Notice: Function WP_Scripts::localize was called incorrectly. The $l10n parameter must be an array. To pass arbitrary data to scripts, use the wp_add_inline_script() function instead. براہ مہربانی، مزید معلومات کے لیے WordPress میں ڈی بگنگ پڑھیے۔ (یہ پیغام ورژن 5.7.0 میں شامل کر دیا گیا۔) in /home/zhzs30majasl/public_html/wp-includes/functions.php on line 6078
کلر سائیکلوجی ۔ قسط 2 – روحانی ڈائجسٹـ
منگل , 3 دسمبر 2024

Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu
Roohani Digest Online APP
Roohani Digest Online APP

کلر سائیکلوجی ۔ قسط 2

آپ کی شخصیت کا رنگ کیا ہے….؟
آپ کی کامیابی کس رنگ سے وابستہ ہے….؟
کون سا رنگ آپ کے موڈ کو خوش گوار بناسکتا ہے….؟
آپ کے تعلقات کس رنگ کی وجہ سے بہتر یا خراب ہوسکتے ہیں ….؟
یہ اور اس موضوع پر بہت کچھ روحانی ڈائجسٹ میں  نئے سلسلہ وار مضمون  کلر سائیکلوجی میں زندگی پر  رنگوں  کے اثرات کے بارے میں  جانیے اور صحت  ، حسن  ، خوشیوں   اور کامیابیوں    کی طرف قدم بڑھائیے

 

قسط 2

رنگ

کہنے کو تو رنگ ایک عام سا لفظ ہے۔ اگر آپ لفظ رنگ کو سوچیں تو آپ کی نظروں کے سامنے کئی رنگ لہرا جائیں گیں ۔ ہرا۔ نیلا پیلا۔ لال۔ عنابی ، بیج ، یا پھر پییِچ۔رنگوں کی تعداد کے بارے میں ابھی تک وثوق سے نہیں کہا جاسکا۔مگر اب تک ساٹھ سے زائد رنگوں کو شناخت کیا جا چکا ہے اور اندازہ ہے کہ ان کی تعداد ساٹھ ہزار کے لگ بھگ ہے۔
رنگوں کی نفسیات کے مطالعے سے پتا چلتاہے کہ رنگوں کو اپنی ایک زبان ہوتی ہے۔ایک ایسی اس زبان جس میں الفاظ نہیں ہوتے مگر محسوسات ہوتے ہیں ۔ اسے ہم اس طرح سمجھیں کہ انسانی الفاظ دراصل ہمارے اندر کیفیات یا احساسات پیدا کرتے ہیں اور انھیں محسوسات کی بنیاد پر ہم سوچتے ہیں اور خیالات کو رنگ دیتے ہیں ۔ اور جواب میں اپنے ردعمل یا محسوسات کا لفظوں کی صورت میں اظہار کرتے ہیں ۔ یہ تو ہے ایک زبانی رابطے کا طریقہ ، جس میں لفظ بطورِ میڈیم استعمال ہوتے ہیں ۔ جسے ہم وربل کمیونیکیشن بھی کہتے ہیں ۔ اب جس طرح کسی کا پیار بھرا جملہ آپ کے اندر سکون ، تحفظ اور محبت کا احساس پیدا کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح رنگ بھی ہمارے اندر احساسات اور کیفیات پیدا کرتے ہیں ۔ وہ سکون ،تحفظ اور محبت اسی دلعزیز کے کچھ کہہ بغیر آپ گلاب کے لال پھول لے کر بھی محسوس کرتے ہیں ۔ یہ بھی ایک نان وربل کمیونی کیشن یا رابطے کا طریقہ ہے۔ جس میں بغیر لفظوں کے استعمال کے اپنی بات دوسروں تک پہنچائی جاتی ہے۔
مارکیٹنگ کی دنیا ہو یا فیشن کی دنیاہر جگہ رنگ بولتے نظر آ تے ہیں ۔ ایک ریسرچ میں یہ مشاہدہ کیا گیا مریضوں نے وہ دوائیں لیں جن کا رنگ زیادہ خوبصورت یا پرکشش تھا۔یہ ٹیبلیٹ پلاسیبو سے بنائیں گئی جو ایک خاص قسم کا بے ضرر پاؤڈر ہوتاہے اور گولیاں یا کیپسول بنانے میں استعمال کیا جاتاہے۔ مزے کی بات کہ خوبصورت رنگ والی گولیوں کو کھانے سے مریضوں نے جلد افاقہ محسوس کیا۔اس کی وجہ وہ خوشگوار احساس ہیں جو رنگ ان تک منتقل کرتے ہیں ۔
اسی طرح گھر میں موجود مختلف اشیاء کے رنگ برنگے ڈبے اٹھا کر دیکھئے۔ ہر پراڈکٹ کی پیکنگ آپ سے رنگوں کی زبان میں گفتگو کررہی ہے۔ آپ کو اپنی افادیت بتارہی ہے۔ بنائے جانے والی کمپنی کی ساکھ بیان کر رہی ہے۔ اب باہر نکلئے اور نظر دوڑائیے۔ ہمیں جگہ جگہ پولز پر سائین بورڈ پر لگے اشتہارات کو دیکھئے ان میں موجود مختلف برانڈ اور کمپینیوں کے لوگوز logo اس پوری کمپنی یا برانڈ کی ترجمانی کر رہے ہوتے ہیں ۔ ریستوران پر غور کیجئے عمومی طور سے ریستورانوں میں آپ کو اورنج اور پیلے رنگ نظر آئیں گے۔ فزی ڈرنکس لیجئے تو گرین ، نیوی بلیو اورلال رنگ۔ مگر منرل واٹر کی کسی بھی کمپنی کی بوتل کا رنگ ایک ہی ہوتاہے۔ اور اس کے لوگو logo کا رنگ بھی کسی نہ کسی نیلے رنگ کے شیڈ میں ہی نظر آتا ہے۔ ایسا کیوں ؟بات صرف اتنی ہے کہ آپ کو رنگوں کی زبان سمجھ میں آتی ہو۔
اس کی ایک اور مثال آپ کو اپنی میٹھی اردو زبان کی دیتے ہیں ۔ جس میں رنگوں کا استعمال حالت کو بیان کرنے کے لئے کیا خوبی سے کیا گیا ہے جیسے کہ بچے خونخوار جانور کی آواز سن کر ہی سفید پڑگئے یا شیر کو کھلا دیکھ کر وہ نیلا پڑ گیا۔یا پھر ستارہ کمزوری سے پیلی ہورہی ہے۔ اور وہ دیکھو خاورلال بھبھوکا چہرہ لئے اپنے ساتھی کو گھور رہا ہے۔ کبھی بیٹی کے ہاتھ پیلے ہونے کی دعا کی جاتی ہے تو کہیں کسی کو سبز قدم کہا جاتا ہے۔ الغرض جتنے رنگ اتنی باتیں اور اتنے مطلب۔ اور چند فریز انگریزی کے بھی سن لیجئے۔ بلیو ڈے ، یلو ڈے ، سیینگ ریڈ وغیرہ وغیرہ
رنگوں کے اثرات یا احسات کو علامت کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ اگر کالا رنگ طاقت ، قوت اور لگانگت کا رنگ ہے تو مغرب میں اسے کسی کی موت پر سوگ کے طور پر کیوں پہنا جاتا ہے۔یا پھر سفید رنگ اگر مشرق کے کسی حصے میں سوگ کے اظہار کے لئے پہنا جارہا ہے تو پھر مغرب میں دلہن کا لباس سفید کیوں ہوتا ہے ؟آخر یہ سب علامات کہاں سے تصور کی گئیں ۔ ایسا کیوں سمجھا جاتا ہے۔ اسی کو سمجھنے کے لئے آج ہم کچھ بات کرتے ہیں کہ رنگوں کی یہ پیغام رسانی کن بنیادوں پر ہوتی ہے۔ ؟اور ہماری شخصیت کی تعمیر میں رنگوں کا کیا کردار ہے ؟
جیسے جیسے ہم رنگوں کی کو گہرائی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ تو یہ بات سامنے آتی ہے جیسا کہ پچھلے باب میں ہم نے آپ کو بتایا تھا کہ تمام رنگوں کی بنیادی سورس سورج سے خارج ہونے والی روشنی ہے جو کروڑوں میلکا سفر کر کے ہم تک پہنچتی ہے۔ اس سفر کے دوران مختلف مقامات پر اس میں سے مختلف طولِ موج پر چھننے والی توانائیاں مختلف رنگوں کی صورت میں نظر آتی ہیں ۔یہ توانائیاں اپنے مخصوص خواص کی حامل ہوتی ہیں ۔ یہی وہ توانائی ہے جو ہماری نظروں سے ہمارے دماغ تک رسائی حاصل کرتی ہے اورجو بھی اثرات مرتب کرتی ہے اسے ہمارا ذہن کسی خاص جذبے یا کیفیت کا نام دے دیتا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر ہم ریستوران کی مثال سامنے رکھیں ۔ تو آپ یہ مشاہدہ با آسانی کر سکتے ہیں کہ ریستورانز میں زیادہ تر اورنج اور یلو کو ترجیح دی جاتی ہے۔ کیونکہ کلر سائیکولوجی کی بنیاد پر یہ رنگ بھوک اور اشتہاء کو بڑھاتے ہیں ۔ اسی طرح ایک کولڈ ڈرنک جس کے ِٹن کا رنگ لال ہے اس کا مطلب ایکسائیٹمنٹ اور جوش و ولولہ ،خوشی کا احساس پیدا کرنا ہے۔ یہی لال رنگ جب کمیونیکیشن کی برانڈ یا کمپنی کا نظر آتا ہے تو بھرپور بھروسے اور استقامت کااور اپنائیت کا احساس بیدار کرتا ہے۔
اس کے لئے آپ ایک دلچسپ تجربہ اپنے گھر میں بھی کر سکتے ہیں ۔ مگر اس کے لئے تھوری سی پریکٹس ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر آپ سانس کی مشقیں ، یوگا، یا مراقبہ کرنے کے عادی ہیں تو یہ تجربہ آسانی سے ہوجائے گا۔اور اگر نہیں ہیں تب کوئی مشکل نہیں ۔ اس کے لئے آپ کو ایک رنگوں کے کارڈ کی ضرورت ہے۔ جیسے کہ رنگوں کے کارڈ پر نمونے کے طور پر چوکور خانوں کی صورت میں رنگ دے دئیے جاتے ہیں ۔ اسی طرح کا بڑے سائز میں ۔ جس پر بنیادی رنگوں سے لے کر ثانوی رنگ یا سیکنڈری کلر بڑے سائز میں ہونے چاہیئے۔اس کارڈ کو میز پر رکھیئے۔ یا فرش پر۔ اور کرسی یا فرش پر آرام دہ حالت میں بیٹھ جائیے اس طرح کہ آپ با آسانی اس کارڈ کے ہر خانہ پر آپ کا ہاتھ پہنچ جائے۔ یعنی آپ کے بازو کے احاطے میں ہوں ۔ اب آپ تھوری دیر آنکھیں بند کر کے خود کو پرسکون کیجئے۔ تھوڑی دیر کے بعد جب آپ پر سکون ہونے لگے تب آپ اپنے ہاتھوں کو ہتھیلیوں کے رخ سے دو انچ کی دوری سے اس کارڈ پر بنے مختلف رنگوں کے خانوں کے اوپررکھیئے۔ اور تھوڑی دیر کے لئے وہیں رہنے دیجئے۔ اس دوران اپنے ہتھیلیوں میں محسوس ہونے والے کسی بھی طرح کے احساس اور وائبریشن کو نوٹ کرنے کی کوشش کیجئے۔ تھوڑی سی پریکٹس سے آپ واضح طور پر اپنی ہتھیلیوں میں حدت، ٹھنڈک کے احساس کو محسوس کر پائیں گے۔اور یہ فرق جان پائیں گے کہ رنگوں سے خارج ہونے والی توانائی کس طرح کی کیفیات پیدا کرتی ہے۔
اس تجربے سے آپ سمجھ پائیں گے کہ کس طرح کمرشل بنیادوں پر استعمال ہونے والے مختلف برانڈز ، پراڈکٹ کے لئے استعمال ہونے والے رنگ ہمارے ذہن پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ یہ تو ہوا اس سوال کا جواب کہ رنگوں کی پیغام رسانی کن بنیادوں پر ہوتی ہے۔
اب بات کرتے ہیں کہ یہ رنگ ہماری شخصیت کی تعمیر میں کیا کردار ادا کرتے ہیں ؟

energy buttons
انرجی بٹنز

یہ انرجی بٹنز کیا ہیں ؟اور کہاں پائے جاتے ہیں ؟
بشمول انسان ہر مخلوق جس میں ریڑھ کی ہڈی موجود ہوتی ہے۔اس ریڑھ کی ہڈی میں کچھ فاصلوں سے چند خاص مقامات ہوتے ہیں جنہیں ہم نے انرجی بٹنز کا نام دیا ہے انھیں عرفِ عام میں چکراز کہا جاتا ہے۔ ہم انہیں انرجی بٹنز energy buttonsکا نام دے رہے ہیں ۔ یہ انرجی بٹن مختلف طولِ موج کی روشنی کو جذب کرتے ہیں ۔اور مخصوص توانائی رکھتے ہیں ۔ لہذا ان سے خارج ہونے والی یہ کائناتی توانائی بھی مختلف رنگوں کی حامل ہوتی ہے۔ اور ان رنگوں کے انہیں خواص کی بنیاد پر ہماری حسیات ،حواسِ خمسہ اور اعضاء پر مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔اور انہی توانائیوں کے غیر متوازن ہوجانے سے انسانی صحت متاثر ہوتی ہے۔ اور یہی توانائی جب رنگوں کی صورت میں جسم سے خارج ہوتے ہیں تو ہمارے گرد ایک ہالہ سا بن جاتا ہے۔ جسے الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ یا برقی مقناطیسی میدان کہا جاتاہے۔کلر سائیکولوجی میں اسے اورا یا نسمہ کا نام بھی دیا جاتاہے۔ اورا سے خارج ہونے والی شعاعیں آپ کی شخصیت کا پیغام دوسری مخلوق تک پہنچاتی ہے۔ اور لوگ آپ کے بارے میں اپنی مثبت یا منفی رائے قائم کرتے ہیں ۔ آپ سے تعلقات استوار کرتے ہیں ۔ کئی لوگوں میں مختلف رنگوں کی کمی یازیادتی مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ کہیں بیماری تو کہیں آپ کے تعلقات میں خرابی کا باعث بنتی ہے۔ اگر آپ یہ جان لیں کہ آپ کے اورا میں پیدا ہونے والی اس کمی کو کیسے پورا کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں کہ آپ اپنا مقصد حیات پالیں ۔ اور ایک صحت مند،خوز وخرم خوشحال زندگی گزاریں ۔ مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ کسی مستند کلر سائیکولوجسٹ کی مدد سے یہ جانچا جائے کہ آپ کا کونسا انرجی بٹن سست روی کا شکار ہے اور ایکٹیویٹ کرنے کی ضرورت ہے یا کونسا انرجی بٹن اور ایکٹیویٹڈ over activated یا ضرورت سے زیادہ چارج ہے۔
مزید معلومات کے لئے آپ کو بتاتے ہیں کہ ان انرجی بٹنزenergy buttons کی تعداد سات بتائی جاتی ہے جو ہمارے جسمانی اور اعصابی نظام پر اثرنداز ہوتے ہیں اور انھیں توانائی پہنچانے کا کام کرتے ہیں ۔ جن کی تفصیل ہم آپ کو رنگوں کی مناسبت سے فراہم کرتے رہیں گے۔
یہ تو ہوئی کچھ بنیادی معلومات جو کلر سائیکولوجی کے حوالے سے سمجھنے کے لئے ضروری ہے۔ معلومات کا یہ سلسلہ ہم آگے بھی جاری رکھیں گے۔ انشاللہ۔ اب بات کرتے ہیں آج کے رنگ کی۔ ویسے تو انرجی بٹن میں پہلا رنگ لال بنتا ہے مگر ہم یہاں پہلے زرد رنگ پر بات کریں گے۔ قارئین کی آسانی کے لئے زرد رنگ کیوں ناں ہم ایک تمثیلی کہانی سمجھیں ۔
تو پھر پہلے ایک مختصر سی تمثیلی کہانی سن لیجئے

***

 

چاروں طرف جیسے روشنیوں کا سیلاب امنڈ رہاتھا۔ہر چہرے پر خوشی تھی۔ رنگوں کی بہار چھائی تھی۔ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے جنون میں لڑکیاں جدید تراش خراش کے دیدہ زیب جوڑوں میں جیسے مقابلہ حسن میں شریک تھیں ۔ یہ بتانا بہت مشکل ہوگیا تھا کہ سب سے حسین کون ہے۔
ہر طرف قہقہے تھے ،مسکراہٹیں تھیں روشنیاں تھیں ۔ جیسے غم نام کی کوئی شئے اس دنیا میں کہیں بھی موجود نہیں ۔ رنگ و نور کی اس محفل میں حسن کے اس طوفان میں وہ سب سے الگ تھلگ ، حزن ویاسیت کی تصویر بنی کھڑی تھی۔ ایک کونے میں ڈری سہمی دبکی ہوئی سی۔ انتہائی مہنگے برانڈ کا قیمتی پرپل سوٹ اس نے زیب تن کیا ہوا تھا۔اور شاید چہرہ پر بھی مہنگے اور قیمتی میک اپ کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ اس کے باوجود نہ تو اس میں سے رنگ و نور کی روشنیاں نکل رہیں تھیں اور نہ ہی حسن کا سیلاب امڈ رہا تھا۔اس کے چہرے پر تو جیسے بارہ بج رہے تھے۔ محفل میں موجود لوگوں میں زیادہ تر اس کی ہم عمر لڑکیاں تھیں ۔ جن میں سے کسی کا بھی دھیان اس کی جانب نہ تھا۔
آج میری بیسٹ فرینڈ کی منگنی ہے اور میں اتنی الگ تھلگ۔وہ خود سے باتیں کر رہی تھی اس اپنی ہم عمر اور ہم جماعت لڑکیوں کا یوں اسے اگنور کرنا بالکل بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔اور اگر کوئی لڑکی مسکراتی ہوئی آگے بڑھتی تو ا س کے لب و لہجے کی ہمدردی یشم کے نازک دل کو جیسے کاٹ کر رکھ دیتی۔
یہ لوگ مجھے نارمل کیوں نہیں سمجھتے۔ آخر میں بھی انہی کی طرح ہوں ۔اس کی آنکھیں نم ہونے لگیں مگر جلدی سے اس نے ٹشو پیپر کے کونے سے آنکھوں میں آئی نمی جذب کر لی۔
‘‘ریشم کہاں ہے بھئی اسے تو بلاؤ’’۔ بلا آخر کسی کو اس کی یاد آ ہی گئی اور لڑکیوں کے ہجوم سے کسی کی آواز ابھری۔
‘‘ہوگی کسی کونے میں ۔ یار تم جاؤ اسے دیکھنے’’۔ دوسری آواز ابھری اور ساتھ ہی چند لڑکیاں ریشم کی تلاش میں لان کے کونے کونے میں بھر گئیں ۔ دلہن کی کزن نائمہ کی آواز آئی۔
‘‘ارے ریشم تم یہاں چھپی بیٹھی ہو اور سارے جہاں میں تمہار اشور مچا ہوا ہے۔ حد ہوگئی’’۔ نائمہ چڑ کر بولی۔
ریشم جو نہ جانے کب سے تالاب کے کنارے بیٹھی اپنی ہی سوچوں میں گم تھی گھبرا کر کھڑی ہوگئی۔
‘‘نہیں میں تو بس ایسے ہی’’۔وہ زبردستی مسکراتے ہوئے بولی
‘‘ایسے ہی کیا یار؟ اب چلو۔ دلہن صاحبہ نے شور مچایا ہوا ہے۔ جب تک ان کی دلعزیز ، بیسٹ فرینڈ ان کے پاس نہیں بیٹھیں گیں وہ رسم نہیں کروائے گی۔ ’’
‘‘ہاں ہاں چل رہی ہوں ’’، وہ جلدی سے گہری سی سانس لے کر خود کو نارمل کرتی ہوئی نائمہ کے پیچھے چل پڑی۔مگر پھر بھی جیسے اسٹیج قریب آرہا تھا۔ روشنیوں کا سیلاب بھی بڑجتا جارہا تھا۔اس کے ہاتھ پاؤں میں کپکپاہت سی دوڑنے لگی۔ خود کو کسی نہ کسی طرح سنبھالتے ، ٹشو پیپر سے ماتھے پر نمایاں ہوتیں پسینے کی بوندیں صاف کر تی وہ جلدی جلدی قدم بڑھاتی اسٹیج پر چڑھ گئی تھی۔ جہاں اس کی بہت پیاری دوست ہانیہ دلہن بنی شاید اسی کی راہ تک رہی تھی۔ ہانیہ نے گھونگٹ کی اوٹ سے اسے گھورا۔
‘‘کہاں تھی تم؟ ’’اس کے غصے پر ریشم مسکرادی۔ ایک وہ ہی تو تھی جو اس کی بیمار سی صورت پر اس سے ہمدردی کے بول خیرات نہیں کرتی تھی۔ اسے نارمل ٹریٹ کرتی تھی۔ آج دلہن بنی کتنی خوبصورت لگ رہی تھی۔ اسے دلہن پر بہت پیا رآنے لگا۔اور پھر باقاعدہ تقریب کا آغاز ہوگیا۔
‘‘اوہ تو یہ ہے ریشم،’’ ایک عورت کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔
‘‘ہاں اس کے لئے آپ کی ہونے والی بہو اتنی ادھم مچا رہی تھی’’۔ وہ عورت شاید سسرالیوں میں سے تھی۔
‘‘ہاں بھئی دلہن کی بہت قریبی سہیلی ہے اس کے بغیر یہ کچھ نہیں کرتی۔ بڑ ے امیر کبیر لوگ ہیں ’’۔
‘‘اچھا…. ایک بات تو بتاؤ کیا اسے کوئی بیماری ہے…. لگتا تو ایسے ہی ہے۔ ’’
‘‘اللہ نہ کرے یہ تو بالکل ٹھیک ٹھاک ہے’’۔ نائمہ جو قریب ہی کھڑی تھی جس کے کانوں میں بنبناہٹ پڑ گئی تھی نے ٹوکا
‘‘توپھر، یہ ایسی کیوں ہے’’۔ انھوں نے چپ چاپ بیٹھی ریشم کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔لائیٹ میک اپ کے باوجود حلقے بہت نمایاں تھے۔ چہرے کی زردی چھپائی نہیں چھپ رہی تھی۔ کاجل سے بھری آنکھوں سے تو جیسے ویرانی ٹپک رہی تھی
‘‘نقوش ضرور پیارے تھے۔ گر جو یہ زرا بھر ی بھری ہوتی تو بہت پرکشش ہوتی’’۔ ان خاتون نے اس کا بہت تفصیل سے جائزہ لیا تھا۔
ریشم ان کی نظروں کو بھانپ گئی تھی۔ ویسے بھی اسے پچھلے دو سالوں سے اس طرح کی نظروں کی عادت ہوچکی تھی۔ وہ جانتی تھی اب یہ آنٹی اس کے پاس آکر اسے کچھ ٹوٹکے بتائیں گیں یا پھر کسی حکیم کا پتا دیں گی۔
ویسے بھی رسم ہوچکی تھی اور بڑے بزرگوں کی جگہ ہانیہ کی ساری کزن نے اسے گھیر لیا تھا۔ اب وہ مزید رک کر موضوع محفل نہیں بننا چاہتی تھی۔ ڈرا ئیور باہر ہی کھڑا تھا اس لئے جلدی سے بہانہ بناکر وہاں سے اٹھ گئی۔
‘‘ارے ریشم اتنی جلدی آگئی’’۔ امی اسے یوں پارٹی سے اتنی جلدی گھر میں دیکھ کر کچھ پریشان سی ہوگئیں ۔
‘‘طبیعت تو ٹھیک رہی ناں تمہاری’’۔ انھوں نے اس کا ماتھا چھوا۔
‘‘کچھ نہیں بس سر میں شدید درد ہے’’۔ اس نے سر پکڑ لیا۔
‘‘میں تو سمجھ رہی تھی کہ تم پارٹی میں جاکر فریش ہوجاؤگی مگر تمہارے چہرے پر تو….’’ اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتیں ۔ ریشم دھاڑیں مار کر رونے لگی۔
‘‘ اچھا لو پہلے تم یہ گولی کھاؤ’’۔ انھوں نے جلدی سے درد کی ایک گولی آگے بڑھادی او ربردستی اس کے منہ میں ڈال دی
‘‘آہ میرا سر….’’وہ کراہی ، اس کا سر درد سے پھٹا جارہا تھا۔
‘‘یاسر جلدسے اٹھو ’’، امی نے ریشم کے چھوٹابھائی کو آواز لگائی۔ اس کے سر میں شدیدد رد اٹھا تھا۔ ڈاکٹر کی بروقت طبی امداد سے اس کی طبیعت اب کچھ بہتر تھی ۔ وہ دھیرے دھیرے غنودگی میں چلی گئی تھی۔کچھ دیر آبزرویشن میں رکھ کر وہ اسے گھر لے آئے تھے۔
مسز الیاس پریشان تھیں ۔ مگر وہ اس کے پاس بیٹھی دھیرے دھیرے اس کا سر سہلا رہیں تھیں ۔ نیند ان کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ ان کی بیٹی بیس سال کی ہوگئی تھی۔ پڑھائی میں لکھائی میں بہت ذہین تھی۔ تعلیمی ریکارڈ میں ہمیشہ اے گریڈ میں پاس ہوئی تھی۔ مگر نہ جانے کیوں جب بھی کسی دعوت میں جانے کا نام لیتے۔ ہمیشہ جانے سے کتراتی۔ نہ کسی ایکٹویٹی میں حصہ لیتی اور نہ ہی کسی جوش و خروش کا مظاہرہ کرتی۔ گھر میں جب بھی دعوت یا بار بی کیو پارٹی رکھی جاتی ریشم ہمیشہ سب سے کونے میں دبکی ہوئی نظر آتی۔ بچپن میں تو گھر والے نظر انداز کردیا کرتے تھے۔ مگر جب سے کالج میں ایڈمیشن ہوا تھا۔اس کی یہ گھبراہٹ پہلے سے زیادہ بڑھ گئی تھی۔ رفتہ رفتہ اس نے سر میں درد کی شکایت کرنا شروع کردی۔ تو کبھی پیٹ میں درد ، کبھی ہاضمہ خراب ہوجاتا تو کبھی بخار چڑھ جاتا۔ کوئی خاص سوشل سرکل بھی نہ تھا۔ بس ہر وقت پڑھائی اور اپنے کام میں لگی رہتی۔
یااللہ میری بچی کے لئے کوئی راستہ نکال۔ وہ بارگاہ الہی میں ہاتھ جوڑکر بیٹھ گئیں تھیں۔

***

اس تمثیلی کہانی میں زرد رنگ کی کمی یا غیر متوازن ہوجانے کے باعث پیدا ہونے والی ان چند کمزوریوں کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے جن کاایسے لوگ جن میں زرد رنگ غیر متوازن ہوجائے۔ عمومی طور پرشکار ہوجاتے ہیں اور جو اکثریت میں درج کی گئی ہیں ۔
زرد ، پیلا Yellow رنگ اس کے خواص افادیت اور نقصانات۔
زرد یا پیلا رنگ ہماری زندگی کا ایک انتہائی اہم حصہ ہے۔ کیوں اہم ہے تو جواب یہ ہے کہ یہ رنگ کسی بھی انسان کی مثبت طرزِ فکر ، چستی اور صلاحیتوں کے بھرپور اظہار کرنے والی با اعتماد اور خوش باش شخصیت کی نمائندگی کرتا ہے۔
کلر سائیکولوجی کے مطابق اس کہانی سے واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ پیلا رنگ نہ صرف نظامِ ہاضمہ کو توانائی فراہم کرتا ہے بلکہ یہ اعصابی نظام پر بھی اپنا گہرا اثر رکھتا ہے۔ اسی لئے اس رنگ کی روشنی کو مینٹل ریز بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا تعلق ہمارے تیسرے انرجی بٹن یا چکرا سے ہوتا جسے سولر پلیکس کہتے ہیں ۔ یہ بٹن ہمارے نظامِ ہاضمہ کو توانائی فراہم کرتا ہے۔ اوراعصابی نظام کو متاثر کرتا ہے۔ وہ لوگ جن میں پیلے رنگ کی کمی ہوتی ہے زیادہ تر الگ تھلگ رہنا پسند کرتے ہیں ۔ ان میں سیلف کنفیڈنس کی کمی ہوتی ہے اور کمزور قوتِ فیصلہ اور کمزور قوتِ ارادی کا شکار ہوتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے بہت زیادہ بے ہنگم سوچوں کے ہجوم میں گھرے رہتے ہیں ۔ یا کنفیوز نظر آتے ہیں ۔ وہمی طبیعت ،لوگوں سے دور رہنے یا نہ ملنے کی خواہش یا تو ان کو احساسِ کمتری میں مبتلا کردیتی ہے یا پھر اسٹریس اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ یہ ذہنی دباؤ ان کے نظامِ ہاضمہ کو بھی متاثر کرتا ہے۔ جس کوطبی اصطلاح میں فنکشنل ڈس اورڈر بھی کہاجاتاہے۔ نتیجے میں پیٹ کی بیماریاں جن میں قبض، یا بے وجہ اسہال کا ہونا،گیس ٹربل ، بھوک کا بہت زیادہ لگنا یا بالکل بھی نہ لگنا ہوسکتا ہے۔ اس کے ساتھ اسٹریس اور سردرد کی شکایات بھی بڑھ جاتی ہیں ۔ اگر ان کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو یہ جگر کو بھی متاثر کرسکتا ہے جو کہ ذیابیطس کا بھی باعث بن سکتاہے۔ زرد رنگ کا تعلق چونکہ ہمارے نظام انہضام سے ہے اس لئے یہ ہماری جلد پر بھی اثرا انداز ہوتا ہے۔ ایسے افراد جن میں زرد رنگ کی کمی ہو ان کی جلد میں تازگی نہیں رہتی۔
یہ کمی آپ کیسے پوری کرسکتے ہیں ۔
۔اس کے لئے پھلوں میں کیلا، لیموں ،انناس ،تازہ بھٹہ یا سوئیٹ کارن،مددگار ثابت ہوسکتے ہیں ۔
۔دالوں کا استعمال آپ کی پروٹین کے ساتھ پیلے رنگ کی کمی کو بھی پورا کرے گا۔
۔ایسے لوگ جو خود کو الگ تھلگ رکھنا چاہتے ہیں ۔ محفلوں سے گھبراتے ہیں ۔ انہیں چاہئے کہ اپنے لباس میں بھی پیلے رنگ کا استعمال کریں ۔
۔یہ آپ کمبی نیشن کی صورت میں بھی کر سکتے ہیں۔
۔پیلے رنگ کے ساتھ متعلقہ صورتحال میں بہترین کمبی نیشن پیلے کے ساتھ اورنج یا نارنجی یا سبز ہوتے ہیں ۔
۔مرد حضرات ان کے ہلکے رنگ کا استعمال بھی کرسکتے ہیں ۔
۔ گولڈن یلو ، برائٹ لیمن کلر سستی اور کاہلی کو دور رکھتے ہیں اور مثبت سوچ کو تحریک دیتے ہیں ۔
۔پروفیشنل لائف میں زرد رنگ آپ کے جلد فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھاتا ہے۔ اور آپ کی شخصیت میں اعتماد بڑھاتا ہے۔
۔تعلقات میں گرم جوشی پیدا کرتا ہے۔
اگر آپ بھی یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کی شخصیت کو نکھارنے کے لئے اور اگر کوئی پریشانی یا کمی ہے تو ا س کے حل کے لئے کس رنگ کی ضرورت ہے تو آپ اپنے نام اور تاریخِ پیدائش لکھ کر ہم سے روحانی ڈائجسٹ کے پتے پر رابطہ کر سکتے ہیں ۔ یا درج زیل پتے پرای میل کر سکتے ہیں ۔
colourpsychology@gmail.com

تحریر شاہینہ جمیل

(جاری ہے)

یہ بھی دیکھیں

ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ، جلد کی شادابی ، سانس کی مشقوں کے ذریعے

ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ، جلد کی شادابی ، سانس کی مشقوں کے ذریعے سانس کے …

پانی بھی شعور رکھتا ہے؟

پانی بھی شعور رکھتا ہے؟ پانی انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے …. پانی ہی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے