↑ مزید تفصیلات کے لیے موضوعات پر کلک کریں↑
رزق میں تنگی اور معاشی پریشانیوں سے چھٹکارے کے لیےخاص وظیفہ
سوال: یں ایک کارخانے کا مالک ہوں، گزشتہ کئی سالوں سے خام مال اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے کاروبار کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ بچوں کی فیسوں ، ملازمین کی تنخواہوں اور دیگر بڑے
بڑے اخراجات نے کبھی یہ موقع ہی نہ دیا تھا کہ کوئی سیونگ کی جاسکے۔
چند ماہ قبل بیٹی کی شادی کے موقع پر کچھ قرض بھی لے چکا تھا، سوچا تھا اگلے چند ماہ میں لوٹا دوں گا لیکن ملک کے تیزی سے بدلتے حالات نے یہ موقعہی نہ دیا۔
میرا کارخانہ بھی پچھلے کئی دنوں سے کورونا وائرس کی وجہ سے ہوئے لاک ڈاؤن کے سبب بند پڑا ہے، آمدنی بالکل ختم ہوگئی ہے جبکہ بجلی کے بلز، بچوں کی فیسیں ، ملازمین کی تنخواہیں اور دیگر
اخراجات جوں کے توں اپنے جگہ ہیں۔ یہ سوچ سوچ کر میری نیند غائب ہوچکی ہے کہ اگلے مہینے میں یہ تمام اخراجات کس طرح پورے کرسکوں گا۔
برائے مہربانی میری رہنمائی فرمائیں کہ میں اس مشکل اور کڑے وقت سے نکل سکوں۔
۔
جواب: محترم بھائی ! یہ مسئلہ صرف آپ کا نہیں بلکہ اس وقت پورا ملک بلکہ پوری دنیا انہی مسائل میں مبتلا ہے۔ ایسی صورت حال میں اللہ تعالیٰ پر یقین رکھیں اور ثابت قدمی سے اپنے
فرائض انجام دیتے رہیں۔
ہر رات سونے سے پہلے 101 مرتبہ اسم الٰہی
یافتاح
گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ لیا کریں اور ہفتے میں کم از کم ایک دن چیل اور کوؤں کو پھیپھڑے کا گوشت ڈال دیا کریں۔ جب موقع ملے تو مستحق افراد کو کھانا بھی کھلا دیا کریں۔
انشاءاللہ سخت گھڑی جلد ٹل جائے گی۔
رشتے داروں کے حسد نے چلتا ہوا کاروبار تباہ کردیا!
سوال: میرے شوہر بہت ذہین شخص ہیں، انہیں کاروباری معاملات میں کافی مہارت ہے۔ انہوں نے چھوٹی عمر سے محنت کرکے اپنے پورے کنبے کو سنبھالا ، بہنوں کی شادیاں کی اور بھائیوں
کے روزگار کا بندوبست کیا۔
جب میرے شوہر سارے بہن بھائیوں کے فرائض سے سبکدوش ہوگئے تو انہوں نے ان لوگوں، بھائیوں کے اخراجات دینے بند کردیے اور اپنے بچوں کو لیے سیونگز کرنا شروع کردیں۔ یہ
بات میری نندوں اور دیوروں کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ جب وہ ہمارے بچوں کو اعلیٰ اسکول میں تعلیم حاصل کرتے، میرے اچھے کپڑوں اور زیورات یا ہماری طرز رہائش کو دیکھتے تو لوگوں
کے سامنے طرح طرح کی باتیں کرتے۔ وہ کہتے کہ ہمارے بڑے بھائی نے باپ کے کاروبار پر قبضہ کرکے ہم سب کو دربدر کردیا ہے جبکہ حقیقت میں یہ کاروبار میرے میاں کا جمایا ہوا تھا۔
بھائیوں اور بہنوں کے رویے سے میرے شوہر کافی اُداس رہتے تھےلیکن پھر بھی سب سے ہنس کر ملا کرتے اور وقت پڑنے پر کچھ مدد بھی کیا کرتے۔
ایک دن جب میرے شوہر اپنا کارخانہ بندکرکے واپس گھر آئے تو رات گئے ان کے موبائل پر فون آیا کہ کارخانے میں آگ لگ گئی ہے۔ میرے شوہر یہ خبر سنتے ہی کارخانے چلے گئے ، فائر
بریگیڈز کی گاڑیاں آئیں اور آگ پر قابو پالیا گیا لیکن جب تک یہ آگ بجھتی اس نے میرے شوہر کا لاکھوں روپے کا خام اور تیار شدہ مال جل چکا تھا۔ اس آگ میں وہ مال بھی جل گیا جس کی پیمنٹ
شوہر وصول کرچکے تھے۔
اس حادثے کے بعد اب ہم بری طرح قرض میں جکڑ چکے ہیں۔ مشینیں اس حالت میں نہیں کہ فوراًدوبارہ کام شروع کیا جاسکے۔ اب میرے شوہر کا کوئی بھائی یا بہن ہماری مدد کرنا تو دور بلکہ
تمام خاندان ہماری اس تباہی پر خوشیاں منارہا ہے۔ اس صورتحال نے میرے شوہر کو بری طرح توڑ کر رکھ دیا ہے۔
جواب: حاسد شخص دوسروں کے پاس نعمتیں اور خوشیاں دیکھ کر جلتا ہے اور چاہتا ہے کہ نعمتیں اور خوشیاں اس شخص سے چھن جائیں۔ حاسد دوسرے کو خوش دیکھ کر خود غمگین ہوتا ہے اور
دوسرے کو تکلیف میں دیکھ کر خوشی محسوس کرتا ہے۔
حسد اور نظر بد سے بچنے کے لیے صدقہ خیرات مسلسل کرتے رہنا چاہیے۔ مصیبتوں اور پریشانیوں میں صدقہ ڈھال بن جاتا ہے۔
اپنے شوہر سے کہیں کہ وہ صبح کام پر جاتے وقت اور شام کو گھر واپسی پر
سات سات مرتبہ سورہ الفلق اور سورہ الناس، تین تین مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے اوپر دم کرلیا کریں اور اپنی سواری پر بھی دم کردیا کریں۔آپ کے شوہر کام والی جگہ پر جاکر ظہر
کے بعد اکتالیس مرتبہ :
لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیءقدیرO
سات سات مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر پانی پر دم کرکے پئیں، اپنے اوپر بھی دم کرلیں اور اپنے شوہر کو بھی پلائیں یا انہیں کہیں کہ وہ خود پڑھ کر پانی پر دم کرکے پی لیں۔
