Notice: Function WP_Scripts::localize was called incorrectly. The $l10n parameter must be an array. To pass arbitrary data to scripts, use the wp_add_inline_script() function instead. براہ مہربانی، مزید معلومات کے لیے WordPress میں ڈی بگنگ پڑھیے۔ (یہ پیغام ورژن 5.7.0 میں شامل کر دیا گیا۔) in /home/zhzs30majasl/public_html/wp-includes/functions.php on line 6078
پارس ۔ قسط 2 – روحانی ڈائجسٹـ
بدھ , 11 دسمبر 2024

Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu
Roohani Digest Online APP
Roohani Digest Online APP

پارس ۔ قسط 2

کچھ نہیں بلکہ بہت سارے لوگ یہ سوچ رکھتے ہیں ۔مرد ہونا طاقت اور اکرام کا سبب ہے۔عورت کا وجود کمزوری اورشرمندگی کی علامت ہے۔
ایسا سوچنے والے صرف مرد ہی نہیں ہیں کئی عورتیں بھی اس بات پر یقین رکھتی ہیں۔
بیٹے کی ماں بن کر بعض عورتیں خود کو محفوظ اورمعزز خیال کرتی ہیں، بیٹی کی ماں بن کر خود کوکمزور محسوس کرتی ہیں۔ مردانہ تسلط والے معاشر ے میں کئی مصیبتوں ،دکھوں اورظلمتوں کے درمیان ابھرنے والی ایک کہانی….مرد کی انا اورعونت، عورت کی محرومیاں اوردکھ،پست سوچ کی وجہ سے پھیلنے والے اندھیرے، کمزوروں کا عزم ،علم کی روشنی ،معرفت کے اجالے، اس کہانی کے چند اجزائے ترکیبی ہیں۔
نئی قلم کار آفرین ارجمند نے اپنے معاشرے کا مشاہدہ کرتے ہوئے کئی اہم نکات کو نوٹ کیا ہے۔ آفرین ارجمند کے قلم سے ان کے مشاہدات کس انداز سے بیان ہوئے ہیں اس کا فیصلہ قارئین خود کریں گے۔

دوسر ی قسط :

گھر میں پھیلی سوگواری نے سکینہ کے قدم دروازے پر ہی روک دئیے تھے۔پسینے سے شرابور پھولی ہوئی سانسوں پر قابو پاتے ہوئے اس نے ادھ کھلے دروازے کے اوٹ سے اندر جھانک کر دیکھا۔برآمدہ میں دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔بانو کے کمرے میں سے چند عورتوں کے ہلتے ہوئے سر نظر آرہے تھے۔ اتنی عورتوں کی موجودگی میں اس قدر خاموشی ….اس نے دھوپ کی تپش سے بچنے کے لیے کمرے کی جانب تیزتیز قدم بڑھادئیے ۔گاؤں کی چند عورتیں آپس میں سر جوڑے دبی آواز میں چہ مگو ئیاں کر رہیں تھیں ۔کچھ گرمی کا رونا رورہی تھیں تو کچھ بیٹی کے پیدا ہونے پر اپنے ساتھ شوہر اور سسرال کے ناروا سلوک کے قصے سنارہی تھیں۔

کونے سے لگی چارپائی پر بانو نیم بے ہوشی کی حالت میں آنکھیں موندے پڑی تھی۔اس کے ہلدی رنگ چہرے سے نڈھالیت اور پژمردگی ٹپک رہی تھی۔ چھوٹے سے جھولے میں نوزائیدہ بچی کپڑے میں اچھی طرح لپٹی گٹھڑی سی بنی پڑی تھی۔ بانو کی ماں اسٹیل کا گلاس ہاتھ میں پکڑے اس میں تیز تیز چمچہ چلا رہی تھی اور ساتھ ساتھ بانو کو آوازیں بھی دے رہی تھی۔

چل پتر اٹھ ہلدی دودھ پی لے۔


نوزائیدہ بچی کو دیکھ کر سکینہ کے چہرے پر جان دار مسکراہٹ پھیل گئی ۔
خالہ نواسی مبارک ہو، واہ کتنی سوہنی ہے ۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ گاؤں میں بیٹی کی پیدائش پر نہ تو مبار ک باد دی جاتی ہے اور نہ ہی مٹھائی کھلائی جاتی ہے۔ سکینہ نے بانو اور اس کی ماں کو مبارک باد دے ڈالی اور آنکھ سے کاجل چھنگلی سے چھوکر بچی کے گال پر تل کی طرح لگادی۔
ہاں ہاں ٹھیک ہے…. بس اللہ نصیب اچھے کرے۔ بانو کی ماں نے جواب میں جبری مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلادیا اور پھر بانو کی طرف متوجہ ہوگئی اسے ہلکے ہلکے ہلاتے ہوئے ہوش میں لانے لگی۔ اٹھ پتر اٹھ۔
سکینہ نے نصیبو کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرہ پر بھی پھیکی سی مسکراہٹ تھی۔
ہائے ربا یہ کیا ہو گیا ….؟ اماں کس کی نظر لگ گئی، میرے گھر کو ….؟ بانوہو ش میں آتے ہی ماں سے لپٹ کر دھاڑیں مار مار کر رو نے لگی۔
دیکھ لینا۔ وہ مجھے چھوڑ دے گا ، بانو کا زردی مائل چہرہ کسی انجانے خوف سے اب سفید ہو گیا۔
نہ پتر نہ…. ایسی گل سوچی وی نہ۔بانو کی ماں اسے تسلیاں دینے لگی۔ لے شاباش یہ ہلدی دودھ پی ۔ انھوں نے زبردستی گلاس بانوکے منہ سے لگا دیا۔
ارے اماں!میں نے تو باجی سے پہلے ہی کہا تھا کہ تیری جیٹھانی جاتی ہے تعویز کرانے۔ وہ، وہاں…. ڈیرے پہ۔ نصیبو نے گردن اور آنکھیں ایک سمت میں گھما کر کہا۔ ضرور یہ سب اسی کا کیا دھرا ہے۔
ہاں خالہ….! نصیبو ٹھیک ہی کہہ ری ہے۔ارے میرے ساتھ بھی تو یہی ہوا تھا۔دوسری بار میں میری نند نے ایسا سفلی کرایا میری کوکھ پر…. کہ چھڑوا کر ہی دم لیااورکرم دین…. اس کا تو مزاج بھی بہت گرم ہے کرتا پہلے ہے سوچتا بعد میں ہے۔ زرینہ، بانو کو ڈرانے والے انداز میں بولی۔
بک بک مت کر ۔چپ کرکے بیٹھ۔بانو کی ماں نے زرینہ کو ڈانٹا۔
لَے میرے چپ کرانے سے کیا ہوتا ہے۔میں تو کہتی ہوں اس کے ابّے کو بلالے ۔کرم دین اپنے گھر میں برادری کے چار مرد دیکھے گا تو ذرا تھم کر بولے گا۔زرینہ اپنا پورا حساب برابر کرنے پر تلی ہوئی تھی۔آخر چند دن پہلے تک اس کو بھی تو خوب سنائی تھیں بانو اور نصیبو نے۔ بانو کی سسکیاں تیز ہوگئیں۔
ہاں زرینہ ….!کہہ تو تُو ٹھیک رہی ہے۔کالے ناگ کا ڈسا اِک واری پانی مانگ لے پر اس کالے عامل کا سفلی تو جان کے ساتھ جائے۔تیری نند ہے بڑی میِسنی۔ گاؤں کی ایک عورت نے زرینہ کی باتوں پر اپنی تصدیق کی مہر لگائی۔
شاید عورتوں کے شور سے نومولود بچی کی نیند خراب ہوئی اور وہ رونے لگی۔اس کی ننھی آواز نے سب کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ لیکن بانوکے چہرے پر شدید بیزاری کے آثار نمایاں تھے۔ بانو کی ماں بچی کو گود میں لے کر بہلانے لگی ۔
اماں ….!لے جا اسے یہاں سے۔ اس وقت تو زہر لگ ری ہے اس کی آواز….بانو ہذیانی انداز میں چیخی ۔
نہ بانو….! بیٹیاں تو پرایا دھن ہو تی ہیں۔ یہ تو مہمان ہے۔ رب کی رحمت ہے۔اسے ایسے مت کوس۔میں تو کہتی ہوں کہ اپنی یہ سونے کی چوڑیاں بھی سنبھال کر رکھ دے۔ کل کو جہیز میں کام آئیں گی۔زرینہ نے پھر اپنا حساب برابر کرنا چاہا۔
اس کی بات سن کر عورتوں کے چہرے پر ہلکی سی تمسخرانہ مسکراہٹ پھیل گئی۔
اری تُو تو چپ کر…. بانو کی ماں زرینہ کی مسلسل نمک پاشی سے چڑ گئی۔وہ غصے میں زرینہ کی طرف دیکھتے ہوئے بچی کو تیز تیزتھپکنے لگی۔ایسے میں آٹھ سالہ ببلو دوڑتا ہوا اندر گھس آیا۔
ہائے ہائے۔ یہ کیا کیا….؟ ساری چادر خراب کردی۔ نصیبو چیخی۔ لڑکے کے ننگے پیر چادر پر کئی نقش ونگار بنا چکے تھے۔

بہن کی پیدائش پر ڈھول تاشے نہیں بجتے۔ مٹھائیاں تقسیم نہیں ہوتیں۔ 


ماسی مجھے لڈو کھانا ہے۔بانو کا بیٹا فضل دین جسے سب پیار سے ببلو کہتے تھے اپنی خالہ نصیبو کےدوپٹے کا کونہ پکڑ کر کھینچنے لگا۔
جھلّا ہوگیا ہے کیا….؟ لڈو یہاں کہاں۔
پر آپ تو کہہ رہی تھی کہ ننھا بھائی آئے گا تو لڈو کھائیں گے۔ ڈھول بجائیں گے۔اس نے منہ بسورا۔
ہاں ، اس نے ٹھنڈی آہ بھری ۔پر ننھابھائی آتا تب نہ ۔یہ تو تیری بہن ہے بہن۔
تو کیا اب ہم لڈو نہیں کھائیں گے ؟وہ پھر بسورا۔
نہیں کاکا نہیں،بہن تو بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ بہن کی پیدائش پر ڈھول تاشے نہیں بجتے۔ مٹھائیاں تقسیم نہیں ہوتیں۔ کرم دین کی پھوپھی نے ببلو کو گود میں بٹھا لیا۔
گڑ بھی نہیں…؟ ببلو بولا۔پھوپھی نے گردن نہ میں ہلادی۔بچہ منہ پھلا کے بیٹھ گیا ۔ بہن اچھی نہیں ہوتی ۔مجھے لڈو کھانا ہے ۔
نہیں بیٹا نہیں ایسے نہیں کہتے ۔یہ تیری بہن ہے نازک کمزور جان …. تُو بڑا بھائی ہے۔ تو تیرا یہ کام ہوگا کہ اس کی حفاظت کرے…. اسے ڈولی بٹھائے۔ باپ کا سہارا بنے۔ کرم دین کی پھوپھی ببلو کی آڑ میں بانو اور اس کی ماں کو باتیں سناتی رہی۔
اتنا چھوٹا بچہ ہے ۔اسے کیا سمجھ آرہا ہوگا۔کیوں چھوٹے بچے کو پریشان کرتی ہو پھوپھی۔ پھر نصیبو بچے کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولی چل اٹھ یہاں سے۔ نصیبو نے ببلو کو بازو سے پکڑ کر اٹھا لیااور باہر نکل گئی۔

 

سکینہ محوحیرت یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ 


بانو نے پھر رونا شروع کردیا۔ہائے ربا میں کیا کروں ۔ یہ کیا ہوگیا…. سکینہ محوحیرت یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ ان لوگوں کی باتوں سے ہونے والی گھٹن ناقابلِ برداشت ہوگئی تو وہ اُٹھ کر کمرے سے باہر برآمدے میں آگئی۔ وہ انہیں کیسے سمجھاتی کہ بیٹا ہو یا بیٹی اللہ کی دین ہے۔ جو بے اولاد ہیں وہ یہ درد سمجھتے ہیں۔اس کی آنکھوں میں ستارے جھلملا نے لگے۔
سکینہ گاؤں کے ا کلوتے ماسٹر غلام رسول کی بیٹی اور گاؤں کی پہلی پرائمری پاس عورت تھی ۔ماسٹر غلام رسول نے اسے ماں اور باپ دونوں کا پیار دیا تھا۔گاؤں میں پانچویں تک کا پر ا ئمری اسکول تھا جس میں سوائے چند ایک لڑکوں کے اور کوئی نہ آتا ۔جو آتے ان کا دھیان بھی پڑھائی پر کم اور غل غپاڑہ کرنے پر زیادہ ہوتا۔ایسے میں ماسٹر غلام رسول سکینہ کو لے کر بیٹھ جاتے اور اسے کبھی الف ب پ تو کبھی اے بی سی ڈی پڑھاتے ۔انھوں نے کوشش کرکے بیٹی کو پرائمری کا امتحان بھی دلوادیا جس میں وہ اچھے نمبروں سے پاس ہوئی۔وہ چاہتے تھے کہ سکینہ کم سے کم میٹرک کرلے۔
ماسٹر غلام رسول کے ان ارادوں کی خبر گاؤں کے لوگوں کو ہوئی تو مخالفتوں کا ایک طوفان ہی آگیا۔ لگ رہا تھا کہ گاؤں کا ہر فرد اس کام کے خلاف ہے۔
ماسٹر اپنی لڑکی کو پڑھا کر گاؤں کا ماحول خراب کرنا چاہتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں صرف اپنی بیٹی کو ہی تو پڑھا رہا ہوں۔ یہ کیا بات ہوئی جی….؟
آج ایک لڑکی پڑھے گی تو کل دس پرسوں بیس لڑکیاں پڑھ رہی ہوں گی۔ پھر یہ لڑکیاں گھر داری کے بجائے فضولیات میں پڑ جائیں گی۔ مردوں پر رعب جمائیں گی۔
بالکل ٹھیک کہا جی، چاچا برکت نے….لڑکیوں کو پڑھانے سے گاؤں کا پورا ماحول خراب ہوگا….
ہاں جی…. لڑکیوں کو بھلا پانچ پانچ دس دس سال اسکول جانے کی کیا ضرورت ہے۔ اسکول والے انہیں کیا سکھائیں گے۔ لڑکیوں کو گھر داری کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ گھر داری کی تعلیم انہیں اپنے گھر میں عورتوں سے مل جاتی ہے۔
سکینہ کو پانچویں سے آگے پڑھانے کی مخالفت صرف مردوں کی طرف سے نہیں ہورہی تھی بلکہ گاؤں کی عورتیں بھی اس مخالفت میں پیش پیش تھیں۔ سردارں بی بی اس مخالفت میں سب سے آگے تھی۔
نا جی نا …. لڑکیاں گاؤں چھوڑ کر دوسرے شہر جائیں گی پڑھنے کے لیے۔ وہاں انہیں دیکھنے والا کون ہوگا۔ نا جی نا…. توبہ توبہ ۔ اور پھر وہ وہاں جاکر کیا پڑھیں گی کیا سیکھیں گی….؟ اسکول جاکر لڑکیاں اپنے ماں باپ کے سامنے زبان چلانا سیکھیں گی۔ نئے نئے فیشن اور فلمی گانے سیکھیں گی۔
گاؤں کے مردوں کے ساتھ عورتوں کا بھی خیال تھا کہ اس طرح ما سٹر غلام رسول گاؤں میں انتشار پھیلانے کے مرتکب ہو ر ہے ہیں۔ اس غلطی پر انتہائی قدم کے طورپر ان کو گاؤں بدر بھی کیا جاسکتا ہے۔
ماسٹر غلام رسول کا یہ آبائی گاؤں تھا …. ان کے باپ دادا کی آخری آرام گاہیں یہاں تھیں ۔گاؤں کو چھوڑ کر جانے کے خیال سے ہی ایک جھر جھری سی ان کے بدن میں دوڑ جاتی ۔ گاؤں والوں کے دباؤ میں آکر انھوں نے یہی بہتر سمجھا کہ پانچویں کے بعد سکینہ کی پڑھائی روک کر جلد از جلد اس کی شادی کردی جائے۔
تقریباً پندرہ سال کی عمر میں سکینہ کی شادی کردی گئی۔ سکینہ کا شوہر شفیق ایک نرم دل انسان تھا…. پیشے سے کمہار تھا۔ سارا دن مٹی کے برتن بناتے بناتے خاکساری بھی اس کے مزاج کا حصہ بن گئی تھی۔
سکینہ اور شفیق کی شادی کو دس سا ل ہو چکے تھے مگر وہ اولاد کی نعمت سے محروم تھے۔ اس بے اولادی پر سسرال یا دنیا والوں کی طرف سے آنے والے طنز کے نشتر سکینہ سے پہلے شفیق کو چھبتے۔ وہ سکینہ کے لئے آہنی حصار تھا۔اس سب کے باوجود بے اولادی کا غم اپنی جگہ تھا۔ سکینہ اس درد سے خوب آشنا تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس کے لیے بیٹا یا بیٹی میں کوئی فرق نہ تھا۔ لڑکی کی پیدائش پر گاؤں والوں بالخصوص عورتوں کے منفی روئیے پر وہ تلملا کر رہ جاتی۔ تھوڑی بہت تعلیم اور باپ کی تربیت نے اسے اتنا شعور تو دے ہی دیا تھا کہ وہ صحیح غلط کا فرق سمجھ سکے مگر وہ گاؤں والوں کی اکثریت کے خلاف جانے کی ہمت نہ کر سکی تھی ۔ویسے بھی نقارخانے میں طوطی کی آواز بھلا کون سنتا ۔

٭٭٭

شام ڈھل رہی تھی۔ گھونسلے سویرے سے رزق کی تلاش میں نکلے تھکے ماندے پرندوں سے دوبارہ آباد ہونے لگے تھے۔ مگر کرم دین منہ لپیٹے بھوکا پیاسا ایسے پڑا تھا جیسے کوئی ہارا ہوا آدمی۔اس میں خود اپنا سامنا کرنے کی ہمت بھی نہ تھی۔اسے جب جب لوگوں کا خیال آتا،اس کی آنکھوں کے سامنے ڈھلکی مونچھوں، لٹکتے کِلّے کے ساتھ اپنی ہی شکل گھوم جاتی۔کانوں میں مختلف آوازیں شور مچانے لگتیں۔
لو جی بھائی کرم دین ….! سونے کی پوری چھ چوڑیاں تیار پڑی ہیں۔یہ ہوئے پورے وی ہزار روپلی۔
تو کبھی پنچائیت کے چودھری سراج کے برابر والی خالی کرسی گھوم جاتی جس پر بیٹھنے سے پہلے ہی کوئی اسے ہاتھ پکڑ کر کھینچ لیتا ۔
کرم دین ہڑبڑا کر آنکھیں کھول دیتا۔
کرمو ۔او۔ کرمو۔ اٹھ شام سر پر ہے ، گاؤں میں تیری ڈھونڈ مچی ہے اور تو یہاں پڑا آرام کررہا ہے۔
شام ڈھلے تک جب کرم دین گھر نہ آیا تو گھر والوں نے شفیق کو اسے لانے بھیجا۔ وہ جانتے تھے شفیق وہ واحد بندہ ہے جس کی بات کرم دین نہیں ٹالتا….اور اب شفیق اس کے سر پر کھڑا تھا۔
برادری میں رتبہ ملنے کا موقع لڑکی پیدا ہونے کی وجہ سے چھن جانے پر کرم دین زمین پر بے سدھ لیٹا اپنی قسمت کو کوس رہا تھا۔
شفیق کی آواز نے اس کو چونکا دیا۔ چل اٹھ ، کچھ گھر کی خبر بھی لے، شفیق نے کرمو کو ہلاِ ہی ڈالا، پر کرمو پر کوئی اثر نہ ہوا جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہیں۔
ابے اٹھتا ہے یا ….شفیق نے زرا تیز لہجے میں کہا ،
کیا مصیبت ہے ، نہیں اٹھتا جا …. نہیں دیکھنی مجھے اس کی شکل….کرمو نے منہ بناتے ہوئے کہا
ارے….تو نہ دیکھنا اُسے ….پر گھر تو چل ۔شفیق اسے بچوں کی طرح پچکار نے لگا اور یہ تیری ٹانگ پر کیا ہوا۔شفیق اس کی ٹانگ پر لپی مٹی دیکھ کر بولا جس پر کہیں کہیں خراشوں سے نکلنے والے خون کے دھبے بھی مل گئے تھے ۔
نحوست کا اثر ہے۔کرمو بے بسی سے بولا۔
فضول باتیں نہ کر، تو اپنی بیٹی کے لیے اس طرح سوچ رہا ہے۔ شکر کرکوئی عیب نہیں ہے اس میں۔ نہ بدصورت ہے نہ لولی لنگڑی ،خوامخواہ کوس رہا ہے۔ اسے ایک بار دیکھے گا تو سارا غصہ بھول جائے گا۔
اف….تُو گیان دینا بند کرے گا یا نہیں۔کرمو کا چہرہ غصے سے لال ہوگیا۔
کر دوں گا اگر تُو ابھی کے ابھی میرے ساتھ چلے تو۔شفیق بھی کہاں پیچھے ہٹنے والا تھا۔
کرم دین لیٹے سے اٹھ کر بیٹھ گیا اور گھمبیرتا سے بولا۔ہاں بول….
مگر کچھ کہنے سے پہلے کرم دین کا چہرہ پھر تن گیا۔آنکھیں سرخ ہونے لگیں۔زرا دیر خاموشی رہی۔
کاش یہ میرے بس میں ہوتا۔ کرم دین بڑبڑایا۔اس نے غصے اور لاچاری سے زمین پر مکے مارنا شروع کردئیے۔کچھ نوکیلے پتھر اس کی انگلیو ں کو خار خار کرنے لگیں۔
کیا کر رہا ہے۔ شفیق نے جلدی سے اس کے دونوں ہاتھ جکڑ لئے ۔کوئی فائدہ ہے اس کا….؟ خوامخواہ خود کو تکلیف دے رہا ہے۔
تین بیٹوں کے بعد بیٹی پیدا ہوگئی ہے میرے گھر میں…. میرا سب کچھ چھن گیا ہے۔
تُو سمجھتا کیوں نہیں….؟ بیٹا بیٹی تیرے بس میں نہیں۔تیرا کام تو بس شکر کرنا ہے ۔شفیق اپنے دوست کرم دین کی دیوانگی دیکھ کر پریشان سا ہوگیا۔
چھوڑ مجھے….کرم دین غصے سے اپنے ہاتھچھڑائے۔
کرم دین میرے یار….! میری بات سن….وہ دھیمے سے بولا۔یہ جو تو غصہ کررہا ہے یہ کس پر کررہا ہے….؟ بھلا بتا ۔دیکھ جب میں گُندھی مٹی چاک پر ڈالتا ہوں تو یہ میرے ہاتھ ہوتا ہے کہ میں اپنی مرضی سے اسے گھڑا بنادوں یا صراحی۔
ذرا سوچ میرے یار وہ تو ہم سب کا مالک ہے ۔اس نے انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اس کی مرضی ۔جس سانچے میں چاہے ڈھالے۔ادھر تیری میری مرضی نہیں چلنی۔وہ ہنسنے لگا۔

بیٹا کھوٹا بھی ہو تو باپ کا سانجھا ہوتا ہے ۔اور بیٹی سونا بھی ہو تو عمر بھر کا بوجھ۔ 


او تُواپنی موٹی موٹی باتیں پا س رکھ ا پنے۔کرم دین بیزاری سے بولا۔میں بس اتنا جانوں کہ بیٹا کھوٹا بھی ہو تو باپ کا سانجھا ہوتا ہے ۔اور بیٹی سونا بھی ہو تو عمر بھر کا بوجھ۔او…. اس کے ویاہ کے لیے شریکے میں سر جھک جائے گا میرا۔ہتھ جوڑ کر داماد کی آئو بھگت مجھ سے نہ ہووے گی۔ وہ رعونت سے بولا۔سمجھا تُو….اور اس نے تو پیدا ہوتے ہی جگ ہنسائی کروادی میری۔پتہ نہیں آگے کیا کیا دیکھنا پڑے گا…. اس کی وجہ سے۔
تُو اپنا وقت بھول گیا کیا؟ شفیق نہ چاہتے ہوئے بھی بول پڑا۔ تُو تو آج بھی اپنی سُسر سے منہ ٹیڑھا کرکے ہی ملتا ہے۔جیسے انھوں نے تجھے بیٹی دے کر کوئی جرم کیا ہے۔
جا تُو دفع ہو یہاں سے…. بات نہ کر مجھ سے شفیق کی سچی بات نے اسے اور گرم کردیا۔
یہ میرا معاملہ ہے دیکھ لوں گا کیا کرنا ہے مجھے۔ پَر اِک بات تو طے ہے کہ کرم دین کا سر نہ کبھی کسی کے آگے جھکا ہے نہ جھکے گا۔وہ ایک ایک لفظ جما جما کر بولا اور تکبر سے گردن اکڑالی
تو کیا کرے گا ؟مار ڈالے گا کیا اسے….؟شفیق کو بھی اس کی باتیں سن کر خوف آنے لگا۔
کرم دین نے کوئی جواب دئیے بغیرمٹی سے پتھر اٹھا کر دور کھیتوں میں کھنیچ کر مارا۔جیسے کسی ان دیکھے مخالف کو بھگانے کی کوشش کررہا ہو۔اس وقت بھی اس کی آنکھوں میں شدید نفرت تھی۔
چل گھر چل ۔کرم دین کپڑے جھاڑ کر کھڑا ہوگیا۔وہ جانتا تھا شفیق اسے لے جائے بغیر ٹلے گا نہیں۔نہ جانے کس مٹی کا بنا ہے تُو….؟ شفیق بھی اٹھ کھڑا ہوا۔
گاؤں کی جانب جانے والی پگڈنڈی کو پھلانگتے ہی کرم دین نے راستہ بدل لیا ۔وہ جانتا تھا کہ راستے میں برگد کے سائے میں بنے چبوترے پر شام کے وقت معمول کے مطابق چوپال سجا ہوگا۔ گاؤں کے مرد وہاں اکٹھا ہوکر ہلا گُلامچارہے ہونگے۔ وہ لوگ کرم دین کو اپنے سامنے پائیں گے تو اس کا مذاق اُڑائیں گے۔ کرم دین ان لوگوں کا سامناکرنے سے ہچکچارہا تھا وہ راستہ بدل کر جھاڑیوں والے میدان میں اتر گیا۔
شفیق ،کرم دین کی حالت سمجھ رہا تھا۔ وہ بھی خاموشی سے اس کے ساتھ چل پڑا۔شومئی قسمت ۔ راستہ بدلنے پر اس کی مڈبھیڑ جمال سے ہوگئی۔ جمال نے کرم دین کو جو اس راستے سے آتا دیکھا تو ہنستا ہوا اس کے سامنے آگیا۔اس کی تمسخرانہ ہنسی سن کر کرم دین کا خون کھولنے لگا۔
جمال کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا۔ زمین پر قبضہ کرنے کا خواب پورا ہونے سے اسے اب کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ وہ دانت نکالتے ہوئے بولا، او بادشاہو ….! خیر تو ہے ،رستہ بھول گئے کیا ؟
راستہ چھوڑ میرا ۔کرم دین غصے سے بولا۔
آہو جی…. میں نے کب تیرا رستہ روکا۔وہ ایک طرف ہوگیا اور طنزیہ مسکراتے ہوئے ہتھیلی پر سونف مسل کر منہ میں ڈال لی۔
بات تو سن یار ، اُس نے پھر جلدی سے آگے بڑھ کر کرم دین کو بازو سے پکڑ لیا۔کرم دین نے جھٹکے سے بازو چھڑایا۔او کیا مصیبت ہے تجھ کو۔وہ غرایا۔
میری جان ! بات تو سن میری…. اس نے پھر دانت نکالے….
دیکھ میرے یار کوئی بات نہیں کہ لڑکی پیدا ہونے پر تجھے پنچائیت میں جگہ نہ ملی…. پرہمارے دل میں تیرے لیے بڑی جگہ ہے۔وہ سینہ ٹھوک کر بولا۔
کرم دین کا منہ کڑوا ہو گیا اس نے بمشکل تھوک نگلا۔ قریب تھا کہ اسے کوئی موٹی سی گالی دیتا،شفیق نے جلدی سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔تقریباًاسے کھینچتا ہوا گھر لے گیا۔

٭٭٭

گھر پہنچ کر کرم دین نے نہ تو بانوسے کوئی بات کی اور نہ ہی اپنی نومولود بیٹی کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا۔اس کا چہرہ تنا ہوا تھا مگر اس کو گھر میں دیکھ کر وہاں موجود عورتوں نے سکھ کی سانس لی۔ نصیبو نے جلدی سے چارپائی سیدھی کی اور پھر باورچی خانے میں کھانا گرم کرنے گھس گئی۔
بانو کی ماں موڑھا آگے کرکے اس کے پاس بیٹھ گئی۔ شکر بیٹا…! تیری موہنی صورت دیکھی۔ جواب میں کرم دین نے پانی کا گلاس منہ سے لگایا اور منہ میں پانی بھر کر غرارے کرنے شروع کردیے۔
آج تیری پسند کا کھانا ہے بیٹا، بانو کی ماں پھر بولی۔

کیوں آج کونسا عید کا دن ہے….؟اس نے طنز کیا۔اتنے میں نصیبو کھانا لے آئی۔
بچوں کو بھی کھانے کو کچھ دیا یا نوابزادی کے نخرے اٹھا نے میں ہی لگے ہو صبح سے ….؟ کرم دین نوالہ منہ میں رکھتے ہوئے روکھائی سے پوچھا۔
ہاں جی بچے کھانا کھا کر سوگئے ہیں ۔نصیبو نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا اور جلدی سے اندر بھاگ گئی ۔
بانو کی ماں بھی اس کے تیور دیکھ کر خاموشی سے اندر چلی گئی۔کرم دین کے اس رویئے کے لئے سب تیار تھے ۔ کوئی نہیں جانتا تھا وہ اب کیا کر ے گا۔ وہ کھانا کھا کر آنکھوں پر کپڑا ڈال کر لیٹ گیا۔ سکینہ جسے شفیق کچھ دیر کے لئے زبردستی چھوڑ گیا تھا اندر بانو کے پاس جاکر بیٹھ گئی ۔بانو کی ماں آہستہ آہستہ بانو سے کچھ بات کررہی تھی ۔
شکر کر بانو کرمو گھر آگیا۔ارے جب تُو پیدا ہوئی تھی تب تیرے باپ نے پندرہ دن اپنی شکل نہ دکھائی تھی۔ ابّے کو بول گیا تھا کہ اسے واپس لے جا ۔
تُو بس جلد سے جلد بستر چھوڑ ، خدمت کر اس کی اور کسی طرح منا اسے ۔

بیٹی جنم دینے پر وہ اپنے شوہر کرم دین کا سامنا کرنے میں ندامت محسوس کررہی تھی


بانو کی بھیگی نظریں ٹکی ہوئی تھیں برآمدے میں بیٹھے ہوئے کرم دین پر ۔ اسے رہ رہ کر ایک دن پہلے تک کی کرم دین کی الفت و نوازشات یاد آرہیں تھیں۔ بیٹی جنم دینے پر وہ اپنے شوہر کرم دین کا سامنا کرنے میں ندامت محسوس کررہی تھی۔اس نے خود کو اس گناہِعظیم کا ذمہ دار سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو کوسنا شروع کردیا۔
ہائے اماں ….!اس لڑکی کی وجہ سے میرا بسا بسایا گھر اجڑ رہا ہے…. کتنا خیال کرنے لگا تھا۔ وہ میرا….یہ سب اسی کمینی کنیز کا کیا دھرا ہے۔ اسی نے تعویز کرایا ہے۔ بانو پھر سے وہی بات دہرانے لگی۔ زرینہ صیح کہہ رہی تھی کا لے عامل کے تعویز میں بڑی طاقت ہے ورنہ میرا تو بیٹا ہی تھا۔ دائی رشیدہ نے نبض پر ہاتھ رکھ کر بتادیا تھا۔
پر اب کیا کرسکتے ہیں۔ جو ہونا تھا ہوگیا۔اب اسے پھینک تو نہیں سکتے ناں۔
سکینہ ان ماں بیٹی کی باتیں ضبط سے سے سنتی رہی ۔ وہ جانتی تھی ان کو سمجھانا بے سود ہے۔ آخر چوٹ بھی تو گہری تھی۔طاقت اور بڑائی کا نشہ چڑھنے سے پہلے ہی چور چور ہوگیا تھا اور ویسے بھی گاؤں میں بیٹیوں کی پیدائش پر یہ رویہ عام تھا۔ سکینہ بچی کے پاس بیٹھ کر اسے دیکھتی رہی۔کبھی اس کے روئی جیسے نرم گالوں کو چھوتی تو کبھی اس کی بند مٹھی میں اپنی انگلی پھنسا دیتی۔
رات کے وقت شفیق کے ساتھ وہ تھکی ماندی مایوس اپنے گھر لوٹ گئی۔ مگر نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔رات بھر اسے بار بار اپنا ہاتھ اس ننھی منی کے گلابی گلابی نرم ملائم گالوں پر محسوس ہوتا۔ اس کی رونے کی آواز کانوں میں رس گھولنے لگتی۔ وہ بے اختیار سی ہوجاتی۔ خیالوں ہی خیالوں میں کبھی بچی کو اپنے سینے سے چمٹالیتی تو کبھی اسے لے کر گول گول جھولنے لگتی جیسے فضاء میں اڑ رہی ہو اور پھراچانک بانو کی تندو تیز آوازیں اس کو جھنجھوڑ کر ہوش میں لے آتیں۔ میرا گھر برباد ہوجائے گا اس لڑکی کی وجہ سے۔ سکینہ نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں ۔ میں اب بانو کے ہاں نہیں جاؤں گی ۔سکینہ نے خود سے یہ فیصلہ کرلیا۔

٭٭٭

تین دن خاموشی سے گزر گئے۔کرم دین بظاہر خاموش تھا مگر گھر اور اپنی بیوی کی طرف سے مسلسل لاپرواہ۔ رات گئے لوٹتا تو منہ لپیٹ کر پڑ جاتا۔اس کی خاموشی بانو کو مزید پریشان کررہی تھی۔
شکر ہے پتر کرم دین کا مزاج ٹھیک ہے۔ تُو بس اب جلد سے جلد کھڑی ہوجا۔مجھے بھی گھر جانا ہے۔ تیرے ابے کا مزاج تو تجھے پتہ ہے نہ۔ وہاں بھی ایک قیامت کھڑی کی ہوئی ہے اس نے اور میرے گٹوں کا درد بھی بڑھ گیا ہے۔ بانو کی ماں نے تکلیف سے کراہتے ہوئے اپنے گھٹنے دبانے شروع کردئیے۔
لا ماں میں تیل لگادوں ۔نصیبو تیل کی بوتل اُٹھا لائی اور تھکی ماندی بوڑھی ماں کی ٹانگوں پر نرمی سے تیل کی مالش کرنے لگی۔
نہیں ماں ،وہ ٹھیک نہیں ہے۔بانوکسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی بولی۔اس کے گالوں پر پھر پانی کی لکیریں بننے لگیں۔
اماں وہ مجھے دو تھپڑ ماردیتا تو میں سمجھتی کہ اس کا غصہ اتر گیا ہے…. میرا گھربچ گیا۔پر اس کی خاموشی میں کوئی بڑا طوفان ہے میرے لیے۔بانوں کے منہ سے نکلنے والی سسکیوں کی جگہ ہچکیوں نے لے لی۔

٭٭٭

ٹن ٹن ٹن….دھڑ دھڑدھڑ….برتن اور سامان گرنے کے بے ہنگم شور سے سب گھبرا کر اٹھ بیٹھے۔
ربّاخیر…. نصیبو ساتھ سوتی بانو سے چپک گئی۔کیا بھونچال آیا ہے۔
بانو ….بانو ۔کرم دین چنگھاڑا۔ کچھ ہوش ہے گھر کا۔ آرام کی لت پڑ گئی ہے تجھے۔وہ پھر چیخا۔
باجی اٹھ…. باجی اٹھ۔ نصیبو کپکپاتے ہوئے جلدی جلدی بانو کو ہلا نے لگی ۔
کب سے پڑی کھٹیا توڑ رہی ہے۔اٹھ میرے کپڑے ڈھونڈکر دے۔وہ پھر دہاڑا۔
باجی تُو۔ٹھیک تو ہے؟
آہو۔وہ نصیبو کا سہارا لے کر آہستہ سے کراہتی ہوئی بستر سے اٹھی۔نصیبو وہیں کمرے میں دبک گئی۔ہائے اماں کو ابھی گھر جانا تھا۔اس نے دل ہی دل میں ماں کو یاد کیا۔ جو رات ہی گھٹنوں میں شدید درد کی وجہ سے گھر لوٹ گئی تھی۔کہا تھا بانو کو بھی ساتھ لئے چلتے ہیں مگر اماں بھی نہ بس۔نہیں تیرا یہیں رہنا بہتر ہے۔وہ نقل اتارتے ہوئے بڑبڑائی۔
بانونے بڑی مشکل سے کرم دین کے کپڑے نکالےاور اس کی طرف بڑھادئیے۔ یہ لو جی۔
کرم دین نے اسے گھورا۔یہ ایسے پہنوں گا۔اس نے سکڑے ہوئے کپڑے بانو کے منہ پر مار دئیے۔
میں نصیبو سے کہتی ہوں کہ….آآآ اس کی چیخ نکل گئی۔کرم دین نے اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی اسے گدی سے پکڑ کر اس کا منہ دبا دیا۔
خبردار جو ایک لفظ بولی…. جیسا کہا ہے ویسا کرورنہ تجھے بھیج کر اُسی کو رکھ لوں گا۔ وہ حقارت سے بنکارا۔بانو کا دم گھٹنے لگا۔
اس نے زور سے بانو کو دھکا دیا… بانو کا سر دیوار سے جا ٹکرایا۔
اماں…. وہ درد سے بلبلائی۔
دفع ہو…. جا کر روٹی ڈال۔وہ پھر بنکارا
وہ بمشکل خود کو سنبھالے باورچی خانے میں چلی گئی۔لرزتے کانپتے جیسے تیسے اس کے لیے ناشتہ بنایا۔
یہ کیا ہے۔اس نے پراٹھے کا پہلا نوالہ منہ میں رکھتے ہی تھوک دیا۔پھیکی روٹی ٹھنڈا ددھ۔
دفع ہوجا میری نظروں کے سامنے سے۔اس نے دودھ کا گلاس فرش پردے مارا۔ کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کرتی ۔ وہ غصے سے پیر پٹختا باہر نکل گیا۔
فرش دودھ سے سفید ہوگیا ۔کچھ چھینٹیں بانو کے پیر پر بھی آگئیں۔اس نے نظر اٹھا کر باہر کی جانب دیکھا۔ کرم دین جا چکا تھا۔دروازے کا ادھ کھلا پٹ بانو کا منہ چڑا رہا تھا۔اسے طوفان کا یقین ہو چلا تھا ۔کرم دین کا غصہ کھلا اعلان تھا کہ وہ کچھ بہت برا کرنے والا ہے….کہیں وہ اسے چھوڑ نے تو نہیں والا….اسے چکر آنے لگے وہ جلدی سے چارپائی کے کونے سے ٹک گئی۔
کر م دین کے باہر جانے کے بعد نصیبو دوڑ کر بانو کے پاس آگئی۔ اسے سہارا دے کر بٹھایا۔لے باجی….! اب تو تیری آس پوری ہوگئی۔ ٹھنڈ پڑگئی نا مار کھا کر۔غصہ نکل گیا ویر کا؟
نہیں نصیبو۔میرا دل گھبرا رہا ہے ۔ میں اسے جانتی ہوں۔ اس کے ارادے ٹھیک نہیں لگ رہے۔ وہ کچھ کرنے والا ہے۔
اس نے کوئی ایسی ویسی حرکت کی تو ہم برادری کے پاس جائیں گے۔
او نصیبو…. کیا پاگلوں والی بات کررہی ہے تو۔ اری برادری نے پنچائیت نے آج سے پہلے کبھی کسی عورت کا ساتھ دیا ہے۔ پنچائیت کی نظروں میں عورت کی کیا عزت ہے….؟ لڑکی پیدا ہونے پر عورت کو اس کے میکے چھوڑ آنا یا اسے طلاق ہی دے دینا کون سی انوکھی بات ہے…. کیا پہلے پنچائیت نے لڑکی پیدا کرنے پر کسی عورت کے شوہر اور سسرال والوں کے ہاتھوں پٹنے سے، ذلیل ہونے سے بچایا ہے۔
نہیں۔ نصیبوں بہت بے بسی سے بولی۔
شوہر کتنا ہی غلط ہو، ظالم ہو، شرابی جواری ہو، مرد میں سو عیب ہوں وہ کسی کو نظر نہیں آتے۔ مگر شوہر کی چھوڑی ہوئی عورت کی گاؤں میں، برادری میں کوئی عزت نہیں رہتی…
ہاں باجی ….! ایسا ہی ہے۔ واقعی …. ہمارے ہاں عورت کی کیا عزت ہے….؟ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ بھینس اور بکری کی اہمیت گھر والی سے زیادہ ہے… بانوں کی باتیں سن کر نصیبو کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔

 

شوہر کتنا ہی غلط ہو، ظالم ہو، شرابی جواری ہو، مرد میں سو عیب ہوں وہ کسی کو نظر نہیں آتے۔  


ہائے ربا…. میرے ساتھ بڑی ناانصافی ہوگئی۔ میری خوشیاں چھن گئیں…. میرے ہاں چوتھا بیٹا پیدا ہوتا تو میرے ہاتھوں میں سونے کی بارہ چوڑیاں ہوتیں۔ میں بڑی حویلی میں چوہدرانی سے ملنے جاتی۔ کرم دین چوہدری کے برابر والی کرسی پر بیٹھتا۔ پر اب۔ ہائے ہائے….
بانو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اب تو میرا اپنا گھر ہی خطرے میں آگیا ہے۔ ہائے۔
لڑکی پیدا ہونے پر کرم دین کے رویے سے بانو بری طرح سہمی ہوئی تھی۔ اس مصیبت کی گھڑی میں میرا ساتھ کون دے گا….
تو خود کو اتنا بھی اکیلا نہ سمجھ۔ نصیبو نے اپنی بہن کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
کون کھڑا ہوگا میرے ساتھ ….؟ بانو بے یقینی سے بولی۔
بانو کی بات سن کر نصیبو بولی
سکینہ باجی….

 

(جاری ہے….)
تحریر: آفرین ارجمند
از روحانی ڈائجسٹ جون 2014ء

یہ بھی دیکھیں

کشورِ ظلمات ۔ قسط 9

تاریکی کے دیس میں بسنے والی مخلوق کے اسرار پر مشتمل دلچسپ کہانی….     …

پارس ۔ قسط 4

چوتھی قسط :   چوتھی قسط : سب سے آگے جمال اور ماسی سرداراں کی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے