اکثر خواتین سے جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آپ کیا کرتی ہیں….. تو جواب میں ایک ہچکچاتی ہوئی سی آواز سماعت سے ٹکراتی ہے۔
جی….. میں ہاؤس وائف ہوں۔
وہیں اگر کسی ورکر خاتون سے یہ سوال کیا جائے تو وہ بڑے پر اعتماد انداز میںکہتیہیں ….!
میں سروس کرتی ہوں
اب سروس میں خواہ وہ کوئی ہی ملازمت کیوں نہ ہو…. مگر ان کے جواب میں بڑا اعتماد ہوتاہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میں جاب کرتی ہوں میں کیرئیر وومن ہوں ….! لیکن اکثر ہاؤس وائف ہچکچا کے سر جھکا ئے نیچی نظروں سے جواب دیتی ہیں گویا خود ان کی اپنی نظروں میں کوئی اہمیت نہ ہو ….. تو بھلا کوئی دوسرا اسے کیوں اہمیت دے گا۔
اگر آپ کوئی جاب نہیں کرتیں اور صرف خاتونِ خانہ ہی ہیں تو اس سے آپ کی شخصیت میں کوئی کمی تو نہیں آجاتی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ خاتون خانہ ہونے کی حیثیت سے آپ گھر کی اہم شخصیت ، مرکزی شخصیت بن جاتی ہیں، خاتون خانہ تو گھر کی ملکہ یا کردار ساز ہے۔ آپ خودفیصلہ کریں کہ کیا گھر کی ملکہ یا کردار ساز ہونا کوئی کم حیثیت کی بات ہے ….؟
کوئی شرمندگی اور ہچکچاہٹ میں مبتلا ہونے کی بات ہے….؟
نہیں …. ہر گز نہیں……دراصل گھر کی ملکہ اور کردار ساز خاتون خانہ کے لیے انگریزی میں جو لفظ ہاؤس وائف رواج پا گیا ہے وہ غلط ہے، اس کے لیے صحیح لفظ ہاؤس وائف کی جگہ ہوم میکر ہونا چاہیے۔ کیونکہ گھر کی ملکہ ہونا، کردار ساز ہونا، گھر کی تعمیر کرنا یہ سب ہاؤس یا ہوم میکر ہی کے معنوں میں آتے ہیں ہوم میکر ہی وہ لفظ ہے جو خاتون خانہ کی شخصیت اور اس کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
اگر آپ خود کو ہاؤس وائف نہیں بلکہ ہوم میکر کہلانا چاہتی ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ حقیقتاً ہوم میکر بنیں بھی۔ ہوم میکر بننے کے لیے ضروری ہوگا کہ آپ محض ان ہی امور اور ذمہداریوں میں نہ الجھی رہیں جو صدیوں سے ہمارے ماحول کی پہچان یا شناخت قرار پا چکی ہیں جیسے کھانا پکانا، کپڑے دھونا ، گھر کی صفائی ستھرائی کر لینا ، بچوں کی دیکھ بھال کرنا وغیرہ۔ گھر کی صفائی ستھرائی اور دیکھ بھال تو ایک گھر یلو آیا ، ملازمہ بھی کر سکتی ہے، کھانا پکانے کی بات ہے تو یہ بھی جدید سہولیات کی موجودگی میں کوئی اہم کام نہیں رہا ۔ ایک خاتون خانہ یعنی ہاؤس وائف کے پاس کافی وقت ہوتا ہے ، اگر آپ اس فاضل وقت کو بس لمبی تان کر سونے، ٹی وی دیکھنے یا پاس پڑوس کی خواتین سے ملنے جلنے اور باتیں کرنے ہی میں گزار دیں گی تو پھر آپ ہاؤس وائف ہی رہیں گی ہوم میکر نہیں بن سکیں گی۔
گھر میں ماں کی حیثیت :
گھر میں ماں کی موجودگی صرف اسی لیے نہیں ہے کہ وہ بچوں کی دنیاوی ضروریات کو پورا کرتی رہے ۔ ماں کی آغوش کو بچے کے لیے پہلا مدرسہ کہا گیا ہے۔ اس لیے ایک ماں کی بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے بچے کی ذہنی اور اخلاقی تربیت کا فریضہ سر انجام دے۔ ان کی مناسب رہنمائی کر ے، انہیں ظلم ، نا انصافی ، تشدد، پیار محبت اور انصاف کا فرق سمجھائے ۔ اچھے اصولوں پر چلنے کی تربیت و رہنمائی کرے۔ اگر اس مقصد میں ماں کامیاب ہے اور اپنے بچوں کو ایک ذمہ دار شہری بناتی ہے تو وہ ایک کامیاب ماں ہے، وہی صحیح معنوں میں ہو م میکر کہلائی جاسکتی ہے ۔
بڑھتی عمر کے بچوں یعنی لڑکپن کی منزل پر پہنچ جانے کے بعد ان کی ماں کی ذمہ داریاں اور بھی بڑھ جائیں گی کیونکہ اس عمر میں بچے کی الجھنوں کو ایک اچھی ماں ہی سمجھ سکتی اور دور کر سکتی ہے۔ ایک ماہر نفسیات وہ کام نہیں کرسکتا جو ایک اچھی ماں انجام دے سکتی ہے کیونکہ ایک ماں سے بہتر کوئی اور اس بچے کے مسائل اور الجھنوں کو نہیں سمجھ سکتا۔ ماہر نفسیات آپ کے بچے کو صرف اس حد تک جان سکتا ہے جتنا آپ اسے بتائیں گی۔ ایک بچے کی اچھی دوست ایک بچی کی اچھی سہیلی صرف اور صرف ماں ہی ہو سکتی ہے وہی اس کے لیے تعلیم کے موضوع کیرئیر کے انتخاب یا ازدواجی زندگی کے لیے جیون ساتھی پسند کرنے میں معاون بن سکتی ہے۔
گھر میں بیوی کی حیثیت :
کہتے ہیں کہ ایک کامیاب شخص کی کامیابی اور صحت میں اس کی بیوی یا ماں کا ہاتھ ہوتا ہے ، اور یہ ابتداء ماں سے ہوتی ہے ، بیوی کا نمبر بعد میں ہے، اسی لیے یہ کہاوت عام ہے کہ‘‘ہر کامیاب شخص کی کامیابی میں ایک عورت کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے’’، اگر آپ اس کہاوت کواپنی زندگی کا سچ بنانا چاہتی ہیں تو اپنے شریک حیات کے ساتھ ذمہ داری سے فرائض کی ادائیگی کیجیے …… صرف سکھ میں ہی نہیں، دکھ میں بھی۔ ہمارے ہاں خاندان سے متعلق اہم فیصلے مردہی کرتے ہیں۔ آپ اپنے شوہر کے ان فیصلوں میں ان کی مدد کر سکتی ہیں ، انہیں صلاح و مشورہ دے سکتی ہیں آپ کے شوہر کے فیصلے کا نتیجہ اگر غلط ہو تو ایک کونے میں کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر اپنی قسمت کو قصور وار نہ ٹھہرائیں بلکہ شوہر کی ہمت افزائی کریں اور حالات کو سنوارنے کے لیے نئی جدوجہد میں ان کا ہاتھ بٹائیں۔
گھر اور بچوں کو سنبھالنے میں آپ اتنی مگن نہ ہوجائیں کہ آپ کے شوہر کو اپنے مسائل سلجھانے اپنے دل کی بات کرنے اور خود کو ریلیکس و پرسکون کرنے کے لیے آپ کی فرصت کا انتظارکرنا پڑے۔ چونکہ آپ کے شوہر کا دائرہ کار گھر سے باہر ہے اس لیے ان کے مسائل اور ذہنی تناؤ بھی آپ سے زیادہ ہیں۔ آپ گھر کا ماحول پرسکون رکھ کر انہیں ذہنی تناؤ سے آزاد رکھ سکتی ہیں۔
رشتوں کو توڑنے اور جوڑنے میں خاتون خانہ کا کردار بے حد اہم ہوتا ہے ، اس لیے اسے یہ بات ہمیشہ یا د رکھنی چاہیے کہ ٹوٹے رشتوں کی کر چیاں دل میں دھنس کر بے حد تکلیف پہنچاتی ہیں اور ساری عمر تکلیف میں مبتلا رکھتی ہیں۔ اس لیے جہاں تک ممکن ہو سکے رشتوں کو نبھائیں اور ٹوٹنے نہ دیں۔ خصوصی طور پر شوہر کے والدین ، بھائی بہن اور ایسے ہی دوسرے قریبی عزیز و اقارب ….. یہ سب آپ کے شوہر کی ذمہ داری ہیں۔
ان کا ساتھ ، ان کی محبت، ان کی موجودگی، ان کا پیار، ان کی نیک تمنائیں اور دعائیں آپ کے شوہر کا حوصلہ بڑھاتی ہیں۔
اسی طرح شوہر کی آمدنی کے مطابق بجٹ بنا کر گھر کو چلانا ایک اچھی خاتون خانہ کی سب سے اہم خصوصیت ہے جو اسے ہاؤس وائف کے بجائے ہوم میکر کا درجہ د لانے میں بڑی اہمیت رکھتی ہے لیکن ان تمام امور کی انجام دہی کا مطلب یہ بھی نہیں کہ آپ خود اپنے وجود کا احساس ہی ختم کر دیں۔ آپ کو پورا حق ہے اپنی خوہشوں اور اپنے دلی مقاصد کے حصول کا ۔ اپنی مرضی اپنی خواہش ا ور اپنے ذوق کے مطابق آپ خود کو بھی ہشاش بشاش رکھیں۔ اکثر تخلیقی صلاحتیں رکھنے والی لڑکیاں شادی ہوتے ہی اپنے شوق، اپنے ذوق کو ایک اچھی بیوی اور بہو بننے کی خواہش پر قربان کر دیتی ہیں۔ یقین کیجیے…. ایک اچھی خاتون خانہ ایک اچھی بیوی اور بہو بننے کے لیے اپنی شخصیت ، اپنی صلاحیتوں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کوقربان کرنے کی قطعی ضرورت نہیں ……سچ تو یہ ہے کہ جب تک کوئی مطمئن اورخوش نہیں رہتا وہ دوسروں کو ٹھیک طرح خوشیاں بانٹ بھی نہیں سکتا ، نہ ہی مطمئن رکھ سکتا ہے…..
جیسے آپ سب کی ضرورتوں کا خیال رکھتی ہیں ویسے ہی اپنی طبعی ضرورتوں اور ذمہ داریوں کا بھی خیال رکھیں۔ ذہنی سکون کے لیے آپ کی صلاحیت آپ کا ذوق تو محفوظ رہے گا ہی اور یکسانیت کی روٹین سے بھی نجات ملے گی۔
آپ گھر میں سب کے لیے کتنا کچھ کر رہی ہیں یا کرسکتی ہیں تو پھر آپ ہی یہ خام خیال کیوں رکھیں کہ آپ اپنے لیے کچھ نہیں کر سکتی یا پھر آپ محض ایک ہاؤس وائف ہیں اور بس….