↑ مزید تفصیلات کے لیے موضوعات پر کلک کریں↑
ماں باپ کے جھگڑے اولاد کے لیے پریشانیاں
سوال: ہم چاربہنیں اور پانچ بھائی ہیں۔ایک بہن اوربھائی شادی شدہ ہیں۔ہمارے ماں باپ میں شروع سے ہی نہیں بنی۔ہم نے ان دونوں کو ہمیشہ لڑتے جھگڑتے اورایک دوسرے کی برائیاں کرتے ہی دیکھا۔
ہمارے والد نے ایک ہی علاقے میں قریب قریب دومکان بنوائے۔انہوں نے ایک مکان ہماری والدہ کوگفٹ کرکے اسے کرایہ پر چڑھادیا۔ہمارے امی اباآپس میں تولڑتے ہی رہے، اپنی اولاد کو بھی اپنے جھگڑوں میں گھسیٹتے رہے۔اگر ہم اپنی امی سے گزارش کرتے کہ وہ ابا کے ساتھ ایسا سلوک نہ کریں تو امی ہم سے ناراض ہوجاتیں۔ یہی حال ہمارے والد کا رہا۔ بیٹوں نے ابا سے درخواست کی کہ وہ اپنے غصے پر کچھ قابو پائیں تو جواباً انہوں نے اپنے بیٹوں کو گھر سے نکالنے کی دھکمی دے ڈالی۔مختصراً یہ کہ بچوں میں سے جو ابا کی حمایت کرے امی اسے بہت برا سمجھتیں اور جو امی کی حمایت کرے وہ ابا کی نظروں میں برا ہوجاتا۔
دوسال پہلے ہماری امی اورابا کے درمیان بہت سخت لڑائی ہوئی۔اس لڑائی میں بیٹوں نے ماں کا ساتھ دیا جبکہ ہم بیٹیوں کاخیال تھا کہ زیادتی امی کی طرف سے ہوئی ہے۔اس جھگڑے کے فوراً بعد امی نے ہمارے والد کے دیے ہوئے اپنے نام والے مکان کو کرایہ داروں سے خالی کروایا اورچار بیٹوں کوساتھ لے کر وہاں شفٹ ہوگئیں۔
اب صورتحال یہ ہوئی کہ امی علیحدہ مکان میں بیٹوں کے ساتھ رہنے لگیں اور ہم تین بیٹیاں اپنے والد صاحب کے ساتھ…. امی تو ہم بہنوں سے سخت ناراض تھیں ہی،بھائی بھی ہم سے ٹھیک طرح بات نہیں کررہے بلکہ امی اوربھائی اب یہ کہہ رہے ہیں کہ تم بہنوں کو جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ملے گا۔
صاف لفظوں میں یہ کہا جاسکتاہے کہ ہماری والدہ کو لڑکیوں سے نفرت ہے۔اس نفرت کی ایک نمایاں علامت یہ بھی ہے کہ ہمارے لیے کوئی رشتہ آئے تو والدہ ان لوگوں سے ٹھیک طرح بات نہیں کرتیں۔ امی ابا کے علیحدہ علیحدہ مکان میں رہنے کی وجہ سے بھی رشتوں کے معاملات اب مزید مشکل ہورہے ہیں۔ رشتے کے لیے عورتیں آرہی ہوں تو ہم امی سے کہتے ہیں کہ آپ یہاں آکر ان خواتین سے مل لیں لیکن وہ صاف منع کردیتی ہیں۔
میری بہن نے امی سے کہا کہ اگر آپ یہاں نہیں آتیں تو کیا رشتے والی عورتوں کو آپ کے مکان پر بلایا جائے توانہوں نے کہا کہ ابھی مکان میں رنگ وروغن کروانا ہے جب یہ سب کام ہوجائیں گے پھر بلاؤں گی۔
مگر بات صرف یہیں تک نہ رہی،پچھلے سال ہمارے والد نے اپنے کارخانے میں کام کرنے والی ایک لڑکی سے نکاح کرلیا۔ہمارے والد کی عمر سڑسٹھ سال ہے جبکہ وہ لڑکی بتیس تینتیس سال کی ہے۔
ہمارے امی ابا کے علیحدہ علیحدہ مکانات میں رہنے کی وجہ سے پہلے ہی ہمارے مسائل کم نہیں تھے اب بوڑھےوالد کی ایک جوان عورت سے دوسری شادی نے ہمیں رشتہ داروں اور محلے بھر میں شدید مذاق اور طنز کا نشانہ بنادیاہے۔
والد صاحب پہلے ہفتے کے ساتوں دن یہاں ہمارے پاس رہتے تھے اوردوپہر سے رات دس گیارہ بجے تک اپنی نئی بیگم کے ساتھ وقت گزارتے تھے مگر اب وہ ہفتے میں تین دن وہاں رہنے لگے ہیں۔ اس دوران ہم بہنیں دن رات گھر پر تنہا ہوتی ہیں۔
پہلے توہماری والدہ ہم بہنوں سے ناراض تھیں اب والد کا رویہ بھی تبدیل ہوتاجارہاہے۔وہ معمولی معمولی باتوں پرہمیں ڈانٹنے لگے ہیں اورہم بہنیں بھی ان کوپلٹ کر جواب دینے لگی ہیں۔
جب سے ہمارے والد نے دوسری شادی کی ہے ہمارے ٹوٹے پھوٹے گھرانے کے حالات مزید بگڑگئے ہیں۔
ایک بہن نفیساتی ہوگئی ہے۔وہ چیختی چلاتی ہے اورگھر کی چیزیں توڑتی ہے۔اسے نفسیاتی ڈاکٹر کو دکھایا تو انہوں نے کہاکہ اسے شاک لگانے ہوں گے لیکن ہماری بڑی بہن اوربہنوئی اس کے لیےراضی نہیں۔ ہمارے والدہ اوروالد دونوں کو ہی اپنی بیٹیوں کی خاص طور پر نفسیاتی مریض بیٹی کی کوئی فکر نہیں ہے۔
جواب: آپ کے حالات جان کردکھ ہوا۔ میں آپ کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتاہوں اور اپنے محترم قارئین سے بھی درخواست کرتاہوں کہ آپ کے گھر کے سب افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ محبت واحترام سے رہنے اورباہمی حسن سلوک کی توفیق ملنے کی دعا فرمائیں۔
اللہ تعالیٰ آپ کے والدین کو ہدایت عطا فرمائے، وہ انا کے شدید حبس زدہ ماحول سےباہر نکلیں ،انہیں اس بات کا احساس ہوجائے کہ وہ لالچ اورخودغرضی کے نوکیلے اورکھردرے شکنجوں میں جکڑے ہوئےہیں۔
آپ کی والدہ کا اپنے بیٹوں کوساتھ ملاکر اپنے شوہر کے خلاف محاذ بنا لینے اورآپ کے والد کا بیٹیوں کے ساتھ رہ کر اپنی بیگم سے لاتعلقی دکھانے سے دراصل دوالگ الگ وجوہات کی نشاندہی ہوتی ہے۔
آپ کی والدہ اور والد میاں بیوی تو ہیں لیکن ایک دوسرے کے لیے احترام و تعاون کے بجائے ان میں بیزاری، مخالفت اورانکار بھرا ہوا ہے۔ آپ کے والد کماتے ہیں اپنی اہلیہ اور بچوں پر اپنی کمائی خرچ کرنا وہ بیوی بچوں کا حق نہیں بلکہ اپنا احسان سمجھتے رہے۔ وہ گاہے گاہے اپنی بیگم کی تذلیل بھی کرتے رہے۔
آپ کی والدہ شروع میں زیادہ تر خاموش رہیں، اس خاموشی کی وجہ ان کا میکے کی طرف سے کمزور ہونا اور مالی طور پر مجبور ہونا تھی۔ جب ان کے بیٹے خود کمانے کے قابل ہوگئے تو ان کا شوہر پر مالی انحصار ختم ہوگیا۔ اب آپ کی والدہ نے بیٹوں کو ڈھال بنا لیا اور شوہر سے اپنی توہین و تذلیل کا انتقام لینے لگیں۔
دوسری طرف آپ کے والد بھی اپنی اہلیہ سے تنگ تھے لیکن وہ کوئی برائی اپنے سر نہیں لینا چاہتے تھے۔ آپ کی والدہ نے علیحدہ رہنے کا فیصلہ کرکے آپ کے والد کی مشکل آسان کردی۔
محترم بیٹی….! اس دنیا میں طرز فکر کے لحاظ سے انسانوں کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں۔ کچھ اقسام کے افراد کثرت پائے جاتے ہیں کچھ اقسام کے افراد کم یاب ہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد خود غرض اور اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے دوسروں کی حق تلفی پر تیار ہو جاتی ہے۔ کچھ لوگ ایثار کرنے والے ہوتے ہیں۔
والدین کی اکثریت اپنی اولاد کے لیے ایثار کرنے والی ہوتی ہے تاہم کچھ مرد یا عورتیں اپنی اولاد کے لیے بھی ایثار نہیں کرتے۔ وہ بہر صورت اپنی ذات کو، اپنے مفادات کو اور اپنی نفسانی ضرورتوں کو ترجیح دیتےہیں۔ میں کئی ایسے افراد کو جانتا ہوں جنہوں نے اپنی انا یا اپنے مفاد کی خاطر اپنی اولاد کو ہی نقصان پہنچا دیا۔ کئی خود غرض، بےرحم مائیں اپنی بیٹیوں کے رشتوں میں خود رکاوٹ بن گئیں۔ کئی خود غرض لالچی ، خوشامدی اور انا پرست باپ اپنے بیٹوں کے لیے خود ہی تباہی کا باعث بن گئے۔
بہت دکھ کی بات یہ ہے کہ آپ کے والدین کا تعلق بھی ایسے ہی خود غرض لوگوں میں محسوس ہوتاہے۔
آپ بہنوں کو اپنے والدین کی باہمی لڑائی میں کسی کی حمایت، مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔ وہ جیسے بھی ہوں اپنے والد اور والدہ دونوں کی خدمت کرتے رہنا آپ پر لازم ہے۔
والد کی نجی زندگی میں مزاحم نہ ہوں۔ انہوں نے اپنے سے تیس سالہ چھوٹی عمر کی کاتون سے شادی رچالی، یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے۔ آپ بہنوں کو اپنے والد کے اس فیصلے کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔ آپ کی مخالفت آپ کے والد میں آپ سے لاتعلقی اور دوری مزید بڑھانے کا سبب بنے گی۔ اپنے والد کی نئی بیگم پر شکوک وشبہات کااظہار بھی مت کیجئے۔
آپ بہنیں اپنے والد کے فیصلے کوتسلیم کرلیں اوران کی خوشی میں خوش ہونے کا اظہار کریں گی تو ان کے رویوں میں بھی یقیناً مثبت تبدیلی آئے گی۔
بطورروحانی علاج رات سونے سے پہلے اکتالیس مرتبہ سورہ بنی اسرائیل (17) کی آیت نمبر9
اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ يَـهْدِىْ لِلَّتِىْ هِىَ اَقْوَمُ وَيُبَشِّـرُ الْمُؤْمِنِيْنَ الَّـذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ الصَّالِحَاتِ اَنَّ لَـهُـمْ اَجْرًا كَبِيْـرًا o
گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے والد کا تصورکرکے دم کردیں اورانہیں اپنی بیٹیوں کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق ملنے کی دعاکریں۔
یہ عمل کم ازکم چالیس یا نوے روزتک جاری رکھیں۔
گھر میں جادو کے اثرات
سوال: ہم تین بہنیں اور تین بھائی ہیں۔ ایک سال پہلے ہم تینوں بہنوں کے کپڑوں پر خون کی چھینٹیں پڑنے لگیں۔ کچھ عرصہ بعد وقفے وقفے سے میرے والدین اور بھائیوں کے کپڑوں پر بھی خون کے چھینٹے نظر آنے لگے۔ گھر کی دیواروں پر خون کی باریک باریک لکیریں بھی دِکھنے لگیں۔ ان چھینٹوں کی وجہ سے گھر میں سب لوگ بہت پریشانی اور ذہنی انتشار میں مبتلا ہیں۔ ہم بہن بھائی ایک دوسرے سے اچھی طرح بات نہیں کرتے۔ لگتا ہے کہ ہمارے گھر کا ہر فرد غصے اور انا کے خول میں بند ہے اور ایک دوسرے سے لڑنے اور زچ کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ گھر میں برکت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ہمارے گھر کے کشیدہ ماحول کی وجہ سے عزیز رشتہ دار ہمارے گھر نہیں آتے اور نہ ہی ہمارا دل کرتا ہے کہ ہم کسی کے ہاں جائیں۔
میں نے ایک بزر گ سے معلوم کروایا تو اُنہوں نے کہا کہ خون کے چھینٹوں کے ذریعہ آپ کے گھر پر جادو کے اثرات ڈلوائے گئے ہیں۔
جواب: اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہر قسم کے برے اثرات اور شر سے آپ سب اہل خانہ کی حفاظت ہو۔ آمین
گھر میں تین ماہ تک دم کیے ہوئے لوبان کی دھونی دیں۔ تقریباً آدھا کلولوبان لے کر اس پر روزانہ اکیس اکیس مرتبہ سورہ فلق اور سورہ الناس متواتر گیارہ روز تک پڑھ کر روزانہ دَم کرتے رہیں۔ بارہویں روز سے اس لوبان میں سے تھوڑا سا لوبان لے کر عصر و مغرب کے درمیان گھر کے تمام کمروں میں دھونی دی جائے۔ دھونی کا یہ عمل متواتر اکیس روزتک جاری رکھیں۔
اس کے بعد ہفتہ میں دو دن مقرر کرکے ان دنوں میں عصر و مغرب کے درمیان دھونی دی جائے اور تین ماہ کی مدت پوری کی جائے۔
سب گھر والوں کی طرف سے صدقہ بھی کردیا جائے اور ہفتہ میں کوئی دن مقرر کرکے خیرات کیجائے۔
افرادِ خانہ سے کہیں کہ وہ چلتے پھرتے وضو بےوضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء
یاحفیظ یاسلام
کا ورد کرتے رہیں۔
رات سونے سے قبل اکتالیس مرتبہ
لاالہ الا اﷲ وحدہ لا شریک لہ ، لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئیً قدیر
سات سات مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر سب گھر والوں کا تصور کرکے دم کردیں ، تین بار دستک دے دیں اور ہر قسم کے بد اثرات اور شر سے حفاظت و سلامتی کی دعا کریں۔
یہ عمل کم از کم چالیس روز تک جاری رکھیں۔
اچھائی کا صلہ
سوال: میرا اپنا کاروبار ہے۔چند سال قبل ایک پڑوسی جس کی صحبت ٹھیک نہیں تھی اس کے والدین ہمارے گھر آئے اورمیری والدہ سے کہا کہ ہمارے مالی حالات بہت خراب ہیں،ہمارے لڑکے کو کہیں ملازمت نہیں ملتی ،اگر آپ کا بیٹا اسے اپنے ہاں کام پر رکھ لےتوہمارے اوپر بہت احسان ہوگا۔ اس طرح یہ لڑکا بری صحبت سے بھی بچا رہے گا۔
میری والدہ نے مجھ سے بات کی تو میں نے اس لڑکے کی بری شہرت کے بارے میں بتایا، لیکن میری والدہ کا اصرار تھا کہ وہ اب سدھر گیا ہے اس لیے اسے ایک چانس دے دینا چاہیے۔میں نے اپنی والدہ کے اصرار پرحامی بھرلی اوراسے اپنے ادارے میں ملازمت دےدی۔
ہمارے ہاں اس نے بہت اچھی طرح سے کام کیا۔ اس وجہ سے آٹھ ماہ بعدمیں نے اس کی تنخواہ میں بھی اضافہ کردیا۔ایک دوبرسوں میں اس نے اپنی محنت سے میرادل جیت لیا اورمیں نے اسے ترقی دے کر کئی مراعات بھی دے دیں۔
اس نے اپنی تین بہنوں کی شادی کیں۔خود اس کی بھی اسی سال شادی ہوگئی۔ان لوگوں کا ہمارے گھر بھی آنا جانا رہتا تھا۔اس کے والدین بظاہر ہمارے بہت ممنون تھے۔
پھر ہوا یہ کہ اس نے کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر کمپنی میں خرد برد کرنا شروع کردیا۔ ایک دن اس نے جان بوجھ کر مجھ سے تلخ کلامی کی اور ملازمت چھوڑ کر چلا گیا۔ بعد میں معلوم ہواکہ اس نےلاکھوں کاگھپلا کیا ہے۔ سنا ہے کہ آج کل وہ بیرون ملک مقیم ہے۔
اس واقعہ کے بعداس کے والدین نے سارے محلے میں ہمارے گھر کے بارے میں غلط باتیں کرناشروع کردیں مثلاً یہ کہ یہ لوگ بہت غیر مہذب ہیں اور ان کے گھر میں لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں۔ میری بہنیں لڑائی جھگڑے کرنی والی ،گالم گلوچ کرنے والی ہیں۔گھر میں صفائی ستھرائی بھی نہیں کرتیں، وغیرہ وغیرہ…. حالانکہ یہ سب باتیں بالکل خلافِ واقعہ ہیں۔ ہمارے والدین نے ہماری بہت اچھی تربیت کی ہے۔ ہم سب گھر والے ایک دوسرے کے ساتھ بہت محبت سے رہتے ہیں۔
الحمد اللہ! سارے محلے میں ہماری بہت عزت ہے۔ کسی نے ان لوگوں کی باتوں پر بالکل یقین نہ کیابلکہ انہیں ہی غلط قرار دیا۔ لیکن ان باتوں سے مجھے بہت تکلیف ہوئی ۔
مسئلہ صرف دھوکہ دہی کا نہیں ہے۔ میرے لیےزیادہ دکھ اورافسوس کی بات یہ ہے کہ اس کے والدین نے کس طرح ہمارے گھرانے کے بارے میں لوگوں سے غلط بیانی کی۔میں سوچتاہوں کہ کیا کسی کے ساتھ اچھائی کرنے کا صلہ ایسا ہی ملتاہے….؟ کیا کسی کا اچھا نہیں چاہناچاہیے….؟
میں نے اپنی والدہ کے کہنے پر نیکی کی مگر اس نے جواب میں مجھے مالی نقصان پہنچایا اور اس کے والدین نے محلے میں ہمارے خلات جھوٹی باتیں پھیلانے کی کوشش کیں۔
میں سوچتا ہوں کہ کسی کے ساتھ نیکی کرنے کا ایسا صلہ کیوں ملتا ہے….؟ میں یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ اس آدمی سے بدلہ کس طرح لوں….؟
جواب: واقعی زندگی میں بعض اوقات ایسے تلخ تجربات بھی ہوجاتے ہیں کہ آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اچھائی کرکے وہ مصیبت میں پھنس گیا ہے۔
کچھ لوگ منفی طرزِ فکر کے حامل ہوتے ہیں۔ بعض لوگ خیر کے بجائے شر کو اپنا وطیرہ بنا لیتے ہیں۔ بعض لوگوں کی یہ عادت ہوجاتی ہے کہ جو ان کے ساتھ اچھا کرے وہ اس کے ساتھ برا کرکے خوش ہوتے ہیں۔
اچھائی یا برائی انسان کی طبیعت یا مزاج کا حصہ ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ میں اس مزاج کی بات کر رہا ہوں جو موروثی (Genetical) طور پر ملتا ہے۔
وراثت میں ملنے والی کوئی بری سوچ، اچھے ماحول میں اچھی تربیت سے تبدیل ہوسکتی ہے لیکن ایسا اس وقت ہوتا ہے جب کوئی آدمی اپنے آپ میں خود ہی مثبت تبدیلیاں لانا چاہے۔
کچھ لوگ اچھائی کا بدلہ برائی سے دیتے ہیں۔ یہ ان کامزاج یا ان کی طبیعت ہے۔ کچھ لوگ دوسروں کی مدد کرتے رہنا چاہتے ہیں یہ ان کا مزاج اور ان کیطبیعتہے۔
اپنے ہزارہا مشاہدات سے میں نے ایک نتیجہ یہ بھی اخذ کیا ہے کہ ردعمل کے لحاظ سے انسانوں کی چار قسمیں ہوتی ہیں۔
- وہ لوگ جن کے ساتھ ذرا سی بھی اچھائی کردی جائے وہ اسے شکر گزاری اور احسان مندی کے ساتھ ساری عمر یاد رکھتے ہیں۔
- وہ لوگ جن کے ساتھ کوئی اچھائی کی جائے تو وہ اسے جلد نظر انداز کردیتے ہیں۔
- وہ لوگ جن کے ساتھ کوئی اچھائی کی جائے تو جواباً وہ یہ کہتے ہیں کہ اس نے تو دراصل اپنے فلاں مفاد کی خاطر ہمارے ساتھ اچھائی کی تھی۔
- وہ لوگ جن کے ساتھ اچھائی کی جائے تو وہ شکر گزار ہونے یا بھول جانے کے بجائے اپنے محسن کے ہی خلاف ہوجاتے ہیں۔ چوتھے درجے کے ان لوگوں کو ہم محسن کش بھی کہہ سکتے ہیں۔
شاید ایسے ہی لوگوں کے بارے میں باب العلم حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ہے کہ
‘‘جن پر احسان کرو ان کے شر سے بچو۔’’
میرے بھائی….! پازیٹیو تھنکنگ یا مثبت سوچ کا تقاضہ یہ ہے کہ زندگی میں آگے کی طرف دیکھنا اور آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔
ایک شخص نے آپ کو دھوکہ دیا ۔اس نے آپ کو مالی نقصان بھی پہنچایا اس لیے آپ کا غصے میں آنا بجا ہے۔ جہاں تک بدلہ لینے کی بات ہے تو آپ یہ سوچیے اس آدمی کی طرف سے آپ کی اپنی ذات کو اورکاروبار کو وہ نقصان نہیں پہنچا، جو غصہ میں کھولتے رہنے اورانتقام کے طریقے سوچتے رہنے سے آپ کو ہوگا۔اس کے بجائے اپنے وقت کو اپنا کاروبار مزیدبہتر بنانے پرلگائیے۔
رات سونے سے پہلے 101 مرتبہ درود خضری
صَلَّ اﷲُ تَعَالیٰ عَلیٰ حَبِیْبِہٖ مُحَمَّدٍ وَّ سَلَّمُ
پڑھ کر اپنے اوپر دم کردیں۔
وضو بےوضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء
یامومن یاسلام یاحی یاقیوم
کا ورد کرتے رہیں۔
نندیں حاوی ہیں
سوال: میری شادی کو تین سال ہوگئے ہیں۔ ہم جوائنٹ فیملی میں رہتے ہیں۔ میری ساس ویسے تو بہت اچھی ہیں۔ لیکن اپنی دو بیٹیوں سے بہت ڈرتی ہیں۔ میری ان دونوں نندوں نے میری زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ شادی شدہ ہونے کے باوجود دونوں مہینے میں کئی کئی دن اپنی ماں کے پاس رہتی ہیں۔ اس دوران بات بے بات مجھے ٹوکتی ہیں اور اپنی اماں کو بھی ورغلاتی ہیں کہ وہ مجھے بُرا بھلا کہیں۔ وہ بیٹیوں کے ڈر سے وہی کرتی ہیں جیسا اُن سے کہاجائے۔
نندیں اپنے گھر میں ہوں تو ٹیلی فون پر مختلف انداز سے میرے خلاف اپنی والدہ سے باتیں کرتی ہیں۔
میں اپنی نندوں کی طنزیہ باتیں سن سن کر تھک گئی ہوں۔ اپنے شوہر سے کہتی ہوں تو وہ بھی خاموش رہتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ میں بہنوں سے کچھ نہیں کہہ سکتا تم بس صبر سے کام لو۔
جواب: رات سونے سے پہلے 101مرتبہ سورہ مریم کی پہلی آیت :
کھٰیٰعص
گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنی ساس اور نندوں کا تصور کرکے دم کردیں اور دعا کریں کہ انہیں آپ کے ساتھ محبت اور احترام سے رہنے کی توفیق عطا ہو۔
یہ عمل کم از کم چالیس یا نوے روز تک جاریرکھیں۔
چلتے پھرتے وضو بے وضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء یا ہادی یا سلام کا ورد کرتی رہیں۔
شراب سے نجات
سوال: میری شادی کو دس سال ہوئے ہیں۔ میرے شوہر شراب پیتے ہیں۔ شراب کے نشے میں وہ گھر کی چیزیں توڑتے ہیں اور کبھی مجھے اور بچوں کو مارتے پیٹتے بھی ہیں۔ اُن کی اس بری عادت کی وجہ سے بچوں پر بھی بہت بُرا اثر پڑسکتا ہے۔ لیکن انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
جواب: شراب ہو یا کوئی اور نشہ آور شے کی لت سے چھٹکارا کے لیے اولین ضرورت یہ ہے کہ نشہ کا عادی شخص خود اس سے چھٹکارا پانا چاہتا ہو۔ بعض لوگ اس لت سے نجات کے لیے از خود کوششیں کرتے ہیں جبکہ بعض لوگوں میں نشہ سے نفرت اور چھٹکارے کی خواہش ابھارنے کے لیے گھر والوں یا کسی اور کی طرف سے مسلسل ترغیب کی ضرورت ہوتی ہے۔
پختہ عمر کے پرانے نشہ بازوں کی نسبت نشہ کے عادی کم عمر لوگ نشہ چھڑانے کی ترغیب جلد قبولکرلیتے ہیں۔
بڑی عمر کے جن نشہ بازوں کی اولاد خصوصاً بیٹیاں بڑی ہوچکی ہوں وہ بھی اکثر نشہ چھوڑنے کی ترغیب کو جلد قبول کرلیتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں نشہ چھوڑنے کا محرک اپنی اولاد کے سامنے شرمندگی سے بچنا یا اپنی اولاد کو دوسروں کے سامنے شرمندگی سےبچانا ہوتاہے۔
آپ کے شوہر کو نشے کی وجہ سے بچوں پر پڑنے والے شدید منفی اثرات کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہوں کہ بچے ابھی چھوٹے ہیں اور وہ باپ کی مدہوشی کو محسوس نہیں کرتے ہوں گے۔ آپ کے شوہر کا خیال ہوگا کہ بچے جب بڑے ہوں گے اور اس خرابی کو سمجھنے لگیں گے تووہ نشہ چھوڑ دیں گے۔ اس طرح سوچنا بھی دراصل ایک بہانہ یا خود فریبی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ نشہ کی لعنت سے چھٹکارے کے لیے ایک نا رضامند شخص کو کیسے راضی کیا جائے….؟ ان میں نشہ ترک کرنے کی خواہش اور عزم کیسے پیدا کیا جائے….؟
اس کے لیے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ اُن کے دوست احباب میں شرابی کون ہے۔ ان کے احباب میں شرابی شخص جب تک موجود رہے گا ان کے شراب چھوڑنے کا امکان نہایت ہی کم رہے گا۔ صحبت کے اثرات بہت زیادہ ہوتے ہیںَ اس میں بھی اچھی صحبت کے مفید اثرات دیر سے مرتب ہوتے ہیں۔ بری صحبت کے منفی اثرات جلد جڑ پکڑ نے لگتے ہیں۔ برائی تیزی سے پھیلتی ہے جبکہ اچھائی کے فروغ میں بہت وقت لگتا ہے۔
اچھائی کے فروغ میں صبر، تحمل ، ایثار، حکمت و تدبر کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ گھر کے اندر دینی ماحول کا قیام بھی اُن کی سوچ میں تبدیلی میں بہت مددگار ہوسکتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ آپ خود پانچ وقت نمازکی پابندی کریں اور اپنے بچوں کو بھی اپنے ساتھ نماز پڑھوائیں۔
گھر میں اُن کی موجودگی کے دوران جتنی نمازیں ادا کی جائیں وہ بطورِ خاص اہتمام کرکے ان کے سامنے ادا کی جائیں اور انہیں بھی نماز ادا کرنے کے لیے کہا جائے۔ گھر میں ان کی موجودگی کے دوران آپ باآواز بلند قرآن پاک کی تلاوت کیجیے اور اپنے بچوں کو بھی قرآن پاک پڑھائیے۔ سیرت النبی ﷺ اور بزرگانِ دین کے احوال پر مشتمل کتابیں گھر میں لائیے۔ یہ کتابیں خود بھی پڑھیے اور اپنے شوہر کو بھی ان کے مطالعے کی دعوت دیجیے۔
بطور ِ روحانی علاج رات سونے سے پہلے اکتالیس مرتبہ سورہ المومنون 23کی آیات 1تا 3
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُـوْنَo اَلَّـذِيْنَ هُـمْ فِىْ صَلَاتِـهِـمْ خَاشِعُوْنَ o وَالَّـذِيْنَ هُـمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ o
سات سات مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے شوہر کا تصور کرکے دم کردیں اور اللہ تعالی سے دعا کریں کہ انہیں برے کاموں سے بچنے اور اچھے کاموں کو اختیار کرنے کی توفیق عطا ہو۔
یہ عمل کم از کم چالیس روز یا نوے روز تک جاریرکھیں۔
ناغہ کے دن شمار کرکے بعد میں پورے کرلیں۔
بھتیجی اذیت میں ہے
سوال: میں اپنی بھتیجی کا مسئلہ تحریر کررہا ہوں ۔ شادی کے بعد آٹھ سال تک وہ اپنے شوہر کے ساتھ بہت ہنسی خوشی رہ رہی تھی۔ چند سال پہلے اُس کے شوہر نے دوسرے شہر میں اسکول کھولا۔ ہماری بھتیجی بتاتی ہے کہ اُس نئے اسکول میں ایک ٹیچر کے ساتھ اُس کی دوستی ہوگئی۔ اُس کے بعد اُس نے اپنی بیوی کو نظر انداز کرنا اور اس سے لڑنا جھگڑنا شروع کردیا۔ لڑائی جھگڑے کے ساتھ ساتھ مار پیٹ بھی شروع کردی ہے۔ ہماری بھتیجی جب اس لڑکی میں دلچسپی نہ لینے کا کہتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ وہ لڑکی بہت اچھی ہے میں اُس سے شادی کروں گا اور تجھے فارغ کردوں گا۔
بھتیجی کو والدین کے گھر بھی نہیں جانے دیتا۔ اسے ذہنی ٹارچر دیتا رہتاہے۔
آپ سے گزارش ہے کہ دعا کریں کہ ہماری اس بھتیجی کا گھر آباد رہے، اس کا شوہر پہلے جیسی محبت اور عزت کے ساتھ رہے۔ دعا کے ساتھ بھتیجی کو اپنے مشوروں سے نوازیئے۔
جواب: اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کی بھتیجی کا شوہر اس کا مزید خیال رکھے اور اس کے ساتھ زیادہ عزت و احترام سے پیش آئے۔ تاہم اس مسئلہ پر اس انداز سے بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہوسکتا ہے کہ آپ کی بھتیجی نے صورتحال کو صحیح نہ سمجھا ہو اور اپنے Possessionکے احساس کے تحت شوہر سے جواب طلبی شروع کردی ہو۔ اس کے شوہر نے بار بار کی اس جواب طلبی سے تنگ آکر کہہ دیا ہوگا کہ ہاں وہ اس لڑکی سے شادی کرلے گا۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس شخص نے اگر اپنی بیوی کو چھوڑکر اس لڑکی سے شادی کرنا ہوتی تو وہ اسے والدین کے گھر جانے سے کیوں روکتا….؟
میرا خیال ہے کہ آپ کا یہ داماد یہ سمجھتا ہوگا کہ اس کی بیوی کے میکے والے اسے منفی انداز کے مشورے دیتے ہیں، ان مشوروں پر عمل کی وجہ سے اس کے گھر کا سکون خراب ہوتا ہے۔ اس لیے اس نے اپنی بیوی کو ناپختہ ذہن سمجھ کر اور اپنے گھریلو سکون کو بچانے کی خاطر اس پر بعض پابندیاں عائد کردیں۔
بہتر ہوگا کہ آپ اپنی بھتیجی کو شفقت سے سمجھائیں اور اسے اس بات پر قائل کریں کہ وہ خاندان کے لوگوں کے سامنے شوہر کے بارے میں منفی باتیں نہ کیا کرے۔ وہ اپنے شوہر سے یہ بدگمان نہ ہو اس کے بجائے اپنے شوہر پر اعتماد کا اظہار کرتی رہے۔ اگر ہوسکے تو اپنے غلط طرزِعمل پر اپنے شوہر سے معافی بھی مانگ لے۔
شوگر کی بیماری سے نجات مل جائے
سوال: میری عمر پینتیس سال ہے۔ دوسال پہلے میری شادی ہوئی ہے۔ ابھی تک اولاد نہیں ہوئی ہے۔ علاج کے لیے کئی ڈاکٹروں کو دکھاچکی ہوں۔ میرے کئی ٹیسٹ ہوئے۔ ان کی وجہ سے پتہ چلا کہ مجھے ذیابیطس کی بیماری ہے۔
جب سے میں نے سنا کہ میں شوگر کی مریضہ ہوں ، میں بہت پریشان ہوگئی ہوں۔ ساری رات مجھے اس بیماری کے بارے میں خیالات آتے رہتے ہیں۔
محترم وقارعظیمی صاحب….! میری فیملی میں کسی کو بھی شوگر کا مرض نہیں ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ میری آنے والی اولاد کو بھی لگ جائے۔
ایسا روحانی عمل بتائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر رحم فرمائے اور میری یہ بیماری جڑ سے ختم ہوجائے۔
جواب: اس خیال سے کہ ذیابیطس کی یہ بیماری جڑ سے ختم ہوجائے مختلف علاج آزماتے رہنے کے بجائے سب سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ یہ بیماری ایک بار لاحق ہوجائے تو ٹھیک نہیں ہوتی۔ البتہ مناسب ادویات اور تدابیر سے خون میں شکر کی مقدار کو کنٹرول میں رکھا جاسکتا ہے۔
ذیابیطس کے حوالے سے یہ بھی ذہن نشین رہے کہ اس میں دوا اور احتیاط میں لاپرواہی برتی جائے تو یہ بیماری کئی طرح کی پیچیدگیوں کا سبب بنتی ہے۔ تاہم ٹھیک طرح خیال رکھا جائے یعنی تجویز کردہ ادویات کا استعمال باقاعدگی سے ہو۔ شکر اور دیگر میٹھی اشیاءسے پرہیز، غذائی اشیاء اور دوائیں معالج کی ہدایات کے مطابق لی جاتی رہیں اور ورزش کا اہتمام بھی رہے تو اس بیماری کے ہوتے ہوئے بھی زندگی کے معمولات جن میں ازدواجی تعلقات اور بچوں کی پیدائش جیسے کام بھی شامل ہیں، ٹھیک طرح سر انجام دیے جاسکتے ہیں۔ جن لوگوں کو ذیابیطس ہو ضروری نہیں کہ ان کی اولاد میں سے ہر ایک کو یہ بیماری لاحق ہوجائے۔
آپ کے لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ حقائق کا سامنا کیجیے۔ بیماری کا نام سن کر حواس کھودینے کے بجائے اس بیماری کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کیجیے۔ ذیابیطس کے بارے میں مستند ماہرین کے لٹریچر کا مطالعہ کرکے اس بیماری کے بارے میں اپنی آگہی کو زیادہ سے زیادہ بڑھائیے۔ ڈاکٹر کو باقائدگی سے دکھاتی رہئیے ان کی ہدایات پر پابندی سے عمل کیجیے۔
کلر تھراپی کے اصولوں کے مطابق بینگنی شعاعوں کا استعمال ذیابیطس میں مفید ہیں۔ آپ بھی ڈاکٹری علاج اور پرہیز کے ساتھ ساتھ بینگنی شعاعوں میں تیارکردہ پانی صبح نہار منہ اور شام کے وقت ایک ایک پیالی پی سکتیہیں۔
اطباءکے مطابق بعض مصفیٔ خون قدرتی اجزاءکا استعمال ذیابیطس میں بھی مفید ہے۔
شادی میں رکاوٹ
سوال: ہم پانچ بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔ تین بڑی بہنوں اور ایک بھائی کی شادی ہوچکی ہے۔ ہم دو چھوٹی بہنوں کا ابھی تک کہیں رشتہ طے نہیں ہوسکا ہے۔ ہماری عمریں اٹھائیس اور تیس سال ہوگئی ہیں۔ بظاہرتو رشتہ نہ ہونے کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی ہے کیونکہ ہم بہنیں قبول صورت اور اعلیٰ تعلیمیافتہ ہیں۔ پرائیوٹ اسکول میں پڑھاتی ہیں۔ خاندانی پس منظر بہت اچھا ہے۔ لوگوں سے اچھے تعلقات ہیں۔ اللہ کا شکر ہے خوشحالی بھی ہے اور ہماری ڈیمانڈ بھی زیادہ نہیں ہے۔
ہمارے والد کا انتقال ہوچکا ہے۔ والدہ ہماری وجہ سے بہت پریشان رہتی ہیں۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دو بہنوں کی جلدی شادی ہوجانے پر ہمارے گھرانے کو شدید نظر لگ گئی اور اس نظرِ بد کی وجہ سے اب دوسری لڑکیوں کی شادی میں رُکاوٹ پیش آرہی ہے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کیا معاملہ ہے۔
جواب: نظر بد کے منفی اثرات سے نجات کے لیے آپ دونوں بہنیں صبح فجر کی نماز کے بعد اور رات سونے سے پہلے اکتالیس مرتبہ
لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر
سات سات مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر پانی پر دم کرکے پئیں اور اپنے اوپر بھی دم کریں۔
یہ عمل کم از کم اکیس روز تک جاری رکھیں۔ عشاءکی نماز کے بعد 101مرتبہ :
بسم اللّٰہ الواسع جل جلالہ
گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر بہتر جگہ رشتہ طے ہونے ، خیر و عافیت کے ساتھ شادی اور خوش وخرم ازدواجی زندگی کے لیے دعا کریں۔
یہ عمل کم از کم چالیس روز تک جاری رکھیں۔
ناغہ کے دن شمار کرکے بعد میں پورے کرلیں۔
حسبِ استطاعت صدقہ بھی کردیں اور ہر جمعرات کم از کم اکیس روپے خیرات کردیا کریں۔
دونوں بہنیں اپنے گھر میں یا گھر کے قریب کسی مقام پر تین تین سایہ دار درخت بھی بطورصدقہ جاریہ لگائیں۔
مزید اولاد کی خواہش
سوال: محترم وقار عظیمی صاحب…! ہماری شادی کو سات سال گزرچکے تھے لیکن اولاد نہیں ہورہی تھی،ڈاکٹری رپورٹس سے معلوم ہواتھا کہ مجھ میں جرثوموں کی کمی ہے۔
پہلے میں نے ڈاکٹری علاج کروایا پھر ایک دوست کے مشورے پر آپ سے رابطہ کیا۔آپ نے کلرتھراپی اوردعاؤں کے ساتھ کچھ دیسی دوائیں بھی تجویز کی تھیں۔آپ سے علاج کے چند ماہ بعد اللہ نے کرم کیا ۔ جرثوموں کی کمی ٹھیک ہوگئی اورہمارے ہاں بیٹا پیدا ہوا۔یہ بیٹا اب ماشاء اللہ پانچ سال کا ہے۔
ہماری خواہش ہے کہ اللہ ہمیں مزیدبچوں سے نوازے لیکن امید نہیں ہورہی۔ ہم نے دوبارہ ڈاکٹروں کودکھایا ۔اب میری میڈیکل رپورٹس تو ٹھیک ہیں البتہ اہلیہ کو کچھ طبی مسائل درپیش ہیں۔ لیڈی ڈاکٹر سے ان کا علاج چل رہاہے۔
ازراہ کرم میری اہلیہ کی صحت کے لیے اورہمارے لیے صحت مند اور صاحب نصیب اولاد کے لیے کوئی دعابتائیں اور آپ بھی ہمیں اپنی دعاؤں میں شامل رکھیں۔
جواب: اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ آپ کی اہلیہ کو جلد صحت عطاہو اورآپ کو صحت مند،خوب صورت ،خوش نصیب اولاد عطاہو۔آمین
بطور روحانی علاج آپ کی اہلیہ رات سونے سے پہلے 101مرتبہ سورہ آل عمران (3)کی آیت 38میں سے:
رب هب لي من لدنك ذرية طيبة ۖ انك سميع الدعاء
گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر پانی پردم کرکے پئیں اوراپنے اوپر بھی دم کرلیں۔
یہ عمل کم از کم نوے روزتک جاری رکھیں۔
وضو بےوضو کثرت سے
یاشافی یامصور یارحیم
کا ورد کرتی رہیں۔
صبح اور شام ایک ایک پیالی عرق مکوہ پینا بھی انشاء اللہ مفید رہے گا۔
بچوں کو ان کی اہمیت کا احساس دلائیں
سوال: میرے تین بیٹے اوردوبیٹیاں ہیں۔ میرا سب سے چھوٹے بیٹے نے جس کی عمر بارہ سال ہے کچھ عرصے سے دونوں چھوٹی بہنوں کی ہربات میں مخالفت شروع کردی۔ آہستہ آہستہ اپنے بڑے بھائیوں سے بھی بات بےبات لڑنے جھگڑنے لگا۔
اس بیٹے کوغصہ بہت آنے لگا ہے اورضد اتنی ہوگئی ہے کہ اگر پوری نہ کی جائے تو گھر کی چیزیںتوڑدیتاہے۔
میں نے پیار ومحبت سے بہت سمجھایا لیکن اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ مارتی ہوں تو مزید ڈھیٹ ہو جاتاہے اورمار کاکوئی اثر نہیں لیتا۔ سمجھ نہیں آتا کہ اپنے اس بیٹے کی کس طرح اصلاح کروں۔
جواب: بچوں کی تربیت میں ماں اور باپ دونوں کا اپنا اپنا حصہ ہے۔ ماں یا باپ میں سے کسی کی طرف سے بچوں کو توجہ کم ملنے یا دونوں میں سے کسی ایک کی توجہ بالکل نہ ملنے سے بچے متاثر ہوسکتے ہیں۔ اس کمی کا اظہار بچے مختلف طریقوں سے کرتے ہیں۔ کچھ بچے اُداس اور گم سم رہنے لگتے ہیں، کچھ شرارتیں زیادہ کردیتے ہیں اور کچھ بچے بدتمیز اورضدیہوجاتے ہیں ۔
کئی بچوں میں ذہنی طورپربھی کچھ زیادہ سرگرمی پائی جاتی ہے۔اس صورتحال کو ہائیپر ایکٹویٹی (Hyper Activity) اورایسے بچوں کو ہائپر ایکٹو کہا جاتاہے ۔
جن بچوں میں غصہ ،ناراضی اوراپنی بات منوانے کے لیے توڑ پھوڑ جیسی عادات پائی جائیں ان کی اصلاح کاعمل شروع کرتے ہوئے یہ جائزہ بھی لینا چاہیے کہ والدین یا ان دونوں کے خاندان میں سے کوئی غصیلا تونہیں ہے کیونکہ بعض اوقات اس قسم کی کیفیات بعض بچوں میں وراثتی طورپربھی منتقل ہوتی ہیں۔
بچے کے ساتھ ترغیب ،تعریف وستائش ،تنبہ اورکبھی کبھار سختی والے رویے کے ساتھ ساتھ بطورروحانی علاج :
صبح اکتالیس مرتبہ اللہ تعالیٰ کے اسماء
یاروف یارحیم یاولی یاکریم
سات سات مرتبہ درو دشریف کےساتھ پڑھ کر ایک پیالی پانی پر یا ایک ٹیبل اسپون شہد پر دمکرکےپلائیں۔
رات کو جب بچہ گہری نیند میں ہو تو اس کے سرہانے اتنی آواز سے کہ اس کی آنکھ نہ کھلے تین مرتبہ سورہ فاتحہ (الحمد شریف)پڑھ کر اس پردم کردیں۔
یہ عمل کم ازکم چالیس روزتک بلاناغہ جاری رکھاجائے۔
اکلوتے بیٹے میں نسوانیت
سوال: سات بیٹیوں کے بعد بڑی منتوں مرادوں اوردعاؤں کے بعد ہمارے ہاں بیٹا پیدا ہوا۔ گھر میں اکلوتا ہونے کی وجہ سے یہ بہنوں کی آنکھ کا تارا تھا۔ میرے شوہر بیرون ملک مقیم ہیں اورمیں بھی جاب کرتی ہوں۔بچپن اورلڑکپن اس نے گھر میں بہنوں کےساتھ زیادہ وقت گزارا۔
وہ اکثر مذاقاً اپنی بہنوں کا سوٹ پہن کر گھر میں ڈانس کرتارہتاتھا ۔ہمارا خیال تھا کہ عمر بڑھنے کےساتھ ساتھ اس کی عادتوں میں تبدیلی آتی جائے گی لیکن گزرتے وقت کے ساتھ لڑکیوں کے کپڑے پہن کر رقص کرنے کی عادت پختہ ہوگئی۔
اس وقت میرے بیٹے کی عمر انیس سال ہے۔اس کا بولنا،چلنا پھرنا بالکل لڑکیوں کی طرح ہوگیاہے۔ اب اکثر اپنے دوستوں کے گھر میں بھی ڈانس کرتاہے جس کی وجہ سے ہمیں بڑی شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ پہلے تو وہ اپنی ان باتوں پر بہت خوش تھا لیکن اب وہ بھی یہ چاہتاہے کہ اس میں یہ عادت ختم ہوجائے۔
جواب: اپنے بیٹے سے کہیں کہ صبح بیدار ہونے کے بعد اوررات سونے سے پہلے 101مرتبہ سورہ النساء(4) کی آیت 34کا ابتدائی حصہ :
الرجال قوامون على النساء
پڑھ کراپنےدونوں ہاتھوں پر دم کرکے چہرے پر پھیرلے۔
یہ عمل کم ازکم تین ماہ تک جاری رکھاجائے۔
کلرتھراپی کے اصولوں کے مطابق سرخ شعاعوں میں تیارکردہ پانی صبح اورشام ایک ایک پیالی پلائیں۔
کئی بار توبہ کی لیکن….!
سوال:میری عمر تیس سال ہے۔ میری جسمانی صحت ٹھیک نہیں ہے۔ اس کی وجہ میری اپنی غلطیاں ہیں۔میری طبیعت میں سستی رہتی ہے۔ گال پچکے ہوئے ہیں۔آنکھیں دھنسی ہوئی ہے۔چہرے پر ہوائیاں اڑتی نظر آتی ہیں۔
میں کسی سے نظر ملا کربات نہیں کرسکتا۔لوگوں کے سامنے سرجھکاکر بیٹھا رہتا ہوں۔ مجھ میں مستقل مزاجی اور خوداعتمادی کی بے انتہا کمی ہے۔میں پندرہ سال کی عمرسے بے راہ روی میں پڑا ہوا ہوں۔کئی بارتوبہ کی لیکن خود کو لذت پہنچانے کی اس عادت کو چھوڑ نہیں پایا۔
جواب: صبح بہت سویرے بیدار ہوجائیں۔ شمال رخ کھڑے ہوکر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے گیارہ مرتبہ تیسرا کلمہ پڑھیں۔ اس کے بعد اپنا رخ مشرق کی سمت کرلیں اور ناک سے آہستہ آہستہ سانس اندر لیں۔ جب سانس مکمل ہوجائے تو آہستہ آہستہ منہ کے ذریعہ باہر نکال دیں۔ یہ عمل پانچ مرتبہ دہرائیں۔ اس کےبعد پندرہ منٹ واک کریں۔
پنج وقت نماز کی پابندی کیجئے اورعشاء کی نماز کے بعد گیارہ مرتبہ درود شریف اورگیارہ مرتبہ اللہ تعالیٰ کے اسماء :
یاحی یاقیوم
کا ورد کرکے آنکھیں بند کرکے تصور کریں کہ آپ کے چاروں طرف سبز رنگ کی روشنیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ مراقبہ بارہ تا پندرہ منٹ جاری رکھیں۔
کھانوں میں بادی، ثقیل اور گرم اشیاء مثلاً گائے کاگوشت، انڈہ ،مچھلی وغیرہ استعمال نہ کریں۔
اچھے دوستوں کی صحبت اختیارکریں۔سیرت طیبہ اورصوفیاء کرام کے حالات پرمبنی کتب کا مطالعہ کریں۔ ان شاء اللہ آپ کوجذباتی تقاضوں کو اعتدال میں رکھنے میں کامیابی ہوجائے گی اور آپ کی صحت بہتر ہونے لگے گی ۔
وظیفہ شروع کرتے ہی میاں بیوی میں رنجشیں ختم!
سوال: کئی سال پہلے کی بات ہے کہ میری بیگم مجھ پر شک کرنے لگیں تھیں۔ ان کی اس عادت کی وجہ سے ہمارے درمیان رنجشیں بڑھ گئی تھیں۔ میں جس کمپنی میں جاب کرتا تھا وہاں کئی خواتین بھی کام کرتی ہیں۔ کبھی دفتری کام کی وجہ سے وہ مجھے گھر پر بھی فون کرلیتی تھیں۔
میری بیگم نے اس بات کاسخت نوٹس لیا ۔میرے سمجھانے پر بھی وہ نہیں مانی۔ میں نے چپ رہنا ہی مناسب سمجھا۔ ایک روز وہ میرے دفتر آگئی اورمیری غیر موجودگی میں میری خاتون باس سے اچھی خاصی بحث کرکے چلی گئیں۔
جب مجھے پتہ چلا تو میں نے ان سے معافی چاہی۔ خاتون باس نے مجھے وارننگ دے دی کہ آئندہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے بعد سے خاتون باس نے مجھ سے دفتر میں بھی بات چیت بہت کم کردی، میرے ذمہ وہ کام جن کی وجہ سے انہیں مجھ سے بات کرنا ہوتی انہوں نے میرے دوسرے کولیگز کو دے دیے۔ اس طرح دفتر میں میری پرفارمینس بھی متاثر ہوئی۔ لیکن پھر بھی میری بیگم کی شک کرنے کی عادت ختم نہ ہوئی۔ ان معاملات پرمیری ان سے کئی مرتبہ لڑائی ہوئی اور وہ روٹھ کر اپنے میکے بھی جا کربیٹھ گئیں۔
میرے سسر ال والے ہر بار انہیں سمجھاتے تو وہ ٹھیک ہوجاتی لیکن پھر کچھ عرصے بعد مجھ پر شک کرنا شروع کردیتی ۔ ہم دونوں میاں بیوی میں آپسی رنجشیں اس قدر بڑھ گئیں کہ اس کا اثر ہمارے دونوں بچوں پر بھی بہت برا ہونے لگا۔
ان حالات میں میں نے روحانی ڈائجسٹ میں اپنا مسئلہ بیان کیا۔ جواب میں محترم وقار عظیمی صاحب نے مجھے ایک وظیفہ بتایا ۔ وظیفہ پڑھنے کے چند ہفتوں بعد ہی میری بیگم کے رویے میں بہتری آنا شروع ہوگئی۔ وظیفہ کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی ہماری رنجشیں ختم ہوگئیں اور گھر کا ماحول خوشگوار ہوگیا۔
وظیفہ یہ ہے:
رات سونے سے پہلے اکتالیس مرتبہ سورہ نحل (16) کی آیت 119
ثُـمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّـذِيْنَ عَمِلُوا السُّوٓءَ بِجَهَالَـةٍ ثُـمَّ تَابُوْا مِنْ بَعْدِ ذٰلِكَ وَاَصْلَحُـوٓا اِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِيْـمٌ
گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنی بیگم صاحبہ کا تصورکرکے دم کردیں اور ان کی فکر میں مثبت تبدیلیوں کے لیے دعا کریں۔ یہ عمل کم ازکم چالیس روزتک جاریرکھیں۔
محترم جناب عظیمی صاحب….! میری بیگم کے ذہن میں موجود شک اللہ کے فضل اور آپ کی دعاؤں سے ختم ہوا تو دفتر میں میری کارکردگی بھی بہتر ہوئی۔ میری باس مجھ سے نالاں تھیں اب انہوں نے بھی میری کارکردگی میں بہتری کو محسوس کیا۔ الحمد للہ دو سال بعد اس سال جون میں مجھے پروموش بھی مل گئی ہے۔
آپ کی دعاؤں سے گھر کا ماحول بہتر ہوا اور مجھے ترقی بھی ملی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بہت نوازیں اور آپ کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں کا بھلا ہوتا رہے۔
Thank You Very Much Sir!
حمل ضائع ہوجاتا ہے؟
سوال: میری شادی کو چار سال ہوگئے ہیں۔اللہ کے کرم سے میں دو بار حاملہ ہوئی ہوں۔ پہلا بچہ پیدائش کے ایک ماہ بعد ہی فوت ہوگیا۔ دوسری بار بچہ پیدائش کے فوراً بعدانتقال کرگیا حالانکہ میری دونوں ڈیلوری نارمل تھیں ۔
ڈاکٹروں نے ایک سال احتیاط کرنے کا کہاتھا۔ ایک سال بعد ہم نے دوبارہ کوشش کی اوراللہ کے کرم سے اب میں امید سے ہوں۔
آپ کوئی ورد بتائیں کہ اس بار بچے کی پیدائش صحت وسلامتی کے ساتھ ہو۔ آپ سے درخواست ہے کہ اپنی دعاؤں میں بھی شامل رکھیں۔
جواب: اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ آپ کو صحتمند ، دراز عمر ،صالح، خوش نصیب و خوبصورت اولاد عطا فرمائے۔ آمین
بطورروحانی علاج جب بھی پانی پئیں 11مرتبہ اسم الٰہی:
یاقوی
تین تین مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر پانی پر دم کرکے پئیں۔ چلتے پھرتے وضو بےوضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء:
یاشافی یاسلام
کا ورد کرتی رہیں۔
یہ عمل ڈیلوری تک جاری رکھیں۔
کتاب روحانی علاج سے اُم الصبیان کا تعویذ بنا کر اپنے گلے میں پہن لیں۔ بچے کی پیدائش کے بعد اپنے گلے سے اتارکر بچے کوپہنا دیں۔
حسب استطاعت صدقہ کرتی رہا کریں۔
بہن ڈپریشن میں چلی گئی
سوال: ہم تین بہنیں ہیں۔ بڑی بہن کی آٹھ سال پہلے شادی ہوئی تھی۔ بہن کے سسرال والوں نے بہن پر بہت ظلم کیے جنہیں بہن خاموشی سے برداشت کرتی رہی۔ آخر ان ظالم لوگوں نے دوسال پہلے بہن کو طلاق دلواکر گھر بھیج دیا۔
میکے آنے کے ایک ماہ بعد بہن نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ نجانے کیوں ہم بہنوں سے لینا شروع کردیا۔ اس کے مزاج اوررویہ میں بہت سختی آگئی ہے۔وہ ہم سے ہر کام سخت رویہ کے ساتھ لینے لگی ہیں۔
میں بہنوں میں دوسرے نمبرپر ہوں۔میں نے بہن کی زیادتی کو تو برداشت کر لیا لیکن مجھ سے چھوٹی بہن اس رویہ سے ڈپریشن میں چلی گئی۔
گزشتہ دوہ ماہ سے اسے مختلف آوازیں سنائی دینے لگی ہیں جو خواتین کی ہوتی ہیں۔ وہ آوازیں اسے ہروقت ہدایت دیتی رہتی ہیں اورچھوٹی بہن اس پر عمل کرنے پر مجبور ہے۔ یہ آوازیں اسے کوئی کام نہیں کرنے دیتی اورنہ ہی اسے سونے دیتی ہے۔رات کو ڈھائی تین بجے نیند کی دوائی لینے سے بمشکل اسے نیندآتی ہے۔
صبح سات بجے وہ آٹھ جاتی ہے۔ زیادہ تر گم سم رہی ہے ۔اچانک بیٹھے بیٹھے ہنسنے لگتی ہے اورگھنٹوں ہنستی رہتی ہے۔وجہ پوچھو کیا بات ہے تو ایک دم خاموش ہوجاتی ہے اورپھر رونا شروع کردیتی ہے۔
اسے بہت غصہ بھی آنے لگا ہے۔ مجھے بھی غصہ سے جب گھورکرمسلسل دیکھتی ہے تو ڈر کے مارے میری جان نکل جاتی ہے۔ اس کی حالت سے مجھے بہت خوف محسوس ہونے لگاہے۔
نفسیاتی ڈاکٹر سے علاج ہورہاہے۔ آپ مہربانی فرماکراس کا کوئی حل بتادیجئے۔
جواب: صبح اورشام اکتالیس مرتبہ سورہ آل عمران (3)کی آیت 2
اَللَّـهُ لَا اِلٰـهَ اِلَّا هُوَ الْحَىُّ الْقَيُّوْمُ
گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر پانی یا شہد پر دم کرکے بہن کو پلائیں۔
نیلی شعاعوں سے تیارکردہ آدھی آدھی پیالی پانی صبح اور شام کے وقت پلائیں۔ زرد شعاعوں سے تیار کردہ آدھی آدھی پیالی پانی دوپہر کھانے سے پہلے اور رات کھانے سے پہلے پلائیں۔
رات سونے سے پہلے 101مرتبہ درود شریف پڑھ کر ان کے اوپر دم کردیا کریں۔ نمک کا استعمال کچھ عرصہ کے لیے کم سے کم کردیں۔
دل نہیں ہے کیا کروں….؟
سوال: میری منگنی دوسال پہلے اپنے کزن سے ہوئی تھی ۔نجانے کیا بات ہے کہ دوسال گزرنے کے باوجود میرا دل وہاں شادی کرنے کو آمادہ نہیں ہے جبکہ میں کسی کو پسند بھی نہیں کرتا۔ بس میرا دل نہیں چاہتا ہے میں یہاں شادی کروں۔ اس کی کوئی وجہ بھی نہیںہے۔
انہیں یا کسی اور کو کوئی ایساوظیفہ بتائیں کہ وہاں سے خود منع ہوجائے اوربرا بھی نہ لگے۔
جواب: اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ اس شادی سے خوش نہیں رہ سکتے تو آپ انکار کرسکتے ہیں، لیکن میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ یہ انکار منگنی کے وقت بھی تو کیا جاسکتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پہلے آپ کو یہ رشتہ منظور تھا۔ دوسال کے عرصہ میں آپ کی ترجیحات بدلتی گئیں اوریہ رشتہ قابل قبول نہ رہا۔
بھائی ! بہتر ہوگا کہ آپ اپنی تبدیل شدہ ترجیحات پرنظر ثانی کریں۔ ذہن ایک فیصلے پر قائم نہ رہنے کے معاملہ کو اپنے والدین اور دیگر معاملہ فہم بزرگوں کے سامنے رکھیں اور ان کے مشورے کے مطابق عمل کریں۔