ہر زبان کا اپنا آہنگ اور لہجہ ہوتا ہے۔ اگر زبان و بیان میں نظم ، چاشنی، جمالیاتی حسن اور احساساتی رفعتیں شامل ہوجائیں تو اس مجموعے کو سخن کے صیغے سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اسے عام فہم زبان میں شاعری کہتے ہیں۔ کائنات میں اشیاء و حوادث کی لامحدود کثرت پائی جاتی ہے۔ تنوع اور گوناگوئی کی کوئی انتہاء نہیں ہے لیکن اس کثرت میں ہر جگہ وحدت بھی جلوہ گر ہے۔ شاعری کا تعلق براہِ راست خیالات سے ہے۔
ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ ہر انسانی عمل خیالات کے تانے بانے پر مشتمل ہے۔ یہ خیالات ذہن پر وارد ہوتے ہیں اور ان کا مظاہرہ الفاظ کی صورت میں ہوتا ہے۔ ایک شاعر لاشعوری طور پر ان خیالات کو منظم کرکے سخن یا اشعار کی صورت میں ترتیب دے دیتا ہے۔ عمومی طور پر اسی طرز کے حامل شخص کو شاعر کہا جاتا ہے۔
لیکن جہاں صوفی شاعر کا تذکرہ آتا ہے تو برملا ذہن انسانی اس سوال کی جانب مائل ہوتا ہے کہ ایک عام شاعر اور صوفیانہ انداز سخن میں کیا فرق ہے؟
تصوّف کی شاعری کوئی صنف نہیں جیسے دیگر اصنافِ سخن غزل، مثنوی، رباعی، مسدس، آزاد نظم اور نظمِ معرّا ہیں۔ البتہ ایسی شاعری جس میں صوفیانہ خیالات یا صوفیانہ افکار پائے جائیں، اس کو تصوّف کی شاعری سے موسوم کیا جاتا ہے۔ خواہ اس کی صنف ( غزل، مثنوی، رباعی، مسدس، آزاد نظم اور نظمِ معرّا وغیرہ) ان میں سے کوئی بھی ہو۔
صوفیانہ شاعری ایسی شاعری کو کہتے ہیں جس میں عشق مجازی کے بجائے حقیقی یا مذہبی جذبات کی عکاسی کی گئی ہو یا جس میں متصوخانہ خیالات کا اظہار کیا گیا ہو۔ شعر العجم میں شبلی نعمانی فرماتے ہیں کہ صوفیانہ شاعری کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ان الفاظ اور خیالات سے بالکل پاک ہوتی ہے جو …. متانت کے خلاف ہیں۔
صوفیانہ شاعری کی خاص بات اس میں پنہاں عشقِ حقیقی کے اسرار و رموز ہیں۔ جس میں صوفیاء نے اپنے تجربات اور عشقِ حقیقی میں درپیش رکاوٹوں اور مراحل و مدارج بیان کئے ہیں۔ صوفی شاعری کا یہ کام مختلف زبانوں میں ہوا ہے اور ہر زبان میں پیش کیا جانے والا صوفی کلام عوام میں بہت مقبول ہوا ہے۔
صوفیاء کرام نے شاعری کی کئی اصناف استعمال کی ہیں، حمد، نعت، منقبت، سلام، مناجات، غزل، نظم، مستزاد، گیت، بسنت، ہولی، مثنوی، قطعات، ابیات، دوہا اور رباعیات…. پاک و ہند میں مختلف صوفیاء کا کلام پنجابی، سندھی، اُردو، ہندی ، بنگالی، فارسی، عربی و دیگر زبانوں میں موجود ہے۔ یہ کلام نثر اور شعر دونوں صورتوں میں موجود ہیں، صوفیانہ کلام کے حوالے سے سلطان باہو، وارث شاہ، میاں محمد بخش، بابا بلھے شاہ، مولانہ رومی، شمس تبریز، امام غزالی، ابن عربی، شیخ فرید الدین عطار، عمر خیام، کے نام مشہور ہیں۔
یوں تو صوفیا نہ شاعری نے ہر صنف میں خوب اظہار کیا ہے…. ان اصنافِ سخن میں رباعی ایک خاصے کی چیز ہے، چار مصرعوں میں جامع سے جامع مضمون کو خوبصورتی سے مکمل کر دینا دریا کو کوزے میں بند کر دینے کے مترادف ہے۔
رباعی عربی لفظ رُبَع سے ہے جس کے لغوی معنی چار کے ہیں۔ شاعرانہ مضمون میں رباعی اس صنف کا نام ہے جس میں چار مصرعوں میں ایک مکمل مضمون ادا کیا جاتا ہے۔ رباعی کے مختلف نام ہیں۔ اردو میں رباعی کو ترانہ، دو بیتی ، چہار مصرعی ، جفتی بھی لکھا گیا ہے۔ انگریزی زبان میں اس طرح کی شاعری کو quatrain اور stanzaکہا جاتا ہے۔ چین والے اسے پیپی چُن لیانPǐpèi chūnlián یعنی مساوی شعر (matching couplets) اور جیوجو jueju یعنی ٹوٹی ہوئی سطریں (Broken off Lines ) کہتے ہیں۔ تبت میں رباعیات کی طرح کی ایک صنف سخن ‘‘کونگ آن’’Kōanکے نام سے موجود ہے ۔
وسط ایشیائی اور ترک زبانوں میں اسے کوشما koshma کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے ‘‘وہ جو ذہن میں رواں ہو۔’’ ایک گریزاں خیال ہے جسے آپ گرفت میں لے آتے ہیں، ایسا خیال جسے چھوڑ دینا چاہیے لیکن آپ اسے قابو میں لے آتے ہیں۔ پھر آپ شعر کہتے ہیں اور آخری مصرعہ کا اضافہ یوں کرتے ہیں کہ وہ معانی کو پلٹ دیتا ہے، ایک ایسی بات سے جس کا مفہوم کچھ نہ ہو۔
رباعی کا کوئی مخصوص موضوع نہیں ہوتا، لیکن شعراء کرام کی روایت رہی ہے کہ رباعی میں زیادہ تر پند و نصائح، تصوف، حمد، نعت، منقبت، فلسفہ، اخلاقیات اور دنیا کی بے ثباتی وغیرہ کے موضوع بیان کرتے ہیں۔ عشقیہ رباعیاں خال خال ہی ملتی ہیں۔
سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ ‘‘فارسی کے اصناف سخن میں رباعی چار مصرعوں کی مختصر نظم ہوتی ہے مگر اس کو زہ میں سمندربند ہوجاتاہے۔ بڑے سے فلسفیانہ خیال ، دقیق سے دقیق اخلاقی نکتہ اور پیچیدہ سے پیچیدہ صوفیانہ مسئلہ جو صفحوں اور دفتروں میں سماتا اُن دوسطروں میں پورا کا پورا ادا ہوجاتاہے ’’۔ (خیام، سید سلیمان ندوی )
رباعی خالصتاً فارسی شعراء کی ایجاد ہے، رباعی کا اولین شاعر رودکی کو مانا جاتا ہے، رودکی کے علاوہ بابا طاہر عریاں، سرمد شہید، ابوسعید ابوالخیر، فرید الدین عطار، حافظ شیرازی اور شیخ سعدی ، یونس ایمرے اور عمر خیام وغیرہ مشہور رباعی گو ہیں ۔
فارسی ادب میں متعدد خالص رباعی گو موجود ہیں اور ہر ایک اپنے لب ولہجہ ، موضوعات اور منفرداسلوب کی بناءپر الگ پہچان رکھتاہے ۔ رباعی کو زیادہ تر صوفیا ء کرام نے اپنا ذریعۂ اظہار بنایا ہے ۔
ابوسعید ابوالخیر تصوف وحکمت کے مضامین بیان کرنے میں اور خیام دلکشی اور رنگین بیانی کی وجہ سے ، مدسرمستی وسرشاری اور سحابی استرآبادی خودپر سی اور نرگسی تصور کی وجہ سے اپنا جواب نہیں رکھتے ہیں ان شعراءکی شہرت اور مقبولیت کا دارومدار تمام تر صنفِ رباعی پرہے کیونکہ ان شعراءنے اپنے تخلیقی تجربوں کے اظہار کے لئے خالصتاً اسی صنفِ سخن کو استعمال میں لایاہے۔ لیکن فارسی شاعری میں جس شاعر کا نام رباعی گو کی حیثیت سے امر ہو گیا ہے وہ عمر خیام ہیں، غالباً دنیا کے کسی اور شاعر کا اتنی زبانوں میں ترجمہ نہیں کیا گیا جتنا عمر خیام کا۔
خیام فرماتے ہیں :
آمد سحری ندا از میخانہٴ ما
کہ ای رندِ خراباتی و دیوانہ ٴ ما
برخیز کہ پر کنیم پیمانہ زمی
زاں پیش کہ پر کنند پیمانہٴ ما
ترجہ:(مجھ کو میخانے سے وقت صبح یہ ندا آئی اے مرے رند خراباتی دیوانے …. ذراآنکھیں کھول کہ ہم اپنے بادہ گل گوں سے پیمانوں کو بھر لیں ، ورنہ کچھ دم میں عمر کا ساغر چھلک جائے گا )
گر می نہ خوری طعنہ مزن مستان را
بنیاد مکن تو حیلہ و دستان را
تو غرہ بدان مشو کہ من می نخورم
صد لقمہ خوری کہ می غلام است آن را
ترجمہ:(خدا کے لیے مجھ پہ طعنہ زن نہ ہو کہ مست ہوں …. حیلہ بازی اور مکاری کو شیوہ مت بنا…. تجھ میں جو عیب ہیں …. وہ مے نوشی سے بھی بڑھ کر ہیں…. اے خشک زاہد تو اگر مے نہیں پیتا توکیا ہوا )
فارسی رباعیات ِ تصوف میں دوسرا بڑا مقام حضرت سرمد شہید کا ہے، آپ فرماتے ہیں:
سرمد غمِ عشق بوالہوس را نہ دہند
سوزِ دلِ پروانہ مگس را نہ دہند
عمرے باید کہ یار آید بہ کنار
ایں دولتِ سرمد ہمہ کس را نہ دہند
ترجمہ:(اے سرمد، غمِ عشق کسی بوالہوس کو نہیں دیا جاتا۔ پروانے کے دل کا سوز کسی شہد کی مکھی کو نہیں دیا جاتا۔ عمریں گزر جاتی ہیں اور پھر کہیں جا کر یار کا وصال نصیب ہوتا ہے، یہ سرمدی اور دائمی دولت ہر کسی کو نہیں دی جاتی۔)
سرمد نے ایک خوبصورت نعت بھی کہی ہے۔
اے از رُخِ تو شکستہ خاطر گُلِ سُرخ
باطن ہمہ خونِ دل و ظاہِر گُلِ سرخ
زاں دیر برآمدی ز یُوسُف کہ بباغ
اوّل گُلِ زرد آمد و آخِر گُلِ سُرخ
ترجمہ: (اے کہ آپ (ﷺ) کے رخ (کے جمال) سے گُلِ سرخ شکستہ خاطر ہے….اُس کا باطن تو سب دل کا خون ہے اور ظاہر گل سرخ ہے…. آپﷺ یوسف کے بعد اس لیے تشریف لائے …. کہ باغ میں، پہلے زرد پھول کھلتا ہے اور سرخ پھول بعد میں۔)
گلسنان اور بوستان کے مصنف شیخ سعدی نے بہت سی اخلاقی اور نعتیہ رباعیات کہی ہیں ان کی دو نعتیہ رباعی بہت مشہور ہوئیں ۔
بلغ العلیٰ بکمالہ
کشف الدجیٰ بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ
صلو علیہ و آلہ
آپ کی یہ رباعی عربی اور دوسری فارسی میں ہے
یا صاحب الجمال و یا سید البشر
من و جہک المنیر لقد نور القمر
لا یمکن الثنا کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
رباعیات میں ترکی زبان کے مشہور شاعر یونس ایمرے کو بھی دنیا میں پسند کیا جاتا ہے۔ ترکی میں انہیں رومی سے بھی بڑا عوامی شاعر مانا جاتا ہے، کیونکہ آپ نے مقامی زبان میں شاعری کی اور رومی نے صرف فارسی میں۔
آپ لکھتے ہیں
Hak cihâna doludur
Kimseler Hakk’ı bilmez
O’nu sen senden iste
O senden ayrı olmaz
حق جہانہ طولودُر کیمسہ لر حقی بیلمز
اونو سن سندن استہ اول سندن ایرو اولماز
حق تعالیٰ سارے جہاں پر محیط ہے
پھر بھی اس کی حقیقت سے کوئی واقف نہیں
بہتر ہوگا کہ اپنے آپ میں اسے تلاش کرو
کیونکہ وہ تم سے دور نہیں ہے
بابا طاھرعریاں ایران کے ایک عظیم شاعر گزرے ہیں انہوں نے خیام کی طرز کی رباعیات کہی ہیں ، مثال کے طور پر :
در دیست اجل کہ نیست درمان او را
بر شاہ و وزیر ھست فرمان او را
شاھی کہ بحکم دوش کرمان می خورد
امروز ہمین خورند کرمان او را
ترجمہ : (موت ایک ایسا درد ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے،وہ بادشاہ اور وزیروں پر بھی فرمانروائی کرتی ہے…. وہ بادشاہ جو کل اپنے حکم کے ذریعے کرمان کھا جاتا تھا …. آج اسے کیڑے کھا رہے ہیں)
:
بعالم ہمچو مو پروانہ نہ
جہانرا ہمچو مو دیوانہ نہ
ہمہ مارون و مورون لانہ دیرن
من بیچارہ را ویرانہ نہ
ترجمہ : ( دنیا میں مجھ جیسا پروانہ نہیں ہے ۔ عالم میں مجھ جیسا دیوانہ نہیں ہے ۔ سب سانپ اور چیونٹیاں ٹھکانہ رکھتی ہیں مگر مجھ بیچارے کے پاس ویرانہ بھی نہیں ہے ۔ ) فاری میں مرزا غالب نے بھی کئی رباعیات کہی ہیں اور بعض رباعیات میں فلسفہ ء اور تصوف کو سمودیا ہے۔
سلطان باہو نے بھی چار مصروں کے اشعار کہے ہیں مگر انہیں ابیات کہا جاتا ہے ۔ آپ فرماتے ہیں:
باجھ حضوری نہیں منظوری توڑے پڑھن صَلاتاں ہُو
روزے نفل نماز گزارن جَاگن سارِیاں راتاں ہُو
باجھوں قلب حُضور نہ ہووے کڈھن سئے زکاتاں ہُو
باجھ فنا رب حاصل باہُو نہ تاثیر جَماتاں ہُو
ترجمہ:(اگر حضوری قلب نہیں تو کتنی نمازیں پڑھ لیں قبولیت نہیں پائیں گی، جتنے روزے نفل نمازیں شب بیداری کرلیں ، بے فائدہ ہیں اگر آپ کا من صاف نہیں، کتنی ہی زکوٰۃ دے دیں اگر اپنے اندر عاجزی نہیں تو فضول ہے، جب تک اپنی انا کو فنا نہیں کروگے ، جماعتیں کچھ فائدہ نہیں دیں گی)
اسی طرح بابا بلھے شاہ کی کئی کافیوں میں رباعیات کا سا انداز ملتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں
پڑھ پڑھ کتاباں علم دیاں توں نام رکھ لیا قاضی
ہتھ وچ پھڑ کے تلوار نام رکھ لیا غازی
مکے مدینے گھوم آیا تے نام رکھ لیا حاجی
او بھلیا حاصل کی کیتا؟ جے توں رب نا کیتا راضی
فارسی کے بعد اردو میں بھی رباعی کہی گئیں۔ مشہور اردو رباعی گو شعرا میں میر تقی میر، سودا، میر درد، میر انیس، ذوق، مومن، حالی، اکبر الہ آبادی وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن جس شاعر نے صحیح معنوں میں اردو رباعی کو فلسفۂ اخلاق اور تصوف کے ضمن میں استعمال کیا وہ علامہ اقبال ہیں۔
غالب کی طرح علامہ نے بھی اردو اور فارسی میں رباعیاں کہی ہیں اور کیا کمال کہی ہیں۔
جمالِ عشق و مستی نے نوازی
جلالِ عشق و مستی بے نیازی
کمالِ عشق و مستی ظرفِ حیدر
زوالِ عشق و مستی حرفِ رازی
آپ مزید فرماتے ہیں-
کبھی تنہائیٔ کوہ و دمَن عشق
کبھی سوز و سرور و انجمن عشق
کبھی سرمایۂ محراب و منبر
کبھی مولا علی خیبر شکن عشق
اردو زبان میں تصوف کے موضوع پر اور بھی رباعی گو گزرے جیسے ولی دکنی نے اُردو رباعی میں وحدت الوجود کی باتیں کی ہیں….
دل جامِ حقیقت ستی جو مست ِ ہوا
ہرمست مجازی سوں زبردست ہوا
یہ باغ دسا نظر میں تنکے سوں کم
اور عرش عظیم پگ تلے پست ہوا
سلسلۂ عظیمیہ کے امام حضرت قلندر بابا اولیاء ؒ اردو کی صوفیانہ شاعری میں وہ صاحبِ حکمت، ضبط و نظم کے اصولوں سے واقف اور فنّی محاسن کے حامل شاعر ہیں جنہوں نے اردو کے انداز ہائے سخن میں حقیقتِ وحدانی اور کائنات میں موجود کثرت کو تطابق عطا کیا اور ادائے سخن کے لیے شاعری کی مشکل ترین صنف ‘‘رباعی ’’ کا انتخاب کیا۔
قلندر بابا اولیاء ؒ صوفی شاعر اور آپ ؒ تصوف کے قافلہ کے سالار ہیں۔ آپؒ کے کلام میں حسن و نظم کی دلکشی اور رباعی کے انداز میں حسن و شباب، عشق و سرمستی، استدلال، سلاست، روانی، جامعیت اور شاعرانہ نظم و ضبط نے انہیں معاصرین میں ممتاز کیا ہے۔
میں کیا ہوں یہ عقدہ تو کھلے گا آخر
پردہ جو پڑا ہے وہ اُٹھے گا آخر
ذرّے کو مرے کوئی تو صورت دیں گے
ساغر نہ بنا خم، تو بنے گا آخر
اس رباعی میں قلندر بابا اولیاء ؒ نے حیات کے اسرار اور تحیر کو نہایت حقیقت کشا انداز میں بیان فرمایا ہے ۔ انسان مٹی کا پتلا ہے اور مٹی کے اجزااور اس کی تاثیرات اب چشم عالم پر واہو ہو چکی ہیں ۔ انسان جب اس زمین پر پیدا ہوا تو یہ دنیا اُس کے لیے ایک عالم حیرت کے سوا اور کچھ نہیں تھی ہر سمت گھمبیر اندھیرا تھا۔ انسان یکسر لاعلم تھا کہ وہ کون ہے اور کیا ہے ۔ پھر خالق نے اس عقدے کو کھولنا شروع کر دیااور اُس کے سامنے پڑے ہوئے پردے اُٹھنا شروع ہو گئے ۔
یہ بات مگر بھول گیا ہے ساغر
انسان کی مٹی سے بنا ہے ساغر
سو بار بنا ہے بن کے ٹوٹا ہے
کتنی ہی شکستوں کی صدا ہے ساغر
اس رباعی میں قلندر بابا اولیاء ؒشعور کی ایسی گرہ کھول رہے ہیں ، جس پر انسانی صدیوں تک متجسس رہاہے ۔ پھر اسی طرز ِ تجسس نے اسے تحقیق پر اکسایا اور تحقیق کے نتائج ہی نے اسے ترقی کے راستے پر قدم بڑھانے کا شعور دیا۔
نہروں کو مئے ناب کی ویراں چھوڑا
پھولوں میں پرندوں کو غزل خواں چھوڑا
اُفتاد طبیعت تھی عجب آدم کی
کچھ بس نہ چلا تو باغ رضواں چھوڑا
انسانی مزاج و طبع کو بیان کرنے کے لیے شاید اس سے بہتر اور موزوں مثال ممکن نہیں۔قلندربابا ؒ نے آدمی کے جنت تک کو خیر باد کہہ دینے کی مثال دے کر انسانی طبع کی غمازی کی ہے۔
درحقیقت جس اُفتاد ِ طبع کا ذکر بابا فرما رہے ہیں اس کے پس منظر میں دو چیزیں ہیں۔ ایک خواہش اور دوسری اس کے تعمیری اجزاء ….
خواہش انسان کے مادی وجود میں پیدا کردہ وہ عنصر ہے جو اس کے روحانی وجود میں تحریک کا باعث بنتی ہے ۔ چھوٹی خواہش کے پورا ہوجانے پر مزید بڑی خواہش پیدا ہوجاتی ہے اور انسان اسے پورا کرنے کی کوشش شروع کر دیتا ہے۔ پھر تو ایک خواہش سے ہزاروں خواہشیں جنم لیتی چلی جاتی ہیں اور آدمی خواہشوں کا اسیر ہو کر رہ جاتاہے۔
حضور قلندر بابا اولیاء ؒ نے اپنی رباعیات میں اپنے نور بصیر ت اور قوت ِ ادراک و شعور سے انہی سر بستہ رازوں سے پردہ اٹھانے کی بھر پور سعی کاملہ کی ہے بلاشبہ قلندر بابا اولیاء ؒ ایک قادرالکلام شاعر ہی نہیں تشکیل کائنات کے رازوں سے واقف بھی ہیں۔