رات سونے سے قبل پانچ مرتبہ سورہ فلق، پانچ مرتبہ سورہ الناس پڑھ کر اپنے اوپر دم کر لیں اور گھر کے چاروں کونوں میں بھی دم کردیں۔
یہ عمل کم از کم ایک ماہ تک جاری رکھیں۔
اپنے اور شوہر کی طرف سے حسبِ استطاعت صدقہ بھی کروادیں۔
چند ماہ تک پابندی کے ساتھ ہر جمعرات کو دو یا تین مستحق افراد کو کھانا کھلا دیا کریں۔
۔
قرض سے نجات کے لیے ایک مسنون دعا
سوال: والد کی تنخواہ پچیس ہزار روپے ہے۔ جس میں گھر کے اخراجات کے لئے وہ ہر ماہ تقریباً بیس ہزار روپے دیتے ہیں۔ پانچ بہن بھائی ہیں۔ ہمارے والد کی آمدنی گھر کے اخراجات کے لئے
کافی ہوجایا کرتی تھی مگر اب دو سال سے ہمیں معاشی مشکلات کا سامنا ہے بعض ضروری اخراجات کے لئے کئی بار قرض بھی لینا پڑا ہے۔ رفتہ رفتہ ہم پر ڈیڑھ لاکھ روپے سے زیادہ کا قرضہ چڑھ
گیا ہے۔ ہمارے والدین اس وجہ سے بہت پریشان ہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ اس قرض کو کس طرح ادا کیا جائے۔
براہِ کرم کوئی دعا بتائیں جس کی برکت سے ہماری معاشی پریشانیاں دور ہوں قرض کی ادائی ہوسکے اور ہم سہولت سے زندگی بسر کرسکیں۔
جواب: آپ کی والدہ اور بڑے بہن بھائی آپ کے والد کے مددگار بنیں۔ یہ دیکھیں کہ آپ اپنے طور پر کیا کام کرسکتےہیں۔ قطرہ قطرہ دریا اور ذرہ ذرہ صحرا بن جاتا ہے۔ آمدنی کے حصول میں
آپ کی عملی شمولیت آپ کے والد کے لیے بہت سہولت اور ان کے لیے بہت خوشی کا سبب بنے گی۔
قرض کی ادائی اور روزگار میں برکت کے لئے نبی کریمﷺ کی عطا کردہ ایک دعا لکھ رہا ہوں۔ آپ یہ دعا پڑھیں اور نبی کریم حضرت محمد مصطفےٰﷺ کے وسیلے سے بارگاہِ رب العزت میںدعا
کریں۔
صحابی حضرت معاذ بن جبلؓ پر کچھ قرض تھا۔ نبیکریم ﷺ نے انہیں سورہ آل عمران کی آیات 25تا27 کی تلاوت اور اس کے بعد
رحمٰن الدّنیاوالآخرۃ ورحیمھما تعطی منھما من تشاء و تمنع منھما من تشاء اقض عنّی دینی
پڑھنے کی تلقین فرمائی۔
مراقبہ کے ذریعے شکی خاوند کا علاج
سوال: میرے خاوند شروع ہی سے شکی مزاج تھے۔ شادی کو پندرہ سال گزر گئے ہیں لیکن ان کامجھ پر شک ختم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر شک کرتے ہیں اور خوب شور مچاتے ہیں پھر کئی کئی روزتک مجھ سے بات نہیں کرتے۔ جب اپنا ‘‘مطلب’’ ہوتا ہے تو پھر خوب پیار جتاکر آتے ہیں۔ اس کے بعد ایک دو روز خوش رہتے ہیں پھر وہی
صورتحال ہوجاتی ہے۔
اُن پر یہ وہم غالب رہتا ہے کہ اُن کی غیر موجودگی میں گھر میں کوئی آتا ہے۔ شوہر کی اس بےبنیاد سوچ نے میری زندگی عذاب بنا ڈالی ہے۔ میں اب برقع بھی اوڑھتی ہوں اور اُن کے بغیر کبھی
گھر سے باہر قدم بھی نہیں رکھتی۔ دل سے اُن کے ساتھ محبت کرتی ہوں۔ میں نے ہر طرح کی قسمیں کھا کر انہیں یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے لیکن ان کا دل کسی
طرح مطمئن نہیں ہوتا۔
اُن کے حد سے زیادہ شک کی وجہ سے میرا ذہن ہروقت ٹینشن میں رہنے لگا ہے۔ مجھے رات بھر نیند نہیں آتی۔ میری بھوک ختم ہوچکی ہے۔ بچوں کے ساتھ میرا رویہ خراب ہوگیا ہے۔ میں سب
کے کام آتی ہوں۔ بچوں اور شوہر کی خدمت کرتی ہوں لیکن مجھ پر ہر وقت یہ خوف طاری رہتا ہے کہ شک کا یہ ناگ کہیں میرے گھر کو ڈس نہ لے۔
جواب: شک مرد اور عورت دونوں میں سے کسی کے دماغ میں بھی جگہ بنا سکتا ہے۔ تاہم دونوں میں شک کی وجوہات، شک کا انداز اور شک کی وجہ سے پڑنے والے اثرات میں فرق ہوتا ہے۔
عورت میں پائے جانے والے شک کی ایک بڑی وجہ احساس عدم تحفظ اور ملکیت کا حد سے بڑھا ہوا احساس ہے۔ عورت کی طرف سے اپنے ساتھی پر شک کیا جانا محبوبیت کا ایک انداز بھی ہے۔ اس کے اثرات بہت زیادہ ضرر رساں بھی نہیں ہیں۔
کسی مرد کا اپنی فیملی کے بعض ایسے مردوں یا ایسے دوستوں کی صحبت میں رہنا جو عورتوں کے بارے میں گھٹیا خیالات رکھتے ہوں اس میں اپنی عورت کے بارے میں شکوک و شبہات کا سبب بن سکتا ہے۔ بعض مرد اپنی خراب صحبت کی وجہ سے عورت کے بارے میں منفی سوچ اختیارکرلیتےہیں۔
کئی شکی مرد دراصل ذہنی مریض ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے دعا کرنی چاہیے کہ ان کا یہ ذہنی مرض دور ہو اور وہ مثبت سوچ کے حاملبنسکیں۔
سوچ کی اصلاح اور طرز فکر میں مثبت تبدیلی کے لیے مراقبہ سے مدد لی جاسکتی ہے۔ اس کام کے لیے مندرجہ ذیل مراقبہ کیا جاسکتا ہے۔
رات سونے سے پہلے سب کاموں سے فارغ ہو کر آرام دہ نشست میں بیٹھ جائیں اور آنکھیں بند کرکے یہ تصور کریں کہ آپ اپنے شوہر کے ساتھ کسی باغ میں ایک تالاب کے کنارے بیٹھی ہوئی ہیں۔ اب یہ تصور کریں کہ آپ کے شوہر کے دماغ میں ایک جگہ سیاہ رنگ کا گاڑھا سا مواد جما ہوا ہے۔ اب یہ تصور کریں کہ آپ صاف پانی سے اس مواد کو دھورہی ہیں۔ میل آہستہ آہستہ تہوں کی صورت میں اتررہا ہے۔
اس دوران آپ اللہ تعالیٰ کے اسماء یاھادی یارشید پڑھتے ہوئے یہ دعا کرتی رہیں کہ اس شخص کے ذہن کی کثافت دور ہو جائے اور اسے بھروسے اور اعتماد کی روشنی نصیب ہو۔ یہ مراقبہ اندازاً بارہ سے پندرہ منٹ تک جاریرکھیں۔
یہ عمل کم از کم اکیس روز تک متواتر کرتیرہیں۔
دن بھر اپنے شوہر کا تصور رکھتے ہوئے ان کے لیے رشد و ہدایت کی دعا کریں۔
شدید نظر بد
سوال: میرے بہنوئی کا ماربل کا کاروبار بہت اچھا چل رہا تھا۔ وہ معاشی طورپر کمزورکئی لوگوں کی مدد بھی کرتے تھے۔
تین سال پہلے میرے چھوٹے بھانجے نے قرآن حفظ کیا تو بہنوئی بہت خوش ہوئے اور انہوں نے بیٹے کے حفظ قرآن کی خوشی میں گھرمیں ایک بڑی تقریب کا اہتمام کیا۔ اس تقریب کے بعد آہستہ آہستہ بہنوئی صاحب کے کاروبار میں کمی آنے لگی ۔
بہنوئی بہت محنتی اورکام کرنے والے ہیں۔ انہوں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح سے کاروبار دوبارہ سنبھل جائے لیکن ان کی کوششیں باآورنہ ہوئیں۔
کاروباری مندی کی وجہ سے ہمارے بہنوئی بہت زیادہ مایوس ہوگئے ہیں۔ گھر میں بیوی بچوں سے کوئی بات نہیں کرتے۔ صبح سے شام تک ایک کمرے میں بیٹھے سوچتے رہتے ہیں۔
ایک صاحب نے بتایا ہے کہ بہنوئی کو شدید نظر لگ گئی ہے جس کی وجہ سے ان کےحالات خراب ہوگئے ہیں۔
جواب: ادوسروں کی کامیابی اورخوشیوں پر حسد کرنا ایک نہایت بُری صفت ہے۔ نظر بد اورحسد سے متاثرہ لوگوں کے معاشی معاملات خراب ہوسکتے ہیں،کیرئیر میں رکاوٹیں آسکتی ہیں،صحت بگڑ سکتی ہے،ازدواجی تعلقات میں دشواری ہوسکتی ہیں، گھریلومعاملات بگڑ سکتے ہیں اوردیگر کئی طرح کی خرابیوں کا سامنا ہوسکتاہے۔
اسلامی تعلیمات میں حسد نہ کرنے کی تاکید کی گئی ہیں اور اس خراب صفت کی وجہ سے ہونے والے شدید خسارے سے آگاہ بھی کیا گیا ہے۔
نبی کریم علیہ الصلواۃ والسلام کاارشاد ہے:
‘‘حسد کرنے سے بچو،یہ نیکیوں کو اس طرح کھاجاتاہے جیسے آگ سوکھی لکڑی یا خشکگھاسکو۔’’
ایک حاسد مرد یا عورت کو یہ سوچنا چاہیے کہ دوسروں کی خوشیوں یا کامیابیوں پر تنگ دلی دکھا کر صاحب نعمت کو کوئی بھی تکلیف پہنچے لیکن خود حاسد اپنے لیے کتنے بڑے خسارے کاخود ہی اہتمام کر رہا ہے۔
حسد کرنے والا اپنے منفی جذبات سے دوسروں کے لیے تکالیف کا سبب بننے کا خمیازہ اپنی نیکیوں سے محرومی کی شکل میں بھگتے گا۔
ایسا محسوس ہوتاہے کہ آپ کے بہنوئی بھی حسد سے متاثر ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ انہیں نظر بد اور حسد سے جلد نجات ملے اور ہر قسم کے شرسے ان کی حفاظت ہو۔آمین
اپنے بہنوئی سے کہیں کہ صبح اور شام اکیس اکیس مرتبہ سورہ الفرقان (25)کی آیت58 کاابتدائی حصہ :
وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ
اور بنی اسرائیل(17) آیت111،سات سات مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے اوپر دم کرلیں۔
رات سونے سے پہلے سات مرتبہ سورہ فلق ،سات مرتبہ سورہ الناس اورتین مرتبہ آیت الکرسی پڑھ کر پانی پر دم کرکے پئیں اوراپنے اوپر بھی دم کرلیں۔یہ دم کیا ہواپانی سب گھروالوں کوبھی پلائیں ۔
آپ کی بہن عشاء کی نماز کے بعد اکتالیس مرتبہ سورہ ہود(11)کی آیت نمبر6 ،گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کرروزگار میں برکت وترقی کی دعاکریں۔
یہ عمل تین ماہ تک جاری رکھیں۔
ناغہ کے دن شمارکرکے بعدمیں پورے کرلیں۔
بہن اوربہنوئی وضو بے وضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء
یاحفیظ ،یاسلام ،یاواسع ،یارازق
کاورد کرتے رہیں۔
حسب استطاعت صدقہ کردیں اورہر جمعرات کم ازکم تین مستحق افراد کو کھانا کھلا دیا کریں۔
رنگین مزاج شوہر
سوال: میری شادی کو پانچ سال ہوگئے ہیں۔ میر ی ایک بیٹی ہے۔میرے شوہر ایک پرائیویٹ ادارے میں اچھی پوسٹ پر کام کرتے ہیں۔اکثر رات کو دیر سے آتے ہیں۔
جب میں پوچھتی ہوں کہ آج دیر سے کیوں آئے ہیں توبزن میٹنگز یا بزنس ڈنر کا بہانہ کردیتےہیں۔ شوہر کی مصروفیت کی وجہ سےمیں اپنے میکے اوردیگر تقاریب میں بعض اوقات اکیلے ہی جاتی ہوں۔
میرے جاننے والوں نے بتایا ہے کہ انہوں نے میرے شوہرکو مختلف خواتین کے ساتھ ڈنر کرتے دیکھا ہے۔مجھے ان کی دفتری مصروفیات کا اندازہ ہے لیکن میں یہ بھی جانتی ہوں کہ میرے شوہر رنگین مزاج ہیں،اس لیے میں ان پر شککرتی ہوں ۔
میں چاہتی ہوں کہ میرے شوہر مجھے اور اپنی بیٹی کو ٹائم دیں اور غیر ضروری مصروفیات سے انہیں نجات مل جائے۔
جواب: رات تمام کاموں سے فارغ ہونے کے بعد باوضو ہوکرمصلے پر بیٹھ کرانیس مرتبہ سورہ لہب پڑھ کر اپنے شوہرکا تصورکرکے دم کردیں اوردعاکریں کہ انہیں آپ کے حقوق ٹھیک طرح ادا کرنے کی توفیق ملے ۔
یہ عمل کم ازکم ایک ماہ تک جاری رکھیں۔
مالک مکان جوان بیٹیوں کے سامنے بدتمیزی کرتا ہے!
سوال:میرے شوہر ایک دیہاڑی دار مزدور ہیں، وہ شہر کی ایک مارکیٹ میں سوزوکی چلاکر اپنی روزی روٹی کماتے ہیں۔ ہماری چار بیٹیاں ہیں اور ہم کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔
ہماری ساری عمر سفید پوشی کا بھرم رکھتے گزرگئی، گھر میں روکھی سوکھی روٹی ضرور کھائی لیکن زندگی میں کبھی ایسی نوبت نہ آنے دی کہ کوئی شخص ہمارے دروازے پر آکر کوئی مطالبہ کرتا لیکن گزشتہ دسمبر 2019 سے میرے شوہر کے کام میں اچانک کمی آنے لگی۔ مہینہ بھر کوئی مناسب کام نہیں لگا۔ اس بیچ تمام جمع پونجی گھر کے راشن اور دیگر روز مرہ سامان کی نذر ہوگئی ۔ ایسے میں ہم مکان کا کرایہ ادا نہ کرسکے اور ایک مہینہ گزر گیا، پہلی بار تو مالک مکان اگلے ماہ ڈبل کرایہ لینے کی تنبیہہ دے کر واپس لوٹ گیا، لیکن اگلے ماہ بھی حالات نارمل نہ ہوئے اور اس بار بھی ہم کرائے کے پیسے جمع نہ کرسکے۔ اس کے بعد کورونا وائرس کی وجہ سے مسائل آگئے۔
اب تو مالک مکان تقریباً روز ہی ہمارے دروازے پر نمودار ہوتا ہے اور میرے شوہر کو خوب باتیں سناتا ہے، وہ کہتا ہے کہ جلد از جلد گھر کا کرایہ ادا کردو ورنہ سامان اُٹھا کر گلی میں پھینک دوں گا۔ شوہر کے ساتھ گالی گلوچ اور جوان بیٹیوں کے ساتھ بدتمیزی کرتا ہے، ہم روز روز کی اس تذلیل سے بہت پریشان آگئے ہیں ، ان مصائب زدہ حالات میں کوئی ہمیں قرض دینے کو بھی تیار نہیں۔
جواب: عشاء کی نماز کے بعد 101 مرتبہ :
سورۂ حدید 57 کی آیت 24 میں سے :
فان اللہ ھو الغنی الحمید
گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اللہ سے اپنے لیے وسائل اور آسانیوں کی دعا کریں۔ کوشش کرتے رہیں انشاء اللہ مسائل حل ہوجائیں گے۔
یہ عمل نوے روز تک جاری رکھیں۔
وٹے سٹے کی شادی اور مشکلات
سوال: میری عمر پنتیس سال اور میرے بھائی کی عمر بتیس سال ہے۔ہمارا خاندان مختصر ہونے کی وجہ سے میری خاندان میں شادی نہ ہوسکی۔ باہر سے کئی ایک رشتے آئے لیکن باتنہیں بنی۔
تین سال پہلے میرا ایک رشتہ آیا لیکن انہوں نے یہ شرط رکھی کہ ہم آپ کی بیٹی لے رہے ہیں۔ آپ ہماری بیٹی لے لیں۔یہ بات سن کر والدہ پریشان ہوگئی۔انہوں نے بھائی کوبتایا تو بھائی نے میری خاطروہاں شادی کے لئے ہاں کردی ۔
چھ ماہ میں ہم دونوں بہن بھائی کی شادی ہوگئی۔بھابھی کی شروع ہی سے بھائی سے نہیں بنی۔ وہ بات بات پرلرتی رہتی ہیں۔ بھائی میری وجہ سے خاموش رہتے ہیں۔
تین ماہ پہلے بھابھی ہماری والدہ کو کسی بات پر برا بھلا کہہ رہی تھیں ۔بھائی نے سمجھایا تو وہ بھائی سے الجھ پڑیں۔ ان دونوں کے تعلقات بہت خراب ہوگئے تو بھائی نے بھا بھی کو طلاق دے دی۔ بھابھی اپنے گھر جاکر بیٹھ گئی۔ جب سے بھابھی میکے آئی ہے ہمارے گھر کا سکون بربادہوگیاہے۔
وہ روزانہ میرے میاں سے لڑتی ہے اورکہتی ہے کہ اس کے بھائی نے مجھے طلاق دی تم بھی اسے طلاق دو۔میرے میاں مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں۔میں اپنے سسرال والوں اور شوہر کا بہت خیال رکھتی ہوں۔ جب بھابھی نے یہ دیکھا کہ اس کا بھائی اس کی بات نہیں مان رہا ہے تو اس نے اپنی ماں کو ورغلانہ شروع کردیا ۔اب دونوں ماں بیٹی میرے شوہر کے پیچھے پڑ گئیں کہ اسے طلاق دےکر گھر بھیج دو۔
ٹیشن اورگھر کے ماحول کی وجہ سے میرے شوہر خاموش خاموش رہنے لگے ہیں۔مجھ سے زیادہ لگاؤ بھی ظاہر نہیں کرتے۔بس اپنے کام سے کام رکھنے لگے ہیں۔
برائے مہربانی کوئی وظیفہ بتائیں کہ میرا گھر برباد ہونے سے بچ جائے ۔
جواب: رات سونے سے پہلے 101مرتبہ سورہ الملک (67)کی پہلی دو آیات
گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنی ساس اورنند کے رویہ میں مثبت تبدیلی اور پرسکون زندگی کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضوردعاکریں۔
یہ عمل چالیس روز تک جاری رکھیں۔
حادثات در حادثات
سوال: اللہ کا شکر ہے کہ جس کی لوگ تمنا کرتے ہیں ہمیں وہ تمام نعمتیں میسر ہیں۔ والد صاحب کا بڑا بزنس ہے۔ رہنے کے لئے بڑا اور اچھا سا گھر ہے۔ کئی گاڑیاں ہیں۔ نوکر چاکر ہیں۔ میرے والد بہت شفیق اور محبت کرنے والے انسان ہیں۔ اُن کی کمپنی کا بڑا چھوٹا ہر ملازم اُنہیں اپنا بزرگ مانتا ہے اور اپنے ذاتی مسائل میں اُن کے مشورے پر عمل کرنا پسند کرتا ہے۔
ہمارے دیگر قریبی عزیز بھی معاشی طور پر خوش حال ہیں۔ اس سب کے ساتھ ایک عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے ہنستے بستے خاندان کے افراد کو وہ بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں جو عام طور پر شدید ذہنی دباؤ میں مبتلا افراد ہی میں دیکھنے میں آتی ہیں۔
میرے ماموں جو خاندان اور خاندان سے باہر بھی انتہائی ہنس مکھ خوش مزاج اور دوسروں کو ہنسانے والے مشہور تھے، محفل میں جن کے آجانے سے رونق آجاتی تھی۔ ان کی جسمانی صحت بھی دوسروں سے بہت اچھی تھی۔ اچانک اُن کے دماغ کی ایک رگ پھٹ گئی، خون اُن کی آنکھوں میں آگیا اور ایک آنکھ کی بینائی ضائع ہوگئی، پھر کچھ دن بعد اُن کے جسم کا ایک حصہ پیرالائز ہوگیا۔سال بھر اس تکلیف میں گزار کر وہ ہمیں روتا دھوتا چھوڑ گئے۔
کچھ عرصہ بعد میرے منجھلے بھائی کو ایک نفسیاتی عارضہ لاحق ہوگیا۔ زیادہ لوگوں میں اُن کی آواز بند ہوجاتی اور وہ ہکلانے لگتے، کہنا کچھ چاہتے اور کہہ کچھ جاتے۔
زیادہ تر اپنے کمرے میں بند رہنے لگے۔ آفس جانا بھی چھوڑ دیا۔ دس مہینے سے اُن کا علاج چل رہا ہے مگر کوئی خاص افاقہ نہیں ہوا۔
ہماری والدہ کا بلڈ پریشر اچانک بڑھ گیا اور ان کے چہرہ پر فالج کا حملہ ہوا۔ اس کے چند ماہ بعد ہماری ایک چھوٹی خالہ پر نفسیاتی دورے پڑنا شروع ہوگئے۔ابھی خالہ کا مسئلہ حل نہیں ہوا تھا کہ بڑی بھابھی کے ساتھ ایک عجیب مسئلہ ہوگیا۔شام ہوتے ہی بڑی بھابھی رونے بیٹھ جاتی ہیں۔ اُن سے ہم پوچھتے ہیں کہ کیا بات ہے وہ کہتی ہیں مجھے معلوم نہیں بس میرا دل چاہتا ہے کہ میں خوب زور زورسے روؤں۔
ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سب کیا ہے۔ ہمارے ملنے والوں کا کہنا ہے کہ ہم پر کسی نے جادوکردیا ہے۔
محترم وقار بھائی….! ہم آپ کی تحریریں پڑھتے ہیں۔ لوگوں کے مسائل کے تجزیہ اور ان کے حل کے لئے آپ کی اپروج کے ہم سب گھر والے مداح ہیں۔
اُمید ہے آپ نا صرف ان مسائل کا حل بتائیں گے بلکہ مسائل کے پس پردہ حقائق کی بھی پردہ کشائی کریں گے۔
جواب: اللہ تعالیٰ نے آپ کے خاندان کو خوش حالی اور معاشرہ میں عزت و احترام عطا فرمایا۔ اس پر اللہتعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیاجائےکم ہے۔
شکر کا ایک انداز تو یہ ہے کہ انسان اُٹھتے بیٹھتے شکر کے کلمات زبان سے ادا کرتا رہے۔ شکر کا ایک انداز یہ ہے کہ عملی طور پر شکر ادا کیا جائے۔ اس کے مختلف طریقے ہیں۔ اللہتعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لئے مادی جسم عطا کیا ہے۔ اس جسم کی مختلف ضروریات اور تقاضوں کا خیال رکھنا بھی شکر میں شامل ہے۔
کچھ عرصے سے آپ کے خاندان کے بعض افراد کو جسمانی یا نفسیاتی عوارض کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ میرے اندازے کے مطابق اس کے پیچھے جادو ٹونے یا اس قسم کے کسی دوسرے منفی عوامل کا دخل نہیں ہے۔ آپ کی والدہ اور ماموں کی اچانک شدید علالت کی وجہ میرے خیال میں آپ کے ننھیال میں ہائی بلڈپریشر اور قلب کے مرض کی موجودگی اور آپ لوگوں کا صحت کے بارے میں مناسب آگہی نہ ہونا ہے۔
اپنی صحت کے لیے عملی اقدامات مثلاً متوازن غذا لینا، مناسب پرہیز اور ورزش وغیرہ بھی شکر کے زمرہ میں ہی آئیں گے۔
جن لوگوں کے والدین یا دونوں میں سے کسی ایک کو ہائی بلڈپریشر، ذیابیطس یا قلب کا کوئی عارضہ ہو انہیں تیس سال کی عمر کے بعد سال میں کم از کم ایک بار اپنا بلڈ پریشر، شوگر اور کولیسٹرول ضرور چیک کراتےرہناچاہیے۔
آپ کے منجھلے بھائی، خالہ اور بھابھی کی کیفیات کسی جادو ٹونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کا سبب کسی وجہ سے ذہنی واعصابی دباؤ ہے۔ ان تینوں کو علیحدہ علیحدہ علاج اور دیگر تدابیر پر عمل کی ضرورت ہے۔
اگر چاہیں تو انہیں مطب میں بھجوادیں۔ انشاء اللہ بالمشافہِ ملاقات کے بعد علاج تجویز کردیا جائے گا۔
مرد ذات سے نفرت ہوگئی
سوال:ہم آٹھ بہن بھائی ہیں۔ پانچ بہنیں تین بھائی۔ ہمارا پہلا بھائی تین بہنوں کے بعد ہوا ۔
اس کی پیدائش سے پہلے یکے بعد دیگر تین بیٹیوں کی پیدائش پر ہماری ماں کوہمارے والد اورددھیال والوں کے طرف سے طعنے سننا اور ستم سہنا پڑتےتھے۔
ہمارے خاندان میں بیٹے کی پیدائش پربہت خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ مٹھائی بانٹی جاتی ہے اور اس کا عقیقہ بہت دھوم دھام سے کیا جاتاہے۔ بیٹی کی پیدائش پر عقیقہ کی دعوت تو دورکی بات خاندان میں مٹھائی تک نہیں بھجی جاتی ،بس صرف یہ اطلاع کردی جاتی ہے کہ فلاں کے ہاں بیٹیہوئیہے۔
ہمارے والد کو بھی اولاد نرینہ کی بہت چاہ تھی۔ ہماری ماں کے ہاں پہلی زچگی میں بیٹی ہوئی تو دادا دادی،پھوپھی توخوش نہیں ہوئے، ہمارے والد کامنہ بھی اتر گیا۔بیٹی جنم دینے پر ہماری ماں بھی خود کو قصوروار سمجھ کر اداس اور پریشانہوگئیتھیں۔
یکے دیگر بعد تین بیٹیاں جنم دینے کے بعد شوہر کی نظروں میں اورسسرال میں انہیں کیا مقام ملا اس کا مشاہدہ ہم اپنے بچپن سے کرتے آرہے ہیں۔ویسے ہماری والدہ کے لیے سسرالیوں کے طعنے اس لیے زیادہ تکلیف دہ نہ تھے کیونکہ ہمارے نانکے میں بھی ایسا ہی ہوتاہے۔
ہمارے خاندان میں بیوی کو ڈانٹنا ڈپٹنا توایک عام سی بات ہے۔ہم نے کئی بار اپنی ماں کو اپنے والد کے ہاتھوں بے رحمی سے پٹتے ہوئے دیکھا ہے۔یہ سب کچھ دیکھتے دیکھتے ہم بڑے ہوتے گئے۔
دوسال پہلے میری بڑی بہن کی شادی ہمارے ایک کزن کے ساتھ ہوگئی ۔منگنی سے شادی تک تو اس کا رویہ ہماری بہن کے ساتھ بہت اچھا تھا لیکن شادی کے چند ماہ بعد اس نے روایتی مردوں والاروپ دکھانا شروع کردیا۔ہماری بہن امید سے ہوئی تو اس نے اور اس کے سسرال والوں نے کہا کہ
دیکھو بھئی ….! بیٹا ہونا چاہیے ۔
بہن کی ساس نے سب کپڑے لڑکے والے بنائے لیکن…. ہماری بہن کے ہاں بیٹی ہوئی۔ بس وہ دن ہے اور آج کا دن ،ہماری بہن اپنی سسرال میں طرح طرح کی اذیتیں اورذلتیں سہہ رہی ہے۔
میں اپنے والد کا بہت احترام کرتی ہوں لیکن بیٹیاں جنم دینے پر اپنی والدہ کو اور اب اپنے بہنوئی کے ہاتھوں اپنی بہن کو ذلتیں سہتے دیکھ کر مجھے مرد ذات سے ہی نفرت ہونے لگی ہے۔
ہمارے خاندان میں لڑکیوں کو پڑھانے کا رواج نہیں تھا لیکن ہم بہنوں نے اپنی والدہ کی سپورٹ کی وجہ میٹرک اور انٹرتک تعلیم حاصلکرلی ہے۔
میرا بہنوئی بھی انٹر پاس ہے اور اپنے والد کے ساتھ زراعت کے سامان کی دکان پر بیٹھتا ہے لیکن تعلیم نے عورت کے بارے میں اس کی منفی اورجابرانہ سوچ پرکوئی اچھا اثر نہیں ڈالا۔
میری تائی میرا رشتہ مانگ رہی ہیں۔اپنے والداوربہنوئی کے منفی رویوں کی وجہ سے مجھے اپنی شادی کے ذکر سے بھی خوف آنے لگاہے۔
جواب: پیاری بیٹی….! اپنے اردگرد عورت ذات پرتشدد اوراذیت رسانی کے دیگر تکلیف دہ واقعات پرتمہارا دکھ ،اضطراب اورخوف قابل فہم ہے لیکن اس خوف سے مغلوب ہوکر تمہارا فیصلہ مناسب نہیں لگتا۔مشکل حالات ،ناموافق صورت حال ، مستقبل کے حوالے سے خوف کا مقابلہ عزم وحوصلے،بہتر تدبیر اورصبر و استقامت سے کیاجاناچاہیے۔
عورتوں کے بارے میں منفی رویے ،ان کا احترام نہ کرنا ،خواتین پر جسمانی وذہنی تشدد برصغیرپاکستان بھارت،بنگلہ دیش کے دیرینہ سماجی مسائل میں شامل ہیں۔ کروڑوں بہوؤں نے صرف شوہر کے ہاتھوں ہی نہیں بلکہ ساس اورنندوں کے ہاتھ ،زبان اور رویوں سے بھی مارپیٹ اذیت اور توہین کا سامنا کیا ہے۔
عورتوں کے ساتھ برا سلوک صرف مرد کی طرف سے ہی نہیں ہوا بلکہ خود عورت نے بھی عورت کے لیے تکالیف اوراذیتوں کے سامان کئے ہیں۔ان سب تکالیف اوراذیتوں کے ساتھ ساتھ خاندان میں نئے رشتے بھی ہوتے رہے۔ اولاد کے ذریعہ والدین کو خوشیاں اور ذمہ داریاں بھیملتیرہیں۔
تعلیمی اور شعوری سطح بلند ہوتی رہے تو ہمارے کئی تکلیف دہ رویے درست اورکئی سماجی مسائل حل ہونے لگیں گے۔
میرا مشورہ تویہ ہوگا کہ اپنا خوف اپنی والدہ کے ساتھ ، بڑی بہن کے ساتھ اورخاندان کی کسی بزرگ و ہمدرد خاتون کے ساتھ شیئر کرو اور ان کے مشوروں کوغور سے سنو۔
میری دعاہے کہ تمہاری ازدواجی زندگی بہت عزت واحترام کے ساتھ اور خوشیوں کے ساتھ بسرہو۔ آمین۔
رشتے آتے ہیں مگرطے نہیں ہوتے
سوال: میری چاربیٹیاں ہیں۔دوکی شادیاں ہوچکی ہیں اورچھوٹی دو بیٹیوں کے رشتوں کے لیے ہم دونوں میاں بیوی بہت پریشان ہیں۔
بیٹیوں کے رشتے تو کئی آئے لیکن بات نہیں بنی۔ لڑکے والے اپنی پسندیدگی کا اظہار بھی کرتے ہیں لیکن بعد میں کوئی جواب نہیں دیتے۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کسی نے بندش کروائی ہے۔
کوئی وظیفہ بتائیں کہ میری دونوں بیٹیاں جلدازجلد اپنے گھر ہوجائیں ۔بڑی بیٹی کی عمراڑتیس سال اور چھوٹی بیٹی کی عمربتیس سال ہوگئی ہے۔
جواب: عشاء کے چار فرض اور دو سنتیں ادا کرکے 101 مرتبہ سورہ القیامیہ (75)کی آیتنمبر39:
اکیس اکیس مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر نماز وتر ادا کریں۔ وتر کے بعد بیٹیوں کی اچھی جگہ شادی کے لیے دعا کریں۔
یہ عمل کم از کم نوے روز تک جاری رکھیں۔
بیٹیوں سے کہیں کہ چلتے پھرتے وضو بےوضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسم
یاوھاب
کاورد کرتیرہاکریں۔
بچیوں کی طرف سے حسب استطاعت صدقہ خیرات کردیا کریں۔
پیر صاحب تقدیر پڑھ کر بتاتے ہیں
سوال: میرا چھوٹا بھائی اور اس کی بیگم ایک پیر صاحب سے بیعت ہیں۔ ان کے ہاں ہر قمری مہینے کی پہلی جمعرات کو محفل سماع ہوتی ہے۔ محفل سماع کے بعد پیر صاحب کا وعظ ہوتا ہے۔ آخر میں دعا ہوتی ہے۔
میرا بھائی اور بھاوج فیملی میں خواہ کچھ بھی ہو جائے اس محفل میں پابندی سے شرکت کرتے ہیں۔ یہ دونوں اپنے سب کاموں میں بھی پیر صاحب سے اجازت طلب کرتے ہیں۔پیر صاحب ہاں کہہ دیں تو وہ کام کریں گے ناکردیں تو رک جائیں گے۔
میرے بھائی کو اس کے دفتر کی طرف سے ترقی کی آفر ہوئی مگر یہ ترقی دوسال کے لیے بیرون ملک پوسٹنگ کے ساتھ مشروط تھی۔ بھائی اوربھاوج اورہم سب گھر والے اس آفرپر بہت خوش ہوئے ۔بھائی نے حسب معمول اس آفرکا ذکر پیر صاحب سے کیا۔
پیر صاحب نے جواب میں کہا کہ
دیکھ لو بھائی….!دوسال کس نے دیکھے ہیں۔
پیر صاحب کی اس بات کا مطلب بھائی نے یہ لیا کہ ترقی کی یہ آفر قبول کرنا بھائی کے لیے مناسب نہیں ۔چنانچہ اس نے اپنی کمپنی کی آفر قبول نہیں کی ۔
بھائی کی جگہ اس سے جونیئر فرد کو یہ پوسٹ دے دی گئی۔اس واقعے کو تین سال گزرچکے ہیں۔ ہمارا بھائی ابھی تک اسی پوسٹ پر کام کررہاہے اور اس کاجونیر دوسال باہر گزار نے کے بعد پاکستان آکر اس سے بہتر پوزیشن پر فائز ہوگیا ہے۔
اس بھائی کی ایک بیٹی کو ڈاکٹر بننے کا جنون کی تک شوق تھا۔انٹر میں اس کے بہت اچھے مارکس آئے۔میڈیکل کے لیے انٹری ٹیسٹ کے بعد اسے اپنے شہر کے بجائے دوسرے شہر کے میڈیکل کالج میں داخلہ ملا۔بھائی نے اس با ت کا ذکر بھی اپنے پیر صاحب سے کیا ۔انہوں نے کہا
بیٹی کو چار سال کے لیے دوسرے شہربھجواؤگے….؟
پیر صاحب کی یہ بات سن کر بھائی نے اپنی بیٹی کو میڈیکل کالج میں داخلے کی اجازت نہیں دی۔ ہماری بھتیجی روروکر اپنے ماں باپ سے اجازت مانگتی رہی۔ہم لوگوں نے بھی اپنےبھائی بھابھی سے بیٹی کی بات ماننے کے لیے کہا لیکن انہوں نے کسی کی ایک نہ سنی۔
ہم سب اپنے بھائی سے پوچھتے ہیں کہ تمہارےپیر صاحب آخر کن بنیادوں پر اپنے مریدوں کی رہنمائی کرتے ہیں….؟
ہمارا بھائی جواب دیتاہے کہ پیر صاحب لوح ….پر لکھی ہوئی تقدیر پڑھتے ہیں اور اس تحریر سے اشاروں کنایوں میں اپنے مریدوں کو یا اپنے سائلین کوآگاہ کردیتے ہیں ۔ ہمارا بھائی یہ بھی کہتاہے کہ اس کے پیرصاحب روشن نظر اورروشن ضمیر ہستی ہیں۔اپنے سارے مریدوں کا سب حال دن رات ان کے سامنے رہتاہے۔
ہمارا خاندان بزرگان دین کا عقیدت مند ہے۔ جب بھی لاہور جانا ہو میں خود بھی حضرت داتا گنج بخش کے مزار پر حاضری دیتا ہوں لیکن پیر صاحب کے بارے میں بھائی کی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں۔۔
جواب: عقیدت سوسو رنگ اختیار کرسکتی ہے۔ اکثرمریدین کے لیے ان کے پیر صاحب دنیا بھر کی حکمت و دانش اورفہم وبصیرت کا مجموعہ ہوتے ہیں۔کئی مرید یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پیر صاحب آسمانوں کی خبریں جانتے ہیں یا کوئی غیبی آواز آکر انہیں سب کچھ بتادیتی ہے۔
کم تعلیم یافتہ یا شعوری طورپر کمزور افراد میں ایسے تصورات زیادہ عام ہیں ۔کئی لوگوں کے لیے تو یہ تصورات اعتقاد کا درجہ حاصل کرلیتے ہیں لیکن ایسے تصورات یا اعتقادات رکھنا صحیح نہیں ۔
سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات کےمطابق کسی بزرگ ہستی کے ہاتھ پر بیعت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان بزرگ سے قرآن و تعلیمات نبوی کی روشنی میں اصلاح باطن اورتذکیہ نفس کے لیے تربیت لی جائے۔مادی اورروحانی تقاضوں میں اعتدال وتوازن لانا سیکھا جائے۔مثبت اورتعمیری طرزفکر اختیار کرنے کی ٹرینگ لی جائے۔ اپنے باطن یا اپنی روح کی صلاحیتوں کو سمجھا جائے ۔
روحانی بزرگوں سے دنیا وی معاملات میں بھی مشورے اوررہنمائی لینا اچھی بات ہے لیکن اس حوالے سے یہ سوچ رکھنا درست نہیں کہ پیر صاحب کسی کی لوح قسمت پڑھ کر فیصلہ سنا رہے ہیں۔
نہیں ….یہ سوچ یا یہ خیال درست نہیں۔
آپ کے بھائی کوبھی ان کے پیر صاحب نے ان کے سوالات کے واضح جواب نہیں دیئے بلکہ گول مول سی بات کی کہ دوسال کس نے دیکھے ہیں یا یہ کہ بیٹی کوچار سال کے لیے دوسرے شہربھیجوگے….
پیر صاحب کے ان دونوں جملوں کا مطلب آپ کے بھائی اوربھابھی نے خود ہی اخذ کرلیا ۔آپ کے بھائی اوربھابھی اگر اپنے پیر صاحب سے ان جملوں کا مطلب واضح کرنے کی درخواست کردیتے تو شاید بھائی بھابھی کا اخذ کردہ مفہوم اور پیر صاحب کے مطلب کا فرق واضح ہوکر سامنے آجاتا۔بہر حال اب تو وقت گزر گیا۔
عام اورخاص سب ہی لوگوں کو زندگی کے مختلف معاملات میں دوسروں سے مشوروں کی ضرورت پڑتی رہتی ہیں۔مختلف معاملات پر مشورے دینے کے لیے کسی کا تصوف یا روحانی علوم سے وابستہ ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔ انسانی نفسیات اورمعاشرتی روایات و معاملات سے اچھی طرح باخبر کسی بھی شعبے کا عالم لوگوں کو ان کے کیرئیر یا دوسرے معاملات کے بارے میں مشورے دےسکتاہے۔
ماہرین نفسیات ،مائنڈ سائنس کے ماہرین، سیاسیات ،سماجیات ،خاندان اور دیگر شعبوں کے ماہرین یہ کام خالصتاً پیشہ وارانہ انداز میں مناسب فیس یا بغیر فیس کے سرانجام دیتے ہیں۔
ایسے مشوروں کے لیے کسی ماورائی علوم یا روحانی پرواز کی ضرورت نہیں ہوتی ۔
میری دعاہے کہ آپ کے بھائی بھابھی ضعیفالاعتقادی کے قید خانے سےباہر آجائیں۔
تصوف سے وابستگی کو تقدیر پڑھنے میں آسانی کا ذریعہ سمجھنے کے بجائے اسے اپنی شخصیت کی تعمیر اور روح کی صلاحیتوں کو سمجھنے کا ذریعہ بنائیں۔آمین
گھر میں پریشانیاں
سوال: میری شادی کو بارہ سال ہوگئے ہیں۔ شادی کے بعد ایک دن بھی سکون سے نہیں گزرا۔ میرے تین بچے ہیں۔
ایک سال پہلے میرے شوہر کا ایک حادثے میں انتقال ہوگیا تھا۔ شوہر کے انتقال کے بعد کئی لوگ بتا رہے ہیں کہ میرے مرحوم شوہر نے ان کے پیسے دینے تھے۔ کوئی کہتا ہے کہ ہمارا اتنا قرضہ دینا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ اتنا قرض دینا ہے۔ نہ دینے کی صورت میں لوگ دھمکیاں دے رہے ہیں۔
شوہر نے ایک مکان 120 گز کا بنایا تھا۔ جس کے تین پورشن کرکے کرائے پر دے دیے تھے۔ شوہر کے مرنے کے بعد کرائے دار نہ تو گھر کا کرایہ دے رہے ہیں اور نہ ہی گھر خالی کر رہے ہیں۔
شوہر نے کچھ لوگوں کو رقم ادھار دی تھی میں نے ان سے رقم کی واپسی کا کہا تو وہ کہتے ہیں کہ کیا ثبوت ہے کہ ہم نے تمہارے شوہر سے رقم ادھار لی ہے۔ ہمارے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے جو اس مشکل گھڑی میں ہماری مدد کرے۔
ہمارے محلے کی ایک خاتون نے آپ کے بارے میں بتایا ہے۔ اس امید سے خط لکھ رہی ہوں کہ آپ کی دعا سے اللہ تعالیٰ جلد از جلد ان مشکلات سے نجات عطا فرمائے۔
۔
جواب: عشاءکی نماز کے بعد 300 مرتبہ
یااللہ یا رحمٰن یا رحیم
اول آخر گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے مقاصد کے حصول کےلئےدعاکریں۔
یہ عمل کم از کم چالیس روز تک جاری رکھیں۔
ناغہ کے دن شمار کرکے بعد میں پورےکرلیں۔
چلتے پھرتے وضو بے وضو کثرت سے اسمِ الہٰی
یا رافع
کا ورد کرتی رہا کریں۔
حسب استطاعت صدقہ کرتی رہیں۔
شوہر کا غصہ کم کرنے کے لیے وظیفہ
سوال: میری شادی کو دس سال ہوگئے ہیں۔ ماشاء اللہ میرے تین بچے ہیں۔ ان دس برسوں کے دوران میرے تجربات اپنے شوہر کے ساتھ بہت تلخ رہے ہیں۔
میرے شوہر غصے کے تیز ہیں یہ بات مجھے پہلے ہی پتہ تھی مگر یہ اتنے تیز ہوں گے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ جب یہ غصے میں ہوتے ہیں تو اپنے ماں باپ تک کا لحاظ نہیں کرتے ، یہاں تک کے کبھی مہمانوں کے سامنے بھی مجھے اور بچوں کو مارنے پیٹنے پر اُتر آتے ہیں۔ جب یہ گھر لوٹتے ہیں تو بچے ان سے چھپتے پھرتے ہیں حالانکہ اپنے دوستوں کے ساتھ خوب ہنسی مذاق اور اچھی طرح سے بات کرتے ہیں۔
جواب: اپنے گھر میں غصہ دکھانا کئی مرد اپنی شان سمجھتے ہیں۔ ایسے مرد اس بات پر خوشی اور فخر کے ساتھ بتاتے ہیں کہ جب وہ گھر میں داخل ہوتے ہیں تو ان کے رعب کی وجہ سے گھر والی سہم جاتی ہے اور گھر میں خاموشی چھاجاتی ہے، شور مچاتے بچے چپ ہوکر اپنے کمروں میں دبکجاتےہیں۔
اسلامی تعلیمات شوہر یا والد کو اپنی بیوی اور بچوں کا احترام کرنے اور ان کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آنے کا درس دیتی ہیں۔ اپنے گھر والوں پر یا اپنے ماتحتوں پر بات بے بات غصہ دکھانا اور اُن کی عزت کا خیال نہ کرنا کوئی فخریا شان والی بات نہیں ہے بلکہ یہ نفس کی کمزوری کی علامت ہے۔
نبی ٔ رحمت ﷺ کی تعلیمات یہ ہیں کہ طاقت ور وہ نہیں جو اپنے مدمقابل پر قابو پالے بلکہ اصل طاقت ور وہ ہے جو اپنے غصے پر قابو پائے۔
نبی کریم ﷺ نے اہلِ خانہ کے ساتھ نرمی اور شفقت سے پیش آ نے کا حکم دیا ہے۔
آپ رات سونے سے پہلے101 مرتبہ سورۂ آلِعمران کی آیت 134 میں سے
والكَاظمين الغيظ والعافين عن النّاس وَاللّـٰه يحب المحسنين
گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے شوہر کا تصور کرکے دم کردیں اور دعا کریں کہ ان کے مزاج میں نرمی اور اعتدال آئے۔ انہیں غصے پر قابو پانے کی توفیق عطا ہو اور وہ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ شفقت اور احترام سےپیش آئیں۔
صبح اکتالیس مرتبہ اللہ تعالیٰ کے اسماء
یارؤف، یارحیم، یاودود، یا کریم
گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر پانی یا چائے پر دم کرکے اپنے شوہر کو پلادیں اور ان کے لیے دعاکریں۔
یہ عمل کم از کم چالیس روز تک جاری رکھیں۔
غربت اورشادیاں
سوال: میری تین بیٹیاں ہیں۔ بڑی بیٹی کی عمر پینتیس سال ،منجھلی بیٹی کی عمر بتیس سال اورچھوٹی بیٹی کی عمر تئیس سال ہے۔
میں ایک بیوہ خاتون ہوں۔ اپنی بیٹیوں کی شادی کی وجہ سے بہت پریشان ہوں۔میری بیٹیاں پڑھی لکھی اور امور خانہ داری میں ماہر ہیں۔ ہم معاشی طور پر کمزور ہیں شاید اس لیے بیٹیوں کے رشتوں میں مشکلات ہیں۔
کوئی وظیفہ بتائیں کہ میری بیٹیوں کے رشتوں میں غربت آڑے نہ آئے اور اچھے لوگوں میں ان کی شادیاں ہوجائیں۔
جواب: عشاء کی نماز کے بعد 101 مرتبہ سورہ احزاب (33)کی آیات نمبر70-71
گیارہ گیارہ بار درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنی بیٹیوں کی اچھی جگہ شادی کے لیے دعا کریں۔
یہ عمل کم ازکم چالیس روز تک جاریرکھیں۔
بیٹیوں سے کہیں کہ وہ وضو بےوضو چلتے پھرے کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسم
یاوھاب
کا ورد کرتی رہا کریں۔
کاروبار مستقل زوال کا شکار ہے-کرونا کے بعد ےو ایک روپے کی بھی آمدنی نہیں ہے۔والد صاحب کی طرف سے ملنے والی جائیداد پر بھی مقدمہ بازی شروع ہو گئی ہے۔
بچوں کو سکول سے اٹھا لیا ہے۔بڑی بہٹی شادی کے قابل ہے اور کوئی ذرائع نہیں ہیں۔
جادو نظر یا بندش تو نہیں ہے ؟
براہ مہربانی اجتماعی دعا میں بھی شامل کر لیں
شکریہ۔