ایسا سوچنے والے صرف مرد ہی نہیں ہیں کئی عورتیں بھی اس بات پر یقین رکھتی ہیں۔
بیٹے کی ماں بن کر بعض عورتیں خود کو محفوظ اورمعزز خیال کرتی ہیں، بیٹی کی ماں بن کر خود کوکمزور محسوس کرتی ہیں۔ مردانہ تسلط والے معاشر ے میں کئی مصیبتوں ،دکھوں اورظلمتوں کے درمیان ابھرنے والی ایک کہانی….مرد کی انا اورعونت، عورت کی محرومیاں اوردکھ،پست سوچ کی وجہ سے پھیلنے والے اندھیرے، کمزوروں کا عزم ،علم کی روشنی ،معرفت کے اجالے، اس کہانی کے چند اجزائے ترکیبی ہیں۔
نئی قلم کار آفرین ارجمند نے اپنے معاشرے کا مشاہدہ کرتے ہوئے کئی اہم نکات کو نوٹ کیا ہے۔ آفرین ارجمند کے قلم سے ان کے مشاہدات کس انداز سے بیان ہوئے ہیں اس کا فیصلہ قارئین خود کریں گے۔
تیسر ی قسط :
تیسری قسط :
سکینہ ….بانو حیرت سے بولی وہ بھلا کیا مدد کرے گی میری؟….
ارے باجی یہ الگ بات ہے کہ وہ ہمیں نہیں بھاتی مگر گاؤں کی اکثریت اس کی بات سنتی ہے اور پھر بھائی شفیق کی بھی تو کتنی عزت ہے گاؤں میں۔
وہ بات کرے گی بھائی شفیق سے آپ کو تو پتہ ہے نہ ویر جی بھائی شفیق کی کوئی بات نہیں ٹالتے۔اور اگر برادری میں ضرورت پڑ ی تو بھی بھائی شفیق سکینہ کے کہنے پر ساتھ دیں گیں ہمارا۔دیکھ لینا۔نصیبو نے پورے یقین سے کہا۔
بانو کو کچھ حوصلہ ہوا۔ ہاں کہہ تو تُو ٹھیک رہی ہے۔ بس پھر ہم اس سے بات کرتے ہیں ۔ پر کیسے؟ دونوں سوچ میں پڑگئیں۔
٭٭٭
سکینہ آج تیسرا دن ہے ذرا کر م دین کے گھرپھیرا لگا آ۔دیکھ تو بچی کس حال میں ہے۔آج صبح اٹھتے ہی نہ جانے کیوں شفیق کو پہلا خیال بچی کا آیا۔
نہیں آپ خود ہو آنا میں نہیں جا ؤں گی ادھر اس کا ہاتھ مدھانی پر اور تیز چلنے لگا۔
پر کیوں ؟ دیکھ رہاہوں تُو جب سے آئی ہے ایک بار بھی جانے کا نام نہیں لیا ایسا کیا ہوگیاوہاں ؟وہ کھوجنے لگا
نہیں جی نہیں میں نہیں سن سکتی ان کی بے سروپا دل جلانے والی باتیں توبہ توبہ ایسے کوستے ہیں بیٹیوں کو اور وہ بانو ایسے دھاڑیں مار مار کر روتی ہے کہ میری روح کانپنے لگتی ہے۔
بے عقل لوگ ہیں بے چارے اس میں ہم کیا کرسکتے ہیں ۔ وہ وہیں چارپائی پر ہاتھوں کا تکیہ بنا کر لیٹ گیااور بڑے انہماک سے سکینہ کو کام کرتے دیکھتا رہا۔
ایک بات ہے شفیق سکینہ نے لسی کا گلاس اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا مالک ایسے لوگوں کی جھولیاں بھی بھر دیتا ہے اگر یہ ہماری بیٹی ہو تی تو….اس نے شکوہ کیا۔
سکینہ…. وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا جلدی سے حلق میں پھنسا لسی کا گھونٹ نیچے اتا ر کر بولا دیکھ سکینہ مالک سے شکایت نہیں کرتے بس اس کا شکر کرتے ہیں مجھے بھروسہ ہے اپنے رب پر۔ وہ جو کرتا ہے اچھا کرتاہے اور اسی میں ہماری بھلائی ہوتی ہے۔
بے اولاد ہونے میں بھلا ہماری کیا بھلائی ہے؟ اور ان نا شکروں کو بیٹی دینے کا کیا فائدہ ہے۔اس کی آنکھیں بھرنے لگیں
بے وقوف کفر مت بول اُس کی دنیا تے اُس کی مرضی۔ا س نے ڈانٹتے ہوئے کہا مگر اسے روتا دیکھ کر اسے حوصلہ دینے لگا۔
تُو دل چھوٹا مت کر رب سے ما یو س نہ ہو اسے جھولی بھرتے دیر نہیں لگتی۔
صحیح کہہ رہے ہو آپ وہ بھیگی پلکیں دوپٹے سے صاف کرتے ہوئے بولی۔لیکن میں بھی تو ادھوری ہوں ….اس نے پھر ہچکیاں لینی شروع کردیں ۔
اور میرا کیا؟ شفیق نے الٹا سوال کیا
پھر ذرا رک کر بولا پوری جھلی اے تُو ذرا سوچ مالک تجھے اولاد دے دے اور مجھے اپنی پاس بلالے تو کیا تب بھی تُو پوری ہوگی ؟
اللہ نہ کرے اس کے دل کی دھڑکن رک گئی یہ کیا کہہ رہے ہو آپ میری جان لکھ واری قربان آپ پر۔اللہ مجھے معاف کرے وہ خوف زدہ ہو کر کانوں کو ہاتھ لگانے لگی۔
وہ ہنس پڑا یہی تو کہہ رہا ہوں ہم پورے ایک دوسرے کے ساتھ سے ہوتے ہیں کسی تیسرے سے نہیں اورجب تک میں تیرے ساتھ ہوں تُو ادھوری نہیں یقین رکھ شفیق کے ہر لفظ میں یقین تھا۔
پر اِک بات صاف صاف سن لو جی سکینہ ڈر گئی تھی۔
کیا؟شفیق بولا
یہی کہ اللہ کے پاس پہلے میں جاؤں گی۔ کھاؤ میرے سر کی قسم اس نے شفیق کا ہاتھ اپنے سر پر رکھ لیا۔
پاگل ہوگئی ہے تُو اس نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ اس کے سر پر سے کھینچ لیا میں تو ایسے ہی تجھے سمجھانے کے لئے کہہ رہا تھا۔
پَر میں ایسے ہی نہیں کہہ رہی اللہ کی قسم اس نے خود اپنے سر پر اپنا ہاتھ رکھ لیااس کی آنکھوں میں یقین تھاوالہانہ محبت تھی وہ چند لمحے ساکت اسے دیکھتا رہا۔
چپ کر بس اللہ سے خیر مانگ۔ خیر۔وہ گھبرا کر اٹھ گیا۔
میں جارہا ہوں ویڑے جلدی آجاؤں گا۔ پھر ساتھ چلتے ہیں کرم دین کے ہاں ۔
وہ چلا گیا تھا۔مگر سکینہ کو تڑپا گیا تھا اسے ایک کل چین نہیں مل رہا تھا۔
وہم وسوسے اس کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے تھے۔نہیں میرے شفیق سے بڑھ کر کچھ نہیں وہ پھر بے چین ہوگئی نہ جانے کتنی دیر سجدے میں پڑی رہی اس کی زندگی کے لئے دعائیں مانگتی رہی۔وہ شرمندہ ہورہی تھی اپنی خواہش پر خود کو برا بھلاکہہ رہی تھی۔ اپنی ناشکری پر سخت شرمندہ تھی۔اور شاید وہ قبولیت کا لمحہ تھا۔اس کا بلکنا آسمانوں پر بھا گیا تھااس کی بے لوث شفاف محبت قبول ہو گئی تھی۔
٭٭٭
دونوں گھر میں داخل ہوئے تو وہاں کا منظر ہی عجیب تھا تین دن پہلے تک جہاں خوشیوں کا راج تھا آج اس گھر پر اداسی کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ سکینہ کو دیکھتے ہی بانو پہلی بار اس سے لپٹ کر ہچکیوں سے رونے لگی۔
بانو خیر تو ہے۔سکینہ نے اسے پیار سے سنبھال لیا اور سہارا دے کر چارپائی پر بٹھا دیا اس کی پیشانی پر پڑا لال گومڑا،سوجھی آنکھیں ،سرخ ناک سارادن کا احوال بیان کر رہا تھاوہ حیران حیران سی بانو کو دلاسا دینے لگی۔ مغرور جھگڑالو بانو جو ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دیتی تھی بے بسی کی مورت بنی اس سے لپٹے ہوئی تھی۔سکینہ کو بانو کی اس حالت پر شدیدترس آیاکچھ بھی تھا وہ اس معاملے میں سراسر بے قصور تھی نادہندہ گناہ کی سزا بھگت رہی تھی۔نصیبو بھی بڑے تمیز سے اسے سکینہ باجی اور بھائی شفیق کہہ کر خیرو عافیت دریافت کررہی تھی۔
سکینہ کی گرم جوشی نے بانو کو حوصلہ دیا سکینہ کیا تم میرے لئے کچھ کرسکتی ہو؟ وہ مدعے پر آئی
مطلب ؟سکینہ نے پوچھا۔
دیکھو نہ اس نے میرا کیا حال کردیا وہ اپنے زخم اس کو دکھانے لگی آج وہ بالکل وحشی جانور لگ رہا تھاسکینہ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے وہ مجھے گھر سے نکال دے گا۔ اس کی آواز میں خوف تھاکپکپاہٹ تھی۔
ارے ارے ایسے تھوڑی گھر سے نکال دے گا۔اس کا غصہ وقتی ہے اتر جائے گا تو وہ خود ٹھیک ہو جائے گا۔سکینہ نے حوصلہ دیا۔
اور اگر نہ ہوا تو…. بانو نے نے اپنے اندیشے سامنے رکھ دئیے۔
تو کیا تُو برداری کے سامنے بات کرنا خدا نہ کرے کوئی نگوڑی ناٹھی تھوڑی ہے تُو۔سکینہ نے حل بتایا
برادری بھی تواس کا ہی ساتھ دے گی قصور وار تو میں ہوں نہ بیٹی میں نے جنی ہے۔ اس میں کرم دین کا کیا قصور۔بانو خود کو پیٹنے لگی
میرے پاس تو کوئی ثبوت بھی نہیں سکینہ کیا تم میرا ساتھ دوگی انہیں بتاؤگی کہ بیٹی پیدا ہونے میں میرا کوئی قصور نہیں یہ سب کالے بابا کے تعویز کی وجہ سے ہوا ہے جو اس میسنی کنیز نے جلن میں مجھ پر کروایا اس نے التجا کی اس کی آنکھیں پھر سے سرخ ہونے لگیں ۔
بانو خود کو سنبھال دیکھ ایسا کچھ نہیں ہوگا یہ سب فضول باتیں ہیں ۔ آخرتونے تین بیٹے بھی تو جنے ہیں ایک بیٹی پر ایسی کیا قیامت آگئی۔
کرم دین خود ہی ٹھیک ہوجائے گا۔سکینہ نے حوصلہ دینے کی کوشش کی۔
آپ کچھ سمجھاؤ نہ اس کو۔سکینہ نے شفیق سے کہا۔
ہاں بھابی کیوں پریشان ہوتی ہے کچھ برا نہیں ہوگا میں بات کروں گا کرم دین سے۔
بھائی شفیق آپ ضرور بات کرنا۔ایک آپ ہی تو ہو جس کی وہ سنتا ہے۔ ورنہ میرے بھائیوں سے تو اللہ جانے کا بیر ہے اس کو۔بانو نے دہائی دی
لے باجی ستو لے۔ اتنے میں نصیبو تھالی میں ستو کے تین گلاس بھر لائی تھی جو اس نے ان کے آگے رکھ دئیے۔
بچی تو ٹھیک ہے نہ ؟سکینہ نے پھر نصیبو سے پوچھا۔
ٹھیک ہے سو رہی ہے۔وہ بولی
ابھی دو تین گھونٹ ہی حلق سے اترے تھے کہ بچی کے رونے کی آواز سن کر سکینہ گلاس چھوڑ کر جلدی سے کھڑی ہوگئی میں دیکھ لوں ؟او ر جواب کا انتظار کئے بغیر ہی بے قراری سے اندر لپکی۔ اس کی بے قراری کو سب نے واضح طور پر محسوس کیا۔دونوں کی نظروں نے کمرے تک اس کا تعاقب کیا۔
کرم دین کب آئے گاکھیتوں پر بھی نہیں ہے وہ؟۔شفیق نے دونوں کا دھیان بٹانے کے لئے پوچھا۔
وہ دونوں بھی پریشان تھیں ۔ صبح سے کچھ پتہ نہیں ہے اس کا میں نے ببلو کو بھی بھیجا تھا بھائی رحم دین کے ساتھ اس کو دیکھنے پر کہیں نہیں ملا۔بانو پھر سسکیاں بھرنے لگی۔
ایسے میں سکینہ بچی کو گود میں لئے باہر چلی آئی اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے۔
بانو اسے تو بخار ہے۔اور دیکھ اس کی دودھ کی بوتل سکینہ نے بوتل آگے بڑھادی جو صحیح طرح دھلی ہوئی بھی نہ تھی پرانا دودھ کا دہی بن گیاتھا۔
وہ بس مجھے خیال ہی نہیں رہا سویرے سے بانو باجی کی طبیعت ہی اتنی خراب تھی۔اماں بھی نہیں ہے اوپر سے یہ شریر بچے نصیبو شرمندگی سے اپنی صفائی پیش کرنے لگی اور تیزی سے بوتل ہاتھ سے لے کر اندر دوڑ گئی۔
کہیں اس کے پیٹ میں تو درد نہیں ۔ سکینہ پھر پریشان ہوگئی اور بچی کو بہلانے لگی۔ بانو اگر تو برا نہ مانے تو اسے حکیم جی کو دکھادیں ۔ سکینہ نے اجازت چاہی۔
نہیں سکینہ پریشانی کی کوئی بات نہیں بچی ٹھیک ہے ہو سکتا ہے بھوکی ہو،تُو خوامخوا ہ پریشان ہورہی ہے۔کچھ نہیں ہوگا اسے شفیق نے بات کو نبھایا اور بچی کو سکینہ کی گود سے لے کر نصیبو کو دے دیاجو بوتل میں تازہ دودھ بھر لائی تھی۔
لیکن….سکینہ نے کچھ کہنا چاہا۔
میرا خیال ہے ہمیں چلنا چاہیئے تُو فکر نہ کر بھابھی میں کرم دین سے بات کرتا ہوں ۔ آپ بس اپنا اور بچی کا خیال رکھو۔ شفیق جلدی سے سکینہ کی بات کاٹ کر بولا اور جانے کے لئے کھڑا ہوگیا۔
سکینہ خاموشی سے کھڑی ہوگئی اور اترے چہرے کے ساتھ شفیق کے پیچھے پیچھے باہر نکال آئی۔تمام راستے وہ خاموش تھی اس کے روئیے سے خفگی صاف جھلک رہی تھی جو شفیق محسوس کررہا تھاوہ جانتا تھا اس نے سکینہ کو ناراض کردیا تھا۔۔ مگر وہ کیا کرتا۔ وہ اس کابچی کی طرف بڑھتے لگاؤ سے پریشان تھا اس کی بے قراری محسوس بھی کر رہا تھا اور دیکھ بھی رہا تھا۔
دیکھ سکینہ جو تُو چاہ رہی ہے وہ اتنا آسان نہیں ہے۔شفیق نے بغیر کوئی تمہید باندھے کہا۔
کیوں ؟ایسا کیا چاہا میں نے سکینہ کے سوال میں معصومیت تھی شاید وہ خود بھی اپنے دل میں پنپنے والی خواہش کو صحیح طرح سمجھ نہیں پائی تھی۔
شفیق اس کے سوال پر کچھ دیر اسے دیکھتا رہا۔ پھر دھیرے سے بولادیکھ کرم د ین کی بچی کے لئے تیرا اس طرح والہانہ پن مناسب نہیں ہے۔ وہ ان کی ذمہ داری ہے ان کو اٹھانے دے ہم ان سے مل لیتے ہیں ان کے مسائیل حل کرنے میں مدد کردیتے ہیں تُو نصیبو کا ہاتھ بٹا دیتی اتنا کافی ہے بس۔شفیق نے ساری بات کی وضاحت کردی۔
پر آپ نے دیکھا نہیں وہ معصوم کیسے بلک رہی تھی پتہ نہیں اسے کتنی تکلیف ہو رہی تھی سکینہ کے چہرے پر کرب تھا وہ لوگ اس کا بالکل خیال نہیں رکھ رہے جی۔ میرا دل کہتا ہے اگر ایسا ہی رویہ رہا تو وہ بچی جان سے جائے گی۔
توبہ کر ایسا مت بول۔وہ ان کی بیٹی ہے کچھ دنوں کا غصہ ہے اتر جائے گا تو آپے سمجھ آجائے گی پھر سب یہ رویہ بھول جائیں گیں ۔ پھر تُو کیا کرے گی اور ایسا تو ہوتا رہتا ہے یہ تو عام بات ہے پھر بھی عورتیں جی ہی رہی ہیں اب اگر ہر کوئی انہیں پیدا ہوتے ہی جان سے ماردیتا تو آج اس ملک کا نصف حصہ نہ ہوتیں شفیق نے پوری تقریر کرڈالی۔
آپ کی بات صحیح ہے پر ان کا معاملہ صرف بیٹی کا نہیں طاقت کا ہے رتبے کا ہے یہ پورا گاؤں جانتا ہے چوتھے بیٹے کے نہ ہونے کی وجہ سے کرسی چھن جانے کا غم بیٹی کے پیدا ہونے سے کہیں زیادہ گہراہے۔ سکینہ نے بھی ان کی اصل حقیقت بتانے کی کوشش کی۔
ِہاں بات تو صحیح ہے۔ شفیق نے اثبات میں سر ہلایا۔
اس لئے تو کہہ رہی ہوں بچی وہاں ٹھیک نہیں ہے۔
تو پھر کیا کیا جائے۔؟
میں تو بس اتنا کہہ رہی ہوں کہ جب تک کرم دین کا بانو کا رویہ ٹھیک نہیں ہوجاتا اور اس کا غصہ ٹھنڈا نہیں پڑجاتاہم بچی کو کچھ دنوں کے لئے گھر لے آتے ہیں اس طرح نصیبو کا بوجھ بھی کچھ ہلکا ہوجائے گا بے چاری رات دن خدمت میں جتی رہتی ہے۔سکینہ نے توجہیات پیش کیں ۔
نہیں قطعی نہیں وہ اٹل لہجے میں بولا۔ کرم دین لاکھ میرا دوست صحیح اس سے پرانے مراسم صحیح پر کسی اور کی بچی کو اس طرح گھر میں رکھنا بہت بڑی ذ مہ داری ہے اور پھر برداری کے ہزار مسئلے کل کلاں کچھ ہوگیا تو کون ذمہ دار ہوگا؟
شفیق کے صاف انکار کے بعد بحث کی کوئی گنجائش نہ تھی وہ خاموش ہوگئی۔ وہ کھانا تیار کرکنے میں مصروف ہوگئی اور خاموشی سے کھانا کھاکر گھر کے نمٹاکر لیٹ گئی بظاہر سب نارمل تھا مگر اس کی خاموشی میں ناراضگی صاف عیاں تھی۔ سکینہ کی خاموشی اس کی جان لے رہی تھی وہ اس کی خفگی کی وجہ جانتا تھامگر سچ بات تو یہ تھی کہ وہ سکینہ کو اس تکلیف سے بچانا چاہتا تھا جو کچھ وقت بچی کے ساتھ گزارنے کے بعد اس کو واپس کرتے ہوئے ہوتی اور یہ اتنا آسان بھی نہ تھا جتنا وہ سمجھ رہی تھی وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی ممتا تشنہ رہ جائے۔ وہ ساری رات کروٹیں بدلتا رہا سوچتا رہا کیا کرے ؟کیا نہ کرے؟ آخر سکینہ صحیح تو کہہ رہی تھی وہ اس کی قدر کبھی نہ کر پایئں گیں خوہ ا مخواہ رلتی رہے گی بے چاری۔اور کرم دین نہ مانا تو سنکی تو ہے کہیں کچھ الٹا سیدھا مطلب ہی نہ نکال لے۔ وہ اسی گتھی میں الجھاپوری رات جاگتا رہااور پھر بلا آخر اسے سرا مل ہی گیا۔
٭٭٭
سویرے اس کا سب سے پہلا کام کر م دین کو تلاش کرنا تھا۔اسے پتہ تھا اگر کرم دین کھیتوں پر نہیں تو ایک ہی جگہ ہے جہاں وہ منہ لپیٹے پڑا ہوگا۔ گاؤں سے چند فرلانگ دور وہ سیدھا نہر پہنچا ا س کا اندازہ صحیح تھاکرم دین نہر کے کنارے بے مقصد بیٹھا تھا۔وہ اسے زبردستی قریب کے ڈھابے پر لے گیا۔ ایسے میں سامنے سے آتی چند آدمیوں کی ایک پلٹن نے دونوں کو گھیر لیاان کے چہروں پر مسکراہٹ تھی جو کرم دین کو تمسخر لگ رہی تھی ان میں سے کچھ جمال کے دوست بھی تھے۔
کدھرہو بھائی کرم دین؟ کچھ یاد ہے تجھے آج تیری سنوائی تھی پنچائیت میں ۔ ایک نے یاد دہانی کرائی۔
جانتا ہوں ۔ کرم دین روکھائی سے بولا
مطلب تُو جان بوجھ کر نہیں آیا چودھری سراج صحیح کہہ رہا تھا کہ کرم دین میں سامنے کی ہمت نہیں اس لئے اس کا انتظار فضول ہے۔جمال کے دوست نے آگ بھڑکائی۔
دیکھ لوں گا اس کو۔کرم دین کا پارہ چڑھنے لگا۔
کچھ پتہ بھی ہے پنچائیت نے پانی کا فیصلہ جمال کے حق میں دیا ہے گاؤں میں مٹھائیاں بانٹ رہا ہے وہ جمال کے دوسے دوست نے جلتی پر تیل ڈالا۔
کرم دین کا خون جوش مارنے لگا ایسے کیسے پانی اس کو دے دیاکیا سمجھتا ہے چودھری خود کو۔وہ بھوکے شیر کی طرح جمال کے دوست پر بری طرح جھپٹ پڑا لگ رہا تھا کہ وہ اس کو کچا چبا جائے گا دونوں کے درمیان خوب ہاتھا پائی ہوئی بڑی مشکل سے شفیق اور دوسرے آدمیوں نے دونوں کو الگ کیا۔ کرم دین کو اتنا طیش میں دیکھ کر دہشت زدہ پلٹن واپس پلٹ گئی۔
ابھی کل سنار کے منہ پر رقم مار کے آیا ہوں اور آج یہ مصیبت۔وہ پھولی ہوئی سانس پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگا۔
اف اور کیا کیا دیکھوں گا میں اس کی وجہ سے کرم دین نے ایک اور الزام بچی کے سر منڈھ دیایقین کر اگر میرے بس میں ہوتا تو اس کی جان لے لیتا۔شفیق اس کی بات سن کر کچھ دیر اسے دیکھتا رہااپنی غلطی معصوم پر تھوپ رہا ہے تجھے جانا چاہیے تھا پنچایئت میں آخر کب تک سامنا نہیں کرے گا شفیق نے سائیڈ لی۔
کس منہ سے جاتا میرا تو دل کباب ہو رہاہے۔
کرم دین کے روئیے سے شفیق کو اپنی بات کہنے کی کچھ ڈھارس بندھی اگر تُوذرا ٹھنڈا ہوجائے تو میری بات سن مجھے تجھ سے ضروری بات کرنی ہے اور پھر ہمت کرکے شفیق نے بچی کو گود لینے کی بات کر ڈالی اور اس کے جواب کا انتظار کرنے لگا۔
کرم دین شفیق کی بات سن کر حیرت زدہ رہ گیااسے شفیق سے ایسی بات کی توقع نہ تھی وہ مخمصہ میں پڑ گیا۔یہ ٹھیک ہے کہ بیٹی کا پیدا ہونا کوئی خوشخبری نہ تھا مگر کسی بھی صورت میں بیٹی کو گود دینے کا ان کی برادری میں کبھی کسی نے خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔ وہ فی الوقت کوئی جواب نہ دے پایاتھا راستے بھر یہی باتیں سوچتا رہا۔
گھر پہنچ کر وہ سیدھا بانوکے پاس کمرے میں پہنچا اوراسے نظر انداز کرتے ہوئے سوتی ہوئی معصوم بچی کو گود میں اٹھا لیا اور باہر کی جانب لپکا۔
کہاں لے جارہے ہواسے ؟ بانو بری طرح گھبراگئی۔
وہ کوئی جواب دئیے بغیر کمرے سے باہر نکل گیا اور شام کے ملگجے اجالے میں بچی کو گھور گھور کر دیکھنے لگا۔
نصیبو جو باورچی خانے میں پانی پینے گئی تھی خوفزدہ سی اکڑوں بیٹھی کھڑکی سے باہر جھانک کر اسے دیکھنے لگی ویسے ہی کرم دین کا کل صبح کا رنگ دیکھ کر اس کی سٹی گم ہوئی وی تھی دونوں عورتوں کو بچی کی قضاء صاف نظر آرہی تھی۔
بانو….نصیبو….کرم دین نے زور دار آواز لگائی۔جل جلال تُو آئی بلا کو ٹال تُو اس نے آنکھیں میچ لیں اوردبی دبی آواز میں ورد کرنا شروع کردیا۔
دونوں ….مرگئیں کیا۔اب کے آواز میں گرج تھی۔اآآئی ویر جی۔ نجات کا کوئی رستہ نہ پاکر باہر نکل آئی۔کپکپاتی ہوئی ذرا دور فاصلے پر کھڑی ہوگئی۔ج ج جی ویر جی۔
کرم دین نے گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھا۔کمرے کے دروازے پر لرزتی کانپتی بانو کھڑی نظر آئی۔ وہاں کیوں کھڑی ہے ادھر آ۔ تُو بھی ذرا دیکھ تو سہی اس کو وہ پھر بچی کو گھورنے لگا۔
کیا ہوا اسے وہ دونوں دور ہی سے بچی کا جائزہ لینے لگی۔
میں سوچ رہا ہوں اس میں ایسی کیا بات ہے جو شفیق اسے گود لینا چاہتا ہے۔
ہیں جی۔دونوں بیک وقت بولیں ۔ گود….
آہو….وہ مسکرایا میں تو حیران ہوں ان کی بیوقوفی پر دس سال بعد گود لینے کا سوچا بھی تو لڑکی کوبھلا بتاؤ۔
کرم دین کچھ دیر بچی کو گھورتا رہا پھر آہستہ سے بولامجھے لگتا ہے اس میں کوئی اعتراز والی بات نہیں اچھا ہے ایک طرح سے اس کی سُونی گودآباد ہوجائے گی اور میرے ما تھے سے یہ داغ بھی مٹ جا ئے گاکم سے کم میرا جھکا ہوا سر پھرسے بلند ہوجائے گاکرم دین خود بخود بولتا رہا۔ کیا کہتی ہے تُو؟وہ بانو کی طرف دیکھے بغیر بولا اوراپنی سوچ کی داد چاہی۔
مگر اس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی اس نے فیصلہ صادرکردیامیں آج ہی برداری کو بلاتا ہوں اور بھائی رحم دین سے بات کرتا ہوں ۔
وہ دونوں کو وہیں ہکا بکا چھوڑ کر بچی کو چارپائی پر ڈال کر اندر چلا گیااس کے چہرے پر اطمینان تھاجیسے کوئی بہت بڑا بوجھ اتارا ہو۔
بانو کا دل دھک سے رہ گیاوہ جو اب تک اپنا گھر بچانے کی فکر میں تھی اس کے لئے یہ ایک دھچکہ تھامگر وہ جانتی تھی اس کے بس میں کچھ نہ تھا۔اس نے نصیبو کی طرف دیکھا۔مجھے تو لگتا ہے ویر جی نے بالکل صحیح فیصلہ کیا ہے اس نے حمایت کی مگر بانو نے کوئی جواب نہ دیا۔
کرم دین نے فوری طور پر اپنے بڑے بھائی رحم دین سے بات کی اس نے بھی کر م دین کے فیصلے کی تائیدکی اور پھر اسی شام شفیق کو کہلا بھیجا کہ آکے امانت لے جاؤ۔
اور یوں بھائی رحم دین اور قریبی رشتے داروں کی موجودگی میں نومولود سکینہ کی گود میں ڈال دی گئی با قائدہ معاہدہ طے پایا کہ بچی کا نہ تو کرم دین سے کوئی رشتہ ہوگا اور نہ ہی جہیز کے نام پر جائیداد میں کوئی حصہ۔ اس وقت بھی بانو ایسے سر جھکائے بیٹھی تھی جیسے اعترافِ جرم کے بعد مجرم کو سزا سنادی گئی ہو بیٹی پیدا کر نے کی مجرم ہونے کے باوجود اسے گھر نام کی چاردیواری میں رہنے کی اجازت مل گئی تھی اس کا شوہر خوش تھا اُس کے لئے یہی کافی تھاوہ اس کی ہر بات پر اثبات میں سر ہلاتی رہی۔ بچی کو گود میں ڈال کر کرم دین خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھاچاہتا تھا یہ اب جلد از جلد رخصت ہوں ان دونوں کے لئے بھی مزید رکنا بے وجہ تھا وہ بھی جانے کے لئے کھڑے ہوگئے اس لمحے بانو نے بچی کی طرف دیکھا پہلی بار اس نے تڑپ محسوس کی وہ ا پنی جگہ سے اٹھنے لگی مگر نصیبو نے پکڑ کر بٹھالیا۔جانے دے تیرا کیا ہے دیکھ نہ ویر جی کتنے خوش ہیں ا س نے سرگوشی کی اور آگے بڑھ کر سکینہ کے ہاتھ میں بچی کی دودھ کی بوتل پکڑادی۔وہ انہیں دعوت کا بلاوا دے کربھری جھولی گھر لوٹ آئے۔
٭٭٭
نئی صبح کا نیا سورج خوشیوں کی کرنیں بکھیرتا پوری آب و تاب کے ساتھ چمکنے کے لئے بے قرار تھا۔سکینہ دھیرے سے نومولودکے پاس آکر بیٹھ گئی اسے غور سے دیکھنے لگی معصوم گلابی چہرے پر فرشتوں سی مسکراہٹ پھیلی ہو ئی تھی۔وہ بے یقینی کے عالم میں اسے ہاتھ لگا کر دیکھنے لگی کبھی گال چھوتی تو کبھی اس کے ننھے ہاتھ چومتی تو کبھی اس کی چھوٹی سی نازک سی ناک پکڑ لیتی۔اسے یقین نہیں آرہا تھاکرم دین کا یوں بلا حیل و حجت اتنی جلدی مان جانا اور بیٹی ان کے حوالے کردینا کسی معجزے سے کم نہ تھا۔قدرت کے اس احسان پر وہ بہت خوش تھی اس کے دل کی ہر دھڑکن بارگاہِ ایزدی میں شکرانے کے سجدے کررہی تھی۔
اسے پتہ ہی نہ چلا نہ جانے کب سے شفیق اس کے پیچھے کھڑا اس کی والہانہ محبت سے محظوظ ہو رہا ہے۔ لگتا ہے آج روٹی نہیں ملے گی اس نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔
دیکھو نا کتنی پیاری ہے۔ اس نے جیسے شفیق کی بات سنی ہی نہیں اور بچی کو گود میں اٹھا کر اس کے سامنے کردیا۔
بلکل تجھ پر گئی ہے اس نے مسکراتے ہوئے کہا اور شفقت سے بچی کو گود میں لے لیا۔ ننھی بچی اس کی گود میں کلکاریاں مار نے لگی سکینہ اس کی غو ں غاں سن کر بچوں کی طرح خوش ہورہی تھی۔نہ جانے کتنی دیر دونوں اس کے ساتھ کھیلتے رہے وقت کا پتہ ہی نہ چلاکہ کب سورج کی روشنی سے آنگن بھر گیا۔ارے دن چڑھ گیا ہے اب تو کچھ کھانے کو دے دے۔شفیق کو اچانک شدید بھوک کا احساس ہوا۔
ہااا…. وہ ہاتھ منہ پر رکھ جلدی سے اٹھ گئی مجھے تو یاد ہی نہیں رہا۔
اچھا آپ ادھر ہی بیٹھو میں روٹی ڈال کے لاتی ہوں ۔ پر دھیان سے کہیں جانا نہیں اسی کے پاس رہنااس نے نصحیحت کی۔
فکر نہ کر تُو میں یہیں جم کے بیٹھا ہوں وہ چارپائی پر پھیل کر بیٹھ گیا تُو بس روٹی لاجلدی وہ لجاجت سے بولا۔
ہاں جی لاتی ہوں سکینہ نہ چاہتے ہوئے بھی باورچی خانے میں گھس گئی اسے تو مارے خوشی کے بھوک ہی نہیں لگ رہی تھی اس کا دل ہی نہ چاہا کہ ایک پل کے لئے بچی سے دور ہو۔
وہ شفیق کو ناشتہ دے کر خود کچھ لکھنے بیٹھ گئی۔
ارے کچھ کھا تو لے پہلے۔
ہاں بس ذرا یہ کام کرلوں اس نے ایک فہرست شفیق کے ہاتھ میں تھمادی دیکھو جی یہ سارا سامان لے کر آنا ہے۔
پر یہ ہے کیا۔؟وہ نوالا منہ میں ڈالتے ہوئے فہرست کو گھورنے لگا۔
ارے بچی کی ضرورت کا سامان ہے اس کے کپڑے، دودھ کی بوتلیں ۔ اور وہ یاد ہے جب پچھلے سال سیلاب آیا تھا تو شہر سے ڈاکٹرنی ایک پوڈر سا پانی میں ملاکر کھلاتی تھی بچوں کو۔
اف کیا کہتے ہیں اسے سکینہ ماتھے پر ہاتھ مار کر (سر یلیک) کا نام یاد کرنے کی کوشش کرنے لگی۔
ہاں ہاں پر وہ پوڈر یہاں نہیں ملتا۔ تحصیل جانا پڑے گا۔
ہاں تو جاؤنا۔
ارے تُو پاگل ہوگئی ہے ابھی کیسے چلا جاؤں ۔ آنے جانے میں بھی تو دن لگے گا۔ اورابھی تو یہ بہت چھوٹی ہے۔جب تھوڑی بڑی ہوجائیگی پھر وہ پوڈر کھلائیں گیں۔ شفیق اس کی دیوانگی پر ہنسنے لگا۔
وہ بات کرتے کرتے اسٹول پر چڑھ گئی اورالماری پر رکھے اپنے بابا ماسٹر غلام رسول کا چھوٹا ساصندوقچہ اتار کر اس میں موجود کتابوں کی گرد اپنے دوپٹے سے جھاڑنے لگی۔
لَے یہ کونسا وقت ہے اس صندوقچے کی صفائی کا؟
شفیق ….وہ ذرا دیر ٹہر کر بولی ہم اپنی بیٹی کو پڑھائیں گیں میں تو میٹرک نہ کر سکی پر اسے ضرور دسویں پاس کرائیں گیں۔ دیکھنا وہ یہ ساری کتابیں پڑھے گی بابا کہتے تھے ان کتابوں کے پڑھنے سے ہم بڑے آدمی بن جاتے ہیں میری بیٹی بھی بڑی آدمی بنے گی۔ایک ایسی انسان جسے دیکھ کر سب بیٹی کی دعا کریں وہ اسے خیالوں میں بڑا آدمی دیکھنے لگی۔
پر دیکھ نہ یہاں تو لڑکوں کے لئے دسویں کا اسکول نہیں ۔ اسے کیسے پڑھائیں گیں ؟اور کوئی خود سے پڑھے تو تحصیل جانا پڑتا ہے امتحان کے لئے پھر تُو جانتی ہے گاؤں والے ایک قیامت کھڑی کر دیں گیں یاد ہے نہ تیری پڑھائی پرماسی سرداراں نے کتنا شور مچایا تھا۔
مجھے کچھ نہیں سننا بس۔دسویں تک ضرور پڑھائیں گیں ورنہ مڈل تو پکا۔سکینہ اٹل لہجے میں بولی اور بابا بلّھے شاہ کی کتاب پر اٹی گرد کو صاف کرکے سینے سے لگا لیا۔
ٹھیک جو تیرا د ل کرے میں چلتا ہوں کام پر۔وہ ہار مانتے ہوئے بولا۔
آہو پر جلدی آنا۔ میں سوچ رہی ہوں آج درگاہ چلتے ہیں دھی رانی کو لے کر پھر سب کو دعوت کا بھی کہہ دیں گیں۔
یہ تو بہت اچھا ہے نیک کام میں دیری کیسی چل ابھی چلتے ہیں وہ اسی وقت بچی کو گود میں لے کردروازے کی جانب بڑھ گیا۔
اتنی جلدی ابھی تو صفائی ….
ارے چھوڑ واپس آکر کر لیں گیں وہ دروازے کی کنڈی کھولتے ہوئے بولا
ارے ارے رکو تو …. سکینہ جلدی سے صندوقچہ بند کرکے ہڑبڑا کر کھڑی ہوگئی۔ وہ اس کی ہڑبڑاہٹ پر ہنستا رہا اور جلدی سے دروازے کے پٹ کھول دئیے مگردونوں کے قدم دروازے پر ہی رک گئے۔
خیر توہے دونوں ہجوم دیکھ کر پریشان ہوگئے۔
(جاری ہے….)
تحریر: آفرین ارجمند
از روحانی ڈائجسٹ جولائی 2014ء