Notice: Function WP_Scripts::localize was called incorrectly. The $l10n parameter must be an array. To pass arbitrary data to scripts, use the wp_add_inline_script() function instead. براہ مہربانی، مزید معلومات کے لیے WordPress میں ڈی بگنگ پڑھیے۔ (یہ پیغام ورژن 5.7.0 میں شامل کر دیا گیا۔) in /home/zhzs30majasl/public_html/wp-includes/functions.php on line 6078
اجنبی بیرسٹر – روحانی ڈائجسٹـ
بدھ , 11 دسمبر 2024

Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu
Roohani Digest Online APP
Roohani Digest Online APP

اجنبی بیرسٹر

ہندوستان کے مرکز مہاراشٹر کے شہر ناگپور میں ایک ایسی ہستی نے جنم لیا جسے مسلمان ہی نہیں بلکہ تمام اقوام کے لوگ اپنا بزرگ مانتے ہیں۔ خود ناگپور کا مہاراجہ جو مرہٹہ خاندان سے تھا، اس ہستی کا بہت بڑا معتقد ہوا۔ اس عظیم روحانی ہستی کو دنیا بھر میں حضرت باباتاج الدین اولیا ؒ کے نام سے یاد کیاجاتاہے ۔ برصغیر پاک و ہند کے مشہور بزرگ، غمزدہ و بے نوا طبقہ کے دکھوں کا درماں ، شہنشاہ ہفت اقلیم حضرت بابا تا ج الدین ناگپوری کی زندگی کے ایک گوشہ کا احوال

گھاس پھونس کی بنی، گنبد نما چھت والی جھونپڑی کے داخلی راستے کے بائیں جانب مونجھ کی چارپائی بچھی تھی، جس کا چوکھٹا بڑے بڑے بے ڈول ڈنڈوں سے بنا ہوا تھا۔ چارپائی پر تہمند سمیٹے ، پگڑی باندھے آلتی پالتی مار کر بیٹھے سانولی رنگت کے موٹے سے گول مٹول شخص کو جھونپڑی کے عقب میں اُگے برگد کے دیو ہیکل درخت کی ٹھنڈی چھاؤں نے راحت کا سامان میسر کر رکھا تھا ….
چارپائی سے دس پندرہ فٹ کے فاصلے پر بنے مٹی کے چولہے کے پاس ‘‘تندیب’’ نہایت پریشان و مضطرب بیٹھی تھی۔ دھوپ کی تمازت اب کافی بڑھ چکی تھی، لیکن برگد کے گھنی چھاؤں نے جھونپڑی اور اس کے مکینوں کو اپنی آغوش میں لے کر سورج کی حدت سے بچا رکھا تھا۔ چارپائی پر بیٹھے شخص کے چہرے سے بھی گہرے غم و اندوہ کے آثار ہویدا تھے۔ بجھے چولہے پر دھری خالی سیاہ کالی دیگچی کا ڈھکن زمین پر الٹا پڑا تھا، جس پر ابلے ہوئے سوکھے چاولوں کو ایک چڑیا اکھیڑنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ تندیب جو گھٹنوں میں سر دابے عمیق سوچ میں مستغرق چولہے کی باگر میں پڑی مدتوں سے ٹھنڈی ہو جانے والی راکھ میں انگلیاں پھیر رہی تھی۔ اچانک گردن گھما کر چارپائی پر بیٹھے ہوئے شخص کو مخاطب کرکے بولی۔
‘‘ رامن! ایک کام کرو …. ہمارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ ہمیں ہماری زمین واپس مل سکتی ہے’’۔
تندیب کی آنکھوں میں جہاں چند گھڑیاں پہلے نا امیدی و یاسیت کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ اب امید و یقین کے دئیے جگمگانے لگے تھے۔
‘‘کس طرح ؟ …. کیسے ؟ …. کیا تیرے ہاتھ میں الہ دین کا چراغ آگیا ہے؟ ’’
چارپائی پر بیٹھے رامن نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
‘‘ہاں …. ہاں …. الہ دین کا چراغ نہیں بلکہ جگمگاتا سورج ہیں ۔جس سے سب کی امیدیں بر آتی ہیں۔ خوشیو ں کے دئیے دمکنے لگتے ہیں ’’۔
یہ کہتے ہوئے تندیب کے چہرے پر شادمانی و سرشاری اُبھر آئی ۔
‘‘ پہلیاں نہ بجھوا …. سیدھی بات بتا …. تو کیا سمجھتی ہے کہ ساہوکار ہماری رہن والی زمین واپس کر دے گا؟؟…. کسی صورت بھی نہیں کرے گا۔ اس نے ڈی سی کے ہاں زمین کی ملکیت کی نالش کر رکھی ہے …. ہم غریب، بے آسر ا و بے سہارا لوگ کیسے مقدمہ لڑ سکتے ہیں …. جس کی لاٹھی اس کی بھینس …. زبردست کا ٹھینگا سر پر …. زبردست کے آگے پیش نہیں چلتی …. افسوس …. ہماری زمین بھی گئی ، بیل بھی گئے…. ہمارے پلے تو ککھ نہ رہا …. بری طرح لٹ گئے ہم ۔ بھلا جس کے پاس اپنی زمین نہ ہو، مویشی نہ ہوں ، بھینس نہ ہو، بیلو ں کی جوڑی نہ ہو، اس شخص کی زندگی بھی کوئی زندگی ہوتی ہے…..؟ ؟ ’’
چارپائی پر بیٹھے رامن نے الجھن و پچھتاوے کے عالم میں گھٹنوں پر اپنے دونوں ہاتھ مار کر روہانسیصورت بنا کرکہا۔
‘‘ ارے …. ارے …. میری سن …. پریشان نہ ہو…. ہمارے ہاں جلد ہی لکشمی ڈیرے ڈالنے والی ہے …. ہمارے نصیب جاگنے والے ہیں …. پھر بھلے دن آئیں گے …. ہمارے پنڈ میں اوتار آئے ہیں ….میں بھی ان کے چرنوں کو چھوکرآئی ہوں ۔
وہ کنویں کے پاس جو آمو ں کے پیڑ ہیں …. وہاں کسی نہ کسی پیڑ کے نیچے دھونی رما کر بیٹھے رہتے ہیں …. تو ان کے پاس اپنی فریاد لے کر جا ۔ ‘‘ہماری گروی زمین ہمیں واپس مل جائے گی’’۔
‘‘ آخر وہ ہیں کون؟ ؟ ….’’ رامن نے چارپائی سے اٹھتے ہوئے نہایت متخیر لہجے میں تندیب سےپوچھا۔
‘‘با با تاج الدین ’’۔ تندیب سرشاری سے بولی۔
‘‘ کمال کرتی ہے تو …. وہ تو دوسرے دھرم کے ہیں ۔ ان کے پاس میں کیسے چلا جاؤں ؟؟؟’’۔
‘‘ وہ مسلمانو ں کے دھرم کے ہیں ، تو پھر کیا ہے؟ …. مرہٹہ راجہ جی نے بھی تو انہیں اپنے محل میں ٹھہرایا رہا …. مہاراجہ جی روزانہ خود ان کی قدمبوسی کرتے تھے …. کیا راجہ جی کا دھرم بھشٹ ہو گیا؟؟ …. تو ان چکروں میں نہ پڑ …. میری سن ! …. اور ابھی سے جا …. وہ کسی آم کے پیڑ کے نیچے ہی بیٹھے ہوں گے …. بس اس وقت تک ان کے پاس سے نہ اٹھنا، جب تک ہماری رہن شدہ زمین ہمیں مل نہیں جاتی ….’’
کافی وقت رامن اور تندیب کے مابین تکرار ہوتی رہی۔ رامن کے نزدیک تندیب کی باتیں فضول تھیں …. وہ نامی گرامی سادھوؤں کے پاس جاچکاتھا۔ مگرکہیں سے بھی کچھ حاصل نہ ہوا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ ساہوکاروں کو تو سادھوؤں اورپنڈتوں کی تائید و حمایت بھی حاصل تھی۔ صرف رامن جیسے لوگ ہی زمین پر بوجھ تھے ، جنہیں دھرم کے علمبرداروں کے بقول بھگوان نے بھی ملیچھ بنادیا تھا ….
تاسف، غم، محرومی ،بے بسی ، بے بضاعتی اوربے توقیری نے رامن کو ریزہ ریزہ کر دیا تھا اور وہ اندر سے ٹوٹ کر بکھر چکا تھا۔ تاہم آخری کوشش کے طور پر اس نے تندیب کے اصرار پر حضرت بابا تاج الدین ناگپوریؒ کی خدمت میں حاضر ہونےکافیصلہ کر لیا۔
بابا صاحب کو تلاش کرتے کرتے رامن بہت تھک چکا تھا۔ غضب کی گرمی میں اس کا لباس پسینے سے بھیگ گیا تھا۔ بابا تا ج الدینؒ کا کوئی ایک ٹھکانہ نہیں تھا …. و ہ کبھی ایک درخت کے نیچے ہوتے تھے اور کبھی دوسرے درخت کے نیچے …. مسلمان فقیروں کاکچھ پتہ نہیں چلتا تھا، جدھر جی چاہا نکل گئے۔ وہ چاشت کے وقت گھر سے نکلا تھا اور اب دوپہرڈھل چکی تھی …. سورج آگ برسا رہا تھا اور را من کے دل میں بھی آگ بھڑک اٹھی تھی، جس کے الاؤ لمحہ بہ لمحہ بڑھتے ہی چلے جا رہے تھے۔ اس کے اندر بغاوت اور مسلسل بغاوت کے تیز جذبات ابھر رہے تھے۔ مذہب سے اس کا یقین اٹھ چکاتھا۔ آخر دنیا میں ہر بڑا آدمی چھوٹے آدمی کوکھا کیوں رہا ہے …. بڑے بڑے جاگیردار ، زمیندار، ساہوکار، مہاجن وسیع و عریض زمینوں کے مالک چھوٹے موٹے کاشتکاروں ، محنت کاروں اور کسانوں کی زمینیں ہتھیا کیوں لیتے ہیں ۔ ان کی ہوس تو کسی طرح پوری نہیں ہوتی اور انہیں مذہبی لوگوں سے تحفظ بھی حاصل رہتا ہے …. کیا اوتار، سادھوؤں کی یہی تعلیمات ہیں ؟؟؟ ….کیا انہیں یہ سب کچھ دکھائی نہیں دیتا…..؟؟
وہ اپنے دھرم پر غور کرتا رہا …. غور کرتارہا …. اسے کچھ سجھائی نہ دیا۔ عقل عاجز آگئی …. ساہوکار جس نے اس کی زمین رہن رکھی تھی، اس کے ہی دھرم کا تھا۔ پھر یہ ظلم آخر کیوں ؟؟ …. اتنی عدم مساوات کیوں ؟؟۔ بھگوان تو سب کاہے۔ سب اسی کی پیدائش اورمخلوق ہیں …. پھر بھگوان نے مظلوموں ، بے نواؤں ، بے سہاروں اور بے آسروں کاحق غصب کرنے والوں اور انہیں کچل کر رکھ دینے والوں کو اقتدار ، طاقت، عزت و شرف کیوں دے رکھا ہے؟ …. رامن تھا تو ان پڑھ، لیکن کچھ معاملہ فہم بھی تھا …. کئی سو سالوں سے مسلمان بھی اسی دیش میں رہ رہے تھے مگر کئی مسلمانوں کے ہاں بھی وہ سب کچھ رائج تھا، جو ہندؤوں کے ہاں تھا۔
گو مسلمان مساوات کا درس دیتے تھے، کہتے تھے ہم سب برابر ہیں ، لیکن عملی طور پر ایسا کوئی مظاہرہ رامن نے نہیں دیکھاتھا …. گو ان کے ہاں ذات پات نہ تھی، لیکن اس کی خاموش و بے نام شکلیں موجود تھیں۔
ہندو ہوں یا مسلمان، جاگیردار ، ساہوکار ایک جیسی خصلت و عادات رکھتے تھے …. غاصب ، ظالم اور مکار۔ یہ اگرہمدردی کااظہار بھی کرتے تو اس کے پیچھے بھی ان کی کوئی غرض مخفی ہوتی تھی۔ زمیندار مسلمانوں کے ہاں بھی کئی لوگوں نے کم و بیش وہی طور طریقے اور انداز زندگی اپنارکھا تھا، جو ہندؤں کے ہاں تھے….
رامن کے دل و دماغ میں طوفانوں کے جھکڑ چل رہے تھے۔ کیا بھگوان کی تعلیمات یہی ہیں ، اس کے اندر مذہب بیزاری اورشکوے شکائتوں کے جذبات بگولوں کی شکل اختیار کر چکے تھے ….
بھلا یہ کیسا قانون ہے کہ قرض کے عوض رہن رکھی گئی زمین قرضہ چکا دینے کے بعد بھی اسے نہ مل پا رہی تھی۔ وہ اور اس کا بھائی کوڑی کوڑی کے محتاج ہو چکے تھے۔ اب زندگی کی قوت بھی اس سے چھن رہی تھی…. وہ اور اس کی بیوی دوسروں کی زمینوں پر کولہوکے بیل کی طرح دن رات کام میں جتےرہتے ….
مگر حالت یہ تھی کہ بمشکل ایک وقت کاکھانا نصیب ہوتا …. بھگوان توسب کی ضرورت کے مطابق غلہ پیدا کرتاہے…. آخر اس کا حصہ کون ڈکار جاتا ہے؟؟ ….اور کیوں اسے نہیں مل پاتا؟ …. برسوں کی محنت شائقہ کے باوجود ان کے پاس ایک وقت کے کھانے کے سوا کچھ بچ نہ پاتا تھا اور دوسرے وقت فاقہ پڑتا تھا …. قرضہ جو رامن اور اس کے بھائی نے اصل رقم سے تین گنا زیادہ ادا کر دیا تھا،لیکن سود مرکب کی وجہ سے یہ رقم نہ صرف جوں کی توں موجود تھی بلکہ مزید بڑھی ہی چلی جارہی تھی۔
اپنے دھرم سے وہ بیزار ہو ہی چلاتھا، لیکن مسلمان زمینداروں میں بھی اس نے یہی کچھ دیکھا تھا …. اس کے ساتھ کام کرنے والے اکثر مسلمان کاشتکاروں اورمحنت کاروں کی حالت بھی اس جیسی ہی تھی، بلکہ اس سے بھی بدتر و فروتر۔ کچھ مسلمان نواب تھے، جاگیر دار تھے، لیکن نچلے محروم طبقہ کے مسلمانوں کی حالت زار اچھوتوں سے ملتی جلتی تھی …. اگرکچھ فرق تھا تو صرف یہ تھا کہ انہیں ان کے دھرم والوں نے اچھوت اور ملیچھ کا نام نہیں دیا تھا …. ورنہ تھے تو دونوں ایک جیسے …. رامن کے جذبات میں غصے کا عنصر اب پوری طرح حاوی ہو چکاتھا …. غصے سے اس کابدن تن گیا …. خون کی گردش تیز ہو گئی …. لیکن پھر وہ رونے لگا …. غصہ کے جذبات ٹھنڈے پڑتے گئے ….
