تیسری قسط
سانس کی اہمیت
آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ جب کسی بیمار کی حالت نازک ہوجاتی ہے تو اسے آکسیجن دی جاتی ہے تاکہ روح اور جسم کا رشتہ زیادہ دیر تک قائم رہ سکے۔ دراصل انسان کی موت حرکت قلب کے بند ہونے کا نام نہیں ہے جب تک دماغ کی موت واقع نہ ہو انسان نہیں مرتا اور دماغ کی موت اس وقت تک واقع نہیں ہوتی جب تک اسے آکسیجن ملتی ہے اور اگر کسی وجہ سے دماغ کو باہر سے آکسیجن کی سپلائی بند ہوجائے تو وہ ذخیرے سے تھوڑی تھوڑی خرچ کرتا رہتا ہے۔ جو اس کے پاس موجود ہوتا ہے اور اس طرح روح کا جسم سے رشتہ قائم رکھنے میں اس وقت تک کامیاب رہتا ہے۔ جب تک اس کے ذخیرے میں آکسیجن موجود ہے۔ اس کے برعکس اگر دماغ میں آکسیجن کا ذخیرہ موجود نہیں تو انجام ظاہر ہے۔
جونہی باہر سے آکسیجن کی سپلائی بند ہوئی۔ روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی،
یہ چند سطور محض سانس کی اہمیت کے پیش نظر لکھی گئی ہیں تاکہ قارئین کو عمل تنفس کی اہمیت کا اندازہ ہوسکے۔
قدرت نے ہمارے پھیپھڑوں کو کچھ اس طرح بنایا ہے کہ تمام جسم کا خون فقط تین منٹ میں پھیپھڑوں کی راہ آکسیجن لےکر واپس چلا جاتا ہے۔ گویا کہ تین منٹ کے بعد دوبارہ خون واپس آکسیجن لینے کے لیے آموجود ہوتا ہے۔ اب اگر پھیپھڑوں میں کم آکسیجن ہے۔ تو ظاہر ہے خون کو بھی آکسیجن کم ملے گی اور آکسیجن کا ذخیرہ تو کجا۔ کمی کی وجہ سے مختلف اعضاء انحطاط کا شکار ہوجائیں گے۔
جب ہم سانس لیتے ہیں تو ہوا میں موجود آکسیجن زیادہ ہوتی ہے مگر جب ہم سانس باہر نکالتے ہیں تو آکسیجن خرچ ہونے کے بعد کم رہ جاتی ہے۔ باقی کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوتی ہے۔ جو خون سے فضلہ کی صورت میں حاصل کی گئی ہوتی ہے۔ اسی لیے ماہرین یوگا نے سانس کی مشقیں ایجاد کی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ آکسیجن ہمارے خون میں شامل ہوسکے اور ہر رگ و پے میں اس کا ذخیرہ ہوجائے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا خدمت میں پیش کر رہے ہیں اس سے عام سانس کی نسبت آٹھ گنا زیادہ آکسیجن پھیپھڑوں میں داخل ہوتی ہے اور عام سانس کے باہر نکالنے کی نسبت بھاری مقدار میں کاربنزیادہ سے زیادہ اخراج ہو۔ اب ہم جو سانس کی مشق قارئین کی ڈائی آکسائیڈ پھیپھڑوں سے خارج ہوتی ہے۔
آئیے اب سانس کی مشق شروع کریں ۔
آہستہ آہستہ سانس اندر کھینچیں حتیٰ کہ پھیپھڑوں کے نچلے حصے ہوا سے بھر جائیں۔ اب پسلیوں کا خانہ ہوا سے بھردیں۔ اس سے پسلیاں اور سینہ پھیل جائیں گے۔ پہلے پہلے وقفوں میں سانس اندر کھینچیں۔ مگر آہستہ آہستہ آپ اتنے ماہر ہوجائیں گے کہ ایک بار سانس اندر کھینچ سکیں مسلسل مشق کی بنا پر یہ طریقہ آسان ہوجائے گا اور قدرتی بھی معلوم ہوگا۔
جب آپ سانس اندر کھینچ چکیں تو برعکس طریقہ کار پر عمل کریں یعنی ہوا خارج کریں۔ پہلے سینے کے بالائی حصہ کی ہوا خارج کریں۔ آخر میں پیٹ کے عضلات سکیڑیں اور سینہ کے نچلے حصے کی ہوا خارج کریں۔ اب پورے پھیپھڑوں کی ہوا خارج کردیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پوری طرح ہوا خارج نہ ہوگی۔ کچھ نہ کچھ رہ جاتی ہے۔
یوگا کے سانس لینے کے طریقے سے سینہ اور پسلیاں لچکدار ہو جاتی ہیں۔ چھوٹے عضلات جو پسلیوں کے درمیان ہوتے ہیں نرم پڑ جاتے ہیں۔ ان عضلات کو پسلیوں کے درمیانی عضلات کہتے ہیں ۔ جوں جوں عمر میں اضافہ ہوتا ہے ان عضلات پر چربی کی تہیں جم جاتی ہیں اور وہ لچکدار نہیں رہتے۔ موٹے افراد کے سینے کے خانے میں لچک نہیں رہتی۔ وہ سینہ کے بالائی خانہ کی بجائے سینہ کے نچلے حصے اور پیٹ کے عضلات کی مدد سے سانس لیتے اور خارج کرتے ہیں۔ اس لیے سانس لینے کے دوران ان کو منہ کھولنا پڑتا ہے اس کو ٹھیک طرح سانس لینا نہیں کہہ سکتے۔ نہ ہی یہ مکمل سانس کی درآمد ہوتی ہے بلکہ ان کے پیٹ بھی سانس کی درآمد میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
سانس لینے کے عمل کو شروع شروع میں مقرر شدہ وقفوں سے کریں۔ جوں جوں آپ اس طریقہ کی مشق کرتے جائیں گے آپ کو اس عمل پر قدرت حاصل ہوتی جائے گی۔ آپ خود کو ایک نیا انسان محسوس کرنے لگیں گے۔ بعض اوقات یہ طریقہ سر درد دور کرنے کا موجب بن جاتا ہے۔ اس لیے وہ افراد جو سر درد میں مبتلا رہتے ہیں وہ کوشش کر دیکھیں۔ یہاں یہ لکھنا ضروری ہے کہ جہاں سانس لینے کے عمل پر آپ کو پوری تند ہی سے عمل کرنا ہوگا، وہاں سانس لینے کی مشق کرنے کے لیے مقام اور وقت کا صحیح انتخاب ضروری ہے۔جو ہڑ کا کنارہ، دیسی کھاد سے بھرپور مقام۔ سڑی بُسی سبزیوں والی جگہ اور گندے پانی کی بڑی نالیوں یا کھالوں کا کنارہ موزوں نہیں ہیں۔ ان مقامات پر بدبو ہوتی ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کثرت سے پیدا ہوتی ہے اور بعض مقامات پر ایمونیا بھی پیدا ہوتی ہے۔ ایسی گیسوں کو پھیپھڑوں میں لے جانا فائدہ کی بجائے نقصان کا موجب ہوتا ہے۔
مقام کے بعد وقت بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔
صبح کے وقت باغات کے پاس آکسیجن کثرت سے پیدا کرتی ہے۔ ایسی ہوا بہت مفید رہتی ہے مگر باغ کا یہی کنارہ یا باغ کا اندرون رات کے وقت کاربن.ڈائی.آکسائیڈ پیدا کرتا ہے۔ اس لیے سانس لینے کے عمل کے لیےموزوں نہیں۔
سانس لینے کا عمل کرتے وقت یہ بھی دھیان رکھیں کہ جو افراد سانس کی نالیوں کے امراض میں مبتلا ہوں۔ مثلاً نالیوں کی سوزش، دمہ ، دق وہ یہ مشق نہ کریں۔ ان امراض کے مریضوں کے لیے یہ بہتر ہے کہ وہ ڈاکٹری علاج کرائیں اور اپنے معالج کے مشوروں کے مطابق سینہ کو زیادہ سے زیادہ آرام دیں۔
سانس کی مشق کے بعد یوگا کی ورزش شروع کرنے سے قبل وارم.اپ Warm Up بہت ضروری ہے۔
یوگا کی ورزشوں میں ایک بات کا کہنا نہایت ضروری ہے کہ ہر ورزش کرنے اور اس سے مستفید ہونے کے لیے جسم کو پہلے اس ورزش کے قابل بنایا جاتا ہے۔ دیگر الفاظ میں وارم اپ جسم میں لچک اور دوران خون کو بڑھانے کا وہ عمل ہے جو کسی بھی مشق کو کرنے سے پہلے کیا جاتا ہے اور اس کے کرنے سے جسم مشکل سے مشکل ترین ورزش کو بھی نہایت آسانی کے ساتھ مکمل کرلیتاہے۔
یوگا میں ہر عمل کو کرنے سے پیشتر جسم و دماغ کو اس کے حوالے سے موزوں بنایا جاتا ہے۔ دراصل وارم اپ کی یہ تمام ورزشیں جسم کو فن یوگا کی جسمانی ورزشوں کے حوالے سے ان کی انجام دہی اور حصول فوائد کے قابل یا موزوں بنا دیتی ہیں۔ وارم اپ کی یہ تمام ورزشیں انسانی جسم و دماغ کے لیے نہایت سود مند ہوتی ہیں۔ یہ تمام ورزشیں دی گئی ہدایات کے مطابق عمل کرنے کے بعد شروع کی جائیں تو بہتر ہے نیز یہ تمام ورزشیں یوگا کی تمام جسمانی ورزشوں کو روزانہ یا باقاعدہ ورزش پروگرام شروع کرنے سے پیشتر کرنا ضڑوری ہوتی ہیں۔ ان ورزشوں کے کرنے سے انسانی جسم مکمل طور پر وارم اپ (Warm Up) ہو کر یوگا کی مزید مشقوں کے لیے تیار کرلیتا ہے۔
احتیاطیں
یوگا کی تمام مشقوں کے آغاز سے پہلے مندرجہ ذیل باتوں پر غور اور عمل کرنا نہایت ضروری امر ہے۔
وہ جگہ جہاں ان مشقوں کی پریکٹس کی جائے صاف اور ہوا دار ہو۔
مسہری یا چوکی کا استعمال ممنوع ہے۔ یہ مشقیں سخت اور ہموار جگہ پر قالین، دری، یا چادر بچھا کر کی جاتی ہیں۔
کپڑے مختصر اور ڈھیلے ہوں۔ گرم نہ ہوں۔ سردی میں ہلکے گرم کپڑے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
تمام ورزشیں خالی پیٹ یا صبح کے وقت ناشتے سے پہلے نہایت بہتر اور موثر ہوتی ہیں۔ نیز ورزشوں کے آدھے گھنٹے بعد اچھی سے اچھی غذا استعمال کریں۔ مثلاً فروٹ یا ان کا جوس اور دودھ وغیرہ تاہم یہ لازمی نہیں ہے کہ صبح سویرے ہی یہ مشقیں کی جائیں۔ بلکہ کھانے کے تین یا چار گھنٹے بعد بھی مشقیں کی جاسکتی ہیں۔ یوگا مشقیں چوبیس گھنٹے میں صرف ایک مرتبہ کرنی چاہئیں۔
ذہنی سکون اور سانس کی مشقیں کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ جس جگہ پر یہ مشقیں کرنا مقصود ہوں وہاں زیادہ شور و غل نہ ہو۔
ہر ورزش کے دوران ایک مخصوص وقت یا حالت میں رکنے کی ضرورت ہوتی ہے جس کا دورانیہ کم از کم اور زیادہ سے زیادہ ہر مشق کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے۔ لہٰذا اس بات کا خیال رکھیں کہ دورانیہ کم یا زیادہ نہ ہو۔ یعنی ورزشی وقفوں کے دوران ایک مشق کے دیگر تمام راؤنڈز کا دورانیہ یکساں ہونا چاہیے۔
ورزشوں کے درمیانی وقفوں کے دوران جسم کو ڈھیلا چھوڑ کر گہرے اور لمبے سانس لیں یعنی جتنا ممکن ہو سانس کو ناک کے ذریعے پھیپھڑوں میں جمع کرکے منہ کے ذریعے پورا سانس نکالیں۔
یہ طریقہ یوگا کا ایک نہایت اہم پہلو ہے۔ سانس کے اس عمل سے جسم کا دوران خون نارمل ہوتا ہے۔ صبح کے وقت گہرے سانس لینے سے خون پتلا ہوتا ہے جو انسان کو بلڈ پریشر جیسی بیماری سے محفوظ رکھتا ہے۔
تمام ورزشوں کو شروع کرنے سے قبل دوران خون تیز کرنے اور جسم کو ہلکا گرم کرنے کے لیے سب سے پہلے تھوڑی اچھل کود، دوڑ یا وارم اپ کی چند ہلکی پھلکی ورزشیں ضرور کرلینی چاہئیں۔ تمام مشقیں پوری توجہ، اعتماد، اور لگن سے کریں۔ نیز ہر مشق کے طریقے کار اور اس کی احتیاطوں کو پہلے اچھی طرح پڑھیں اور سمجھیں اس کے بعد اس پر عمل کریں۔
ابتداء میں کسی بھی مشق میں جسم کے کسی حصے پر زیادہ دباؤ نہ ڈالیں اور نہ ی جھٹکا دیں بلکہ جسم میں اتنا ہی کھنچاؤدیں جتنا وہ باآسانی برداشت کرسکے۔ تاہم بتدریج دن بدن تھوڑی سی محنت کے بعد مطلوبہ پوزیشن حاصلہوجائے گی۔
اگر چند روز نتیجہ سامنے نہ آئے اور مطلوبہ حالت اختیار نہ ہو تو پریشان نہ ہوں اور مشقوں کو جاری رکھیں۔ دراصل بعض لوگوں کے پٹھے عام لوگوں سے زیادہ سختہوتے ہیں۔
اس لیے ان میں جسم کی لچک کافی محنت اور وقت کے بعد پیدا ہوتی ہے۔
ایسے لوگوں کے لیے جن کے پٹھے سخت اور مضبوط ہوتے ہیں ورزشوں سے پہلے چند دنوں تک جسم پر تیل کی ہلکی سی مالش کرنے کے بعد ان مشقوں کو دہرائیں تو کافی حد تک پٹھے لچک دار ہوتے ہیں اور مختصر محنت سے جلد ہی مطلوبہ شکل حاصل ہوجاتی ہے۔
مختلف مشقوں کے درمیان ایک منٹ کا وقفہ دینا ضروری ہے۔ وقفہ کے دوران چت لیٹ کر جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیں اور گہرے سانس لیں۔ ایک ہی مشق کے ایک سے زیادہ راؤنڈز کرنے کی صورت میں ہر دو راؤنڈز کے درمیان آدھے منٹ کا وقفہ دیں۔
یوگا ورزشوں سے فارغ ہونے کے بعد پانچ دس منٹ آرام کرنا چاہیے۔ اس کے بعد روز مرہ کے معمولات میں شریک ہوں۔
(جاری ہے)