روحانی ڈائجسٹ جون 2020ء سے انتخاب….
ابن عربی کسی معمولی شخصیت کا نام نہیں ہے ۔ یہ بارہویں صدی کی عبقری شخصیت اور عظیم فلسفی ، مفکر اور محقق ہیں ۔ عالم اسلام کے چند اہم دانشوران، مفکرین فلسفیوں اور صوفیاء میں سے ایک شیخ ِاکبر ابن عربی ہیں۔
تقریباً 800 کتابوں کے مصنف ابن عربی کو صوفیاء نے ‘‘شیخ الاکبر ’’ کا لقب دے رکھا ہے اور آج تک یہ لقب کسی اور کو نہیں مل سکا ہے۔ آپ کے نام کے ساتھ ال نہیں لگایا جاتا کیونکہ آپ سے ایک صدی قبل ابن العربی کے نام سے ایک علمی شخصیت امام غزالی کے شاگرد قاضی ابو بکر ابن العربی اشبلیہ ہسپانیہ میں مشہور رہے ہیں۔ دونوں شخصیات میں تمیز کرنے کی خاطر انہیں ابن العربی اور آپ کو ابنِ عربی لکھا جاتا ہے۔ آپ کو ابن العربی صرف آپ کے لقب محی الدین کے ساتھ ہی لکھا ۔
ابن عربی کا پورا نام شیخ اکبر محی الدین محمد بن علی بن محمد بن احمد ابن عربی الاندلسی الحاتمی الطائی ہے۔ آپ حاتم طائی کی نسل سے تھے جو اپنی سخاوت کے باعث نہ صرف عرب بلکہ تمام دنیا میں آج تک مشہور و معروف ہیں۔ بنی طے ایک قبیلہ تھا، حاتم اس قبیلے کا ایک سردار تھا جس کے دروازے سے کوئی سائل خالی نہیں جاتا تھا۔ ویسے بھی عربوں میں مہمان نوازی بہت مشہور ہے۔ ان روایات کو عرب جہاں بھی گئے اپنے ساتھ لے گئے۔ حاتم طائی کی اولاد میں سے ایک صوفی منش گھرانے نے اندلس میں آکر رہائش اختیار کر لی تھی ۔
ابن عربی کے دادا محمد اندلس کے قضاۃ اور علما میں سے تھے۔ ابن عربی کے والد علی بن محمد فقہ اور حدیث کے آئمہ اور زہد و تصوف کے بزرگوں میں سے تھے۔ والدہ انصار سے تعلق رکھتی تھیں ، ابن عربی کے ماموں شیخ یحییٰ بن یغان اور ابو مسلم الخولانی دمشق کے ایک مشہور ولی اللہ تھے، ابن عربی کا صوفی منش گھرانہ حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی ؒ سے بہت عقیدت رکھتا تھا۔
کتابِِ مناقبِ غوثیہ میں شیخ محمد صادق شیبانی قادری لکھتے ہیں کہ ابن عربی کے والد علی بن محمد لاولد تھے۔ حتّٰی کہ ان کی عمر پچاس سال کی ہوگئی۔ وہ حضرت غوث اعظم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دعا کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے اولاد عطا فرمائے۔ حضرت غوث نے حضورِ حق میں دعا فرمائی اور پھر بشارت دی کہ تیرے گھر ایک بچہ پیدا ہوگا، اس کا نام محمد اور لقب محی الدین رکھنا ہے۔ یہ بچّہ درجۂ عظیم اور رتبۂ عالی پائے گا۔
