Notice: Function WP_Scripts::localize was called incorrectly. The $l10n parameter must be an array. To pass arbitrary data to scripts, use the wp_add_inline_script() function instead. براہ مہربانی، مزید معلومات کے لیے WordPress میں ڈی بگنگ پڑھیے۔ (یہ پیغام ورژن 5.7.0 میں شامل کر دیا گیا۔) in /home/zhzs30majasl/public_html/wp-includes/functions.php on line 6078
مراقبہ برائے خاتونِ خانہ – روحانی ڈائجسٹ
اتوار , 9 نومبر 2025

Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu
Roohani Digest Online APP
Roohani Digest Online APP

مراقبہ برائے خاتونِ خانہ

شوہر و بیوی کاروانِ حیات کے دو اہم رکن ہیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت میں شوہر اگر سائبان کا کردار ادا کرتا ہے تو بیوی اس سائبان کا اہم ستون ہے۔ شوہر اپنے بیوی بچوں کی کفالت کے لیے دوڑ دھوپ کرتا ہے اور بیوی بحیثیت خاتون خانہ اپنی لیاقت سے شوہر کی محنت و مشقت کی کمائی ہوئی رقم کا بجٹ ترتیب دیتی ہے۔
شوہر و بیوی مل کر اپنی نئی نسل کو پروان چڑھاتے ہیں۔ اچھی تربیت کے ذریعے معاشرے کو مفیدشہری بہم پہنچاتے ہیں۔ اگلی نسل میں اپنی مذہبی ، معاشرتی اور فکری اقدار منتقل کرتے ہیں۔ ان تمام اہداف GOALSکو پورا کرنا اسی صورت میں ممکن ہے جب دونوں میں ذہنی و جذباتی ہم آہنگی ہو، نیز ذہنی لحاظ سے دونوں پرسکون ہوں۔
قرآن مجید نے میاں بیوی کے تعلقات میں سکون اور محبت کی واضح نشاندہی کی ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں عناصر گھریلو تعلقات میں کس قدر ضروری اور اہمیت کے حامل ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
‘‘اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہاری قسم سے جوڑے تخلیق کئے تاکہ تم تسکین پاؤ اور تمہارے مابین محبت اور رحمت پیدا کردی۔ بلاشبہ اس میں نشانی ہے ان کے لئے جو تفکر کرتے ہیں ’’۔ ( الروم۔ آیت ۲۱)

جب آپس میں سکون ومحبت ہو تو دونوں زندگی میں بہتر فیصلے کرنے کے قابل ہوں گے۔ بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کرسکیں گے اور انہیں معاشرے کا مثالی اور مفید شہری بنا سکیں گے۔
سکون اور محبت کی ضد بےسکونی اور نفرت ہے۔ جہاں بے سکونی و بےچینی ہو وہاں وہاں غصہ ہوتا ہے۔ جب غصہ غالب آتا ہے تو عقل و شعور ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ ان کیفیات میں جو حالات پیش آتے ہیں ان کے مظاہرے ہم اپنے معاشرہ میں اکثر دیکھتے ہیں۔
میاں بیوی کے تعلقات میں بیوی کا کردار زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ شوہر کا زیادہ وقت گھر سے باہر گزرتا ہے۔ گھریلو معاملات سے عورت کا تعلق زیادہ رہتا ہے مرد اس بارے میں کم جانتے ہیں۔
گھر میں وفا شعار، سلیقہ مند اور سمجھ دار بیوی کا وجود سراپا رحمت ہے۔ میاں بیوی کی محبت اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ شوہر باغ لگاتا ہے بیوی اسے سنوارتی اور آراستہ کرتی ہے۔
ایک مرتبہ سّیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ‘‘کیا میں تمہیں بہترین خزانے کا پتہ نہ بتاؤں ’’ پھر فرمایا ‘‘وہ خزانہ نیک صالح بیوی ہے کہ جب تم اسے دیکھو تو مسرت حاصل ہو۔ اسے کوئی حکم دو تو وہ اسے مان لے اور جب اس سے دور ہو تو وہ اپنی اور تمہاری ناموس اور گھر بار کی حفاظت کرے’’۔
ایک اور حدیث ہے

‘‘دنیا سامانِ زینت ہے اور اس کی بہترین متاع صالح عورت ہے ’’۔

گھر کے فرائض کی خوش اسلوبی سے انجام دہی مستقل ایک کام ہے جس کا تمام تر بوجھ خاتونِ خانہ کے کاندھوں پر ہوتا ہے۔ چھوٹے موٹے کاموں کی اتنی لمبی لسٹ ہوتی ہے کہ صبح سے لے کر شام تک کام میں لگے رہنے کے باوجود کوئی نہ کوئی کمی رہ جاتی ہے…. شوہر اور بچوں کے لئے ناشتہ بنانا ، بچوںکو اسکول کے لئے تیار کرنا پھر شوہر کا ضروری سامان تیار رکھنا ، جوتے ، موزے اور لباس کا خیال رکھنا ، شوہر کو دفتر بھیجنے کے بعد گھر کی جھاڑ پونچھ کرنا، دوپہر کے کھانے کی فکر کہ کیا پکے گا، کون سی ایسی ڈش پکائی جائے کہ سب خوشی خوشی کھالیں۔ کپڑوں کی دھلائی، رات کا کھانا اور دیگر کام انجام دینا پڑتے ہیں جن سے ذہن اور جسم دونوں تھک جاتے ہیں۔
جن گھروں میں ملازمین موجود ہوتے ہیں وہاں بھی خاتون خانہ کی ذمہ داریوں کو کم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ خاتونِ خانہ کو اپنی صحت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کیونکہ بیماری سے تنہا وہی نہیں بلکہ گھر کے تمام افراد اور تمام کام متاثر ہوتے ہیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین کو ورزش بھی ضرور کرنا چاہئے۔ اب ورزش کے لیے کہاں سے وقت نکالیں….؟ غرض خاتونِ خانہ بہت سی ذمہداریوں سے کم وقت میں نبرد آزما ہوتی ہیں۔
ایک خاتونِ خانہ کے سامنے بیک وقت دو ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔

1۔گھریلو تعلقات
2۔ گھریلو کام
بعض خواتین خانہ گھریلو کاموں کی انجام دہی میں ذہنی و جسمانی طورپر اتنی تھک جاتی ہیں کہ بہتر گھریلوتعلقات کے لئے انہیں وقت ہی نہیں ملتا۔
گھریلو تعلقات میں ایک خاتونِ خانہ کا واسطہ سب سے پہلے شوہر سے پڑتا ہے۔ بچے بھی اس کی ممتا بھری توجہ کے محتاج ہوتے ہیں۔ اگر کمبائنڈ فیملی ہے تو ساس سسر اور دیور نند یا دیگر سے بھی اخلاقی وابستگی ضروری ہے۔ دوسرے رشتہ داروں اور ہمسایوں سے میل ملاپ کے لئے بھی وقت چاہئے ہوتا ہے۔
ایک زیرک اور سمجھ دار .خاتونِ خانہ گھریلو امور اور تعلقات کے توازن کا خیال رکھتی ہے۔ ان تمام باتوں میں توازن کے لئے چند اُمور ذہن نشین رکھنا ضروری ہیں۔

1۔ وقت کا صحیح استعمال
یاد رکھئے….! گھرکی دیکھ بھال عورت کے کاندھوں پر ہے پھر ڈھیر سارے کاموں کے بعد خاتون خانہ کو فراغت کے چند لمحے بھی نکالنے ہیں۔ تاکہ تھوڑی دیر تھکن اتار سکیں۔ اس لئے وقت کا صحیح استعمال سیکھیں۔ دنیا میں سب سے قیمتی چیز وقت ہے۔
2۔ نظم و ضبط کا خیال
وقت کا درست استعمال اسی صورت میں ممکن ہے جب ہر کام نظم و ضبط کے ساتھ انجام دیا جائے۔ ایک ہی وقت میں سارے کام کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ بہتر یہ ہوگا کہ آپ روزمرہ کاموں کا ٹائم ٹیبل بنالیں۔ شروع میں تو آپ کو الجھن ہوگی اور عجیب سا محسوس ہوگا مگر چند ہفتوں میں آپ خود میں نمایاں تبدیلی اور پابندی محسوس کریں گی۔
مختلف کاموں کو ایک ترتیب اور نظم و ضبط کے ساتھ نمٹانے سے آپ کسی مرحلہ میں وقت اور کام کے بوجھ سے دوچار نہیں ہوں گی۔
3۔ قوتِ برداشت پیدا کیجیے
گھر میں آپ کے علاوہ خاندان کے دیگر افراد بھی رہتے ہیں۔ ان میں بچے اور بڑے سب ہی شامل ہیں۔ انہیں بھی آرام کرنے ، کھیلنے کودنے اور سستانے کا حق ہے۔ بچوں والے گھروں میں ایسا اکثر ہوتا ہے کہ آپ نے سفید براق بیڈشیٹ بچھائی ، چند گھنٹوں کے بعد وہاں پہنچیں تو دیکھا کہ بچوں نے بیڈشیٹ پر داغ دھبے لگادیئے ، آپ کمرے کی جھاڑ پونچھ کے بعد نکلی ہی تھیں کہ بچوں نے کاغذ کے ٹکڑے فرش پر پھیلادیئے ، گندے پاؤں لے کر صوفے یا کرسیوں پر چڑھ گئے ، فرش پر چلغوزے ، مونگ پھلی کے چھلکے پھینک دیئے وغیرہ وغیرہ۔
ایسی صورتوں میں غصہ سے بے حال نہ ہوجائیے ، بچوں کو مناسب سرزنش کی جاسکتی ہے مگر یہ توقع کرنا کہ بچے آپ کے دیئے گئے فریم ورک میں ہی زندگی گزاریں ، ممکن نہیں ہے۔ بچے بہرحال بچے ہیں اگر شرارتیں نہ کریں ، کھیل کود نہ کریں اور بڑوں کی طرح کام کریں تو وہ بچے کہاں رہے…. ؟
ایک مرتبہ قلندر بابا اولیاء ؒ کے پاس ایک صاحب اپنے دو معصوم بچوں کے ہمراہ آئے۔ وہ صاحب پاسِ ادب میں بچوں کو اتنا سمجھا بجھاکر لائے تھے کہ وہ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کے مصداق بیٹھے رہے۔ ان صاحب نے کچھ دیر کے بعد بابا صاحب ؒ سے کہا
‘‘حضور یہ میرے بچے ہیں’’۔
بابا صاحب ؒ بچوں کی خوف کی حد تک بڑھی ہوئی خاموشی کو کافی دیر سے ملاحظہ کررہے تھے۔ آپ ؒ نے ان صاحب سے مخاطب ہوکرفرمایا۔
‘‘ہمیں تو یہ بچوں کے بجائے بزرگ لگ رہے ہیں۔ بچوں کا مطلب تو یہ ہے کہ وہ شرارتیں اور کھیل کود کرتے ہیں مگر ہم نے تو ان میں ابھی تک ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی’’۔
بچوں کا شرارتیں کرنا تو ان کی عمر کا تقاضا ہے۔ بچے شرارتیں کررہے ہوں تو کیوں بلاوجہ غصہ کا اظہار کرکے اپنی توانائی ضائع کی جائے۔ اگر کبھی سختی بھی کرنا پڑے تو یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اس میں بچوں کی اصلاح مقصود ہے۔
4۔ زندگی کو خوشگوار بنائیے
سورہ روم کی آیت کا پچھلی سطروں میں ذکر کیا گیا جس میں تذکرہ ہے کہ ‘‘جوڑے تخلیق کئے تاکہ تم تسکین پاؤ اور تمہارے مابین محبت اور رحمت پیداکردی ’’۔
قرآ ن مجید کی ایک اور آیت ہے: ‘‘پھر وہ ان سے وہ علم سیکھتے جس سے جدائی ڈالتے ہیں مرد اور اس کی عورت میں’’۔ ( البقرہ۔ آیت ۱۰۲ )
ان دونوں آیات پر غور کریں تو اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ میاں بیوی میں محبت رحمانی عمل ہے جبکہ نفرت شیطانی عمل ہے۔
اس اصول کے مطابق کوئی بھی ایسا فعل جس میں شوہر اور بیوی میں تصادم یا جھڑپ کا تاثر پیدا ہو فوراً خبردار ہوجائیے کہ یہ شیطانی عمل ہے اور اللہ نے اسے سخت ناپسند کیا ہے۔
شوہر اور بیوی کے حوالہ سے مشہور محاورہ ہے کہ جہاں دو برتن یکجا ہوں تو کھڑکتے ضرور ہیں۔ بعض لوگ اسے میاں بیوی کی لڑائی کا جواز سمجھتے ہیں لیکن ایسے مواقع لمحہ فکریہ ہوتے ہیں۔
میاں بیوی کی لڑائی خانگی سکون کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ بے سکونی بجائے خود ایک ذہنی عذاب ہے۔ گھر کا ماحول خوشگوار رکھنے کے لئے شوہر کا تعاون حاصل کریں۔ آپ کو خاوند کی دلچسپیوں میں سے یقیناً ایسے بہت سے عناصر ملیں گے جو آپ بھی پسند کرتی ہیں۔ اس مشترک دلچسپی کے ذریعے ذہنی رفاقت اور باہمی پیار ومحبت کی فضا آسانی سے پیدا کی جاسکتی ہے۔


شوہر شام کو دن بھر کا تھکا ماندہ گھر کو لوٹتا ہے۔ اس کا استقبال ترو تازہ اور زندگی سے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ کریں۔ شوہر کے آنے سے پہلے صاف ستھرا لباس زیب تن کرلیں ، بال سنواریں اور لپ اسٹک بھی لگالیں اور محبت کے ساتھ شوہر کا استقبال کریں تو شوہر کی ساری تھکن دور ہوجائے گی۔
بعض خواتین میں یہ عادت بھی دیکھی گئی ہے کہ دن بھر کی غیرخوشگوار کارگزاری کی رپورٹ بناکر بیٹھ جاتی ہیں کہ شوہر آئیں گے تو ان سے فلاں کے روکھے رویّے کی شکایت کروں گی ، فلاں کا طعنہ بیان کروں گی ، شام کو میری مطلوبہ چیز بازار سے نہ لائے تو بات نہ کروں گی ، سسرال یا کسی اور جگہ مجھے لے کر نہیں گئے تو ناراض ہوجاؤں گی۔
یاد رکھئے….؟ یہ عمل ازدواجی تعلقات میں بےسکونی پیدا کرسکتا ہے۔ سرجھاڑ منہ پہاڑ بنائے رکھنے سے شوہر کے چڑچڑے پن اور تھکاوٹ میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔
شوہر کو اپنا دوست سمجھیں۔ شوہر کی ضروریات کو اپنی ذمہ داری سمجھیں۔ خود یا ملازمین سے کپڑوں پر استری کرائیں ، جوتے موزے تیار رکھیں ، رات کو اگر پسند کریں تو شوہر کے سر میں تیل ڈال کر ہلکی ہلکی مالش کریں۔ خاص خاص مواقع پر حسبِ استطاعت تحفہ کا تبادلہ بھی کریں۔ ساتھ بیٹھ کر ٹی وی پروگرام دیکھیں۔ شوہر کی دلچسپی کے موضوعات پر گفتگو کریں۔ زود رنجی ، ضد اور بات بے بات غصہ کرنے والی خواتین سے شوہر کھنچے کھنچے رہتے ہیں۔ یہی طرزِ عمل بعض اوقات خدانخواستہ ایسی صورت بھی اختیارکرلیتا ہے کہ خاتونِ خانہ کف افسوس ہی ملتی رہ جاتی ہے۔
5۔ ساس سسر اور دیور نند
اگر کمبائنڈ فیملی ہے تو ساس ، سسر ، دیور ، نند ، جیٹھ ، جٹھانی میں سے چند ایک یا سب کے ساتھ خاتونِ خانہ کا تعلق رہتا ہے۔ ایسے بعض خاندانوں میں بہو اور ساس ونند کی سرد یا گرم جنگ کے واقعات بھی دیکھے گئے ہیں۔
یہ مضمون چونکہ خاتونِ خانہ سے متعلق ہے اس لئے دوسرے رشتوں کے بجائے ہم صرف خاتونِ خانہ کی ذمہ داریوں پر بات کریں گے۔
آپ کسی ڈاکٹر سے اپائنمنٹ لینے ویٹنگ روم کے صوفے پر بیٹھی ہوں ، ایک بوڑھی خاتون وہاں آئیں لیکن صوفہ پر جگہ خالی نہ ہو تو اس موقع پر آپ کیا کریں گی ….؟
ہمیں گمانِ غالب ہے کہ آپ اپنی نشست سے اٹھ کر انہیں وہاں بٹھادیں گی۔ بسوں اور کوچز میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ نوجوان لڑکے یا لڑکیاں بڑی عمر کے لوگوں کے لئے سیٹ چھوڑ کر انہیں وہاں بٹھادیتے ہیں۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ ہماری نوجوان نسل میں سے ایک طبقہ بزرگوں کے احترام کے لئئے دامے درمے سخنے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔
قرآن مجید میں والدین سے اچھا برتاؤ اور نیک سلوک کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ مذہبی اور معاشرتی تعلیمات کے مطابق بزرگ ساس سسر سے عزت واحترام کے حوالہ سے اپنا محاسبہ کریں پھر یہ سوچیں کہ آپ کے ساس سسر چونکہ شوہر کے والدین ہیں اس لئے ان کی تعظیم ضروری ہے۔
اپنے ساس سسر کا احترام کریں ، نند اور دیور پر دستِ شفقت رکھیں۔ یقین جانئے اس سے آپ کے شوہر میں آپ سے محبت وخلوص کے جذبات میںاضافہ ہوگا۔
6۔ اپنی کارکردگی بڑھائیے


گھریلو زندگی میں خاتونِ خانہ کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ وقت کے ساتھ بڑھتے ہوئے کام کے ساتھ ضروری ہے کہ آپ کی کارکردگی میں بھی مزید اضافہ ہوتا رہے۔ اپنی روزمرہ کارکردگی کا مہینے میں ایک بار جائزہ لیتی رہیں آپ کو بآسانی پتہ چل جائے گا کہ کس کام میں غیرمعمولی رکاوٹ اور الجھن پیش آتی ہے۔
کارکردگی میں اضافہ کے لئے روحانی مدد کے حصول کے لیے اٹھتے بیٹھتے ، وضو بے وضو یاحی یاقیوم کا ورد کریں۔ ان اسماء کے ورد سے صلاحیتوں میں خاطرخواہ اضافہ ہوتا ہے۔ ذہن پرسکون رہتا ہے ، طرزفکر تعمیری اور مثبت آہنگ میں ڈھل جاتی ہے ، طبیعت میں تفکر اور غور وفکر کی عادت راسخ ہونےلگتی ہے۔

مراقبہ برائے خاتونِ خانہ :
کردار سوچ سے بنتا ہے۔ جس طرح کی سوچ ہوتی ہے، انسان کا کردار بھی اسی کی نسبت اعلیٰ یا اسفل ہوتا ہے۔ مراقبہ ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے ہم اعلیٰ کردار و اخلاق کے حامل بن سکتے ہیں۔ مراقبہ کے ذریعے محبت ، خیرخواہی ، تعمیر ، ایثار وقربانی ، روشن خیالی ، مثبت طرزفکر ، امید ، عزم وحوصلہ ، اولوالعزمی ، فہم وفراست اور بصیرت جیسے تعمیری عناصر کردار کا حصہ بنائے جاسکتے ہیں۔ مراقبہ ہماری ذہنی کارکردگی میں بھی اضافہ کرتاہے۔


خواتین مراقبہ کے ذریعہ اپنی خانگی زندگی میں جو فوائد حاصل کرسکتی ہیں وہ یہ ہیں :
شوہر ، بچوں اور دیگر اہل خاندان سے ذہنی ہم آہنگی ، مثبت طرزِفکر ، صبر وقناعت او ر اعلیٰ اخلاق نیز گھریلو کاموں کی خوش اسلوبی سے ادائی ، نظم و ضبط کی پابندی ، وقت کا درست استعمال ، بہتر قوتِ فیصلہ و خود اعتمادی کا مظاہرہ وغیرہ وغیرہ۔
گھریلو معاملات میں مراقبہ کو بھی شامل کرکے اس کے حقیقی ثمرات سے استفادہ کرنے والی خواتین ہردلعزیز شخصیت کی مالک بن سکتی ہیں۔ شخصیت میں مثبت تبدیلیوں کی وجہ سے شوہر، ساس سسر اور دیور نندوں کے رویّوں میں بھی واضح مثبت تبدیلی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

مراقبہ کے لئے مناسب وقت صبح سورج نکلنے سے پہلے کا ہے۔ بصورت دیگر اپنی سہولت کے مطابق رات کو سونے سے پہلے بھی مراقبہ کیا جاسکتا ہے۔
کھلی اور آرام دہ جگہ بیٹھ جائیں اور لمبی لمبی سانس لیں۔
سانس لینے کا طریقہ یہ ہے کہ ناک کے ذریعہ آہستہ آہستہ سانس اندر لیں۔ جب پھیپھڑے پوری طرح بھرجائیں تو کچھ دیر کے لیے سانس روک لیں۔ اس کے بعد سیٹی کی طرح روکے بغیر منہ کرکے آہستہ آہستہ باہر نکال دیں۔
یہ ایک دور ہوا، اسی طرح تقریباً پانچ دور مکملکریں۔
اس کے بعد 101 مرتبہ درود خضری کا ورد کریں اور آنکھیں بند کرکے تصور کریں کہ آسمان سے نیلے رنگ کی روشنیوں کی بارش ہورہی ہے۔ سر سے ہوتی ہوئی روشنیاں دل میں جذب ہو رہی ہیں اور دل نیلے بلب کی طرح روشن ہے۔
یہ تصور قائم کرنے میں دشواری ہو تو یہ محسوس کیجیے کہ آپ نیلی روشنی سے منور ماحول میں بیٹھی ہوئی ہیں۔

یہ بھی دیکھیں

ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ، جلد کی شادابی ، سانس کی مشقوں کے ذریعے

ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ، جلد کی شادابی ، سانس کی مشقوں کے ذریعے سانس کے …

پانی بھی شعور رکھتا ہے؟

پانی بھی شعور رکھتا ہے؟ پانی انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے …. پانی ہی …

جواب دیں