عالمی شہرت یافتہ موٹیویشنل مصنف، ماہرِتعلیم اور بزنس مین اسٹیفن رچرڈ کوؤی نے 1989ء میں دی سیون ہیبٹس آف ہائیلی ایفیکٹو پیپلThe 7 Habits of Highly Effective People نامی کتاب لکھی۔ عالمی سطح پر بیسٹ سیلر ہونے کے ساتھ اب تک 75 ممالک میں 40 زبانوں میں دو کروڑ پچاس لاکھ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔
اس کتاب میں اسٹیفن نے بتایا کہ دنیا کے بااثر ترین اور کامیاب انسانوں میں سات عادات مشترک ہوتی ہیں اور انہی عادات کی بنیاد پر ان کے کردار کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ ان کی یہی عادتیں ان کے مستقبل کو بھی روشن بناتی ہیں۔ ان سات عادات کو سمجھ لینے اور اپنانے سے نوجوان اپنی زندگی کامیاب بنا سکتے ہیں ۔
ذیل میں ہم اسٹیفن کوؤی کی شہرۂ آفاق کتاب The 7 Habits of Highly Effective People ‘‘کامیاب اور پُراثرلوگوں کی 7 عادتیں ’’ کے خلاصے کی دوسری قسط نوجوان قارئین کے لیے پیش کررہے ہیں۔
قسط نمبر 2
عادت : 2
Begin with the End in Mind
نتیجہ ذہن میں رکھ کر ابتداء کریں
دوسری عادت یہ ہے کہ زندگی میں جو بھی قدم اٹھائیں ، کسی بھی کام کا آغاز کریں ، اس سے قبل ہمیشہ اس کا انجام یا نتیجہ ذہن میں ضرور رکھیں۔ آپ کے ذہن میں یہ واضح ہونا چاہیے کہ آپ کی منزل Goal کیا ہے….اگر آپ کی زندگی میں مقصد اور ٹارگٹ موجود نہیں ہے تو آپ کامیاب نہیں ہوں گے۔
اب کوشش کریں کہ یہ پیراگراف آپ ایسی جگہ جاکر پڑھیں جہاں کوئی رکاوٹ نہ ہو اور آپ اکیلے ہوں۔ اس وقت اپنے ذہن سے تمام تفکرات نکال دیں اور میری بات توجہ سے سنیں۔
اب آپ تصور کی نگاہ سے دیکھیں کہ آپ ایک جنازے میں جارہے ہیں۔ جنازہ گاہ پہنچ کر آپ کو وہاں کئی لوگ ملتے ہیں ، اہل و عیال، دوست احباب ، اہل محلہ و دیگر متعلقین سب کے چہروں پر دکھ نمایاں ہے، جب آپ جنازے کے اندر دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ کفن میں آپ ہی کا جسم ہے اور یہ آپ کاجنازہ ہے ، دراصل آپ اپنا مستقبل دیکھ رہے ہیں۔
جنازے میں شریک تمام لوگ آپ کی تعزیت اور آپ کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لئے آئے ہیں ۔ ایک ایک کرکے سب لوگ آتے ہیں اور مرحوم کے متعلق اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں، سب سے پہلے آپ کے خاندان سے والدین، بچے، شریک حیات، بہن بھائی، کزن اور دیگر رشتہ دار وغیرہ، اس کے بعد آپ کے دوست احباب، پھر آپ کے کاروباری کولیگ، چوتھے محلہ کے لوگ یا کسی تنظیم کے افراد جو آپ کی معاشرتی خدمات کے بارے اظہار ِخیال کریں گے۔ اب دل کی گہرائیوں سے سوچئے کہ آپ، اپنی زندگی کے بارے میں ان سے کیا سننا چاہیں گے….؟
یہ ایک بہت ہی پُراثر سوال ہے ، آپ کس قسم کے والدین ، اولاد یا شریک حیات تھے؟ آپ کیسے دوست تھے؟ بطور کولیگ آپ کا کام کیسا تھا؟ آپ کا کردار ، آپ کی خدمات، کنٹری بیوشن، اچیومنٹ وغیرہ….؟
اپنے ارد گرد لوگوں کو غور سے دیکھیں، آپ کیا چاہیں گے کہ لوگ آپ کو کس طرح یاد کریں۔ آپ نے اُن کی زندگیوں میں کیا تبدیلیاں لائی ہیں، اس سے پہلے کہ آپ مزید پڑھیں، یہ سب نکات اور احساسات مختصراً لکھ کر رکھ لیں۔ یہ نکات عادت2 اپنانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ آپ نے اگر اس تجربے کو سنجیدگی سے لیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے اپنی بنیادی اور گہری اقدار اور اپنے باطن میں موجود رہنمائی کے نظام Inner Guidance System سے رابطہ کیا ہے۔
نتیجہ ذہن میں رکھ کر ابتداء کرنے کی عادت زندگی کے مختلف حالات اور سطح پر لا گو ہوتی ہے۔ اس عادت کا بنیادی اطلاق یہ ہے کہ اس تصور اور زاویہ نظر کے ساتھ ابتداء کریں کہ اس کا انجام یا نتیجہ آپ کے سامنے رہے ، اور زندگی کی ہر چیز کو اسی کسوٹی پر پرکھا جائے، آپ کی زندگی کا ہر لمحہ، آج کا رویہ، کل کا رویہ، اگلے ہفتے کا رویہ، آئندہ مہینے کا رویہ ، ان سب کا پورے تناظر کے ساتھ جائزہ لیں۔
‘‘نتیجہ ذہن میں رکھ کر ابتداء ’’ کا مطلب ہے کہ آپ کوواضح ہونا چاہیے کہ آپ کی منزل Destination کیا ہے….؟ اس منزل تک آپ کتنی مدت میں پہنچیں گے۔ دوسرے الفاظ میں آپ کو عیاں ہونا چاہیے کہ آپ کہاں کھڑے ہیں اور کہاں جانا چاہ رہے ہیں ….؟
اگر سیڑھی ہی غلط سمت ہے تو ہمارا ہر قدم غلط اور منزل سے دور ہوگا۔ اگر ہم ‘‘نتیجہ ذہن میں رکھ کر ’’قدم بڑھائیں گے تو ہم صحیح معنوں میں منزل پالیں گے۔
یاد رکھیں دنیا میں ہر چیز دو بار تخلیق پاتی ہے، پہلی مرتبہ ذہن میں اور دوسری مرتبہ حقیقی دنیا میں۔ اگر کسی شے کا آپ کے ذہن میں تصور نہیں ہے تو حقیقت میں بھی وہ چیز وجود میں نہیں آپائےگی۔
ایک گھر کی تعمیر کی مثال لے لیں ، اس سے پہلے کہ آپ ہتھوڑی سے پہلی کیل ٹھونکیں آپ کے ذہن میں اس گھر کے متعلق پوری تفصیلات موجود ہوتی ہیں۔ آپ کے ذہن میں ایک واضع تصور ہوتا ہے کہ آپ کس قسم کا گھر چاہتے ہیں۔
ایک بڑھئی کا یہ اصول ہے کہ ‘‘وہ دو بار ناپ لیتا ہے اور ایک بار کاٹتا ہے۔ ’’ اگر آپ کو یقین ہوجائے کہ بلیو پرنٹ، یعنی پہلی تخلیق، واقعی وہی ہے جیسا گھر آپ بنانا چاہتے ہیں اور اس کے ہر پہلو پر آپ نے غور کرلیا ہے۔ اس کے بعد ہی آپ اینٹوں پر گارا ڈالیں گے۔ پھر ہر روز تعمیر کی جگہ جاکر پلان کھولیں گے اور اور اس کے مطابق اگلے احکامات جاری کریں گے ۔ یہ ہے ‘‘نتیجہ ذہن میں رکھ کر ابتداء ’’ کرنا۔
ایک اور مثال ایک کاروبار کی لے لیں، اگر آپ ایک بزنس قائم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے ذہن میں واضح ہوگا کہ آپ اس کو کس طرح تکمیل میں لائیں گے، آپ اس بزنس کی پروڈکٹ یا سروسز کے بارے میں سوچ بچار کریں گے ، پھر مارکیٹ کے ہدف کے لحاظ سے اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے تمام عناصر کو منظم کریں گے، مثلاً پیسہ یا لاگت، ریسرچ و ڈیولپمنٹ، حکمت و طریق عمل، مارکیٹنگ، اہلکار و عملہ، دیگر سہولیات وغیرہ …. آپ جتنا نتیجے کو ذہن میں رکھ کر شروعات کریں گے اتنا ہی کامیابی سے اس بزنس کو آگے چلا پائیں گے۔ کاروبارمیں ہونے والی اکثر ناکامیاں، پیسہ کی کمی، مارکیٹ کے متعلق غلط فہمی یا منصوبہ بندی کا فقدان جیسے مسائل تبھی ہوتے ہیں اگر اسے پہلے ذہن میں تخلیق نہیں کیاجاتا۔
اولاد کی تربیت میں بھی یہی اصول لاگوہوتا ہے۔ اگر آپ اپنی اولاد کو ذمہ دار اور نظم و ضبط رکھنے والا بنانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو روزانہ کی بنیاد پر یہ مقصد ذہن میں رکھ کر ان کی پرورش اور تربیت کرنی ہوگی۔ آپ ان کے ساتھ ایسا برتاؤ نہیں کریں گے جو ان کی ضبط نفس یا خود اعتمادی کو کمزور کر سکے۔
ہر چیز دو بار تخلیق کرنے کا یہ اصول اپنانے سے قبل یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کیاپہلی تخلیق کرنے والا ہمارا ہی شعور ہے یا پھر ہم اپنے خاندان، دوستوں، دوسروں کے ایجنڈوں اور حالات کے دباؤ میں ان لوگوں کے فراہم کردہ اسکرپٹ یا پروگرام کو اپنی تقدیر سمجھ کر اس کے مطابق ایک ری ایکٹو زندگی گزاررہے ہیں۔ اگر ہم پہلی تخلیق کے لیے خود کو ذمہ دار نہیں بناتے تو ہم دوسروں یہ اختیار دے دیتے ہیں کہ وہ ہماری زندگی کو تشکیل کریں۔
عادت 2 کا بنیادی اصول ذاتی راہنمائی اور قیادت یعنی لیڈر شپ پر مبنی ہے، انتظام یا منیجمنٹ پر نہیں۔ ‘‘مینجمنٹ کامیابی کی سیڑھی چڑھنے کی کارکردگی ہے؛ اور راہنمائی اس بات کا تعین کرتی ہے کہ سیڑھی کا جھکاؤ درست جانب ہے یا نہیں۔’’
‘‘میرے اہداف کیا ہونے چاہییں….؟’’ اس جملہ کا تعلق قیادت یعنی پہلی تخلیق سے ہے اور ‘‘میں کس طرح اپنے اہداف مکمل کروں ….؟’’ اس کا تعلق منیجمنٹ یا دوسری تخلیق سے ہے ۔
نتیجہ ذہن میں رکھ کرشروعات کا مؤثر ترین طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اپنے لیے ایک ذاتی مشن ڈیولپ کریں اور جس کا مرکز اس بات پر ہو کہ آپ کیا بننا چاہتے ہیں (کردار)اور کیا کرنا چاہتے ہیں (اچیومنٹ) اور آپ کے اصول اور اقدار کیا ہیں ۔ کیونکہ ہر انسان منفرد ہےاور انسان کا ذاتی مشن اور اصول ہی انسان کی انفرادیت کی عکاسی کرتا ہے۔
ذاتی مشن کو آپانفرادیآئین بھی کہہ سکتے ہیں، کسی بھی ملک کا آئین ایک ایسا معیار فراہم کرتا ہے جس کی بنیاد پر ملک کے سارے قوانین کو جانچا جاتا ہے۔ آئین بنیادی طور پر ناقابل تبدیل ہو تا ہے، معاشرہ مستحکم ہو یا انتشار کا شکار ہو آئین ہی مشعل راہ کا کام کرتا رہتا ہے۔ اصولوں پر مبنی ذاتی مشن بھی انسان کو اسی قسم کا معیار فراہم کرتا ہے۔ یہ ذاتی آئین بن جاتا ہے۔ روز مرہ زندگی میں ہر مواقعوں ہم پیچیدہ حالات میں گھرے ہوں یا جذبات ہم پر حاوی ہوں،یہ آئین ہمارا مدد گار ہوتا ہے۔ جس کی بنیاد پر آپ بڑے اور اہم فیصلے کر سکتے ہیں، جو آپ کو نئی سمت عطا کریں۔
اپنے ذاتی مشن تیار کرنے کے لیے ہمیں اثر کے دائرے کے عین مرکز سے ابتداء کرنا ہوگی، جہاں ہمارابنیادیزاویۂ نظر ہے۔ یہاں خود آ گہی کے ذریعے اپنے نقشوں کی جانچ کر یں کہ ہمارے نقشے درست علاقےبیان کر تے ہیں اور کیا ہمارا زاویہ نظر درست اصولوں اور حقائق پر کھڑا ہے۔
ہماری زندگی کا مرکز جو کچھ بھی ہو گا وہی ہمارے حفاظتSecurity، راہنمائی Guidance ، حکمت Wisdomاور طاقت Power کا ذریعہ بھی ہو گا۔ ان چاروں عناصر یعنی حفاظت، راہنمائی، حکمت اور طاقت کا ایک دوسرے پر انحصار ہوتا ہے۔ حفاظت اوررہنمائی ہمیں بصیرت و حکمت عطاکرتے ہیں اور یہ بصیرت ہماری طاقت کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔
ہم میں سے ہر ایک کا مرکز ہوتا ہے، مثلاً نوکری کاروبار، ازدواجی زندگی، خاندان، پیسہ، ملکیت، دوستی دشمنی، مذہب یا پھر خود اپنی ذات…. یہ مرکز ہماری زندگی کے ہر پہلو پر اثر انداز ہوتا ہے، اور یہی مرکز چار عناصر حفاظت، راہنمائی، حکمت اور طاقت کو بھی متاثر کرتا ہے۔ پروایکٹیو اثریت کا تقاضہ یہ ہے کہ ایسا مرکز چنیں جو سب پر حاوی ہو اور وہ مرکز ہے اصول ۔
اصول کسی چیز پر ردعمل نہیں کرتے، نہ وہ مرتے ہیں ، نہ چوری ہوتے ہیں، نہ ہی دوسروں کے رویوں، فیشن، ماحول یا حالات دیکھ کر بدل جاتے ہیں ۔ اصول ہر جگہ ایک سے رہتے ہیں۔ اپنی زندگی کو درست اصولوں پر مرکوز کرکے آپ چار عناصر (حفاظت، رہنمائی، حکمت، طاقت)کی نشوونما کے لیے ٹھوس بنیاد فراہم کرسکتے ہیں۔ اصولوں کو مرکز بنا لینے سے جو بصیرت اور رہنمائی ہمیں ملتی ہے وہ در اصل درست نقشوں سے آتی ہے کہچیزیں واقعتاً کیسی ہیں، کیسی تھیں اور کیسی ہوں گی۔ درست نقشے ہمیں اس بات کا اہل بنا تے ہیں کہ ہم واضح انداز میں دیکھ سکیں کہ ہم کہاں جانا چاہتے ہیں اور وہاں تک کیسے پہنچ سکتے ہیں۔ ہم اپنے فیصلے درست معلومات کی بنیاد پر کرسکتے ہیں اور یہی اس بات کی ضمانت ہو تی ہے کہ بعد میں ہم ان اصولوں پر با معنی انداز میں عمل پیرا بھی ہوسکیں۔ پہلی عادت پروایکٹیویٹی آپ کو بتاتی ہے کہ آپ ذمہ دار ہیں، آپ پروگرامر ہیں، اور عادت 2 بتاتی ہے کہ اپنا پروگرام خود لکھیں، جب تک آپ ذمہ داری تسلیم نہیں کریں گے کہ آپ پروگرامر ہیں ، اپنا پروگرام لکھنے میں وقت نہیں لگائیں گے۔
درج ذیل عملی مشوروں پر ضرور عمل کریں:
- اس باب کی ابتداء میں جنازے کا جو تجربہ کیا گیا اس کے احساسات لکھیں، چاہیں تو چارٹ بنالیں۔
- تھوڑا وقت نکال کراپنے کردار role کے متعلق لکھیں ، زندگی کے آئنے میں آپ خود کو دیکھ کر کیا آپ مطمئن محسوس کرتے ہیں ۔
- روزمرہ کی سرگرمیوں سے خو دکو الگ کرکے کچھ وقت ذاتی مشن لکھنے میں صرف کریں۔
- ذاتی مشن یا آئین لکنے کے لیے کامیاب اور پراثر لوگوں کی زندگی ، تعلیمات اور اقوال کا مطالعہ کریں۔
- اپنے زندگی میں اپنے رویوں کے پیٹرن پر غور کریں کہ آپ کا مرکز کیاہے۔
- مستقبل میں متوقع کسی پروجیکٹ، واقعہ کو ذہن میں تخلیق کریں اور سوچیں کہ آپ کے مطوبہ نتائج کیا ہیں اور اس کے لیے کیا اقدامات کیے جانا چاہییں ۔
عادت : 3
Put First Things First
اہم کام پہلے
تیسری عادت یہ ہے کہ ترجیحات متعین کریں اور اہم کام پہلے سر انجام دیں۔ اکثر لوگ یہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ اہم کام اور فوری کام میں کیا فرق ہے کیونکہ بعض اوقات بظاہر ضروری نظر آنے والے کام اتنے اہم نہیں ہوتے جتنا ہم خیال کرتے ہیں اور نہ ہی ان کا تعلق آپ کے مِشن سے ہوتا ہے۔ کامیابی کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ صرف ان کاموں کوترجیح دیں جو بلاواسطہ منزل کے حصول میں معاونت فراہم کریں وگرنہ وقت اور توانائی کے زیاں کے سبب آپ منزل سے دور ہو جائیں گے۔
Things which matter most must
never be at the mercy of
things which matter least.
~Goethe‘‘اہم ترین چیزیں غیر اہم ترین چیزوں کے رحم و کرم پر نہیں رہنی چاہئیں’’۔ [گوئٹے]
عادت نمبر 3 دراصل عادت 1 اورعادت 2 کا ثمر ہے۔ عادت 1 سے آپ نے سیکھا کہ آپ ذمہ دار ہیں، اپنی زندگی اور محرکات کا کنٹرول آپ کے پاس ہے۔ آپ کے پاس انتخاب کی آزادی ہے اور اس کی بنیاد چار اثاثے ہیں تخیل، ضمیر، خود آگہی اور قوتِ ارادی۔ عادت 2 ان اثاثوں کا استعمال سکھاتی ہے کہ ضمیر کی رہنمائی اور خود آگہی آپ کو یہ طاقت بخشتی ہے کہ اپنی زندگی کے پروگرام کا تجزیہ کریں اور غیر موثر اسکرپٹ سے پیچھا چھڑائیں اور اپنا اسکرپٹ لکھیں۔ تخیل سے آپ ذہنی طور پر وہ کچھ تخلیق کرسکتے ہیں میں ہیں جو حال میں آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے۔
عادت 3 ذہنی تخلیق کو طبعی تخلیق Physical Creation میں لانا سکھاتی ہے۔ تخیل، ضمیر، خود آگہی کے علاوہ انسان کا ایک اور اثاثہ بھی ہے اور وہ ہے قوتِ ارادی۔ یہی ہے جو تیسری عادت کی تکمیل میں اہم کردار اداکرتا ہے۔
انسانی ارادہ ایک حیرت انگیز شے ہے، دنیامیں ایک سے ایک مثالیں موجود ہیں جہاں انسانی ارادے نے ناقابل تسخیر معرکے کر دکھائے ہیں۔ عادت نمبر 3 پر عمل کے لیے عادت 1 اور 2 ضروری شرط ہے ۔
عادت 2کا بنیادی اصول ذاتی رہنمائی اور قیادت پر مبنی ہے، عادت 3 تنظیم یا منیجمنٹ پر مشتمل ہے۔ یہ ہمیں ذاتی تنظیم کو پراثر طریقے سے عمل میں لانا سکھاتی ہے۔
پُر اثر تنظیم کیا ہے ….؟ یہ اہم چیزوں کو پہلے سر انجام دینے کا نام ہے۔ لیڈر شپ یا رہنمائی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ اہم چیزیں ہیں کیا اور تنظیم کے ذریعے ان چیزوں کو ترجیح حاصل ہوتی ہے۔ تنظیم ڈسپلن کا دوسرا نام ہے۔ روز مرہ زندگی میں یعنی ڈسپلن کے ساتھ کام کر نا۔ ڈسپلن کا لفظ ڈپسل Disciple سے بنا ہے یعنی کہ مرید۔ جیسے کسی فلسفے ، اصول کا مرید، کسی مقصد کا مرید ، یا کسی شخص کا مرید جو اس مقصد کی نمائندگی کر تا ہو۔ دوسرے لفظوں میں اگر آپ موثرمنتظمہیں تو پھر آپ کا ڈسپلن آپ کے اپنے اندر سے ہی برآمد ہو گا اور اس کا تعلق آپ کی قوتِ ارادی سے ہے۔
زندگی اور وقت کی تنظیم سیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کو پتہ ہو کہ کیا ضروری Urgentہے اور کیا اہمImportant ہے۔ ہماری زندگیوں کا اکثر حصہ ضروری کاموں کی نظر ہوجاتا ہے جبکہ اہم کام پس پشت چلے جاتے ہیں۔
تیسری عادت کو مختصر اً یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔ کاموں کو اُن کی اہمیت کے لحاظ سے ترتیب دینا۔یا اہم کاموں کی خاطر غیر اہم کاموں کو ترک کرنا۔ جو کام اہم ہے وہ کام سب سے پہلے کرنا چاہئے ۔ اب یہ بات بولنے میں بہت آسان ہے پر کرنے میں سب سے مشکل بھی یہی ہے.
عموماً ہمیں جتنا لگتا ہے ہم اتنے مصروف ہوتے نہیں! ایسا کتنی بار ہوتا ہے کہ ہم بے وجہ ٹائم پاس کرنے لگتے ہیں، اور کچھ نہیں تو بے وجہ کی باتیں سوچنے لگتے ہیں جبکہ ہمیں بہت اہم کام ختم کرنے باقی ہیں۔ یہ سب سے عام عادات میں سے ایک ہے جو ہم سے ہماری بہت سی ٹائم ویسٹ کرتی ہے، اور ہمیں کبھی ایک ایوریج انسان سے اوپر اٹھنے نہیں دیتی۔
ہمارے دن کا زیادہ تر حصہ ان کاموں میں گزر جاتا ہے جو کہ ضروری ہوتے ہیں اب وہ اہم ہیں یا نہیں ، یہ ایک الگ بات ہے۔ اگر ہم ان کاموں پر فوکس کریں جو کہ اہم خانے میں آتے ہیں تو ہم اپنے وقت پر زیادہ بہتر انداز میں قابو پا سکتے ہیں۔ چنانچہ اگر آپ کو اپنی زندگی میں کچھ کرنا ہے تو ہر روز وہ کام سب سے پہلے ختم کیجیے جو آپ کو آپ کی منزل تک پہنچنے میں مدد کرے گا۔ اس کے بعد دوسرے درجے کے کام کو اہمیت دیں۔ اہم کام کرنے سے ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ غیر اہم کام جو کہ ضروری بن جاتے ہیں ان سے بھی جان چھوٹ جاتی ہے۔
عادت نمبر 3 کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ زندگی مختصر ہے اور کام بے شمار ہیں۔ اگر ہم بغیر سوچے سمجھے ہر کام کو کرنا شروع کر دیں تو ہماری قیمتی زندگی کا بیشتر حصہ فضول، بے کار کاموں میں گزر جائے گا اور اعلیٰ درجے کے کاموں کو کرنے کے لیے وقت بہت کم بچے گا۔ اس کے نتیجے میں ہم کامیابی کے کسی بڑے درجے پر نہیں پہنچ سکیں گے۔ لہٰذا کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنے وقت کا زیادہ سے زیادہ حصہ اہم اور بامقصد کاموں میں صرف کرنا ہو گا اور غیر اہم کاموں سے حتی الوسع اپنا دامن بچانا ہو گا۔
زندگی اور وقت کی تنظیم کے لیے وقت کو چار خانوں Four Quadrants میں تقسیم کرنے کا ایک فارمولا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ درج بالا چارٹ کے اندر دو کالم ہیں جنہیں فوری یا ہنگامی اور غیر ہنگامی کاموں کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا ہے جب کہ دو قطاریں ہیں جو اہم اور غیر اہم کاموں کے عنوان پر مشتمل ہیں۔ فوری نوعیت کے کاموں سے مراد وہ کام ہیں جو ہماری فوری توجہ چاہتے ہیں جنہیں نظر انداز کرنا ممکن نہ ہو۔ جب کہ اہم کاموں سے مراد وہ کام ہیں جو ہماری زندگی پر دور رس اثرات کے حامل ہوتے ہیں اور زندگی میں ہمہ جہت ترقی کے لیے جن کو بجا لانا ضروری ہے۔
کالموں اور قطاروں کے اجتماع سے کل چار خانے بن رہے ہیں۔ ہر خانے میں پائے جانے والے کاموں کی دو حیثیتیں ہیں۔ مثلاً فوری اور اہم، غیر ہنگامی اور غیر اہم وغیرہ۔
- پہلا خانہ Q1….اہم اور ضروری؛
- دوسرا خانہQ2….اہم اور غیر ضروری؛
- تیسرا خانہQ3….غیر اہم اور ضروری؛
- چوتھا خانہQ4….غیر اہم اور غیر ضروری۔
ہماری شب و روز کی زندگی میں جتنے بھی کام اور سرگرمیاں ہیں اُن سب کا تعلق انہی خانوں کے ساتھ ہے اور ہمارا ہر چھوٹا بڑا کام ان میں سے ہی کسی نہ کسی خانے میں آتا ہے۔ ان خانوں کی مختصر تشریح کچھ یوں ہے۔
Q1 میں وہ تمام ہنگامی نوعیت کے کام شامل ہیں جنھیں ہم نظر انداز کرتے رہتے ہیں،جس کے باعث ہم پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
Q2 میں اُن کاموں کو شامل کیا گیا جنہیں اگر وقت سے پہلے انجام دے دیا جائے تو ہنگامی صورت حال پیدا نہیں ہوتی۔
Q3 میں ایسے کام آجاتے ہیں جو غیر ضروری ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات اُنہیں پورا کرنا ہماری مجبوری بن جاتا ہے ۔
Q4 ہماری زندگی میں شامل ایسے کاموں پر مشتمل ہے جو وقت ضائع کرنے کا سبب بنتے ہیں، ایسے کاموں کو اگر فراغت کے اوقات میں انجام دیا جائے تو بہتر ہے۔
پہلا حصّہ Quadrant1
اہم اور ہنگامی
ہماری زندگی میں اچانک وقوع پزیر ہونے والے حالات و واقعات ہمیں بوکھلا کر رکھ دیتے ہیں، ان کا شمار اہم اورہنگامی نوعیت کے کاموں میں ہوتا ہے۔اس زمرے میں مختلف حادثات،اچانک اہم منصوبے پر عمل درآمد، صحت کی خرابی اور فیملی کے حوالے سے ہنگامی صورت حال وغیرہ شامل ہیں۔
یہ تمام وہ معاملات ہیں جنھیں نظرا نداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس زُمرے پر صرف ہونے والے وقت کو بچانے یا اُس میں کمی لانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ اس صورتِ حال پر کم سے کم وقت میں قابو پایا جائے۔ اپنا زیادہ وقت ان اہم کاموں میں صرف کیا جائے جو التوا کا شکار ہونے کی وجہ سے ہنگامی حالات پیدا کرتے ہیں۔
پہلے خانے میں جو کام آتے ہیں وہ اہم بھی ہیں اور فوری نوعیت کے حامل بھی ہیں۔ ایک طرف تو زندگی کی گاڑی کو رواں دواں رکھنے کے لیے انہیں کرنا ضروری بھی ہے اور دوسری طرف اُن کاموں کی نوعیت ایسی ہے کہ وہ فوری طور پر انجام دہی کا تقاضا کرتی ہے۔ اور اُن کو زیادہ عرصہ کے لیے ملتوی بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً گاڑی کے خراب ہو جانے پر اُس کی مرمت کروانا، بچے کے بیمار ہو جانے پر اُس کی دوائی کا بندوبست کرنا، امتحان سر پر آ جانے کی صورت میں اُن کی تیاری کرنا، کسی زیر تکمیل منصوبہ کی مقررہ تاریخ (Dead line) کا قریب آجانا وغیرہ۔
دوسرا حصّہQuadrant2
اہم لیکن غیر ہنگامی
ہماری زندگی کا دوسرا حصّہ نہایت اہمیت رکھتا ہے لیکن ہم اس پر توجہ نہیں دیتے حالانکہ اگر صرف اسی حصّے کو زندگی گزارنے کا نصب ا لعین بنایا جائے تو بہت سی مشکلات اور پریشانیوں سے بچا جاسکتا ہے۔ اس دوسرے زمّرے کو ہم اکثر نظرا نداز کردیتے ہیں جب کہ ہمیں اپنا زیادہ تر وقت ہی اسی جانب صرف کرنا چاہیے۔
اس خانے میں آنے والے کام اہم تو ہیں لیکن فوری نہیں ہیں۔ ان کاموں کے ہماری زندگی پر بہت خوشگوار اثرات ہوتے ہیں لیکن یہ کام ایسے ہیں کہ فوری ادائیگی کا تقاضا نہیں کرتے۔ مثلاً مستقبل کو بہتر بنانے کے حوالے سے منصوبہ بندی، زندگی کے معیار کو بلند کرنے کے لیے نئے مواقع کی دریافت، اپنے متعلقین کے ساتھ خوشگوار تعلقات برقرار رکھنے کے لیے اور نئے تعلقات استوار کرنے کے لیے وقت نکالنا۔ اپنی صلاحیتوں کی تجدید اور اُنہیں بہتر بنانے کے لیے مناسبت تدابیر اپنانا وغیرہ۔
اس زمرے پر وقت صرف کرنے سے ہماری زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں آسکتی ہیں۔ اس سے ناصرف چیزوں کو واضح طور پر پرکھنے اور جانچنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے بلکہ ہم اس قابل ہوسکتے ہیں کہ ایک متوازن زندگی گزار سکیں۔اس پر عمل سے زندگی میں نظم و ضبط بھی پیدا ہوتا ہے اور مختلف قسم کی ہنگامی صورت حال میں بھی خاطر خواہ کمی ممکن ہوگی۔
تیسرا حصّہQuadrant3
ہنگامی لیکن غیر اہم
تیسرا خانہ ایسے کاموں اور سرگرمیوں پر مشتمل ہے جو فوری نوعیت کے حامل ہیں تاہم وہ اہم نہیں ہیں کام کے دوران کسی واقف کار کا اچانک ملنے آ جانا، یا فون آنا وغیرہ یہ کام ایسے ہیں جو ہماری فوری توجہ کے متقاضی ہیں اور عمل کا تقاضا کرتے ہیں لیکن یہ قطعاً ضروری نہیں ہے کہ ان کاموں کا کوئی خاص مثبت نتیجہ بھی ہماری زندگی پر مرتب ہو۔ عموماً افراد اپنے وقت کا بڑا حصّہ اس زمرے میں اہمیت کے اعتبار سے مبہم چیزوں کو ترجیحی بنیادوں پر انجام دینے میں صرف کرتے ہیں۔ یہ زمرہ غیر ضروری معاملات سے بھرا ہوا ہے جس میں موبائل پر مصروف رہنا،ٹیوٹر اورفیس بُک پر وقت ضائع کرنا، دوسروں کے کام کو تماشے کی طرح دیکھنا، مثلاً بجلی کے تار لگتے یا بلاوجہ گٹر کھودتے ہوئے دیکھنا وغیرہ شامل ہیں۔ایسے کاموں میں وقت کے ضیاع سے انسان مختلف بحرانوں میں گھرجاتاہے جب کہ دیگر اہم اُمور سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔
چوتھا حصّہ Quadrant4
غیر ہنگامی اور غیر اہم
اس زمرے میں ایسے تمام کام شامل ہیں جو نہ تو اہم ہیں اور نہ ہی فوری نوعیت کے حامل ہیں۔ اس پر بہت زیادہ وقت صرف کرنے سے آپ اپنے بنیادی کاموں، ملازمت کو پہنچنے والے نقصان اور غیر ذمّے داریوں کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ معمولی نوعیت کے کاموں کی مصروفیت،بے مصرف ویب سرفنگ،بہت زیادہ ٹی وی دیکھنا وغیرہ وغیرہ۔
یہ ساری باتیں تو طے ہو گئیں کہ ہر زمرے میں کون کون سی مصرفیت شامل ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت حال کو بہتر کیسے بنایا جاسکتا ہے تاکہ بہترین انداز سے زندگی بھی گزاری جاسکے اور وقت کو بھی بہترین انداز سے منظم کیا جاسکے۔
Q1اورQ3 میں موجود اہم اور فوری نوعیت کے حامل تمام کام بحرانی نوعیت کے ہوتے ہیں جن سے صرفِ نظر کرنے سے زندگی میں بے شمار الجھنیں، محرومیاں اور پریشانیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ انہیں نظر انداز کرنا کسی طرح بھی ہمارے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ چنانچہ تمام ارجنٹ کام جنہیں آپ باقاعدگی سے انجام دیتے ہیں، ان کی ایک فہرست بنالیں۔اور یہ بھی تحریر کریں کہ آپ ان چیزوں کو دوبارہ وقوع پزیر ہونے اور اِن سے بچنے کے لیے کیا کرسکتے ہیں یا انہیں ہنگامی بننے سے کیسے روک سکتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں آپ کی Q2 کی نئی سرگرمیاں ہوں گی۔
غور سے دیکھا جائے تو ان کاموں کے پیدا ہونے کی ایک بہت بڑی وجہ ہماری ایک عادت ہے اور وہ ہے‘‘ کاموں کو ملتوی کرنا’’اکثر و بیشتر لوگ روزمرہ کی زندگی میں کئی اہم کاموں کو آخری وقت تک ٹالتے رہتے ہیں۔ بالآخر وہی کام ایک بحرانی شکل اختیار کر کے انسان کے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں اور اب اُنہیں مزید ٹالنا انسان کے بس میں نہیں ہوتا۔ مثلاً ایک طالب علم کے پاس کسی بھی کلاس کے آغاز میں اتنا وقت ہوتا ہے کہ وہ بڑے آرام اور سکون کے ساتھ اُس کی تیاری کر سکتا ہے لیکن امتحان کی تیاری کو وہ آج کل پر ٹالتا رہتا ہے یہاں تک کہ امتحان سر پر آ جاتا ہے اور اب اُس کے لیے امتحان کی تیاری ایک دردِ سر بن جاتی ہے۔ یہ عادت ایک ہنگامی صورتِ حال کو پیدا کر دیتی ہے اور اُسے دباؤ کی حالت میں اپنا کام مکمل کرنا ہوتاہے۔
کچھ لوگ Q3 کی ہنگامی مگر غیر اہم چیزوں میں زیادہ وقت خرچ کرتے ہیں، جو غیر اہم و فوری نوعیت کے امور ہیں جن میں بے وقت مداخلت، غیر اہم فون کالز اور چھوٹے چھوٹے مسائل میں مشغولیت شامل ہیں۔ اسی بنا پر انسان مطمئن ہوتا ہے کہ میں اہم کاموں میں وقت کو صرف کر رہا ہوں مگر حقیقتاًوہ وقت کو صرف نہیں بلکہ ضائع کر رہا ہوتا ہے اور وقت کی صورت میں درحقیقت اپنی زندگی کو ہی تباہ کر رہا ہوتا ہے۔
Q4 یعنی غیر اہم و غیر ہنگامی نوعیت کے تمام کاموں کا تعلق وقت کے ضیاع کے ساتھ ہے کیونکہ اُن میں مشغول ہونے سے نہ تو ہماری شخصیت میں کوئی بہتری آتی ہے اور نہ ہی کوئی مسئلہ حل ہوتاہے۔ مثلاً ہم گھنٹوں بیٹھ کر تاش کھیلتے رہیں، ٹی وی پر اوٹ پٹانگ پروگرام دیکھتے رہیں یا محض تفریح کے لیے کوئی ناول پڑھتے رہیں تو اُس کا حقیقی فائدہ تو کوئی نہ ہو گا البتہ کہیں زیادہ قیمتی وقت بڑی تیزی سے ضائع ہوتا چلا جائے گا جس کے نتیجے میں ہم اپنی خوابیدہ صلاحیتیوں کو بھرپور طریقے سے نشو ونما دینے اور کامیابی و کامرانی کے بیشمار مواقع سے استفادہ کرنے سے محروم ہوتے چلے جائیں گے۔
صرفQ2 خانے کے کام ایسے ہیں جو حقیقت میں زندگی کو عروج سے ہمکنار کرتے ہیں اور انسان کے دامن کو خوشیوں سے بھر دیتے ہیں۔ ان کاموں میں پرہیزی اور احتیاطی تدابیر، تعلقات کی استواری، نئے مواقع کی دریافت، مستقبل کی منصوبہ بندی اور صلاحیتوں کی تجدید شامل ہیں۔ یہ کام اہم تو ہیں کہ اُن کے کرنے سے زندگی پر بہت سے خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں اور زندگی کا سفر بہت آسان ہوتا چلا جاتا ہے لیکن یہ فوری نوعیت کے حامل نہیں ہوتے یعنی وہ ہم سے عمل کا فوری تقاضا نہیں کرتے۔ ہم انہیں لمبے عرصے تک ملتوی کر سکتے ہیں۔
Q4 کی تمام سرگرمیوں پر نظر ثانی کریں اور ان عادات کو ختم کر دیں۔اسی طرحQ3 کی تمام عادات کو بھی ترک کردیں۔ ان سرگرمیوں کو ترک کرنے کے بعد یقیناً آپ کے پاس Q2 کی سرگرمیوں کے لیے کافی وقت نکل آئے گا۔
اہم و غیر فوری امور پر توجہ دیں Q2 کی سرگرمیوں کے لیے وقت طے کریں۔ Q2 میں شامل کاموں کے لیے وقت طے کریں۔Q1 یعنی پہلے حصّے کی سرگرمیوں کو محدود کر دیں۔ Q2 پر زیادہ سے زیادہ سے زیادہ وقت صرف کریں تاکہ Q1 کی سرگرمیوں سے دُور رہا جائے یا اُن پر قابو پایا جائے جب Q1 کی سرگرمیاں کم ہو جائیں گی تو خود بخود Q2 کی سرگرمیوں کے لیے بہت سا وقت بچ جائے گا۔
جوں جوں انسان ان کاموں پر توجہ مرکوز کرتاہے تو اس کے نتیجے میں فوری اور اہمیت کے حامل کام بھی کم ہوتے چلے جائیں گے کیونکہ جب ہر کام اپنے وقت پر مکمل ہوتا چلا جائے گا تو پھر ہنگامی کام خود بخود کم سے کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں زندگی میں توازن، اعتدال، ہم آہنگی اور ٹھہراؤ ، نظم و ضبط (Discipline) ، حالات اور معاملات کا کافی حد تک کنٹرول میں ہونا، ذہنی و قلبی سکون و اطمینان اور شخصیت میں مسلسل ترقی و ارتقاء اور اثر انگیزی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
کامیاب لوگوں کی خوبی یہ ہے کہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اہم و غیر فوری کاموں (Q2)میں صرف کرتے ہیں اور اہم و فوری نوعیت کے کاموں (Q1)میں ضرورت اور مجبوری کی حد تک ہی رہتے ہیں اور غیر اہم و فوری (Q3)اور غیر اہم و غیر فوری کاموں (Q4)سے حتی الوسع گریز ہی کرتے ہیں کیونکہ ان دونوں کا تعلق غیر ذمہ دارانہ زندگی کے ساتھ ہے۔ جتنا زیادہ کوئی شخص اپنا وقت اہم و غیر فوری کاموں میں صرف کرنا شروع کر دیتا ہے اُسی تناسب سے کامیابی کا معیار بلند سے بلند تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اہم و غیر فوری نوعیت کے کاموں کو کرنے کے لیے ہمیں ذمہ دار (Proactive) بننا پڑے گا۔
ترجمہ: ہرمیس
(جاری ہے)