ابن عربی 17رمضان المبارک 560ھ ( بمطابق 1165ء)میں اندلس یعنی اسپین کے ایک شہر مرسیہ میں پیدا ہوئے۔ جس وقت آپ کی پیدائش ہوئی اندلس میں خانہ جنگی کا ماحول تھا اور کوئی مستحکم حکومت نہیں تھی ۔ ابن عربی کے والد مرسیہ کے ہسپانوی الاصل حاکم محمد بن سعید مرذنیش کے دربار سے متعلق تھے۔ ابن عربی ابھی آٹھ برس کے تھے کہ مرسیہ پر مؤحدون کے قبضہ کرلینے کے نتیجہ میں آپ کے خاندان کو وہاں سے ہجرت کرنا پڑی۔ آپ کے والد نے لشبونہ (حالیہ پرتگال کا دار الحکومت لزبن) میں پناہ لی۔ البتہ جلد ہی اشبیلیہ کے امیرابو یعقوب یوسف کے دربار میں آپ کو ایک معزز عہدہ کی پیشکش ہوئی اورآپ اپنے خاندان سمیت اشبیلیہ منتقل ہو گئے ، جہاں پر ابن عربی نے عام بچوں کی طرح تعلیم و تربیت پائی اور جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ دیا ۔
ابن عربی کی ابتدائی تعلیم حسب دستور گھر پر اور دیگر مراحل آپ مرسیہ اور لشبونہ میں طے کر چکے تھے۔ اشبیلیہ میں آپ کو اپنے وقت کے نامور عالموں کی مجالس میں بیٹھنے کی سعادت ملی۔ تصوف، فقہ اور دیگر مروجہ دینی اور دنیاوی تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ آپ کا بہت سا وقت صوفیاءکی خدمت میں گذرنے لگا۔ اشبیلیہ میں آپ 598ھ تک رہے۔ اس دوران آپ حصول علم میں ہمہ تن مصروف رہے اور کئی علوم مثلاً قرات، تفسیر، حدیث، فقہ، صرف و نحو، ریاضی، فلسفہ، نجوم، حکمت میں دسترس حاصل کی۔ آپ نے اپنے دور کے نامور اور اعلی مقام اساتذہ سے اکتساب فیض کیا۔
ادب، تاریخ، شاعری اور بعض دیگر علوم وفنون کا اکتساب ابوبکر محمد بن خلف بن صافی لخمی، ابوالقاسم عبدالرحمٰن بن غالب شراط قرطبی، ابوبکر محمد بن احمد بن ابی حمزہ سے کیا۔ حدیث اور دیگر دینی علوم کی تعلیم ابن زرقون انصاری، ابوحافظ ابن جد، ابوالولید حضرمی اور عبدالمنعم خزرجی وغیرہ سے حاصل کی۔ ابومحمد عبدالحق اشبیلی کے حلقۂ درس میں ایک عرصے تک شامل رہے۔ آپ کے مشائخ اور اساتذہ کی تعداد 70 تک پہنچتی ہے۔
ابن عربی بچپن ہی سے نیک اور صادق القول تھے اور بہت ذہین بھی تھے۔ ان کی ذہانت کا چرچا جلد ہی دور دور تک پھیل گیا تھا اور لوگ اکثر ان کو ملنے آنے لگے تھے۔
ابن عربی کی غیر معمولی صلاحیت اور علم کا چرچا اندلس میں پھیلنا شروع ہوا، تو مشہور فلاسفر اور قرطبہ کے قاضی القضاۃ ابن رشد نے ابن عربی کے والد جو ان کے دوست بھی تھےسے کہا کہ کسی وقت اپنے بیٹے کو میرے پاس بھیجیں۔ ابن شد ، ابن عربی سے مل کر بہت متاثر ہوئے۔
ابتدائی عمر میں ابن عربی کا رجحان تصوف وتزکیہ کی جانب نہیں تھا۔ لیکن اس درمیان ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے آپ کی پوری زندگی کوبدل دیا۔
آپ کے والد وزیر ریاست تھے اور آپ کے خاندان کا شمار ملک کے باوقار لوگوں میں ہوتا تھا ۔ اندلس کے صوبہ اشبیلہ کے حاکم کے یہاں شیخ ابن عربی کا اپنے والد کے ساتھ آنا جانا لگا رہتا تھا۔ حصول علم کے بعد آپ پہلے پہل ڈیڑھ دو سال کا عرصہ سرکاری ملازمت میں بطور فوجی (الجندی) اور پھر کاتب (سیکرٹری) کے عہدے پر فائز ہوئے ، جو دیوان سلطنت کا اہم عہدہ تھا ۔
ابھی نوجوانی کی دہلیز میں داخل ہی ہوئے تھے جس وقت آپ کی عمر بیس برس کی تھی آپ اشبیلیہ کے کسی امیر کی دعوت میں مدعو تھے، جہاں پر آپ کی طرح دوسرے روساءکے بیٹوں کو بلایا گیا تھا۔ کھانے کے بعد جب جام گردش کرنے لگا اور صراحی آپ تک پہنچی اور آپ نے جام کو ہاتھ میں لے کر پینا چاہ رہے تھے کہ اچانک ایک شخص کی آواز ان کو سنائی دیتی ہے ۔
‘‘نوجوان ….! تمہارا کام شراب پینا اور اس طرح کی مجلسوں میں شرکت کرنا نہیں ہے۔ ’’ اس واقعہ کے بعد ابن عربی نے جام ہاتھ سے پھینک دیا اور پریشانی کے عالم میں دعوت سے باہر نکل آئے ۔ دورازے پر آپ نے وزیر کے چرواہے کو دیکھا ، جس کا لباس مٹی سے اٹا ہوا تھا وہ بکریاں لیے چلا جارہا تھا۔ آپ اس کے ساتھ ہو لئے اور شہر سے باہر جاکر اپنا شاہانہ لباس اس چرواہے کو دیا اور اس کے بوسیدہ کپڑے پہن کر کئی گھنٹوں تک ویرانوں میں گھومتے رہے۔ دن اور رات ذکر الہٰی میں مصروف ہو گئے ، اس دوران ان کے دل کی کیفیت بدل چکی تھی۔ اپنی صوفی منش طبیعت کے ہوتے شاہی ماحول سے آپ کا دل اچاٹ ہونے لگا تو آپ نے ملازمت سے ہاتھ اٹھا لیا اور زہد و فقر کو اپناشعار بنایا۔
آپ کے مرشد شیخ یوسف نے آپ کی سمت نمائی میں اہم کردار ادا کیا۔
تصوف میں اندلس کے بزگوں اور صوفیوں سے علم حاصل کرنے کے بعد انہیں احساس ہواہے کہ انہیں مزید علم کی ضرورت ہے چنانچہ ابن عربی نے حصولِ علم کی خاطر دور دراز کے سفر کیے، کئی علاقوں میں درس و تدریس کا سلسلہ قائم کیا۔
ابن عربی نے 590ھ ( 1194ء)میں پہلی بار اندلس کی سر زمین سے باہر کا سفر کیا ۔ وہ اندلس سے نکل کرمیں شمالی افریقہ پہنچتے ہیں۔ یہاں آپ کو ایسے صوفیا کی صحبت میسر آئی جنہوں نے آپ کی روحانی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آپ نے تونس میں ابوالقاسم بن قسی نامی صوفی کی کتاب خلع النعلین کا درس لیا۔ بعد میں آپ نے اس کتاب کی شرح پر ایک مستقل رسالہ تصنیف کیا۔ اسی سفر کے دوران آپ کی ملاقات ابو محمد عبد العزیز بن ابو بکر القریشی المہدوی کے ساتھ ہوئی ، جن کی فرمائش پر آپ نے اندلس کے صوفیا کے تذکروں پر مشتمل اپنی کتاب روح القدس لکھی۔ اس کتاب میں پچپن صوفیا کا تعارف کرایا گیا ، جن کے ساتھ آپ کا رابطہ رہا یا جن کے ساتھ آپ کا شاگردگی کا رشتہ تھا۔
شمالی افریقہ میں شیخ ابن عربی نے ایک خانقاہ قائم کی ۔ دو سال کے عرصے میں وہاں ان کا ایک بڑا حلقہ بن گیا۔
اندلس کے ساتھ آپ کا رابطہ بحال تھا کیونکہ آپ کے والدین، قریبی عزیز و اقارب وہاں مستقل رہائش پذیر تھے۔ ابن عربی کو جلد ہی اندلس لوٹنا پڑا ، جس کا سبب آپ کے والد کی وفات تھی۔ اندلس واپسی کے راستے میں ابن عربی مریہ کے مقام پر ، جہاں پر ابن عریف (مصنف محاسن المجالس) نے صوفیوں کے لئے تربیتی دائرہ قائم کر رکھا تھا پہنچے ، یہاں آپ نے اپنی کتاب مواقع النجوم صرف گیارہ روز کے اندر تصنیف کی۔ یہاں سے آپ آبائی وطن مرسیہ پہنچے ۔ وہاں والد کی جائیداد کو فروخت کرکے آپ اشبلیہ پہنچے اور چند برس گھروالوں کے ساتھ رہے۔
آپ پر گھر بار کی ذمہ داری آن پڑی تھی ہرطرف سے ابن عربی پر زور ڈالا جانے لگا کہ وہ ریاست کی ملازمت اختیار کر لیں، مگر آپ نے انکار کر دیا۔ آپ اپنی والدہ اور دو بہنوں کے ساتھ فاس (مراکش ) آگئے اور وہیں اپنی بہنوں کی شادی کی ذمہ داری سے سبکدوش ہوئے۔ اور اپنی والدہ کی خدمت میں مصروف ہوگئے ۔ چند سال کے بعد ابن عربی کی والدہ بھی واصل بحق ہوگئی۔
اس کے بعد اپنی دیرینہ خواہش مکہ مکرمہ کی زیارت کے بارے میں سوچنے لگے ۔ والدہ اور بہنوں کی ذمہ داری کے سبب اس خواہش کو ملتوی کرتے رہے تھے ۔ 596ھ (1199 ء) میں ابن عربی نے اندلس سےمکہ مکرمہ کا سفر کیا وہ براستہ بجایہ(الجزائر)، تیونس، مصر، القدس (یروشلم) سے ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچے اور تقریباً دو سال وہاں قیام کیا ۔اس دوران وہاں کے علمی اور مذہبی حلقوں میں آپ کی وجہ سے ایک غیر معمولی ہلچل پیدا ہوئی۔ ابن عربی کی تصنیفی سرگرمیوں کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ آپ نے اس دوران میں اپنی کتاب روح القدس کے مسودے کو مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ تین دوسری کتابیں ( مشکوٰۃ الانوار، حلیۃ الابدال اور تاج الرسائل) تحریر کیں۔ انہوں نے ایک معرکۃ الآراء کتاب الفتوحات المکیہ تصنیف کی۔ یہ تصنیف آپ نے 599ھ میں لکھنا شروع کی۔ جس کی تکمیل28 برس بعد 627ھ میں ہوئی۔ یہ کتاب 37 جلدوں ، 560 ابواب پر مشتمل ہے۔ عبد الوہاب الشعرانی (المتوفی 973ھ) نے فتوحات مکیہ کا خلاصہ لواقع الانوار القدسیہ المنقاۃ من الفتوحات المکیہ کیا۔ اس خلاصہ کا خلاصہ بعنوان الکبریت الاحمر من علوم الشیخ الاکبر بھی ہوا۔
ابن عربیؒ نے اپنی مختصرزندگی میں آٹھ سو سے زائد کتابیں لکھ ڈالیں…. اس دوران آپ نے حجازسے لے کر مراکش،حلب اورایران عراق سے لے کرترکی،مصراور یروشلم تک سفر در سفر تلاش حق،ریاضت اور تبلیغ میں وقت گزارا۔
اس دور میں ذرائع ابلاغ بہت محدودہوتے تھے اور سفردشوارگزار تھے،ان کٹھن مسافتوں میں بھی ان کا پڑھنے لکھنے کا سلسلہ جاری رہا۔ بعض جگہ آپ کی کتابوں کی تعداد 651 دی گئی ہے ، جب کہ عثمان یحییٰ کی ببلیوگرافی میں آپ کی 846 کتابوں کے عنوان درج کئے گئے ہیں۔
آج ابنِ عربیؒ کی پانچ سو سے زائد کتابیں محفوظ حالت میں ہیں اور کتابوں بھی چندصفحات پرمشتمل کتابچے یاپھررسالے کی طرح نہیں تھیں صرف ایک الفتوحات المکیہ کے مجموعی صفحات کی تعدادپندرہ ہزار ہے۔
کہا جاتا ہے کہ آپ کے لکھنے کی رفتار فی روز تین جزو تھی۔ سفر یا حضر میں بھی تصنیف و تالیف کا کام جاری رہتا ۔ ﷽ابن عربی ، عربی نظم و نثر پر یکساں دسترس رکھتے تھے۔ جو بات نثر میں بھی لکھنا محال ہو اس کو نظم میں بےتکلف بیان کردیتے تھے۔ شعر کہنے کا ملکہ فطری تھا اور اکثر و بیشتر فی البدیہہ اشعار کہتے تھے۔ عربی کی لغت اور محاورہ پر ان کو غیر معمولی قدرت حاصل تھی۔ آپ کے پانچ شعری مجموعے ‘‘دیوان’’ بھی ہیں ۔
مشہور عرب مورخ ابن ذہبی لکھتے ہیں کہ ابن عربی کی جسارت، قدرت اور ذہانت کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ جب حمد و ثناء میں مشغول ہوتے تو ایسا معلوم ہوتا جیسے ان کو اپنا بھی ہوش نہیں ہے۔ عشق الٰہی میں سرشار تھے۔ ان میں کئی اچھی صفات موجود تھیں ۔ ان کی روحانی تجلیوں اور کیفیت کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ فکر کی گہرائی کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ انہیں بچپن سے ہی سچے خواب نظر آتے تھے۔
شیخ اکبر نہ صرف سچے خواب دیکھتے تھے بلکہ خوابوں کی حقیقت اور افادیت کے بھی قائل تھے۔ ان کا قول ہے کہ انسان جیسا ہوتا ہے، ویسے ہی اس کو خواب آتے ہیں۔ اگر کوئی خواب میں بھی حاضر دماغ رہنا سیکھ لےتو اس میں بےپناہ قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ خوابوں کے ضمن میں ان کے کئے واقعات ملتے ہیں۔ شیخ خود لکھتے میں لکھتے ہیں:
ایک دفعہ میں سخت بیمار ہوگیا ۔ زندگی کی امید نہ رہی۔ لوگ میری شدید بے ہوشی دیکھ کر گریہ و زاری کرنے لگے۔ انہیں محسوس ہوا کہ میں دارِفانی سے رخصت ہوچکا ہوں۔ میں نے اسی حالت میں خواب دیکھا کہ کچھ وحشت ناک چہرے والے میرے قریب آکر مجھے اذیت دینا چاہ رہے ہیں۔ قریب ہی ایک حسین وجمیل، عطر بیز شخص مجھے ان کے نرغے سے بچارہا ہے۔ بالآخر اس کے آگے وحشت ناک چہرے والے ماند پڑگئے اور مغلوب ہوگئے۔ ہوش میں آنے کے بعد میں نے دیکھا کہ والد گرامی سرہانے بیٹھے سوگوار آنکھوں اور اشک بار پلکوں کے ساتھ سورۂ یٰسین کی تلاوت کررہے ہیں۔ میں نے خواب میں جو کچھ دیکھا تھا، سب عرض کردیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ میری صحت وعافیت والد کی دعاؤں اور سورۂ یٰسین کی برکتکانتیجہ ہے۔
ابن عربی کی زوجہ مریم بنتِ محمد بن عبدون اندلس کے ایک امیر کی بیٹی تھی ۔ وہ ایک متقّی خاتون تھی، انہوں نے روحانیت کے کئی مدارج ابن عربی کی ہمراہی میں طے کئے، انہوں نے خواب میں ایک شخص کو دیکھا ، جسے انہوں نے کبھی زندگی میں نہ دیکھا تھا ، اس شخص نے پوچھا کہ کیا آپ الطریق (تصوف)پر چلنے کی خواہش مند ہیں ۔ آپ نے کہا : اللہ کی قسم میں ایسا کرنا چاہتی ہوں ، مگر نہیں جانتی کہ اسے کیسے اختیار کروں۔ اس شخص نے جواب دیا: پانچ باتوں سے: توکل، یقین، صبر، عزیمت اور صدق کے ساتھ ۔
ابن عربی نے اپنی اہلیہ کے خواب کو سن کر تصدیق کی کہ یہی صوفیاکا راستہ ہے۔
ابن عربی601ھ میں مکہ سے روانہ ہو کر بغداد، موصل (عراق)، یروشلم اور دوسرے شہروں میں سفر کیا۔ دمشق میں ان کی ملاقات سلطان صلاح الدین ایوبی کے بیٹے الملک الظاہر سے ہوئی ، جس نے آپ کی بہت قدر کی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے نواسے امیر حلب عبد العزیز کے یہاں بھی آپ کی بہت قدر ومنزلت ہوئی ۔
604ھ میں آپ ایک مرتبہ مکہ میں وارد ہوئے اور ایک سال تک وہاں پر قیام کیا ۔ اس کے بعد آپ ایشیاءکوچک چلے گئے ، جہاں سے607ھ میں قونیہ پہنچے ۔ قونیہ اس وقت سلجوق سلطنت کی راجدھانی تھی اور ایک عظیم شہر تھا۔ یہاں پر سلطان کیکاؤس نے آپ کا پرتپاک استقبال کیا ۔
قونیا میں آپ کی آمد مشرقی تصوف میں ایک انقلاب کا پیش خیمہ بنی۔ جس کا وسیلہ آپ کے شاگرد اور سوتیلے بیٹے صدر الدین قونوی بنے، جن کی ماں سے آپ کی شادی ہوئی۔ صدر الدین قونوی، جو آگے چل کر تصوف کے بزرگوں میں شمار ہوئے، مولانا جلال الدین رومی کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ آپ نے ابن عربی کی کتاب فصوص الحکم پر شرح لکھی۔
صدرالدین کی ظاہری و باطنی تربیت ابن عربی نے کی۔ وہ کئی زبانوں کے ماہر اور تمام علوم میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ ان کی علمی استعداد کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ جس زمانہ میں صدرالدین نے فتوحات مکیہ کا درس شروع کیا تو درس میں حاضر ہونے والے نوجوانوں میں حضرت مولانا جلال الدین رومی جیسا ہونہار طالب علم بھی موجود تھا ، جن کی شہرہ عالم تصنیف ‘‘مثنوی روم’’ لازوال شہرت کی حامل ہے ۔
سلجوق سلطان علاءالدین کیقباد آپ کے مریدوں میں تھے اور بہت عزت کرتے تھے ۔
کیا ابن عربی اور ارطغرل کی ملاقات ہوئی تھی….؟
ابن عربی اور اطغرل
ابن عربی نے قونیہ میں بھی قیام کیا۔ سلجوق سلطان علاء الدین ابن عربی کا معتقد تھا۔
اسی دور میں انا طولیہ کی سرزمین پر ترکوں کے ایک قبیلے کائی کا سردار ارطغرل (جس کے تیسرے بیٹے عثمان نے خلافت عثمانیہ قائم کی) اپنے قبیلے کے لیے ایک محفوظ اور معاشی لحاظ سے فائدہ مند مقام پر مستقل قیام کے لیے جدوجہد میں مصروف تھا۔ ابن عربی کا سال وفات 1240 اور عثمان کے والد ارطغرل کا سال وفات 1280 ہے۔
تاریخی لحاظ سے یہ ممکن ہے کہ ابن عربی اور ارطغرل کے درمیان ملاقاتیں رہی ہوں اور اطغرل نے ابنعربی سے رہنمائی اور ان کی دعائیں لی ہوں۔
1210 کے بعد کا یہ وہ زمانہ ہے جس میں شیخ ابن عربی قونیہ اور ایشیاء کوچک میں تصوف کی فکر وفلسفہ کو عام کررہے تھے ۔ اس دوران شیخ ابن عربی کا دمشق ،حلب ، موصل، بغداد ، مکہ اور یروشلم مستقل آنا جانا لگا ہوا تھا ۔
ابن عربی جس زمانے میں ایشیائے کوچک و قونیہ میں محو سفر تھے اسی زمانے میں اناطولیہ کی سرزمین پر قائی قبیلہ کا سردار ارطغرل بھی صلیبیوں اور منگولوں سے لڑرہاتھا۔ ابن عربی اور ارطغرل غازی کا زمانہ ایک ہے۔ اسی بنیاد پر ممکن ہے کہ ابن عربی اور ارطغرل کی ملاقات رہی ہو۔
اس دوران آپ کے تعلقات صلاح الدین ایوبی کے بیٹے الملک الظاہر کے ساتھ ، جو حلب کا حاکم تھا ، دوستانہ تھے ۔ ایک واقعہ سے ، جس میں آپ اسے ایک شخص کی سزائے موت کو معاف کرنے کی سفارش کرتے ہیں، پتہ چلتا ہے کہ حلب کا حاکم ابن عربی کی کس قدر عزت کرتا تھا ۔
620ھ میں آپ نے دمشق کو اپنا وطن بنایا۔ دمشق کے قاضی القفاۃ شمس الدین احمد بھی ابن عربی کی شخصیت پر پروانہ وار جانثار تھے۔ انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی ابن عربی سے کردی تھی۔
قیام دمشق کے دوران ابن عربی درس و تدریش اور تصنیف میں مصروف رہتے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق وہ روزانہ ایک سو صفحات لکھتے تھے۔ ابن عربی کی تصنیف کردہ کئی کتابیں حوادث کی نذر ہوگئیں ۔ مندرجہ ذیل کتابیں کتب خانوں میں مل سکتی ہیں۔ فتوحات مکہ چار جلدیں، نصوص الحکم، شجرۃ الکون، مطالع انوار الہیہ، مشاہدہ اسرار، حلیہ ابدال، افاد مطالعہ جعفر، تفسیر صغیر، کتاب الاخلاق، محاضرۃ الابرار، الجلاہ امر محکم، مواقع الجنوم، المعارف الیہ عقدہ محضر، کتاب الازل، مراتب وجود، نقش القصوص، کتاب الہود، تاج الرسائل، عنقا العقرب اور کئی ایک کتب وغیرہ۔ فتوحات مکیہ اور نصوص الحکم یہ دونوں کتابیں ہر دور میں اولیاء اللہ و صوفیائے کرام کے درس و تدریس میں رہی ہیں ۔
حضرت محی الدین عربی غیر معمولی صلاحیتیں اور خوبیاں رکھتے تھے۔ وہ اپنے زمانے کے بہت بڑے عالم اور کیفیت ظاہری و باطنی کے حامل تھے۔ شیخ کے طرز تحریر سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں میں غلط فہمیاں ہیں۔ بعض نادان یورپ زدہ ابن عربی کے فلسفے یا حکمت کو افلاطون کا فلسفہ سمجھتے ہیں مگر ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ تمام کتب جنید البغدادیؒ، بایزید بسطامیؒ، سہیل تشتری اور بزرگان اسلام کے اقوال، آیات قرآن مجید اور احادیث شریف کے حوالوں کے ساتھ لکھی گئی ہیں۔ ابن عربی کی کتب میں مغربی فلسفہ کا کہیں ذکرنہیں ہے۔
حضرت ابن عربی تاریخ اسلام میں ایک ایسے منفرد مصنف ہیں جن کی مخالفت اور موافقت میں بڑے بڑے لوگوں نے صدیوں سے حصہ لیا اور آج بھی ان کی تصنیفات معرض بحث ہیں۔ شیخ نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کی مخالفت کی پرواہ نہ کی اور نہ ہی کسی سے مناظرہ کیا ہے بلکہ خاموشی اور متانت سے لوگوں کی باتوں کو سنا اور اپنا علمی کامجاری رکھا۔
ہی ابن عربی نے دمشق میں 22 ربیع الثانی 638ھ مطابق 1240ء کو وفات پائی ۔ آپ کا مقبرہ دمشق، ملک شام کے شمال میں جبل قاسیون کے پہلو محلہ صالحیہ میں ہے ۔ اس جگہ کو اب محلہ ابن عربی بھی کہا جاتا ہے۔
شیخِ اکبر کی وفات کے تقریباً نصف صدی بعد ان کی تصانیف مشرقی ممالک میں گردش کرنے لگ گئی تھیں، عبدالوہاب شعرانی جیسے جید عالم نے ابن عربی پر ابتدا ئی کام کر کے آنے والوں کے لئے راستہ ہموار کیا۔ مغربی ممالک میں ابن عربی کے کثیرالابعاد افکار کا موازنہ کیا گیا۔ تیرھویں صدی عیسوی میں جرمنی میں ابن عربی پر سنجیدہ کام شروع ہو گیا تھا، لیکن مغرب کے د یگر علاقوں کو یہ علمی خزانہ بہت بعد میں نظر آنا شروع ہوا،ا لبتہ گزشتہ پچاس ساٹھ برسوں میں مغرب کے دیدہ ور مستشرقین او ر مشرقی علما و حکما ابن عربی کی طرف زیادہ متوجہ ہوئے اور اُ ن کی سحرانگیز شخصیت نیز افکارونظریات پر تحقیق و تنقید کے مطالعات پیش کئے۔ مغربی مفکرین نے انسان اور کائنات کے باہمی ربط ،مابعدالطبیعیاتی اور الہٰیاتی مسائل کی تعبیر و توضیح ، فلکیات ، فطری سائنس کے کئی نظریات ابن عربی کے فلسفے سے اخذ کیے۔
ابنِ عربی کے مطابق تکوینیات خدا کی پہچان کا علم ہے- کائنات خدا کی صفات کا مظہر ہے-
ابنِ عربی کا نظریہ علم مروجہ فلسفیانہ روایات سے الگ خواص کا حامل ہے-
آپ نے علم کی اخلاقی و عملی جہات پر زور دیا- ابنِ عربی کے لیے علم لامحدود وسعت کا مالک ہے- آپ کے خیال میں کوئی انسان علم کی آخری منزل تک نہیں پہنچ سکتا اور بہتری کی گنجائش ہمیشہ باقی رہتی ہے-ابن عربی کا قول ہے کہ انسان علم کا حصول بنیادی طور پر دو طریقوں سے کرتا ہے- ایک اپنے وجدان سے اور دوسرا حواسِ خمسہ یا غوروفکر سے-
ابنِ عربی اسلامی فکر کا عظیم سرمایہ ہیں،اُن کی علمی وراثت کی حفاظت اور تصنیفی قدروقیمت کا تعین کرنے کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
روحانی ڈائجسٹ جون 2020ء سے انتخاب….