Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

بھوکے رہو بے وقوف رہو

 

جب کبھی لوگوں پر سب سے زیادہ اثر چھوڑنے والی کاروباری شخصیات کا نام لیا جائے گا تو اس میں کوئی اور نام شامل ہو نہ ہو،ایک نام ضرور ہوگا۔ اور وہ نام ہے اسٹیوجابزSteve Jobs ( 1955تا 2011ء) کا۔


آئی فون اور آئی پیڈ بنانے والی کمپنی ایپل Apple کے اس مشترک بانی Co Founder کو دنیا صرف ایک موجد، کامیاب کاروباری شخصیت اور بزنس مین کے روپ میں ہی نہیں جانتی، بلکہ انہیں دنیا کے معروف اسپیکر اور موٹیویٹر Motivators میں بھی شمار کیا جاتا تھا۔ اس نے غربت اور مشکل حالات میں اپنا سفر شروع کیا لیکن یہ اپنے راستے خود بناتا گیا۔ اسٹیو جابز کامیابیوں کے اس سفر میں آخری سات سال کینسر سے بھی لڑتا رہا لیکن اس عرصہ میں بھی وہ اپنی کمپنی کی پہچان بنا رہا اور 2011ء میں وہ کینسر کے مرض سے دنیا سے چل بسا۔
2005ء میں اسٹیو جابز نے اسٹین فورڈ Stanford یونیورسٹی کے طالب علموں سے خطاب کرتے ہوئے اپنی زندگی کی تین کہانیاں بیان کی تھیں، اسٹیو جابز کی زندگی کی یہ تین داستانیں دراصل ہمت اور حوصلے کی داستان ہے ۔ روحانی ڈائجسٹ کے  قارئین کرام خصوصا نوجوان قارئین کی دلچسپی اس تقریر کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے۔ تو آئیے….! پڑھتے ہیں آئی فون اور آئی پیڈ بنانے والی کمپنی ایپل کے بانی اسٹیو جابز کی زندگی کی تین کہانیاں جو بدل سکتی ہیں آپ کی بھی زندگی۔

 

12جون2005کا دن تھا جب اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے طلباءسروں پر کانوکیشن کیپس اور جسم پر کالی عبائیں پہنے عملی زندگی میں قدم رکھ رہے تھے ، کالج کے سالانہ کانووکیشن کے موقع پر ملک بھر سے نامور شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا جو باری باری ڈائس پر آکر طلباءکو اپنے تجربات سے آگاہ کر رہے تھے ، اچانک اسٹیج سیکریٹر ی کی گرجدار آواز نے سامعین کو اپنی طرف متوجہ کیا ….
دوستوں انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں،اب میں جس شخصیت کو دعوت خطاب دینے جارہا ہوں وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں، آپ نے اپنی بھر پور محنت ، لگن اور جدوجہد سے ایک ایسی مشین ایجاد کی جس نے پوری دنیا میں انقلاب بپا کر دیا۔ اس مشین کی بدولت فاصلے سمٹ گئے۔ دوریاں قربتوں میں بدل گئیں ۔ علم کے دروازے کھل گئے اور جو کام کل تک ہمارے لئے خام خیال تھا آج حقیقت بن کر ہماری آنکھوں کے سامنے ہے ۔
آپ کی بھر پور تالیوں میں دعوت خطاب دوں گا ایپل کمپنی کے بانی اسٹیو جابز کو کہ وہ آئیں اور اپنے خیالات کا اظہار کریں ۔
تالیوں کی گونج میں پختہ عمر کا یہ شخص جب ڈائس پر آیا تو ناصر ف طلبابلکہ اساتذہ بھی اس کے استقبال کیلئے کھڑے ہوئے گئے اور فضامیں کافی دیر تک تالیوں کی گونج سنائی دی ۔
‘‘آپ کا بہت بہت شکریہ !آج دنیا کی سب سے بہترین یونیورسٹیز میں سے ایک کے کانووکیشن میں شامل ہونے پر میں فخر محسوس کر رہا ہوں۔ میں آپ کو ایک سچ بتا دوں، میں کبھی کسی کالج سے پاس نہیں ہوا، اور آج پہلی بار میں کسی کالج گریجوئشن کی تقریب کے اتنا قریب پہنچا ہوں۔ آج میں آپ کو اپنی زندگی کی تین کہانیاں سنانا چاہوں گا… زیادہ کچھ نہیں بس تین کہانیاں، جویقینا آپ سب کیلئے سبق ہوں گی اور عملی زندگی میں کام آئیں گی ۔

connecting the dots
کڑی سے کڑی جوڑنا

میری پہلی کہانی معلومات اکٹھا کرنے یا کڑی جوڑنے Connecting Dots سے متعلق ہے ۔
میں جب 17سال کی عمر کا تھا تب میں نے ریڈکالج Reed College میں داخلہ لیا، لیکن 6مہینوں بعد میں نے کالج کو الوداع کہہ دیا اور بقیہ 18مہینے کالج کے اردگر د منڈلاتا رہا ۔
آپ سو چ رہے ہوں گے کہ میں نے کالج کیوں چھوڑا ؟ یہ جاننے کیلئے آپ کو تھوڑا سا پیچھے جانا ہوگا۔
میری والدہ کالج کی ایک کم عمر طالبہ تھیں اور اُن کیلئے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ میری کفالت بھی کرتیں لہٰذا میری ولادت سے قبل ہی اُنہوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ مجھے کفالت کیلئے کسی کے سپر د Adoptionکر دیں گی ۔اُن کی شدید خواہش تھی کہ میری پرورش کوئی ایسا جوڑا کرے جو کم از کم گریجویٹ ہو ۔
اس سلسلے میں ایک وکیل اور اُس کی بیوی سے بات ہوئی تو انہو ں نے حامی بھر لی، تمام قانونی تقاضے پورے ہو گئے لیکن اچانک انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ ہمیں تو بیٹی چاہئے ۔ خیر میری والدہ نے ایک اور جوڑے سے رابطہ کیا جنہوں نے میری پرورش کی حامی بھر ی لیکن معاملہ جب آخری دستاویزات پر دستخط کا آیا تو پتہ چلا کہ وہ دونوں تعلیم یافتہ نہیں ۔ میر ی والدہ نے دستخط سے انکار کر دیا لیکن کچھ ماہ بعد اس شرط پر راضی ہوئیں کہ وہ ہرحال میں مجھے تعلیم دلائیں گے ۔ لہٰذا 17برس کی عمر میں مجھے کالج جانا پڑا اور غلطی سے میں نے ایک ایسے کالج کا انتخاب کیا جو اسٹین فورڈ کی طرح مہنگاتھا۔ میرے سرپرست والدین ،جوکہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے ، کی تمام جمع پونجی خرچ ہونے لگی۔ 6 مہینے بعد مجھے پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہیں نظر آئی۔ مجھے کچھ آئیڈیا نہیں تھا کہ میں اپنی زندگی میں کیا کرنا چاہتا ہوں، اور کالج مجھے کس طرح سے اس میں مدد کرے گا۔ اوپر سے میں اپنے والدین کی زندگی بھر کی کمائی خرچ کرتا جا رہا تھا۔ اس لئے میں نے کالج چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا اور سوچا جو ہوگا اچھا ہوگا۔
اُس وقت شاید یہ میری زندگی کا سب سے احمقانہ فیصلہ ہو لیکن آج جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو یہ میری زندگی کے بہترین فیصلوں میں سے ایک تھا ۔ کیونکہ اس وقت میرے پاس یہ آپشن تھا کہ میں ان بور کلاسوں سے چھٹکارا حاصل کر کے وہ کام کروں جو میرے مزاج سے مطابقت رکھتا ہو اور جس کے کرنے میں مجھے مزا آئے ۔
کالج چھوڑنے کے بعد میری زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا، یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں تھا۔ میرے پاس رہنے کے لئے کوئی کمرہ نہیں تھا، اس لئے مجھے دوستوں کے کمروں میں فرش پہ سونا پڑتا تھا۔ میں کوک کی بوتل کو لوٹانے سے ملنے والے پیسوں سے کھانا کھاتا تھا…. میں ہر اتوار 7 میل پیدل چل کر ایک مندر جاتا تھا، تاکہ کم سے کم ہفتے میں ایک دن پیٹ بھر کر کھانا کھا سکوں۔ یہ مجھے کافی اچھا لگتا تھا۔
میں نے کبھی اس چیز کی پروا نہیں کی کہ کون کیا کہتا ہے ، میں صرف وہی کرتا جو میرا دل چاہتا ۔ اپنے جنون کی خاطر میں نے کئی ایسے کام کئے جس کا نتیجہ بعد میں صفر نکلا لیکن پھر بھی میں نے کرنا وہی تھا جو میرا دل چاہتا ۔ مثلاً ریِڈ کالج Reed College میں اُن دنوں کیلیگرافی کی تربیت کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ پورے کیمپس کا کونہ کونہ ہاتھ سے بنی خوبصورت پینٹنگز سے سجا یا گیا ۔میں چونکہ فارغ تھا لہٰذا میں نے سوچا کہ کیوں نہ یہی سیکھا جائے۔ میں نے حروف تہجی کی مختلف اقسام Serif اور Sans Serif خطاطی میں مہارت حاصل کرنا شروع کی، الگ الگ حروف کے بیچ میں وقفہ دینا اور اچھی Typography طباعت کو کیا چیز اچھا بناتی ہے، یہ بھی سیکھا۔
دھیرے دھیرے میں نے محسوس کیاکہ میرے فن میں مہارت آرہی ہے، یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میر ادعویٰ تھا کہ میرے ہاتھ سے کی گئی خطاطی سائنس کے بس کی با ت نہیں ۔ لیکن یہ سب کچھ اُس وقت تک تھا جب تک میں کالج میں رہا ، جس دن کالج چھوڑا خطاطی بھی چھوٹ گئی۔
دوستو! یہ کہانی سنا نے کا مقصد یہ تھا، زندگی میں تجربات ،خواہ وہ اچھے ہوں یا برے ، بڑی اہمیت رکھتے ہیں،میں نے کالج کے زمانے میں جو کچھ سیکھا، ممکن ہے وہ اُس وقت میرے لئے احمقانہ اور فضول ہو ، اس وقت مجھے ذرا سی بھی امید نہیں تھی کہ میں ان چیزوں کا استعمال کبھی اپنی زندگی میں کرسکوں گا ۔ لیکن 10سال بعد جب ہم نے پہلا میکنٹوش Macintoshکمپیوٹر ڈیزائن کیا تو یہ سب میرے کام آگیا ۔ ہم نے اس کمپیوٹر میں نہ صرف حروف تہجی کے خوبصورت نمونے Fontشامل کئے بلکہ خطاطی کے نت نئے انداز بھی متعارف کروائے اور اور Mac خوبصورت طباعت (ٹائپنگ) پر مشتمل دنیا کا پہلا کمپیوٹر بن گیا۔ یہی اس کمپیوٹر کی اہم خصوصیت تھی جس کی بدولت یہ آتے ہی مارکیٹ میں چھا گیا۔
اب آپ سوچئے کہ اگر میں نے کالج نہیں چھوڑا ہوتا تو تونہ ہی میں خطاطی کی کلاسیں لیتا اور نہ ہی Mac میں مختلف گوناگوں خط یا فونٹ fonts ہوتے، اور چونکہ ونڈوز Windows کمپیوٹر نے Mac کی کاپی کی تھی تو شائد کسی بھی کمپیوٹر میں یہ چیزیں نہیں ہوتیں۔
یہ کہانی یہ بھی بتاتی ہے کہ ہمارا مستقبل ہمارے ماضی کے کسی نہ کسی نقطے (کڑی)سے ضرور جڑا ہو تا ہے ، ہمیں بس اپنے ماضی میں جھانک کر اُن نقطوں کو پہنچاننا ہے اور اُن دونوں کو آپس میں جوڑناہے۔
آپ سوچئے کہ جب میں کالج میں تھا تب مستقبل میں دیکھ کر کڑی سے کڑی ملانا ناممکن تھا، لیکن دس سال بعد جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو سب کچھ بالکل صاف نظر آتا ہے۔
آپ کبھی بھی مستقبل میں جھانک کر کڑی سے کڑی نہیں جوڑ سکتے آپ صرف ماضی دیکھ کر ہی کڑی سے کڑیDots Connect جوڑ سکتے ہیں، اس لئے آپ کو کسی نہ کسی چیز میں یقین کرنا ہی ہوگا کہ ابھی جو ہو رہا ہے وہ آگے چل کر کسی نہ کسی طرح آپ کے مستقبل سے Connect ہو جائے گا۔ اپنی ہمت میں، اپنی قسمت میں، اپنی زندگی یا پھر اپنے کام میں…کسی نہ کسی چیز میں یقین کرنا ہی ہوگا… تب بھی جب آپ بالکل الگ راستے پر چل رہے ہو ں گے…. اور پھر آپ امتیاز حاصل کرلیں گے۔
یہی میری کامیابی کا پہلا ٹوٹکا ہے ۔ لہٰذا فارغ رہنے کے بجائے سیکھئے اور بس سیکھتے رہیے ۔

Love and Loss
محبت اور نقصان

میری زندگی کی دوسری کہانی محبت اور نقصان کے بارے میں ہے
میں بہت خوش قسمت تھا کہ مجھے اپنی ابتدائی زندگی میں ہی ہر وہ چیز مل گئی جس کی مجھے چاہت ہوئی۔ میں جب 20برس کا تھا تو میرے ساتھی اسٹیو ووزنائیک Steve Wozniakاور میں نے مل کر اپنے والدین کے گیراج میں ایپل کمپنی شروع کی۔ ہماری دن رات کی انتھک محنت کے سبب 10برسوں میں یہ گیراج 2ارب ڈالر مالیت کے ساتھ 4ہزار ملازمین کی کمپنی میں تبدیل ہو گیا ۔ اُس وقت میری عمر 30برس تھی اور ہم نے مارکیٹ میں ایک سال قبل Macentosh کمپیوٹر متعارف کیا تھا۔
یہاں پہنچ کر زندگی نے مجھ سے ایسا امتحان لیا جس کی تیاری کا میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا ۔ مجھے ملازمت سے برخواست کر دیا گیا ۔ آپ حیران ہوں گے کہ جس کمپنی کا بانی میں خود ہوں وہاں سے مجھے کیسے نکالا جاسکتا ہے ….؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جب کمپنی اپنے ابتدائی مراحل میں تھی تو ہم نے ایک شخص کو ملازمت پر رکھا جس کے بارے میں ہمارا خیال تھا کہ یہ ہمارے ساتھ مل کر بہت اچھے طریقے سے کمپنی چلائے گا۔ ایک سال معاملات اچھے چلتے رہے لیکن پھر اچانک کمپنی کو دھچکا لگا اور ہم نیچے آنا شروع ہو گئے ۔ فوری طور پر بورڈ آف ڈائیریکٹرز کی میٹنگ بلائی گئی اور اُنہوں نے سارا الزام میرے سر تھونپ دیا ۔اُن کا کہنا تھا کہ اگر وہ میری دی ہوئی رائے پر عمل نہ کر تے تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ مجھے ملازمت سے نکال دیا گیا اور نہ صرف نکالا گیا بلکہ سب کے سامنے علیٰ الاعلان نکالا گیا ۔
اپنی پوری جوانی جس چیز پر میں نے صرف کی تھی اُس کا یوں ہاتھ سے نکل جانا یقینا میرے لئے کسی صدمے سے کم نہ تھا۔ کچھ مہینے تو سمجھ ہی نہیں آئی کہ آخر میں کروں تو کیا کروں ۔مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے میرے اندر کی تخلیقی صلاحیتیں ماند پڑ چکی ہیں اور میں کبھی بھی نیا کاروبار شروع نہیں کرسکوں گا۔
مجھ سے اتنی بڑی غلطی سرزد ہوئی تھی کہ میں نے سوچا اس شعبے کو ہی خیرباد کہہ دوں، ایک بار تو میں نے سلیکون ویلی چھوڑ کر جانے کی بھی سوچا۔ لیکن آخری حربے کے طو رپر میں نے اپنے ساتھیوں سے معافی مانگنے کا فیصلہ کیا۔ میں ڈیوڈ پیکرڈ David Packard (HP کمپنی کے شریک بانی)اور باب نوئس Bob Noyce (مائیکرو چپ کے موجد) سے ملا اور ان سے سب کچھ ایسے ہو جانے پر معافی مانگی۔ لیکن یہاں بھی مجھے ناکامی ہوئی اور کمپنی نے مجھے دوبارہ رکھنے سے صاف انکار کر دیا ۔
میرے لئے ترقی کے تمام دروازے بند ہو گئے ، قسمت نے مجھے زمین پر پٹخ دیا ، پر دھیرے دھیرے مجھے احساس ہوا کہ میں جو کام کرتا ہوں، اس کے لئے میں ابھی بھی پرجوش ہوں۔ ایپل میں جو کچھ ہوا اس کی وجہ سے میرے جوش میں ذرا بھی کمی نہیں آئی ہے….
پتہ نہیں میرے اند ر ایسی کیا چیز تھی جو بار بار مجھے کہے جارہی تھی کہ جوکچھ بھی میں نے کیا وہ بالکل ٹھیک ہے ۔ بلا شبہ میری رائے سے کمپنی کو وقتی طور پر خسارے کاسامنا کرنا پڑا، پر میں ابھی بھی اپنے کام سے پیار کرتا ہوں۔ اس لئے میں نے ایک بار پھر سے شروعات کرنے کی ٹھانی۔
مجھے اُس وقت تو محسوس نہیں ہوا لیکن اب میں ماضی میں دیکھتا ہوں مجھے لگتا ہے کہ ایپل سے فراغت میرے لئے کتنی مفید ثابت ہوئی ۔ کامیاب ہونے کا بوجھ اب نوآموز ہونے کے ہلکے پن میں بدل چکا تھا، میں ایک بار پھر خود کو بہت آزاد محسوس کر رہا تھا…اس آزادی کی وجہ سے میں اپنی زندگی کے سب سے زیادہ تخلیقی دور Creative Period میں جا سکا۔
میں نے آئندہ پانچ برسوں میں میں تین بڑی کام یابیاں حاصل کیں ، میں نے نیکسٹ NEXTکے نام سے ایک کمپنی شروع کی ، پھر ایک اور کمپنی پکسر PIXERکے نام سے شروع کی، اور اسی دوران میری ملاقات ایک بہت ہی منفرد خاتون سے ہوئی، جو آگے چل کر میری بیوی بنی۔ Pixar نے دنیا کی پہلی کمپیوٹر اینی میٹڈ فلم Toy Story بنائی ، اور اس وقت سے اب تک یہ دنیا کا سب سے کامیاب اینی میٹڈ اسٹوڈیو کہلاتا ہے۔
اپنی منفرد حیثیت کی بدولت ایپل کمپنی نے ایک غیر متوقع قدم اٹھاتے ہوئے میری کمپنی NeXT کو خرید لیا اور میں ایک مرتبہ پھر ایپل میں دوبارہ واپس آگیا اور جو ٹیکنالوجی میں نے NEXT کیلئے ترتیب دی ، آج وہ ایپل کی جان سمجھی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ میری اہلیہ لورین Lorene اور میں بہترین زندگی گزار رہے ہیں ۔
میں بالکل یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر مجھے ایپل سے نہ نکالا گیا ہوتا تو میرے ساتھ یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ یہ ایک کڑوی دوا تھی …. پر شائد مریض کو اس کی ضرورت تھی۔
میں اپنی دوسری کہانی سے آپ کو یہ سبق دینا چاہتاہوں کہ کبھی کبھی زندگی آپ کو اسی طرح ٹھوکر مارتی ہے۔ ایسی صورت میں کبھی مایوس ہو کر امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا ۔ اپنا یقین مت کھونا۔
میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میں صرف اس لئے آگے بڑھتا گیا کیونکہ میں اپنے کام سے محبت کرتا تھا…. I loved my work۔ مجھے اُس وقت تک چین نہیں ملا جب تک کہ میں نے اپنی چاہت کو پانہ لیا۔
لہٰذا آج سے آپ نے خود کو پرکھنا ہے اور یہ تلاش کرنا ہے کہ آپ کس چیز سے محبت کر تے ہیں، اور پھر جب آپ اپنی محبت کو پالیں تو اسے ایسے ہی نبھائیں جیسے سچی محبت نبھائی جاتی ہے ۔ عظیم کام وہی ہے جس سے آپ کا دل مطمئن ہو اور دلی اطمینان اُسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب آپ اپنے کام سے محبت کر یں اور اس کے بغیر آپ کو سکون نہ ملے۔ رفتہ رفتہ آپ دیکھیں گے کہ ا س میں بہتری آتی جائے گی اور ایک دن یہ پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گی۔
آج سے یہ عہد کریں کہ اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھنا جب تک آپ اپنی محبت کو تلاش نہ کر لیں۔ اگر آپ کو ابھی تک وہ کام نہیں ملا ہے تو آپ رُکیے مت، اسے تلاش کرتے رہیے۔

Death
موت

میری تیسری کہانی موت سے متعلق ہے
میں جب 17برس کا تھا تو بزرگوں سے سنا کر تا تھا کہ ‘‘آپ اپنا ہر دن یہ سوچ کر گزاریں کہ یہ میری زندگی کا آخری دن ہے’’۔
اس قول نے میرے دماغ پر بہت گہری چھاپ Impression بنادی تھی، اور گزشتہ33 برسوں سے میں ہر صبح آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر خود سے سوال کر تا ہوں کہ :
‘‘اگر آج میری زندگی کا آخری دن ہو تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟ ، کیا میں آج وہ کرتا جو میں آج کرنے جارہا ہوں ؟’’۔
اور جب بھی لگاتار کئی دنوں تک جواب “نہیں” ہوتا ہے، میں سمجھ جاتا ہوں کہ کچھ بدلنے کی ضرورت ہے۔
اس بات کو یاد رکھنا کہ میں بہت جلد مر جاؤں گا مجھے اپنی زندگی کے بڑے فیصلے لینے میں سب سے زیادہ مددگار ہوتا ہے، کیونکہ جب ایک بار مرنے کے بارے میں سوچتا ہوں تب تمام خوشیاں ، غم ، پریشانیاں ، تکلیفیں اور خواہشات ، ساری توقعات، سارا فخر، ناکام ہونے کا ڈر سب کچھ غائب ہو جاتا ہے اور صرف وہی بچتا ہے جو واقعی ضروری ہے۔ آپ ایسی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ کوئی ہار آپ کو ہرا نہیں سکتی ، کسی قسم کا خوف ، دھمکی ،دھونس اور نقصان کا اندیشہ آپ کے ارادے متزلزل نہیں کر سکتااور آپ یکسو ہوکر اپنے مشن کی تکمیل کیلئے نکل پڑتے ہیں ۔
اس بات کو یاد کرنا کہ ایک دن مرنا ہے…. کسی چیز کو کھونے کے خوف کو دور کرنے کا سب سے بہترین طریقہ ہے۔ لہٰذا میر اآپ کو مشورہ ہے کہ آپ تمام کام ایک طرف رکھ کر صرف اُسی کام میں ہاتھ ڈالئے جو آپ سب سے زیادہ ضروری سمجھتے ہوں۔
یہاں میں آپ کو موت سے متعلق ایک دلچسپ واقعہ سنا تا ہوں ، قریب ایک سال پہلے مجھے پتہ چلا کہ مجھے کینسر ہے ۔ صبح ساڑھے سات بجے میرا اسکین ہوا، جس میں صاف صاف نظر آ رہا تھا کہ میرے لبلبہ میں ٹیومر ہے۔ مجھے تو پتہ بھی نہیں تھا کہ لبلبہ کیا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر نے لگ بھگ یقین کے ساتھ بتایا کہ مجھے ایک ایسا کینسر ہے جس کا علاج ممکن نہیں ہے، اور اب میں بس 3 سے 6 مہینے کا مہمان ہوں۔ ڈاکٹر نے صلاح دی کہ میں گھر جاؤں اور اپنی ساری چیزیں منظم کر لوں، جس کا Indirect مطلب ہوتا ہے کہ، “آپ مرنے کی تیاری کر لیجیے۔” اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ کوشش کیجیے کہ آپ اپنے بچوں سے جو باتیں اگلے دس سال میں کرتے، وہ اگلے کچھ ہی مہینوں میں کر لیجیے۔ اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ آپ سب کچھ انتظام کر لیجیے کہ آپ کے بعد آپ کی فیملی کو کم سے کم پریشانی ہو۔ اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ آپ سب کو گڈ بائے کر دیجیے۔
اس تشخیص کے بعد میں پورا دن گہری سوچ میں ڈوبا رہا ۔ رات کو میرا ایک اورٹیسٹ بائیوپسی (ٹیومر کا معائنہ) ہونا تھا جہاں ڈاکٹروں نے ایک آلہ اینڈواسکوپ Endoscope میرے حلق کے ذریعے متاثرہ حصے تک پہنچایا اور کچھ سیلز حاصل کیے، میں تو بے ہوش تھا لیکن میری اہلیہ نے بعد میں مجھے بتایا کہ جب ڈاکٹروں نے میرے سیلز کو جانچا تو وہ خوشی سے رونے لگے ، کیوں کہ یہ کینسر کی منفرد قسم تھی جس کا علاج سرجری کے ذریعے ممکن تھا ۔
میری سرجری ہوئی اور خوش قستی سے میں آج بالکل خیریت سے ہوں۔
موت کو اس قدر قریب سے دیکھنے کے بعد میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ موت ایک فائدہ مند بلکہ روشن خیال تصور ہے۔ کوئی بھی شخص مرنا نہیں چاہتا ہے، یہاں تک کہ جو لوگ جنت جانا چاہتے ہیں وہ بھی…. موت وہ منزل ہے جسے ہم سب Share کرتے ہیں۔ موت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے آج تک کوئی نہیں بچا اور ایسا ہی ہونا چاہیے کیونکہ میرے نزدیک شائد موت زندگی کا سب سے بڑا حاصل ہے، یہ زندگی متغیر ہے ،یہ پرانی چیزوں کو ہٹا کر نئی چیزوں کیلئے راہ ہموار کر تی ہے۔ اتنا ڈرامائی ہونے کے لئے معذرت چاہتا ہوں پر یہ سچ ہے۔
اس وقت آپ سب نوجوان ہیں لیکن آہستہ آہستہ آپ بوڑھے ہو تے جائیں گے اور ایک دن مر جائیں گے پھر آپ کی جگہ کوئی اور لے لے گا۔آپ کے پاس محدود وقت ہے ، لہٰذا اپنا وقت کسی اور کی زندگی جی کر گزارنے میں صرف نہ کریں ۔ دوسروں کی سوچ کے مطابق زندگی گزارنا چھوڑ دیجیے، اوروں کے خیالوں کے شور میں اپنی دل کی آواز کو، اپنے وجدان کو ڈوبنے مت دیجئے ، اپنی رائے کو اہمیت دیجئے ، اپنے دل کی آواز سنیں کیونکہ آپ کا دل بہتر جانتا ہے کہ آپ کیا بننا چاہتے ہیں ۔ باقی سب ثانوی چیزیں ہیں ۔
میں جب چھوٹا تھا تو ہمارے دور میں ایک بڑی حیرت انگیزکتاب شائع ہو ئی جس کا نام تھا
“The Whole Earth Catalogue”
یہ اپنے دور کی بائبل سمجھی جاتی تھی ۔ اس کتاب میں روز مرہ استعمال کی چیزوں کی فہرست، تفصیلات ، قیمت اور دکان کا پتہ جہاں سے یہ دستیاب ہوتی، شامل تھیں۔اسے اسٹورٹ برانڈ Stuart Brand نامی ایک شخص نے ، جو یہاں MelonPark سے زیادہ دور نہیں رہتا تھا، اپنا شاعرانہ انداز دے کر بڑا ہی متحرک بنا دیا تھا۔
یہ ساٹھ کی دہائی کی بات ہے، جب کمپیوٹر اور ڈیسک ٹاپ پبلشنگ نہیں ہوا کرتی تھیں۔ پورا کیٹلاگ ٹائپ رائٹر، قینچی، پولورائیڈ کیمرے کی مدد سے بنایا جاتا تھا۔
وہ کچھ کچھ ایسا تھا گویا گوگل Google کو ایک کتاب کے شکل میں کر دیا گیا ہو…. وہ بھی گوگل کے آنے کے 35 سال پہلے۔ وہ ایک مثالی مجموعہ تھا، اچھے آلات اور عظیم خیالات سے بھرا ہوا تھا۔
اسٹورٹ Stuart اور انکی ٹیم نے اس کیٹلاگ کے کئی ایڈیشن نکالے اور آخر میں ایک آخری ایڈیشن نکالا۔ یہ 1970ءکے دھائی کا وسط تھا اور تب میں آپ کے جتنا تھا۔ جب اس کا آخری ایڈیشن نکالا تو کتاب کی پشت پر صبح صادق کا کسی گاؤں کی سڑک کا منظر تھا…. وہ کچھ ایسی سڑک تھی جس پہ اگر آپ مہم جو Adventurous ہوں تو کسی سے لِفٹ Lift مانگنا چاہیں گے اور اس تصویر کے نیچے ایک عبارت درج تھی، Stay Hungry, Stay Foolish۔
اس عبارت کا لغوی معنیٰ بھوکے رہو اور بے وقوف رہو ہے لیکن اصطلاحاً بھوکے رہنے سے مراد آرزومند بنو ، ہمیشہ کسی شے کی طلب میں رہو ، بہتری کی تڑپ ، بہترزندگی کیلئے جدوجہد اور کسی صورت اس پر سودے بازی نہ کرنا ہے کسی ایک بات پر مطمئن ہوکر نہ بیٹھ جاؤ بلکہ کچھ نیا کرنے کے لیے خود کو سرگرم رکھو ۔
جبکہ بے وقوف یا نادان رہنے سے مراد دنیا جہاں سے بے پروا ہو کر ہر وقت کچھ نہ کچھ سیکھتے رہنا اور کبھی یہ نہ سوچنا کہ میں نے تمام چیزیں سیکھ لی ہیں۔ ہمیشہ ایسے کام کرو جو لوگوں کے لیے ناممکن ہوں ، اور لوگ تمہیں بے وقوف سمجھیں۔
میں نے اپنے لئے ہمیشہ یہی خواہش کی ہے، اور اب جب آپ لوگ یہاں سے گریجوئٹ ہو رہے ہیں تو میں آپکے لئے بھی یہی خواہش کرتا ہوں، Stay Hungry، Stay Foolish۔
Thank You all Very Much۔”

 

Stay Hungry Stay Foolish

“Stay Hungry Stay Foolish”  اسٹیو جابز  کی   بہترین تقریر وں میں سے ایک  ہے،  جو انہوں نے  12جون  2005ء کو   اسٹین فورڈ Stanford  یونیورسٹی کے کانووکیشن   میں کی تھی۔  اس تقریر کی ویڈیو آپ انٹرنیٹ پر موجود ان ویب لنکس پر ملاحظہ کرسکتے ہیں :

اس تقریر  کا مکمل  انگریزی متن آپ اسٹین فورڈ  یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں:

http://news.stanford.edu/news/2005/june15/jobs-061505.html

یہ بھی دیکھیں

کامیاب اور پُر اثر لوگوں کی 7 عادتیں ۔ قسط 6

  قسط نمبر 6         گاؤں میں ایک غریب لڑکا رہتا تھا، ...

شکریہ ۔ قسط 7

   ہم زندگی بھر چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور بڑے بڑے رشتوں کو صرف پیسے کے ...

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے