سلوک کی راہیں: تین مجاہدے
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی کے قلم سے
تین مجاہدے….
راہ سلوک کے ایک مسافر کو طے شدہ مقاصد (Specific Purpose) کے لئے تین مجاہدوں(Efforts) میں مصروف ہونا چاہیے۔
یہ مجاہدے قرآن کی روشنی میں اور معلم اعظم حضرت محمد ﷺکی سنت کی رہنمائی میں ہوں گے ۔
تربیت کے لئے یہ مجاہدے درج ذیل ہیں۔
1۔ تزکیہ نفس
2۔ تہذیب اخلاق
3۔ تصفیہ قلب
تزکیہ نفس :
قرآن سے ہدایت لینے اور سنت مبارکہ سے فیض پانے کے لیے تزکیہ نفس کی اہمیت اور ناگزیریت کو سمجھنا ضروری ہے ۔
سب اچھے کام (احسن عمل) اپنے نتائج کے لیے تزکیہ سے جڑے ہوئے ہیں۔
تزکیہ نفس ایک جامع (Comprehensive)عمل ہے۔ صفائی اور پاکیزگی اس عمل کا ایک حصہ ہے۔ تزکیہ نفس دراصل نظام قدرت کی پیروی کے لئے انسان کی صلاحیتوں کو نشوونما دینا ہے۔ یہ عمل انسان کی صلاحیتوں کو ترقی دے کر ان کے مثبت استعمال کا ذریعہ بنتا ہے۔
نفس کا تزکیہ انسان کی نیت سے منسلک ہے۔ تزکیہ نفس کا پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان کی نیت خالص ہونے لگتی ہے۔ اس کی زبان اور دل ایک ہوتے ہیں۔ تزکیہ نفس کے زیر اثر انسان کی سوچ مثبت ہوتی ہے۔ اس کااظہار انسان کے رویوں اور طرزعمل سے ہوتا ہے۔
تزکیہ نفس کے باعث ایک بندہ اللہ کی تابع داری سیکھتا ہے ۔
تزکیہ نفس کے ذریعے انسان کی ذات کا ارتقا ہوتا ہے۔ ایسا بندہ اپنی صلاحیتوں کو اللہ کے بتائے ہوئے اور اللہ کے بنائے ہوئے قوانین پر عمل کے لیے استعمال کرتا ہے۔
تزکیہ ٔنفس کی خاطر ریاضت و مجاہدہ کرنے والوں کےلئے معرفتِ الٰہی کی راہیں کشادہ کردی جاتی ہیں۔
میرے والد محترم خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب فرماتے ہیں کہ
آپ کوئی بھی علم سیکھنا چاہیں اس میں ریاضت و مجاہدہ کی لازماً ضرورت پڑتی ہے۔
کوئی بچہ جب اسکول جاتا ہے…. صبح سویرے بیدار ہوتا ہے…. تیار ہوتا ہے…. اسکول جاتا ہے…. وہاں دوپہر تک کلاس میں رہتا ہے…. تپتی دھوپ میں گھر آتا ہے…. بعض اوقات گرمی سے نڈھال ہو کر بچے گھر آکر چارپائی پر گر جاتے ہیں اور اگلی صبح پھر یہی عمل دوبارہ شروع ہوجاتا ہے…. یہ عمل ریاضت و مجاہدہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
ہماری ماں، بہن سخت سردی یا شدید گرمی میں بچے کیلئے روٹی پکاتی ہیں…. کپڑے دھوتی ہیں…. گھر صاف کرتی ہیں…. تھک کر بے حال ہوجاتی ہیں…. یہ بھی ریاضت ہے۔
[خواجہ شمس الدین عظیمی ، خطباتِ لاہور]
بقول اقبالؔ
عطار ہو رومی ہو رازی ہو غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحرگاہی
(بالِ جبریل)
اخلاص کے ساتھ اللہ کی نشانیوں پر غور کرنے والوں کو، اپنے تزکیہ کی خاطر ریاضت و مجاہدہ کرنے والوں کو نتیجہ یا انعام مشاہدے کی صورت میں ملتا ہے۔ ایسے مخلص بندوں کو قدرت ہدایت سے نوازتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ-وَ اِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ۠ O
[سورۂعنکبوت(29) :آیت69]
ترجمہ : اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ، ہم انہیں اپنے راستے دکھادیں گے اور بےشک الله احسن عمل کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
راہِ سلوک میں ریاضت و مجاہدے کے مقاصد کسی دوسرے شعبہ میں ریاضت کے مقاصد سے بہت الگ ہیں۔
کمپیوٹر کے کی بورڈ (Key Board)پر کام کا خواہش مند شخص کی بورڈ پر موجود حروف، ہندسوں اور دیگر علامات کے لیے مختص بٹن کی پوزیشن اپنی انگلیوں کے ذریعے اپنے ذہن میں محفوظ کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ بٹن کو دیکھ دیکھ کر مشق یا ریاضت کرتا ہے۔ کچھ عرصہ ریاضت کے بعد وہ بٹن کو دیکھے بغیر کی بورڈ پر بہت تیزی سے کام کے قابل ہوجاتا ہے۔ اس سے یہ واضح ہوا کہ ریاضت سے ایک آدمی نے مہارت (Skill) حاصل کرلی۔
کوئی شخص جس نے کبھی پانی کے تالاب میں قدم بھی نہ رکھا ہو، ریاضت کے ذریعے تیرنا سیکھ کر ایک ماہر تیراک بن سکتا ہے۔
بڑی عمر کا ایک ناخواندہ شخص کتابیں پڑھ کر میٹرک ، انٹرمیڈیت یا گریجویشن کرسکتا ہے۔
ریاضت اور حصول علم دو الگ الگ معاملات ہیں ۔ تعلیمی اداروں میں داخلہ لے کر یا کہیں داخلہ لیے بغیر، کتابیں پڑھ کر علم حاصل کیا جاسکتا ہے۔ حاصل کردہ کسی مہارت یا کسی علم کا ضروری نہیں کہ انسان کے باطن پر مثبت اثر بھی ہو۔
راہِ سلوک کے مسافر کے لیے ریاضت اور تحصیل علم کا مقصد اللہ کی خوشنودی، نبی کریم کی پیروی اور مخلوقِ خدا کی بھلائی ہوتا ہے۔
مجاہدہ و ریاضت کی دو قسمیں ہیں :
ایک قسم، ظاہری ہے اور دوسری باطنی…. باطنی ریاضت ظاہری ریاضت سے زیادہ مشکل ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ راہِ سلوک کے مسافروں کو اصل فائدہ زیادہ مشکل ریاضت یعنی باطنی ریاضت سے ہوتاہے۔
کئی ورد و وظائف ، کم بولنا،کم کھانا اور کم سونا بہت حد تک ظاہری ریاضت سے تعلق رکھتے ہیں۔ باطنی تحریکات کو سمجھنا، ضمیر کی آواز سننا اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے رہنا، ان کا تعلق باطنی ریاضت یا مجاہدے سے ہے۔ یہ کام ظاہری مجاہدے کی نسبت بہت زیادہ مشکل ہے۔
ایک مرتبہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺنے صحابہ کرام کی ایک جماعت سے فرمایا :
قَدِمْتُمْ خَيْرَ مَقْدَمٍ مِنَ الْجِهَادِ الْأَصْغَرِ إِلَی الْجِهَادِ الْأَکْبَرِ.
قِيْلَ: وَمَا الْجِهَادُ الْأَکْبَرُ؟ قَالَ: مُجَاهَدَةُ الْعَبْدِ هَوَاهُ. [زہد الکبیر از بیہقی، تاریخ ابن عساکر ]
‘‘خوش آمدید ! تم جہادِ اَصغر سے جہادِ اَکبر کی طرف آئے ہو۔’’
صحابہ نے عرض کیا ‘‘جہاد اکبر کیا ہے؟ ’’
فرمایا ‘‘بندے کا نفسانی خواہشات کے خلاف مجاہدہ ۔’’
راہِ سلوک کے مسافروں کو آگاہ رہنا چاہیے کہ تزکیہ نفس کا مخاطب یا مقصود (Beneficiary)ہر انسان خود ہے۔ اللہ کی طرف سے ہدایت آچکی ہے۔ اس ہدایت کی روشنی میں اپنی بہتری کے لیے، اپنے ارتقا کے لیے سعی مجھے خود کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
اِنَّا هَدَیۡنٰہُ السَّبِیۡلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًاO [سورۂدہر (76) کی آیت 3 ]
مفہوم :اللہ نے انسان کو صحیح راستے کی ہدایت فرما دی ہے۔ اب چاہے وہ درست راہ چل کر نعمت کے شکر گزاروں میں شامل ہو جائے یا بھٹک کر منکروں میں شامل ہوجائے۔
اس مضمون کی اگلی قسط ان شاء اللہ ،روحانی ڈائجسٹ کے آئندہ شمارے میں