موجودہ دور میں انسان سائنسی ترقی کی بدولت کہکشانی نظام سے روشناس ہوچکا ہے، سمندر کی تہہ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ زمین کے بطن میں اور ستاروں سے آگے نئے جہانوں کی تلاش کے منصوبے بنارہا ہے۔ یوں تو سائنس نے انسان کے سامنے کائنات کے حقائق کھول کر رکھ دیے ہیں لیکن ہمارے اردگرد اب بھی بہت سے ایسے راز پوشیدہ ہیں جن سے آج تک پردہ نہیں اُٹھایا جاسکا ہے۔ آج بھی اس کرۂ ارض پر بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں اور کئی آثار ایسے موجود ہیں جو صدیوں سے انسانی عقل کے لیے حیرت کا باعث بنے ہوئے ہیں اور جن کے متعلق سائنس سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ ایسے ہی کچھ عجیب وغریب اور حیرت انگیز واقعات یا آ ثار کا تذکرہ ہم آپ کے سامنے ہرماہ پیش کریں گے….
ذہانت کے لیے عمر کی قید نہیں….
عقل و دانش کے حوالے سے نابغہ یا جینئس بچے ایک معمہ ہیں۔ یعنی وہ بچے جو تعجب خیز ذہانت کےمالک ہیں۔
افلاطون نے ایسے بچوں کو ‘‘سنہرے بچے’’ قرار دیتے ہوئے ان کے نابغہ ہونے کے اسباب معلوم کرنے کی کوشش کی تھی کہ کیا یہ ضروری ہے کہ ایسے بچے کے والدین بھی عقل مند ہوں….؟ یا پھر پیدائش کی خصوصی صورت میں ظاہرہوتےہیں….؟
دنیا میں کوئی صدی ایسی نہیں گزری جب غیرمعمولی ذہنی اور دماغی صلاحیتوں کے مالک ایسے لوگ نہ پائے گئے ہوں جنہوں اپنے غیر معمولی کمالات سے دنیا کو حیران کردیا۔
یہ غیر معمولی صلاحیتوں کے لوگ بہت جلد لوگوں کی توجہ اپنی طرف کرلیتے ہیں اور عام انسان انہیں حیرت اور بعض اوقات خوف کے ملے جلے جذبات سے بھی دیکھتے ہیں۔
یہ غیر معمولی ذہین لوگ شاعری، موسیقی، حساب اور دوسرے مضامین میں ایسی غیر معمولی صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہیں جن کی اس عمر میں کیا اس سے بڑی عمر میں بھی توقع نہیں کی جاتی۔
آئی کیوٹیسٹ ذہانت کی پیمائش کا وہ طریقہ ہے جسے جرمن ماہر نفسیات ولیم اسٹرن نے شروع کیا تھا۔ ذہانت جانچنے کے اس نظام کے تحت کسی فرد کی طبعی عمر اور ذہنی عمر کا فرق نکالا جاسکتا ہے۔ مثلاً اگر ایک بچے کی عمر آٹھ سال ہے اور وہ ایسے سوالات کے درست جوابات دے جو 12 سال کے بچے کو دینے چاہئیں تو اس کی ذہنی عمر 12 برس ہوئی، یعنی اس کی ذہنی عمر اس کی طبعی عمر سے زیادہ ہے۔ اس طرح ٹیسٹ میں عام طور پر ریاضی، تسلسل، رنگ، جگہ اور دلیل سمجھنے کی اہلیت جانچی جاتی ہے۔
غیر معمولی صلاحیت کے حامل بچے….
برطانیہ میں مقیم ایڈم کربی Adam Kirby ابھی 29 مہینہ کا ہے اور ابھی ٹھیک سے جملے ادا بھی نہیں کرسکتا ، لیکن وہ انگریزی کے ساتھ ساتھ وہ جاپانی اور ہسپانوی زبان میں بول سکتا ہے، اس کی عمر کے دیگر بچے اپنا نام ہی مشکل سے لے پاتے ہیں مگر ایڈم چیزوں کے نام، سیاروں کے نام، ملکوں کے نام، براعظموں کے نام جانتا ہے اور انہیں نقشے میں شناخت بھی کر سکتا ہے۔ اسے 10سے زائد پہاڑے یاد ہیں۔ وہ 1000تک گنتی گننے کے ساتھ ساتھ اسےجمع، تفریق اورجیومیٹری کے زاویوں کی بھی پہچان ہے۔
عام طور پرجس عمر میں بچے صرف کھسکنا یا چلنا سیکھتے ہیں،ڈھائی سالہ ایڈم اس وقت کتابیں پڑھنا پسند کرتا تھا۔ وہ ہسپانوی، فرنچ اور جاپانی زبانیں سیکھ رہا ہے جبکہ ایک برس کی عمر سے اسے شکسپئیر کی کتابیں سننا اچھا لگتا ہے ، وہ بہت سے الفاظ لکھ سکتا ہے اور انہیں کمپیوٹر کے کی بورڈ پر ٹائپ کر سکتا ہے۔
اسکی غیر معمولی ذہانت کی وجہ سے اسے برٹش مینسا Mensa سوسائٹی (غیر معمولی ذہانت رکھنے والوں کی انجمن) کا ممبر بنا لیا گیا ہے۔ ایڈم کو یہ اعزاز آئی کیوIQ ٹیسٹ میں بلند ترین اسکور حاصل کرنے پر دیا گیا ہے جس کے بعد ایڈم نہ صرف برٹش مینسا بلکہ انٹرنشنل مینسا سوسائٹی کے بھی سب سے کم عمرترین ممبر بن گیا ہے۔
ذہین افراد کا ادارہ مینساMENSA دنیا کا سب سے بڑا اور پرانا ادارہ ہے جہاں صرف ذہین اور غیر معمولی ذہانت کے حامل افراد کو ممبر بنایا جاتا ہے۔آئی کیو کلب مینسا کے مطابق ایک باصلاحیت بچے کی شناخت یہ ہے کہ وہ غیر معمولی یادداشت رکھنے کے علاوہ کم عمر میں پڑھنا اور عالمی معاملات کی اچھی معلومات رکھتا ہو۔ اس کے علاوہ ہر وقت سوال پوچھنا اس کی عادت میں شامل ہو۔
برطانوی اخبار ڈیلی میل کے مطابق ، ایڈم نے اسٹینفورڈ یونیورسٹی (کیلیفورنیا) کے اعلیٰ ذہانت کی جانچ کے امتحان بینٹ Binet انٹیلی جینس اسکیل میں 141 نمبروں سے شاندار کامیابی حاصل کی ہے جو اس امتحان میں اعلیٰ درجے کی ذہانت رکھنے والوں کااسکور ہے۔
ایڈم نے ذہانت کے اس درجے کا سرٹیفیکٹ حاصل کرکے بہت سے ترقی یافتہ ملکوں کے سربراہوں کے آئی کیو اسکور کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
ایڈم کے آئی کیو ٹیسٹ کےحا صل کردہ نمبروں کے مطابق، اسے پڑھائی میں پانچویں جماعت کے طالب علم کا درجہ دیا گیا ہے جبکہ ریڈنگ میں ایڈم کوساتویں جماعت کے طالب علم کے برابر بتایا گیا ہے۔ ایڈم کے والدین 33 سالہ ڈین کربی اور 31 سالہ کیری این کربی لندن کے رہائشی ہیں۔ ڈین کربی آئی ٹی کے شعبے سے وابستہ ہیں ۔ ڈین کربی کا کہنا ہے کہ میں اورمیری اہلیہ دونوں ذہین ہیں لیکن ایڈم ایک غیر معمولی بچہ ہے جب وہ دس ماہ کا تھا تب سے کتابیں پڑھ رہا ہے اس کی ذہنی پختگی میں حیرت انگیز طور پر دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
ایڈم کی عمر دو سال پانچ ماہ ہے اور وہ برطانوی مینسا کا سب سے کم عمر رکن بچہ ہے جبکہ ایڈم سے قبل مینسا کی سب سے چھوٹی رکن ہونے کا اعزاز علیزہ ٹین رابرٹ Elise Tan-Roberts کو 2009 ء میں حاصل ہوا تھا اس وقت علیزہ کی عمر دو سال چار ماہ تھی۔ ان دونوں بچوں کا تعلق لندن سے ہے۔ مینسا یا ذہین لوگوں کی انجمن ہے۔ اس کا رکن بننے کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ ایڈم کا شمار ان بچوں کی فہرست میں انیسویں نمبر پر ہوگا جنہوں نے اسکول جانے سے قبل مینسا میں شمولیت اختیارکیہے۔
اس سے قبل برطانوی کاؤنٹی ایسکس سے تعلق رکھنے والی 3سالہ بچی سیفرون پلیجر saffron pledgerنے اپنی غیر معمولی ذہانت اور140آئی کیو لیول کوبنیاد بناتے ہوئے مینسا کی ممبر شپ کے لیے درخواست دےدی ہے۔
غیر معمولی ذہانت کی حامل سیفرون نامی یہ کم عمر بچی ناصرف50تک گنتی کراور لکھ سکتی ہے بلکہ اپنی 7ماہ کی بہن کو کہانیاں بھی پڑھکرسناتی ہے۔
اسی طرح برطانیہ سے تعلق رکھنے والے3سالہ بچے شیرون سیرابی Sherwyn Sarabi نے اپنی غیر معمولی ذہانت اور136 آئی کیو لیول کی بنیادپر مینسا کی رکنیت حاصل کی تھی۔ انتہائی عقلمنداور غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک اس ننھے بچے نے ناصرف دنیا کے تمام ممالک کے نام زبانی یادکر رکھے ہیں بلکہ ان کے قومی جھنڈے بھی فوراً پہچان لیتا ہے۔ انتہائی تیز یادداشت کا مالک یہ ننھا بچہ دنیا کے نقشے کے ساتھ ساتھ آئی پیڈ کے ذریعے بھی نہایت تیز رفتاری سے یکے بعد دیگرے 200ممالک کے نام گنوا دیتا ہے اور ان کے قومی جھنڈوں کو بھی مکمل طور پر درست شناخت کر لیتا ہے جو اس کی لاجواب یادداشت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
برطانیہ کی 12 سالہ بچی کا آئی کیو لیول عظیم سائنسدان آئن سٹائن اور سٹیفن ہاکنگز سے بھی زیادہ نکلا۔سکول جانے والی بارہ سالہ بچی اولیویا میننگ olivia-manning کو مینسا میں دونوں سائنسدانوں کے مقابلے میں زیادہ آئی کیو لیول رکھنے والی ذہین بچی کے طور پر شامل کرلیا گیا ہے۔ بارہ سالہ بچی نے 162 کے آئی کیو ٹیسٹ میں سے سو فیصد اوسط حاصل کی ہے۔ بچی کو دنیا بھر کے ایک فیصد ذہین بچوں میں بھی شامل کرلیا گیا ہے۔
تاریخ کے جینیس بچے….
تاریخ میں ہمیں بہت سے جینئیس بچوں کا تذکرہ ملتا ہے مثلاً مشہور جرمن موسیقار موزارٹ mozartصرف چھ سال کی عمر میں موسیقی تیار کرکے لوگوں کے سامنے پیش کرتا تھا۔ یہ موسیقی اس قدر غیر معمولی ہوتی کہ لوگ اسے سن کر حیران رہ جاتے۔ اس طرح ایک اور جرمن موسیقار تش Liszt نے عوام کے سامنے نوسال کی عمر پہلی مرتبہ اپنی موسیقی پیش کرکے لوگوں کو حیران کر دیا تھا۔ مینوہن Menuhin۔ صرف تین سال کی عمر میں کسی استاد کے مانند چوتارا بجاتا تھا۔
ہانڈل Handal اور رچوڈ اسٹراس Richard Strauss چھ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی موسیقی تحریر کرنے لگے تھے۔
ولیم سدس William Sidis جو ایک ممتاز ماہر نفسیات کا بیٹا تھا، صرف چھ ماہ کی عمر میں پوری الف، بے سنا دیتا تھا۔ اس کے باپ کو یقین تھا کہ بچہ پیدا ہوتے ہی سیکھنے کی صلاحیت رکھتا اور سیکھ سکتا ہے، چنانچہ اس نے اپنے خیال کو درست ثابت کرنے کے لیے اپنا کام شروع کردیا جس کے باعث اس کا بچہ چار سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی فرانسیسی اور جرمن زبان میں مشکل موضوعات پر رسالے لکھنے لگا تھا۔ یہ عجیب و غریب بچہ ان رسالوں کو خود ہی ٹائپ کرتا اور اپنے باپ کے دوستوں کو خود ہی پڑھ کر سناتابھیتھا۔
پانچ سال کی عمر میں اس نے ایک حسابی گُر بنایا جس کے ذریعے سے اگر آپ کوئی گزری ہوئی یا آنے والی تاریخ بتا دیں تو ولیم یہ بتا دیتا تھا کہ اس تاریخ کو کون سا دن تھا۔ اس نے پانچ سال کی عمر پوری کرنے اور چھٹی سالگرہ منانے سے پہلے ہی یونانی زبان میں پوری مہارت حاصل کرلی تھی، اور نو سال کی عمر کو پہنچنے تک ایک چلتی پھرتی انسائیکلوپیڈیا بن چکا تھا۔
اس وقت اس کے باپ نے اسے بعض امتحانات دینے پر رضامند کیا۔ ان امتحانوں میں کامیاب ہونے پر اسے ہادورڈ یونیورسٹی میں شرکت کی اجازت مل گئی۔ لیکن جب ولیم کالج میں پہنچا اور کالج کے پرنسپل کو اس کی عمر کا علم ہوا تو اس نے شرکت کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ اس طرح دو سال گزر گئے لیکن اخبارات نے اس کا مسئلہ اپنے ہاتھ میں لیا۔ مضامین لکھے گئے اور احتجاج کیا گیا اور پرنسپل کو مجبور ہو کر اسے کالج میں داخل کرنا پڑا۔ جہاں ولیم نے خود پروفیسروں کو دوسری چیزوں کے علاوہ البعاد اربعہ پر لیکچر دینے شروع کردیے!
ولیم کے مانند ہمارے سامنے ایک لڑکی کیرول گیلا گھر Carol Gallagher کی مثال آتی ہے۔ اس نے پانچ سال کی عمر میں ایم اے کیا تھا اور اس کی کامیابی ایسی ویسی نہیں بلکہ نہایت ذہین طالب علم کی کامیابی کے برابر تھی۔
وہ پروفیسروں کی طرح آسانی سے یونانی زبان پڑھتی اور ترجمہ کرسکتی تھی۔ مسئلہ ارتقا اور فلسفہ جیسے مضامین میں پڑھنے سے اسے شغف تھا اور حافظے کا یہ عالم تھا کہ بی بی سی سے کی ہوئی پندرہ منٹ کی تقریر کو وہ لفظ بہ لفظ دہرا سکتی تھی۔
ایک برطانوی نابغہ بچی روتھ لارنس نے محض 13 برس کی عمر میں آکسفورڈ سے ریاضی کے شعبے میں اول درجے کی ڈگری حاصل کی۔ یہ بچی اسکاٹ لینڈ کے نابغہ کولن میک لارن کا قائم کردہ ریکارڈ 1717ء توڑنے کی کوشش کر رہی ہے جو انیس برس کی عمر میں ایبرڈین کے ماریشل کالج پروفیسر کی خدمات انجام دینے لگ گیا تھا۔
اینڈراگون ڈی میلو کا واقعہ بھی ایسا ہی ہے۔ اس لڑکے نے گیارہ برس کی عمر میں سانتا کروز میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے ریاضی میں ڈگری حاصل کی تھی۔ وہ 1977ء میں پیدا ہوا۔ ابھی سات ہفتے کا تھا کہ ایک روز اس کے والدین نے سنا کہ وہ انہیں ‘‘ہیلو’’ کہہ رہا ہے۔ ڈھائی سال کی عمر میں اس نے اپنے غسل کے ٹب کا حجم خود ہی نکال لیا۔ چار برس کی عمر میں وہ یونانی زبان، فلسفہ اور طبیعات سیکھنے لگ گیا تھا۔ دو سال کی عمر میں اس نے ارضیات اور جیوفزکس پڑھنے شروع کردیے اور آٹھویں سال میں کمپیوٹر کے پیچیدہ پروگرام تشکیل دینے لگ گیا۔ اس کا باپ آگسٹائین گٹار بجاتا ہے۔ اس نے اقرار کیا کہ اپنے بیٹے کی غیر معمولی ذہانت کا سبب کم از کم اس کی ذات نہیں ہے۔
لیکن یہ تمام مثالیں مغربی ملکوں کی ہیں۔ ایشیائی ملکوں اور خود ہمارے ملک میں بھی کبھی کبھی ایسی مثالیں نظر آتی ہیں اور اخباروں میں بھی کبھی کبھی ان خبروں کو جگہ مل جاتی ہے۔ بد قسمتی سے ابھی تک ہمارے ملک میں ان کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی جاتی اور یہ ذہین بچے اسی طرح کِھل کر اور مرجھا کر ختم ہوجاتے ہیں جس طرح جنگل کے حسین پھول۔
مغربی ممالک میں ایسے بچوں کی طرف خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ ماہرین دماغ اور ماہرین نفسیات ان کی طرف خالص توجہ کرتے ہیں اور وہاں ان کی ذہنی صلاحیتوں کو ترقی دینے کی پوری کوشش کی جاتی ہے جس کے باعث یہی بچے بڑے ہو کر ایسے کام انجام دیتے ہیں جو ملک و قوم کے لیے بھی مفید ہوتے ہیں اور انسانیت کے لیے بھی۔
عقل و دانش کے حوالے سے نابغہ یا جینئس بچے ایک معمہ ہیں۔ یعنی وہ بچے جو تعجب خیز ذہانت کےمالک ہیں۔
افلاطون نے ایسے بچوں کو ‘‘سنہرے بچے’’ قرار دیتے ہوئے ان کے نابغہ ہونے کے اسباب معلوم کرنے کی کوشش کی تھی کہ کیا یہ ضروری ہے کہ ایسے بچے کے والدین بھی عقل مند ہوں….؟ یا پھر پیدائش کی خصوصی صورت میں ظاہرہوتےہیں….؟
افلاطون کا خیال تھا کہ اگر نابغہ بچے کی ابتدا ہی سے شناخت ہوجائے اور ان بچوں کو فلسفہ اور مابعد الطبیعات کا علم حاصل کرنے میں حوصلہ افزائی کی جائے تو ایسے بچے صرف ایک نسل کے بعد دنیاکو تبدیل کرکے رکھ دیں گے۔
مگر سوال وہی ہے کہ نابغہ بچے، نابغہ کیوں اور کس طرح ہوتے ہیں….؟ کیا تعلیمی دباؤ اور غیر معمولی توجہ سے بچے نابغہ بن جاتے ہیں….؟ کیا نابغہ بچے کے والدین کا نابغہ ہونا ضروری ہے….؟ شاید اس کا جواب نہیں میں ہی ہے۔
آج زیادہ تر نوجوان یہ سوچتے ہیں کہ زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ذہانت ضروری ہے۔ اور ان کے نزدیک ذہین وہی لوگ ہوتے ہیں جو چوبیس گھنٹے کتابوں میں غرق رہتے ہیں یا ٹیلی ویژن کے اشتہاروں کی طرح مخصوص غذائیت والے مشروبات پیتے ہیں۔
جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ذہانت کے لیے مخصوص علم حاصل کرنا ضروری نہیں ہے ….ایک عام بچے کی کردار سازی میں اس کے موروثی اثرات ، ماحول، تعلیم و تربیت اور جسمانی نظام عمل مل جل کر کردار ادا کرتے ہیں۔ مگر ایک نابغہ بچہ ان تمام عوامل کے خلاف ایک نئی چیز بن کر پیدا ہوتا ہے۔ یہ تنوع کیوں پیدا ہوتا ہے….؟ یہ فی الحال قدرت کا ایک رازہے۔
مارچ 2014ء