔ آہستہ آہستہ سانس لینے کے عمل کی طرف واپس آجائیں اور تصور کریں کہ توانائی آپ کے جسم کے تمام حصوں میں پہنچ رہی ہے ۔
یہ عمل تقریباً 15سے 20 منٹ تک جاری رکھیں۔

یہ بھی دیکھیں

شکریہ ۔ قسط 9

    انیسویں صدی میں دو دوست برک اور ہئر گزرے ہیں ۔ انہیں ایک ...

کامیاب اور پُر اثر لوگوں کی 7 عادتیں ۔ قسط 6

  قسط نمبر 6         گاؤں میں ایک غریب لڑکا رہتا تھا، ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *