برصغیر پاک و ہند کے مشہور صوفی بزرگ سرائیکی کے عظیم صوفی شاعر خواجہ غلام فرید کا کلام دنیا بھر میں انتہائی مقبول ہے ۔
خواجہ غُلام فرید کوریجو 26 ذیقعد 1261ھ بمطابق 1843 ء کو چاچڑان (رحیم یارخان) میں پیدا ہوئے، آپ کاسلسلہ نسب حضرت عمر فاروق ؓ سے جا ملتا ہے ۔ آپ کے جدامجد سلسلہ چشتیہ کے بزرگ خواجہ نور محمد مہاروی کے خلیفہ تھے ۔ آپ کے والد کا نام حضرت خواجہ خدا بخش عرف محبوب الہی تھا۔ آپ نےآٹھ سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کیا اسی دوران آپ کے والدماجد کا وصال ہو گیا۔ والد کے انتقال کے بعد خواجہ غلام فرید کے بڑے بھائی خواجہ غلام فخر الدین سے باطنی علوم حاصل کرنے کے بعد تیرہ برس کی عمر میں اپنے بڑے بھائی کے مرید ہوئے ۔ اٹھائیس برس کی عمر میں آپ کے بھائی اور مرشد حضرت خواجہ فخر جہاں کے انتقال کے بعد آپ کو سجادہ بنایا گیا ۔
آپ نے علوم باطنی کے علاوہ علومِ ظاہری کا درس بھی جاری رکھا، خاص طور پر حدیث شریف اور تصوف کی کتب کا درس ہمیشہ جاری رہتا ۔ آپ کے درس ِتوحید و ہدایت سے ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد مستفید ہوئے اور متعدد حضرات منازل سلوک طے کر کے صاحبِ کمال ہوئے۔ آپ کی جو دو سخا مثالی تھی ،غرباء و مساکین او بہت سے یتیم اور بیوہ عورتیں آپ کے زیر سایہ خوشحالی سے زندگی گزارتے ۔
کچھ برس بعد دل بے اختیار خلوت و گوشہ نشینی کی طرف مائل ہوگیا اور کم و بیش اٹھارہ برس تک آپ روہی (چولستان )کے بیابانوں میں رہے اور کافیاں کہتے رہتے۔
خواجہ غلام فرید سرائیکی زبان کے ملک الشعراء تھے۔آپ کے وجد آفریں کلام میں بلاکا سوز ہے ۔ عوام و خواص کے لئے کیف و سرور کا خزینہ اور عشق و عرفان کا سر چشمہ ہیں۔ خواجہ فرید کی کافیوں میں انسانی حوالوں کے ساتھ عشق حقیقی کے تذکرے جا بجا ملتے ہیں، آپ کا کلام ہررنگ ونسل،عوم وخواص میں مشہور ہوا ہے۔ جن میں مشہور کافی ‘‘میڈا عشق وی توں ، میڈا یار وی توں’’ آج بھی زبان زد عام ہے۔ انہی لئے ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال نے کہا تھا:
‘‘جس قوم میں خواجہ فرید اور اس کی شاعری موجود ہے ، اس قوم میں عشق و محبت کا موجود نہ ہونا تعجب انگیز ہے’’۔
کلامِ خواجہ غلام فریدؒ
اے حسن حقیقی نور ازل
تینوں واجب تے امکان کہوں
تینوں خالق ذات قدیم کہوں
تینوں حادث خلق جہان کہوں
تینوں مطلق محض وجود کہوں
تینوں علمیہ اعیان کہوں
ارواح نفوس عقول مثال
اشباح عیان نہان کہوں
تینوں عین حقیقت ماہیت
تینوں عرض صفت تے شان کہوں
انواع کہوں اوضاع کہوں
اطوار کہوں اوزان کہوں
تینوں عرش کہوں افلاک کہوں
تینوں ناز نعیم جنان کہوں
تینوں بادل برکھا گاج کہوں
تینوں بجلی تے باران کہوں
تینوں آب کہوں تے خاک کہوں
تینوں باد کہوں نیران کہوں
تینوں ہر دل دا دلدار کہوں
تینوں احمدؐ عالی شان کہوں
تینوں شاہد ملک حجاز کہوں
تینوں باعث کون مکان کہوں
تینوں حسن تے ہار سنگار کہوں
تینوں عشوہ غمزہ آن کہوں
تینون عشق کہوں تینوں علم کہوں
تینوں وہم یقین گمان کہوں
تینون حسن قوی ادراک کہوں
تینوں ذوق کہوں وجدان کہوں
تینوں سکر کہوں سکران کہوں
تینوں حیرت تے حیران کہوں
تسلیم کہوں تلوین کہوں
تمکین کہوں عرفان کہوں
بے رنگ کہوں بے مشل کہوں
بے صورت ہر ہر آن کہوں
سبوح کہوں قدوس کہوں
رحمان کہون سبحان کہوں
حضرت خواجہ غلام فرید سرائیکی، فارسی، عربی، اردو، پوربی ، سندھی اور ہندی زبانوں میں اظہار خیال کیا ہے۔حضرت خواجہ غلام فرید کو ہفت زبان صوفی شاعر بھی کہا جاتا ہے۔آپ کے سرائیکی دیوان میں 272 کافیاں ہیں- آپ نے کافی کی صنف میں ایسی باکمال شاعری کی ہے کہ اس کا شمار ادب کے بڑے اثاثوں میں ہوتا ہے۔ سرائیکی شاعری کو آپ بہت اعلیٰ مقام پر آپ چھوڑ کے گئے تھے۔ لطیف احساسات،جذبات اوراس میں وجدانی کیفیات کواس طرح ملادیناکہ شیروشکر ہوجائیں،خواجہ کی شاعری کاادنیٰ کمال ہے۔اکثر کتب میں ہے کہ آپ علم موسیقی میں خاصادرک رکھتے تھے۔ آپ کو 39 راگ،راگنیوں پر عبورتھا۔ آپ نے ان تمام راگنیوں میں کافیاں کہی ہیں۔
حضرت خواجہ غلام فریدؒ نے 7 ربیع الثانی 1319ھ بمطابق جولائی 1901ء کو 58 برس کی عمر وفات پائی ۔ آپ کا مزار کوٹ مٹھن (راجن پور؛ڈیرہ غازی خان ڈویژن ) میں ہے۔جہاں آپ کا یومِ وصال نہایت عزت و احترام سے منایا جاتا ہے۔
یہ مضمون روحانی ڈائجسٹ دسمبر 2018ء صفحہ 30 پر شایع ہوا تھا، روحانی ڈائجسٹ کے اس شمارے کو آن لائن پڑھنے کے لیے روحانی ڈائجسٹ آن لائن ایپ انسٹال کریں اور اس شمارے کا مطالعہ مفت کریں،