جب اس کے جذبات کا جھکڑ کچھ سرد پڑا تو اس نے ایک آم کے پیڑ کے سایہ میں کھڑے ہو کر آنکھوں میں اتر آنے والا پسینہ پونچھا اور پھر جو سامنے دیکھا تو ایک پیڑ کے نیچے چند لوگ بیٹھے ہوئے نظر آئے۔ وہ جلد جلدی آگے بڑھا تو قریب پہنچنے پر تندیب کے بتائے گئے حلیے پر اس نے حضرت بابا تاج الدین کو پہچان لیا۔ ان کے چہرے پر نگاہیں پڑتے ہی رامن کے دل میں ہوکیں اٹھنے لگیں اور وہ ان کے قدموں میں پڑ کر بلک بلک کر رونے لگا ….
پاس بیٹھے ہوئے لوگ بھی حیران وششدررہ گئے۔
بابا تاج الدین ناگپوریؒ نے فرمایا۔
‘‘ کیوں روتاہے رے؟ …. مل جائے گی تیری زمین …. مل جائے گی’’
پھر انہوں نے اسے دلاسہ دیا تو بے تاب و مضطرب رامن کو قرار سا آگیا۔ اسے کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہ پڑی تھی۔ بابا تاج الدین بغیر کچھ بتائے سب کچھ جان گئے تھے …. وہ چپ چاپ خاموش ان کے پاس بیٹھا رہا …. اور جب مجلس برخواست ہوئی تو بابا تاج الدین نے زور دار لہجے میں اسے مخاطب کرکے ڈانٹتے ہوئے فرمایا۔
‘‘ جا …. توبھی چلا جا …. اپناکام کر’’
رامن تو گھر سے ہی ان کا ساتھ نہ چھوڑنے کاتہیہ کرکے آیا تھا …. بھلا وہ کب جانے والا تھا…. ان کی بار بار کی ڈپٹ سے بھی وہ گھر نہ گیا۔ حتیٰ کہ پوراایک ہفتہ گزر گیا …. وہ سائے کی طرح ان کے ساتھ ساتھ لگا رہتا۔
حالات کاستایا ہوا شخص آسانی سے نہیں مانتا …. تلخ و تند تجربات زندگی اس کے اندر حقائق جاننے کی جستجو پیدا کردیتے ہیں …. وہ زندگی کی صداقتوں میں اتر کر انہیں کھولنا چاہتا ہے۔ اس کے دل کا غبار اور طوفان آہستہ آہستہ بیٹھتا ہے۔ …. اسے کوئی رام نہیں کر سکتا۔ صرف نبض شناس کسی کامل فقیر کی نگاہ کیمیا سے ہی اس کے دل کی صداقت کا بیج تناور درخت بن سکتاہے۔ ورنہ دل کی گہرائیوں میں حقائق و صداقتیں جاننے کا جذبہ، کارل مارکس، نطشے اور ہیگل جیسے لوگ پیدا کرتا ہے ، جن کے افکار آفاقی و ابدی صداقتوں کو مسخ و مبہم کر دیتے ہیں ….
بابا تاج الدین ناگپوریؒ نے متعدد بار اسے سختی سے کہا کہ وہ چلا جائے مگر وہ اپنی ضد پر ڈٹا رہا ….
ایک دن حضرت بابا تاج الدین ناگپوریؒ کوجلال آگیا۔ انہوں نے اسے آم کے ایک پیڑ کے نیچے بٹھا کر جلالی لہجے میں فرمایا۔
‘‘ تو قتل ہونے آیا ہے نا …. اس درخت کے نیچے بیٹھ جا ….اٹھنا نہیں ….اگر اٹھا تو میں تجھےمارڈالوں گا’’۔
بابا تاج الدین ناگپوری کے لہجے میں اتنا زیادہ اثر تھا کہ رامن درخت کے نیچے کسی پتھر کی طرح جم کر رہ گیا اور تھر تھر کانپنے لگا۔ بابا تاج الدین متواتر تین دن تک اس کی خبر گیری کرتے رہے اور تنبیہ کرکے چلے جاتے کہ
‘‘ خبردار …. یہاں سے ہلنا نہیں ….
یہیں بیٹھارہ ’’۔
چوتھے دن بابا تاج الدین اسے تنبیہ کرکے اسی درخت کے سائے میں چادر اوڑ ھ کر لیٹ گئے …. چند ہی ساعتیں گزری تھیں کہ رامن کا بھائی اسے تلاش کرتا ہوا آیا اور دور سے ہی ‘‘ رامن بھائی …. رامن بھائی ’’ پکارنے لگا۔ آواز سن کر رامن اپنی جگہ پر ہی کھڑا ہوگیا، آگے نہیں بڑھا ۔ بابا تاج الدین کے احکامات اس کے ذہن میں نقش ہو کر رہ گئے تھے۔ رامن کے بھائی نے جب اسے دیکھا تو وہ خوشی سے دوڑتا ہوا اس کی طرف آیا اور اس سے لپٹ گیا۔
رامن کے بھائی نے کہا کہ ‘‘ وہ کئی دنوں سے اسے تلاش کرتا پھررہا ہے۔ ہماری رہن والی زمین ڈی سی نے ہمیں ساہوکار سے واپس دلا دی ہے۔ ساہوکار کا دعویٰ ڈی سی نے مسترد کر کے ہمارے حق میں فیصلہ سنا دیا ہے اور میں نقل حکم بھی لے چکا ہوں ….’’ پھر رامن کے بھائی نے نہایت خوشی اور حیرت کے ساتھ رامن کو مخاطب کیا۔
‘‘چند دن قبل ہمارے گھر ایک ‘‘ اجنبی بیرسٹر’’ صاحب آئے اور انہوں نے پوچھاکہ‘‘ کیا تمہارا کوئی مقدمہ ہے؟؟’’ ….میں نے انہیں بتایا کہ ساہوکار ہماری زمین پر قابض ہے اور اس نے ڈی سی کے ہاں اپنی ملکیت کا دعویٰ دائر کر رکھا ہے۔ ہم مفلس اور نادار لوگ وکیل بھی نہیں کر سکتے۔ ہمارے پاس وکیل کی فیس کے پیسے بھی نہیں ہیں ۔ ’’
میری بات سن کر بیرسٹر صاحب بولے۔
‘‘ لاؤ زمین کے کاغذات مجھے دو میں تمہارا مقدمہ لڑوں گا اور فیس بھی نہیں لوں گا’’۔
چنانچہ میں نے کاغذات زمین ان کے حوالے کر دئیے۔ انہوں نے اپنی پہلی ہی پیشی پر مسلسل آدھا گھنٹہ بحث کی۔ ان کی بحث پر ڈی سی از حد متاثر ہوا اور ساہوکار کا دعویٰ خارج کرکے فیصلہ ہمارے حق میں دے دیا ….
بیرسٹر صاحب بحث کے بعد کہیں چلے گئے۔
دوسرے دن میں نے ‘‘نقل حکم’’ لی اور بیرسٹر صاحب کو بہتیرا تلاش کیا مگر کسی سے ان کا اتا پتا نہ معلوم ہو سکا۔ کوئی وکیل ان کو نہیں جانتا تھا۔ پھر تمہاری تلاش شروع کی اور آج تیسرے دن تمملےہو’’۔
بھائی کی باتیں سن کر رامن ہکا بکا رہ گیا اور حیرت کے عالم میں کبھی اپنے بھائی اور کبھی چادر لپیٹے لیٹے ہوئے حضرت بابا تاج الدین کو دیکھنے لگا ….
چند ثانیوں بعد بابا تاج الدین نے چہرے سے چادر ہٹائی تو رامن کا بھائی پکار اٹھا….
‘‘ یہی ہیں …. یہی ہیں …. بیرسٹر صاحب یہیہیں ’’۔
بابا تاج الدین ناگپوری نے دونوں بھائیوں کی طرف نظریں بھر کر دیکھا اور فرمایا۔
‘‘ یہ سب اللہ کی کرپا ہے رے’’
ان کے لہجے میں کچھ اس قدر سوز و اثر تھا کہ رامن کا دل سوزو محبت، مسرت و شادمانی، احساس ممنونیت و نیازیت سے لبا لب بھر گیا۔ اس کی آنکھیں چھلک پڑیں اور بے ساختہ وہ بابا تاج الدین کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ دھرانے لگا۔
‘‘ سب اللہ کی کرپا ہے رے ’’۔
رامن کے بھائی کی زبان کچھ پتھرائی اور اس کے لبوں سے بھی یہی الفاظ ادا ہوئے۔ رامن بابا تاج الدین ناگپوری سے رخصت ہو کر اپنے بھائی کے ہمراہ خوشی خوشی گھر جاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ تندیب نے غلط نہیں کہا تھا۔
بابا تاج الدین چراغ نہیں سورج ہیں …. اس دھرتی پر اوتارہیں ۔ جن کی ذات کی روشن و منور کرنوں سے ظلمتوں اور گھٹاؤں میں بھی جگمگاتے دئیے روشن ہو جاتے ہیں اور جن کی کرنیں ہر سو جگمگ کرتی بکھر رہی تھیں ۔
آنے والے چار پانچ برسوں میں لوگوں نے دیکھا کہ رامن اپنا دھرم بدل کر‘‘خیر بخش’’ بن گیا تھا، جس نے اپنے محلہ میں مسجد تعمیر کروا لی تھی اور جو بے نوا و درماندہ، محنت کش،ہندو مسلم آبادی کے دکھوں کا مشترکہ مداوا بن چکا تھا۔

 

منشی اصغرعلی صاحب ناگپوری جو سیوئنگ مشین کمپنی میں ملازم ہیں۔ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے جناب دیدار بخش، پوسٹ ماسٹر ناگپور پوسٹ آفس کی زبانی سنا ہے کہ بابورام سنگھ نامی ایک سرکاری ملازم تھے۔ ان کے خلاف کوئی سرکاری جرم عائد ہوا اور مقدمہ دائر کردیاگیا۔ انہوں نے بری ہونے کی ہرتدبیر کی اور جب مایوس ہوگئے تو حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر گریہ وزاری کی۔ آپ نے فرمایا’’چلاجا، کیا ہوتاہے، بری ہوجائے گا۔‘‘ یہ سن کر وہ شخص خوشی خوشی واپس آگیا۔ مقررہ تاریخ کو عدالت میں حاضر ہوا اور طلبی پرعدالت میں پیش ہوا۔ فریقِ مخالف کی طرف سے وکیل بھی موجود تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد ایک اجنبی بیرسٹر عدالت میں آئے اور کہا’’میں بیرسٹر ہوں اورفلاں شہر میں رہتا ہوں۔‘‘ انہوں نے کوئی دوردراز شہر کانام بتایا اورکہا کہ میں رام سنگھ کی طرف سے اس کے مقدمے کی پیروی کروں گا۔
مقدمے کی کاروائی شروع ہوئی۔ بحث کے دوران بیرسٹر صاحب نے کوئی قانونی نکتہ اٹھایا جس کا فریقِ مخالف کوئی جواب نہ دے سکا اور معذرت کے ساتھ بیرسٹر صاحب کی بحث اوراعتراض کو معقول قراردیا۔ اس پر بیرسٹر صاحب نے کہا کہ گزشتہ تمام کاروائی بے ضابطہ تھی اور مقدمے کی روئداد سے ملزم قطعی بےگناہ ثابت ہوتاہے۔ لہٰذا ملزم کو آج ہی کیوں نہ بری کیا جائے؟
عدالت نے بیرسٹر صاحب کی تجویز منظور کی اور ملزم کو اسی وقت بری کرکے مقدمہ خارج کردیا۔ بیرسٹرصاحب عدالت سے روانہ ہوئے تو رام سنگھ بھی آہستہ آہستہ ان کے پیچھے چلا۔ تھوڑی دور جاکر رام سنگھ نے بیرسٹرصاحب کے سامنے آکر عرض کیا۔ ’’سرکار!یہ نکتہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ میرے بلائے بغیر اس مقدمے کی پیروی کے لئے کیسے آگئے؟‘‘
بیرسٹر صاحب نے فرمایا۔‘‘تجھے کیا ضرورت ہے۔ آم کھانے سے مطلب ہے یا پیڑ گننے سے؟ جس سے تونے مقدمے میں مدد طلب کی ہے، اسی نے مجھے پیروی کے لئے بھیجا ہے۔ اب تو اپنے گھر جا، ہم اپنے گھر جاتے ہیں۔’’
[از: سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوریؒ – مصنف : سہیل احمد عظیمی صفحہ 52-53]

 

تحریر : سید نوشاد کاظمی

 

یہ بھی دیکھیں

شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ

قدرت کی صناعی کے مختلف شاہکاروں کو دیکھ کر ہر ایک اپنی اپنی سکت اور …

کلامِ بابا فریدؒ

  گنج شکر ؒ کے خزانے سے شکر کی چند ڈلیاں اسپین اور سندھ میں …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے