Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

تلاش (کیمیاگر) قسط 3

انسان اگر کوشش کرے تو سب کچھ ممکن ہے، حصولِ مقصد کی راہ میں حائل مشکلات، رکاوٹیں نہیں بلکہ آزمائش ہوتی ہیں، جب انسان کےدل میں کوئی خواہش سراٹھاتی ہے اور وہ کسی چیز کو پانے کی جستجو اور کوشش کرتا ہے تو قدرت اس کی خواہش کی تکمیل میں مددگار بن جاتی ہے کہ اس کی یہ خواہش پوری ہو ۔ اگر لگن سچی ہو تو خدا کی اس کائنات میں بکھری نشانیاں اِس جدوجہد کے دوران راہنمائی اور معاونت کرتی نظر آتی ہیں۔
کیمیاگر (الکیمسٹ Alchemist ) برازیلی ادیب پاؤلو کویلہو Paulo Coelho کا شاہکار ناول ہے، جس کا دنیا کی 70 زبانوں میں ترجمہ ہوا ۔ اس ناول نے فروخت کےنئے ریکارڈ قائم کرکے گنیز بک میں اپنا نام شامل کیا۔ اس کہانی کے بنیادی تصوّرات میں رومی، سعدی اور دیگر صوفیوں کی کتابوں اور فکرِ تصوّف کی جھلک نظر آتی ہے۔
کیمیا گر ، اندلس کے ایک نوجوان چرواہے کی کہانی ہے جو ایک انوکھا خواب دیکھتا ہے جس کی تعبیر بتائی جاتی ہے کہ اسے کوئی خزانہ ضرورملے گا ۔ وہ خزانے کی تلاش میں نکلتا ہے اور خوابوں، علامتوں کی رہنمائی میں حکمت اور دانائی کی باتیں سیکھتے ہوئے ، افریقہ کے صحراؤں میں اس کی ملاقات ایک کیمیاگر سے ہوتی ہے ، یہ کیمیا گر خزانے کی تلاش کے ساتھ انسانی سرشت میں چھپے اصل خزانے کی جانب بھی اس کی رہنمائی کرتا ہے….

تیسری قسط

گزشتہ قسط کا خلاصہ : یہ کہانی اسپین کے صوبے اندلوسیا کی وادیوں میں پھرنے والے نوجوان چراوہا سان تیاگو کی ہے، پڑھائی کے بعد ماں باپ اسے راہب بنانا چاہتے تھے مگر وہ سفرکر کے دنیا کو جاننے کے شوق میں چراوہا بن گیا۔ ایک رات وہ بھیڑوں کے گلّہ کے ساتھ ایک ویران گرجا گھر میں رات گزارتا ہے اور ایک عجیب خواب دیکھتا ہے کہ ‘‘کوئی اسے اہرام مصر لے جاتا ہے اورکہتا ہے کہ تمہیں یہاں خزانہ ملے گا۔’’ لیکن خزانے کا مقام بتانے سےقبل ہی اس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ وہ اپنے بارے میں سوچتا ہے کہ دو سالوں سے وہ ان بھیڑوں کے ساتھ وادیوں میں پھررہا ہے، وہ ان بھیڑو ں سے مانوس ہوچکا ہے کہ وہ اکثر اوقات اُن سے باتیں کرتا ہے جیسے وہ ان کو سمجھ رہی ہوں ۔ لیکن اب اس کی دلچسپی کا محور تاجر کی بیٹی ہے، جسے وہ پچھلے سال ایک گاؤں میں ملا تھا ، اور اب اُس کا گاؤں قریب تھا۔ اس کا ارادہ تھا کہ گاؤں پہنچ کر وہ لڑکی کو اپنے بارے میں بتائے گا کہ کس طرح اس معمولی چرواہے نے پڑھنا سیکھا تھا۔ کیسے وہ چراوہا بنا ۔ مگر اب وہ خوش ، مطمئن اور آزاد ہے، جب بھی اُس کا جی چاہتا وہ کسی نئے راستہ کا انتخاب کرتا اور اُس طرف چل پڑتا۔ تاجر کی لڑکی سے ملنے کے لئے تیار ہونے کا سوچ کر اس نے شہر طریفا جانے کا ارادہ کیا ، شہر طریفا میں وہ خوابوں کی تعبیر بتانے والی ایک خانہ بدوش بوڑھی عورت سے ملا ۔ جس نے بتایا کہ وہ خزانہ جس کی خواب میں نشاندہی کی گئی تھی اسے ضرور ملے گا۔ وہ اس بات کو مذاق سمجھ کر وہاں سے چل دیتا ہے اور شہر کی چوک پر بیٹھا کتاب پڑھنے لگتا ہے کہ اچانک اس کے پاس ایک بوڑھا شخص اس کے پاس آکر بیٹھ گیا اور مطالعہ میں خلل ڈال کر بات کرنے ﷽ کی کوشش کرنے لگا ۔ وہ بوڑھا اپنا نام ملکیِ صادق اور اپنے آپ کو شالیم شہر کا بادشاہ بتاتا ہے۔ لیکن چراوہے کو بات کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، وہ وہاں سے جانے ہی والا تھا کہ بوڑھابولاکہ وہ خزانہ ڈھونڈنے میں اس کی مدد کرسکتا ہے …. اب آگے پڑھیں …………
…………

….(گزشتہ سے پوستہ)

اس بوڑھے شخص کے منہ سے پوشیدہ خزانہ کے الفاظ سن کروہ نوجوان حیرت زدہ رہ گیا۔
پوشیدہ خزانہ …. پوشیدہ خزانے کے بارے میں اس بوڑھے کو کیسے پتا چلا….؟؟؟

پھر لڑکے کو یکدم اپنا خواب یاد آ گیا اور پوری بات صاف سمجھ میں آ گئی۔ اس بوڑھی خانہ بدوش عورت نے تو اُس سے کوئی رقم نہیں لی تھی لیکن یہ بوڑھا جو ممکن ہے کہ اُس خانہ بدوش عورت کا شوہر ہو، اور مجھ سے زیادہ سے زیادہ رقم اینٹھنا چاہتا ہو اور وہ بھی خوابوں کی ایسی بات کے لیے جو ممکن ہے کہ وجود ہی نہ رکھتی ہو۔ جس کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ہے بھی یا نہیں۔ کہیں یہ بوڑھا بھی ان خانہ بدوشوں میں سے تو نہیں….؟؟ لڑکے نے سوچا۔
لیکن اِس سے قبل کہ لڑکا اُسے کچھ کہتا بوڑھا آدمی ایک طرف کو جھکا اور ایک لکڑی کی چھڑی اُٹھا کر ریت پر کچھ لکھنے لگا۔ اِس دوران بوڑھے کے سینہ سے لگی کسی چیز سے اِس قدر زور سے چمک منعکس ہوئی کہ لڑکے کی نظر کچھ دیر کے خیرہ سی ہو گئی۔ البتہ بوڑھے نے جوانوں کی سی پھُرتی کے ساتھ اپنی قبا سے اُسے چھپا لیا ۔ حالانکہ اس عمر میں اس قدر پھرتی دکھانا ممکن نہیں ہوتا۔ جب اس چمک کا اثر تھوڑا کم ہوا اور لڑکا ریت پر لکھی تحریر کو پڑھنے کے قابل ہوسکا تو وہ حیرت زدہ رہ گیا۔
ریت پر لڑکے کے والد اور والدہ کا نام لکھا ہوا تھا اور اُس مدرسہ کا نام بھی جہاں اُس نے ابتداء میں تعلیم حاصل کی تھی۔ یہاں تک کہ تاجر کی بیٹی کا نام بھی تحریر تھا جسے خود وہ لڑکا بھی نہ جانتا تھا اور دوسری ایسی باتیں اُس میں تحریر تھیں جو اُس نے آج تک کسی کو نہیں بتائی تھیں۔
‘‘اب تمہیں یقین آیا میں شالیم کا بادشاہ ملکیِ صادق* ہوں۔’’

* دراصل یہودی اور عیسائی روایات میں ایک ایسی روحانی ہستی کا تذکرہ ملتا ہے جو خدا کے مقرب اور دائمی کاہن رہے ۔ وہ زمان و مکان کی قید سے آزاد تھے۔ اس ہستی کا ذکر شالیم Shalem کے بادشاہ ملکیِ صادق Melchizedek کے نام سے ہوا ہے۔

***

‘‘میں شالیم کا بادشاہ ملکیِ صادق ہوں۔’’ بوڑھے کے الفاظ اس لڑکے کے ذہن میں اب تک گردش کررہے تھے۔
‘‘مگر بادشاہ ہو کر آپ ایک معمولی چرواہے سے کیوں بات کرنا چاہتے ہیں۔’’ لڑکے نے جھجھک، شرمندگی ، حیرت اور مرعوبیت کے ملے جُلے تاثرات سے کہا۔
‘‘اِس کی بہت سی وجوہات ہیں…. لیکن میں کہہ سکتا ہوں کہ میرے نزدیک سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ تم اپنے تقدیر کی گتھی کو سلجھانے میں کامیاب ہو گئے ہو۔’’
لڑکے کو تو شاید یہ بھی پتا نہ تھا کہ تقدیر کا کیا مطلب ہوتا ہے ۔
‘‘یہ وہی ہے جس کے حصول کی تمنّا تمہیں ہردم متحرّک رکھتی ہے۔ ہر شخص جب بچپن چھوڑ کر عقل و شعور کی زندگی میں قدم رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ اُس کا مقدر کیا ہے۔ زندگی کے اِس حصہ میں ہر چیز واضح اور ہر خواہش ممکن نظر آتی ہے۔ بڑی سے بڑی خواہش اور تمنّا کا خواب دیکھنے اور اِس خواب کو تعبیر میں بدلنے کے لئے قدم اُٹھانے میں اسے کوئی خوف مانع نہیں ہوتا۔ لیکن پھر جیسے جیسے وقت گزرنے لگتا ہے، ایک دوسری پُراسرار قوّت سَر اُٹھانے لگتی ہے اور اُسے یہ باور کرانے لگتی ہے کہ اِن مقاصد کا حصول ممکن نہیں ہے۔’’
بوڑھے کی یہ باتیں لڑکے کی سمجھ سے بالکل بالاتر تھیں لیکن اس ‘‘پُراسرار قوت’’ کے لفظ نے اسے مجبور کردیا تھا کہ اسے اس بوڑھے کی باتوں میں دلچسپی لینا چاہیے ، تاکہ وہ اسے سمجھ سکے اور جب اِس کے بارے میں وہ تاجر کی بیٹی کو بتائے گا وہ یقیناً بہت متاثّر ہو گی۔
‘‘یہ پُراسرار قوت بظاہر تو منفی نظر آتی ہے لیکن درحقیقت یہ انسانی تقدیر کے مقصد کے حصول کو بروئے کار لانے میں بڑی معاون ہے۔
یہ قوت تمہارے مقدّر کے حصول کے لئے ہے تمہاری روح کو جِلا دیتی ہے اور تمہاری خواہشات و قوتِ ارادی کو بیدار کرکے اُس کی آبیاری کرتی ہے۔ کیونکہ اِس دنیا میں ایک بہت بڑی سچائی ہے اور وہ یہ کہ تم چاہے کوئی بھی ہو اور چاہے کچھ بھی حاصل کرنا چاہتے ہو ۔ جب تم اپنی خواہش کو مقصد بنا کر اُس کے حصول کے لئے انتہائی سنجیدہ ہو جاتے ہو تو قدرت کی طرف سے تمہاری مدد کی جاتی ہے۔
باالفاظِ دیگر تمہارا مقصد زمین پر اب تمہارا مشن بن گیا ہے ۔چاہے یہ مقصد محض سفر سے ہی عبارت ہو یا تاجر کی بیٹی سے شادی تک ہی محدود کیوں نہ ہو…. یہاں تک کہ اُس کا تعلق کسی پوشیدہ خزانہ کی تلاش سے ہی کیوں نہ ہو۔ ’’
‘‘دراصل یہ کائنات انسان کے لیے ہی تخلیق کی گئی ہے، انسانوں کی خواہش اور ارادے پورے کرنا ارکان کائنات کی خوشی بن جاتا ہے۔ مقصد کے حصول کی تمنّا کس جذبہ کے تحت ہے، یہ اہمیت نہیں رکھتا۔ اصل بات یہ ہے کہ اِس مقصد کے حصول میں ارادہ اور سعی کتنی ہے۔ بس جو کچھ مقدر میں ہے اُس کے حصول کی کوشش ایک انسان کا واحد حقیقی فریضہ ہونا چاہیے۔ اِس کائنات میں تمام چیزیں اِسی ایک نکتہ پر مرکوز ہیں۔’’
بوڑھا پھر بولا :
‘‘ہاں ! ایک بات اور جو بڑی اہم ہے۔’’
‘‘انسان اگر کوشش کرے تو سب کچھ ممکن ہے، حصولِ مقصد کی راہ میں حائل مشکلات، رکاوٹیں نہیں بلکہ آزمائش ہوتی ہیں، جب انسان کےدل میں کوئی خواہش سراٹھاتی ہے اور وہ کسی چیز کو پانے کی جستجو اور سعی کرتا ہے تو در اصل قدرت اس کی خواہش کی تکمیل میں مددگار بن جاتی ہے ، تمہارا ساتھ دینے کے لئے تیار ہوتی ہے کہ تمہاری یہ خواہش پوری ہو ۔ اگر لگن سچی ہو تو خدا کی اس کائنات میں بکھری نشانیاں اِس جدوجہد کے دوران راہنمائی اور معاونت کرتی نظر آتی ہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ کائنات انسان کے لئے مسخّر کر دی گئی ہے۔’’
کچھ دیر تک دونوں خاموش رہے ا ور بازار میں آتے جاتے لوگوں کو دیکھتے رہے۔ اِس سکوت کو پھر بوڑھے نے توڑا۔
‘‘تم بھیڑیں کیوں چَراتے ہو؟’’
‘‘کیونکہ مجھے گھومتے پھرتے رہنے میں مزہ آتا ہے۔’’ لڑکے نے جواب دیا۔
بوڑھے نے بازار کے کونے میں واقع ایک دکان کی کھڑکی کے سامنے کھڑے بیکری کے مالک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ
‘‘جب یہ بچہ تھا تو اِس کی خواہش بھی طویل سفر کرنے کی تھی، لیکن اُس نے سوچا کہ پہلے بیکری خرید کر کچھ رقم اکٹھا کر لے اور پھر جب وہ بوڑھا ہو جائے تو پھر کم از کم ایک ماہ کے لئے افریقہ میں قیام کرے گا ۔ لیکن اُس بے چارے کو اِس حقیقت کا علم ہی نہ ہو سکا کہ خوابوں کی تعبیر کے لئے کوئی مخصوص عمر نہیں بلکہ محض ارادے کی پختگی اور فیصلہ کی قوت درکار ہے۔’’
‘‘میرے خیال میں اُسے پھر ایک چرواہا بننا چاہیے تھا۔’’ لڑکا بولا۔
‘‘ہاں ! اُس نے یہ سوچا تھا۔’’ بوڑھا بولا ‘‘دراصل معاشرہ میں نان بائیوں کو چَرواہے کے مقابلہ میں زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ کیونکہ یہ لوگ باقاعدہ گھروں میں رہتے ہیں جب کہ چرواہوں کی راتیں جنگلوں اور میدانوں میں گزرتی ہیں۔ والدین اپنی بچیوں کی شادی کے لئے چرواہے پر نان بائی کو ترجیح دیتے ہیں۔’’
لڑکے کو ایک دھچکا سا لگا اور اس کے دل میں ایک ٹیس سی اٹھی۔ تاجر کی بیٹی کے لئے بھی تو شہر میں نان بائی ضرور ہوں گے۔اُس نے سوچا۔
بوڑھے نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ‘‘لیکن اہم بات یہ ہے کہ آخر میں ایسا مرحلہ آتا ہے کہ لوگ اپنے اصل مقدّر اور مقاصد کو بھول جاتے ہیں اور نان بائی اور چرواہوں کی زندگی کو ہی اپنا مقصد و محور بنا لیتے ہیں۔’’
بوڑھا کتاب کے اوراق پلٹتا رہا۔ ایک جگہ اُس کی توجہ مرکوز ہو گئی۔ لڑکے نے کچھ دیر انتظار کیا پھر دخل انداز ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
‘‘یہ سب کچھ آپ مجھے کیوں بتا رہے ہیں۔’’


‘‘کیونکہ تمہیں اپنی تقدیر کا احساس ہے، تم اپنے مقدّر کو حاصل کرنا چاہتے ہو، اور اس کے لیے کوشش کررہے ہو۔ سب سے اہم بات یہ کہ تم ابھی زندگی کے ایسے مقام پر ہو جہاں حصولِ مقصد کی خاطر سب کچھ چھوڑا جا سکتا ہے۔’’
‘‘تو اس کا مطلب ہے آپ سے میری ملاقات کا تعلق اسی مرحلہ سے ہے۔ یہ سب تقدیر طرف سے ہے اور قدرت جب کسی کی مدد کرنا چاہتی ہے تو ایسے وقت میں رہنمائی کے لیے آپ جیسے لوگوں سے اچانک ملاقات ہوجاتی ہے۔’’
‘‘ہاں!…. لیکن ہمیشہ ملاقات ہی مدد کا واحد طریقہ نہیں ہوتا…. بلکہ یہ مدد لوگوں کی رہنمائی کے لیے کسی بھی وضع اور شکل و صورت میں آسکتی ہے ، کبھی کسی مسئلہ کے حل کی صورت میں اور کبھی کسی اچھے نکتہ اور خیال کی شکل میں۔ بعض دفعہ کڑے وقت اور فیصلہ کن مراحل کی صورت میں بھی کسی زیادہ آسان اور سہل الحصول راستہ کی طرف رہنمائی کے ذریعہ کی پراسرار قوتیں لوگوں کی مدد کرتی ہیں۔
ایسی اور بھی بہت سی چیزیں کائنات کی ان پراسرار قوتوں کی دسترس میں ہوتی ہیں جنہیں تصرّف میں لاکر اُنہیں انجام دینا ہوتا ہے، کائناتی تصرّفات کی یہ دنیا بہت ہی وسیع ہے، لیکن اکثر اوقات لوگوں کو اس بات کا احساس تک نہیں ہوپاتا کہ جب وہ اچانک کسی الجھن اور مشکلات سے نکل جاتے ہیں، تو انہیں نکالنے میں پس پردہ کن پراسرار غیبی قوتوں کا عمل دخل تھا….؟’’
پھر بوڑھے شخص نے مثال دیتے ہوئے ایک واقعہ بیان کیاکہ


‘‘ایک ہفتے پہلےکی بات ہے کہ ، ایک کان کن کی مدد اس کے سامنے ایک پھر کی شکل میں ظاہر ہوئی ۔ اس کان کن کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ ایک بیش قیمت پتھر حاصل کرے گا۔ اس کی تلاش میں اس نے کان کنی شروع کی۔ اپنے اس مقصد کو پانے کے لیے اس نے اپنا سب کچھ چھوڑ دیا تھا۔ پانچ سال تک وہ ایک دریا کے کنارے پہاڑوں اور چٹانوں میں پتھر توڑتا رہا ، قیمتی زمرد کی تلاش میں اس نے سینکڑوں ہزاروں چٹانیں توڑیں، لاکھوں پتھروں کی ایک ایک کرکے جانچ پڑتال کی۔ لیکن عین اس وقت پر جب قریب تھا کہ صرف ایک آخری پتھر کو توڑ کر جانچ کرلے اور اس میں سے زمرد حاصل کرلے، اس وقت میں کان کن کی ہمت جواب دینے لگی۔ کیونکہ کہ اس کان کن نے اپنے مقصد اور مقّدر کی تلاش کے لیے لگن دکھائی، سب کچھ قربان کردیا، اس لیے اس کی مدد کرنا قدرت پر گویا فرض ہوگیا تھا۔ اس موقع پر پراسرار قوتیں اس کی مدد کو پہنچیں اور ایک پتھر کی صورت میں لڑھکتی ہوئی اس کے قدموں میں جاگریں ۔ اس شخص نے مایوسی اور غصہ کی اس حالت میں جو پانچ سال بے ثمر ہونے کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ پتھر اٹھایا اور اتنی شدت سے سامنے کی چٹان پر دے مارا کہ پتھر کے دو ٹکڑے ہوگئے اور اس پتھر میں سے دنیا کا سب سے بڑا ، بیش قیمت رنگارنگ و خوبصورت زمرد نکل آیا۔ ’’
‘‘در اصل انسان بڑا جلدباز ہے۔ اکثر لوگ اپنی زندگی کی ابتداء میں ہی یہ سمجھنے اور طے کر نے میں بہت جلدی دکھالیتے ہیں کہ ان کی زندگی کا مقصد کیا ہے اور اُنہیں کرنا کیا ہے؟ ’’ بوڑھے کے لہجے سے تلخی عیاں تھی ….
‘‘اور شاید اسی جلد بازی کی وجہ سے ذرا سی ناکامی ہونے پر بھی وہ مایوس ہوکر جستجو ترک کر دیتے ہیں…. لیکن اِس دنیا میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ایسا ہی ہوتا رہے گا۔’’
‘‘آپ مجھ سے پوشیدہ خزانے کے بارے میں کچھ کہہ رہے تھے….؟؟ ’’ لڑکے نے بوڑھے سے خزانہ کے بارے میں جاننا چاہا۔ اس کا ذہن ابھی تک اس پوشیدہ خزانے کی بات پر اٹکا ہواتھا۔
‘‘ہاں یوں سمجھو جیسے خزانہ پانی میں چھپا ہے۔ جس طرح بہتے ہوئے پانی کی ایک لہر ساحل سمندر کو ڈھک دیتی ہے اور دوسری لہر اُسے واضح کر دیتی ہے۔’’ بوڑھا بولا:
‘‘اگر تم خزانہ کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہو تو اُس کی ایک شرط ہے، وہ یہ کہ تمہیں اپنی بھیڑوں کا دسواں حصہ مجھے دینا پڑے گا۔’’
‘‘بھیڑوں کا دسواں حصہ ہی کیوں، میں اُس خزانہ کا دسواں حصہ آپ کو نہ دے دوں۔’’
یہ سن کر بوڑھے کے چہرے پر تھوڑی سی خفگی ظاہر ہوگئی، شاید اس کی اب تک کی گئی باتوں اور نصیحتوں کا لڑکے پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ پھر بوڑھے نے سمجھاتے ہوئے کہا

‘‘دیکھو!…. اگر تم کسی ایسی چیز کے دینے کا وعدہ کر و گے، جو ابھی تمہاری دسترس میں بھی نہیں ہے تو پھر اُسے حاصل کرنے کے لئے جس خواہش، لگن، جدو جہد کی ضرورت ہوتی ہے وہ شاید تم میں پیدا نہ ہوسکے گی۔’’
لڑکے نے اس بوڑھے بتایا کہ وہ پہلے ہی ایک خانہ بدوش خاتون کو خزانہ کا دسواں حصہ دینے کا وعدہ کر چکا ہے۔
بوڑھے نے گہری سانس لے کر کہا :
‘‘مجھے خوشی ہے ۔ ایک طرح سے یہ اچھا ہی ہوا ، اس طرح سے تم نے یہ سیکھ لیا کہ اِس دنیا میں کچھ حاصل کرنے کے لئے اُس کی کچھ قیمت دینا ضروری ہوتی ہے۔’’
بوڑھے نے کتاب واپس کر دی اور اُٹھ کھڑاہوا۔
‘‘کل دوپہر اِسی وقت تم اپنے بھیڑوں کی تعداد کا دسواں حصہ لے کر آ جاؤ گے تو میں تمہیں خزانہ تک پہنچنے کا طریقہ بتا دوں گا۔ خدا حافظ۔’’
وہ بوڑھا شخص وہاں سے چل دیا اور بازار کے نکڑ تک جاکر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

***

لڑکے نے دوبارہ سے کتاب پڑھنے کی کوشش کی ، لیکن وہ توجہ مرتکز کرنے میں کامیاب نہ ہوپایا۔ وہ بے چین اور پریشان تھا۔ بوڑھے نے اس سے جو کچھ بھی کہا تھا، وہ حقیقت پر مشتمل تھا …. اس نے بیکری کی طرف رخ کیا ۔ بیکری سے روٹی خریدتے ہوئے اسے خیال آیا کہ بوڑھے نے اُس نانبائی کے متعلق جو کچھ قصہ بیان کیا ہے اگر وہ تصدیق کے لیے اُس سے پوچھ لے تو کیسا رہےگا۔ لیکن دوسرے ہی لمحہ اُس نے اپنا ارادہ ترک کردیا کہ اِس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ میری باتیں سن کر نان بائی کسی ذہنی کشمکش میں پھنس جائے اور اس سے نکالنے میں اُسے کئی دن لگ جائیں ۔
‘‘چھوڑو….! جیسا چل رہا ہے ویسا ہی چلنے دو، کبھی کبھی چیزوں کو حالات پر چھوڑنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ ’’
یہ سوچ کر لڑکا وہاں سے چل پڑا اور شہر میں اِدھر اُدھر گھومتے ہوئے شہر کے جنوبی صدر دروازے تک پہنچ گیا۔ صدر دروازے کے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی عمارت تھی۔ اُس میں ایک کھڑکی کے سامنے لوگوں کی قطار کھڑی تھی۔ یہ لوگ افریقہ جانے کے لئے وہاں سے ٹکٹ خرید رہے تھے۔ اُسے معلوم تھا کہ مصر افریقہ ہی میں ہے۔ وہ ٹکٹ گھر کی کھڑکی کے قریب پہنچا۔
‘‘میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں….؟؟ کیا آپ کو ٹکٹ چاہیے؟’’ کھڑکی کے پیچھے ٹکٹ بیچنے والے نے لڑکے کو دیکھ کر پوچھا۔
‘‘نہیں آج نہیں، شاید کل لوں۔’’ لڑکا ٹکٹ گھر کی کھڑکی کے سامنے سے ہٹتے ہوئے بولا۔
اگر میں ایک بھیڑ بھی فروخت کر دوں تو اتنی رقم تو مل ہی جائے گی کہ آبنائے کے دوسرے کنارے پر پہنچ جاؤں۔ جانے کیوں اس خیال نے اُسے تھوڑا خوف زدہ سا کر دیا۔
‘‘خوابوں کی دنیا کا ایک اور باسی دیکھو….’’ کھڑکی کے پیچھے ٹکٹ بیچنے والے نے اپنے ماتحت سے کہا ۔ ‘‘شایداِس بے چارے کے پاس سفر کے لئے رقم نہیں ہے۔’’
ٹکٹ گھر کی کھڑکی کے پاس کھڑے کھڑے لڑکے کو دفعتاً اپنی بھیڑوں کا خیال آ گیا۔اس نے دل میں سوچا کہ چھوڑو یہ خزانے کی تلاش، بہتر ہے کہ میں واپس چلا جاؤں اور محض چرواہا ہی بنا رہوں، اب دیکھو گزشتہ دو سالوں میں میں اُن بھیڑوں کے بارے میں کتنا کچھ جان چکا تھا۔ اُن بھیڑوں سے اون کیسے حاصل کیا جائے۔ جو بھیڑیں حاملہ ہوتی ہیں اُن کی دیکھ بھال کس طرح کی جائے اور بھیڑیوں سے اپنے گلّہ کی کی حفاظت کیسے کی جائے، یہ سب اُسے معلوم تھا۔
اندلس میں بڑی بڑی چراگاہیں اور سبزہ زار میدان کہاں کہاں ہیں اور یہ بھی کہ اُس کی ہر بھیڑ کتنی قیمت کی ہے۔ یہ سب وہ جانتا تھا۔
اپنے دوست کے اصطبل تک پہنچنے کے لیے اُس نے جان بوجھ کر طویل راستہ کا انتخاب کیا، تاکہ وہ اس بارے میں مزید سوچ سکے ۔ جب وہ شہر طریفا کے قلعہ Castle of Guzman گزمان کیسل *کے سامنے سے گزر رہا تھا تو تھوڑی دیر کے لئے اصطبل واپسی کا ارادہ ملتوی کرتے ہوئے ، وہ دیوار کے اوپری حصہ تک پتھروں کی بنی سیڑھی سے قلعہ کے اوپر چڑھنے لگا۔ اِس اونچے مقام سے افریقہ نظر آ رہا تھا۔ کسی نے اُسے بتایا تھا کہ یہیں سے مورز (عرب اور افریقی بربر قبائل کے مسلمانوں ) نے اندلس پر حملہ کیا تھا اور پورے اسپین پر قبضہ کر لیا تھا۔


* طریفا میں یہ قلعہ گزمان کیسل Castle of Guzman آج بھی موجود ہے، اسے مسلم اسپین کے خلیفہ عبدالرحمٰن سوم نے تعمیر کیا تھا۔ سقوط اندلس کے بعد اس قلعہ کی باگ دوڑ ہسپانوی سپہ سالار گزمان البوئنو کے ہاتھ میں آئی اور اسی کے نام پر اس قلعہ کا نام رکھا گیا. 


یہاں اس قلعے کی بالائی منزل پر بیٹھے ہوئے اُسے تقریباً پورا شہر بھی نظر آ رہا تھا۔ وہ بازار بھی نظر آ رہا تھا جہاں بیٹھ کر اُس نے بوڑھے کے ساتھ دیر تک گفتگو کی تھی۔
‘‘کاش کہ وہ اُس بوڑھے سے نہ ملا ہوتا۔ ’’لڑکے نے ایک لمحہ کے لئے سوچا۔
وہ تو اِس شہر میں صرف اِس لئے آیا تھا کہ اُس خانہ بدوش بوڑھی عورت سے خواب کی تعبیر پوچھ سکے۔ نہ وہ عورت اور نہ یہ بوڑھا ، ان دونوں کی نظر میں اِس بات کی کوئی اہمیت ہی نہیں کہ وہ ایک چرواہا ہے ۔ بس وہ لوگ تو اکیلے ہی اپنی اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ بالکل تارک الدنیا لوگوں کی طرح۔ وہ نہیں سمجھتے کہ ایک چرواہے کو اپنی بھیڑوں سے کتنا لگاؤ ہوتا ہے۔
اُسے مختلف خیال پریشان کرتے رہے۔ ان بھیڑیں کے ساتھ اُس کی اپنی ایک دنیا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اُن میں کون سی لنگڑی ہے اور کون سی دو ماہ بعد بچہ جنے گی اور اِس میں سب سے سست کون سی ہے۔ کس طرح ان کا اون مونڈھنا ہے یا پھر اِنہیں ذبح کس طرح کیا جاتا ہے۔
وہ سوچنے لگا اگر وہ ان بھیڑوں کو چھوڑ دےگا، تو پتہ نہیں اُن کا کیا حشر ہو گا…. میرے بغیر انہیں کیا کیا بھگتنا پڑے گا….. ؟
ہوا کی رفتار بڑھنے لگی۔ وہ تو اندلس کی ہواؤں تک سے بھی بخوبی واقف تھا۔ یہ مشرقی بحرِ روم سے آنے والی باد ِشام تھیں جسے اندلس کے لوگ لیوانٹر levanter کہتے تھے ، لیوانٹ دراصل بحرِ روم کے اُس مشرقی ساحلی علاقے کو کہا جاتا ہے جہاں سے گزر کر مسلمان اندلس میں داخل ہوئے تھے۔ لیوانٹ کی ہوائیں مزید تیز ہونے لگیں۔
لیکن لڑکا ابھی تک ذہنی کشمکش سے نکل نہیں پارہا تھا۔ ایک طرف خزانہ تھا اور دوسری طرف اس کی بھیڑیں۔ وہ ایک دوراہے پر کھڑا تھا، یہ فیصلہ نہ کرپا رہا تھا کہ کدھر جائے۔ لیکن اسی وقت اِسی لمحہ اُسے ایک چیز کا انتخاب کرنا ۔
ایک طرف وہ بھیڑیں جس کے بارے میں وہ سب کچھ جانتا ہے اور جہاں سب کچھ اُس کی دسترس میں ہے، اُسے چھوڑ دے یا اُس خزانے کو چھوڑ دے جس کے بارے میں اس کی معلومات تو صفر تھیں لیکن اُس کے حصول کی خواہش بار بار دِل میں انگڑائیاں لے رہی تھی۔ پھر تاجر کی بیٹی بھی تو ہے ، لیکن لڑکے نے سوچا کہ وہ تاجر کی لڑکی ان بھیڑوں کے مقابلے میں زیادہ اہم نہیں، کیونکہ وہ اُس پر انحصار نہیں کرتی ۔ کیا پتہ وہ اُسے بھول ہی چکی ہو۔
اُسے لڑکی کی یہ بات بھی یاد آئی جب اس نے کہا تھا کہ اُس کے لئے سب دن ایک جیسے ہیں۔ چھوٹے سے قصبے میں پوری زندگی گزارنے والوں کے لیے ہر دن وہی سورج وہی پہاڑ ہوتا ہے۔ ہوسکتاہے کہ مجھ سے ہوئی ملاقات بھی اس کے لیے ایک عام ملاقات جیسی ہو۔ جب کسی کا ملنا نہ ملنا برابر ہی ہے تو کیسی خوشی اور کیسا غم۔ خوشی کا احساس اور اُس کی پہچان ہی تو کسی دن یا لمحہ کو اہم اور یادگار بناتی ہے ۔
پھر لڑکے کو اپنے والدین یاد آئے…. میرے ماں ، باپ ، میرا شہر ، وہاں کی خوبصورت فَضائیں، جنہیں میں نے خیرباد کہا تھا۔ جس طرح میرے والدین اب میرے بغیر رہنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ وہی حال میرا بھی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بھیڑیں بھی مجھے نہ پا کر میرے بغیر رہنے کی عادی ہو جائیں۔
لڑکا سوچتا رہا۔
جہاں وہ بیٹھا تھا شہر کا بازار بآسانی نظر آ رہا تھا۔ اس بیکری میں گاہکوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا۔ اُس نے دیکھا کہ جس جگہ اُس نے بوڑھے کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو کی تھی۔ اُس جگہ ایک نوجوان جوڑا آ کر بیٹھ گیا تھا۔ اُن کے اظہارِ تعلق کی وارفتگی اُس کے ذہن کو مرتعش کئے بغیر نہ رہ سکی۔
‘‘اور پھر وہ نانبائی….’’
وہ مزید کچھ سوچنا چاہ رہا تھا لیکن وہ اپنے خیال کو مکمل نہ کر سکا۔ بادِ شام کی تیز ہواؤں کی شدت نے اُس کے خیالوں کو منتشر کردیا۔
بادِ شام کی اِن ہواؤں کے دوش پر صرف مسلمان فاتحین ہی اندلس نہیں آئے تھے ، بلکہ یہ ہوائیں تو افریقی ریگستان کی مخصوص خوشبو بھی اپنے ساتھ لاتی ہیں اور وہاں کے لوگوں کی خوشبو بھی اُن کے ساتھ آتی تھی۔ اس ہواؤں میں اُن باہمت نوجوانوں *کے خوابوں اور پسینہ کی خوشبو کی بھی شامل ہے جنہوں نے ارضِ نامعلوم (موجودہ امریکہ) کی جستجو، نعمتوں کی تلاش اور مہم جوئی کے شوق میں اپنی سر زمین چھوڑ دی تھی۔

*یہاں باہمت نوجوانوں سے مراد مغربی افریقہ کے وہ آٹھ عرب مسلم نوجوان ہیں، جو بحرظلمات کو عبور کرنے کے ارادہ سے نکلے اور طویل سفر کے بعد دوسرے کنارے پر جاپہنچے۔ انہوں نے کرسٹوفر کولمبس سے بھی چھ سو سال قبل ہی امریکہ کی سرزمین پر قدم رکھ دیا تھا۔ اس دور میں بحر اوقیانوس کے پار اس خطہ امریکہ کو ارض مجھولہ (انجان زمین) کہا جاتا تھا۔ اہل عرب میں اس کارنامے کی بہت شہرت ہوئی اور لوگوں نے انہیں الفتیۃالمغررین(باہمت نوجوانان) کا لقب عطا کیا۔ انہی نوجوانوں کی دیکھا دیکھی آٹھویں صدی عیسوی میں قرطبہ کا اندلسی سیاح خشخاش بن سعید بن اسود بھی بحراوقیانوس کو عبور کرنے کے لئے نکلا تھا، اور کئی دن کئی راتیں مسلسل سفر میں رہنے کے بعد بالآخر بحر اوقیانوس کے دوسرے کنارے پر جا پہنچا اور وہاں سے بہت سا سازو سامان لے کر لوٹا۔

ان باہمت نوجوانوں کے قصوں کے خیال نے لڑکے کے اندر مزید جوش بھردیا۔ ایک لمحہ کے لیے اس نے سوچا کہ کاش ! اس کی زندگی بھی اسی طرح مہم جوئی سے بھرپور ہو ۔ اُسے بھی ایسی ہی آزادی حاصل ہو۔ وہ بھی لیوانٹر ہواؤں کی طرح آزاد ہوکر بحر و بر کا سفر کرتا پھرے۔ وہ سوچنے لگا کہ اُس کی آزادی کے حصول میں اُس کی اپنی ذات کے علاوہ اور کوئی حائل نہ تھا۔ بس صرف یہ بھیڑیں، تاجر کی بیٹی اور اندلس کی چراہ گاہیں ہی اس مقصد کے حصول کے لیے وہ چند قدم ہیں جن کے عبور کرتے ہی اُس کے مقدّر کا راستہ کھل سکتا تھا۔

 

***


اگلے دن دوپہر جب لڑکا بوڑھے سے ملنے گیا تو چھ بھیڑیں اُس کے ہمراہ تھیں۔
‘‘عجیب سی بات ہے….’’، لڑکا حیرت سے کہنے لگا۔
‘‘میرے دوست نے میری سب بھیڑیں بلاجھجھک فوراً ہی یہ کہتے ہوئے خرید لیں کہ یہ میرے دِل کہ سب سے بڑی خواہش تھی اور اس نے بتایا کہ وہ بھی برسوں سے یہی خواب دیکھ رہا ہے کہ وہ بھی ایک چرواہا بنے۔ اور اس نے میری تمام بھیڑوں کو قدرت کی طرف سے نیک شگون سمجھتے ہوئے خرید لیا۔ ’’
‘‘ہاں !ایسا ہی ہوتا ہے ہمیشہ۔’’ بوڑھا شخص کہنے لگا۔ ‘‘اب دیکھو !جب کوئی شخص پہلی مرتبہ تاش یا کوئی کھیل کھیلتا ہے تو اُسے اپنی جیت یقینی نظر آتی ہے، اور اتفاق سے اس کے یقین کو مستحکم کرنے کے لیے ایسے میں قسمت بھی اس کا ساتھ دیتی ہے۔ یہی موافقت کا اصول principle of favorability ہے، اسے عموماً ابتدائی قسمت Beginner’s luck کہتے ہیں۔ ’’
‘‘ایسا کیوں ہوتا ہے ؟’’
‘‘دراصل کائنات میں ایک ایسی پراسرار قوت پائی جاتی ہے، جو ہمارے خواہشوں اور خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے اور قسمت اور مقدّر کی منزل تک پہچانے میں ہماری معاونت کرتی ۔ اسی لیے وہ ابتداء میں کامیابی کا مزہ چکھا کر ہماری جستجو، شوق اور دلچسپی کو مزید بڑھاتی ہے۔’’
اتنا کہہ کر بوڑھا بھیڑوں کی طرف متوجہ ہوا اور ان کا معائنہ کرنے لگا۔ ان بھیڑوں میں ایک ایسی بھیڑ بھی تھی جس کی ایک ٹانگ میں تھوڑا نقص تھا۔ بوڑھے نے جب اس کی کی نشاندہی کی تو لڑکے نے بوڑھے کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ
‘‘یہ بھیڑ لنگڑی ضرور ہے لیکن اس خامی سے زیادہ اس میں یہ خوبی ہے کہ یہ دیگر بھیڑوں میں زیادہ سمجھدار ہے اور سب سے زیادہ اون دیتی ہے۔’’
‘‘اب بتاؤ، خزانہ کہاں ہے؟’’ لڑکے نے فوراً اصل سوال کر ڈالا۔
‘‘مصر کے اہرام کے نزدیک۔’’
لڑکا یہ سُن کر بھونچکا رہ گیا اور سوچنے لگا کہ اتنی سی بات تو بنا کچھ لئے اُس بوڑھی خانہ بدوش عورت نے ہی بتا دی تھی۔بوڑھا مزید کہنے لگا ۔
‘‘البتہ خزانہ تک پہنچنے کے لئے تمہیں فال نکالنا ہوگی۔ خدا نے ہر انسان کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ متعیّن کر دیا ہے۔ کوئی راستہ کامیابی کی طرف جاتا ہے تو کوئی ناکامی کی طرف۔ کوئی نیکی کا راستہ ہے تو کوئی بدی کا…. اور خدا نے ہی ان راستوں کی پہچان کے لیے کائنات میں نشانیاں بکھیری ہوئی ہیں ، بس تمہیں ان نشانیوں کو دیکھ اور سمجھ کر اپنے لیے صحیح راستے کا انتخاب کرنا ہے۔’’
قبل اِس کے کہ لڑکا کچھ بولتا، ایک تتلی اڑتی ہوئی آئی اور اُن دونوں کے درمیان منڈلانےلگی۔
لڑکے کو یاد آیا کہ ایک بار اُس کے دادا نے بتایا تھا کہ کسی کے ارد گرد تتلی کا منڈلانا اچھا شگون ہوتا ہے اور ایسا ہی شاید اُنہوں نے بعض دوسری چیزوں کے متعلق بھی بتایا تھا۔ جیساکہ جھینگرکا گیت سننا، بیر بہوٹی Ladybugکا کسی شخص پر بیٹھنا، ہما (پرندے) کا سر پر اُڑنا، دورانِ سفر سوسمار (صحرائی چھپکلی)، البتروس (ساحلی پرندہ)، سرخ چمگادڑ، کچھوے یا ڈولفن کو دیکھنا ، شاہ بلوط کا پھل، چہار برگہ (چار پتیوں والا پودا )four-leaf clovers اور سماروغ (سرخ مشروم)کا ملنا، یا راستے میں گھوڑے کی نعل یا لوہے کی چابی پانا، یا پھر اچانک کسی توقع پورا ہونا یعنی کسی چیز کی آس اور امید ہو اور وہ اچانک سے وہ واقع ہوجائے، یہ سب اچھے اور سعد شگون کی علامت ہوتی ہیں۔
‘‘بالکل ٹھیک ہے۔’’ بوڑھے نے لڑکے خیالات کو پڑھتے ہوئے کہا، ‘‘تمہارے دادا نے تمہیں ٹھیک ہی سکھایا تھا، یہ سب اچھے شگون اور فالِ نیک ہیں۔ سوسمار ، البتروس، سرخ چمگادڑ، کچھوے یا ڈولفن ان سب جانوروں میں قدرتی طور پر یہ صلاحیت ہوتی ہے یا یوں کہہ لو کہ ان کی جبلت میں ایسا دفاعی نظام ہوتا ہے کہ یہ آنے والے خطرات ، موسم کی شدت ، مثلاً طوفان وزلزلہ کا پہلے ہی اندازہ لگالیتے ہیں۔ خطرے کے وقت یہ اپنے مسکن اور بلوں میں چھپے رہتے ہیں اور صرف امن و سکون کی فضا میں ہی باہر نکلتے ہیں۔یہی وجہ سے کہ انہیں باہر کی فضا میں دیکھنا سکون اور خوش بختی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ’’
بھیڑوں کے معائنہ سے فارغ ہونے کے بعد بوڑھے نے لڑکے کی جانب رخ کیا اور اپنی قبا ہٹائی۔ اس کے بعد لڑکے نے جو دیکھا تو وہیں دنگ رہ گیا۔ اس بوڑھا کے سینے کے گِرد سونے کی ایک بھاری سینہ پوش طلائی زرہ breastplateلپٹی ہوئی تھی۔ جس میں پیش قیمت جواہرات جڑے ہوئے تھے، ایک دم اسے یاد آیا کہ کل اچانک جو چمک اُس کی آنکھوں میں پڑی تھی وہ اسی طلائی زرہ سے آئی ہوگی۔


‘‘اس کا مطلب ہے یہ بوڑھا صحیح کہتا ہے۔ یہ یقیناً شالیم کا بادشاہ ہی رہا ہو گا اور محض چوروں، لٹیروں کے خوف سے اس نے یہ بہروپ اختیار کیا ہوا ہے۔’’ لڑکے نے سوچا۔
‘‘یہ لے لو’’ بوڑھے نے اپنا ہاتھ لڑکے کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ جس میں سفید اور سیاہ دو چھوٹے پتھر نظر آرہے تھے۔ یہ وہی پتھر تھے جو بوڑھے کے سینے پر لگی ہوئی طلائی زرہ میں جڑے ہوئے تھے۔

ان پتھروں کو اُوریمUrim اور تُمّیم Thummimکہا جاتا ہے*۔ یہ سفید پتھر اُوریم ‘‘ہاں ’’ کے لئے اشارہ ہو گا اور سیاہ پتھرتُمیّم ‘‘نہیں ’’کے لئے….اگر کبھی ایسا ہو کہ تم قدرت کے اشاروں کو سمجھ نہیں پارہے ہو تو یہ دونوں پتھر قدرت کے اشاروں کو سمجھنے میں تمہاری مدد کریں گے۔ البتہ کوشش کرنا کہ سوال بالکل واضح اور بامقصد ہو۔لیکن بہتر یہی ہو گا کہ تم اپنے فیصلہ خود اپنی عقل سے کرنے کی کوشش کرو۔ ’’
لڑکے نے دونوں پتھر اپنے تھیلے میں ڈالے اور مصمم ارادہ کیا کہ وہ پہلے خود فیصلے لے گا۔
اب بوڑھا دوبارہ گویا ہوا ‘‘اب جیسا کہ تم پہلے سے ہی جانتے ہو کی خزانہ اہرامِ مصر میں ہے۔ اور میں نے یہ چھ بھیڑیں تم سے اِس لئے مانگی تھیں کیونکہ یہ میری اس کوشش کی اُجرت ہے۔ اس کی بدولت ہی تم اس فیصلہ تک پہونچ سکے ہو۔’’
‘‘ہاں! اس سفر میں میری یہ نصیحت ہمیشہ یاد رکھنا کہ جو چیز بھی تمہارے سامنے آئے وہ محض ایک چیز ہے اور اِس سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔
قدرت کے اشاروں کی اپنی زبان ہوتی ہے اُسے ضرور یاد رکھنا ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اپنی منزل، اپنے مقصد کی اس تلاش کو کبھی بیچ میں ادھورا مت چھوڑنا۔ تمہاری کوشش نتیجہ خیز ہونا چاہیے۔’’

 

* اوریم اور تُمیم قدیم دور سے یہودی کاہنوں میں فال نکالنے کا ایک طریقہ چلا آرہا ہے اور طلائی سینہ پوش بھی دراصل کاہنوں کے مقدس لباس حوشن Hoshen کا ایک حصہ ہوتا ہے، جسے وہ افود Ephod کہتے ہیں، اس میں قیمتی زر و جواہر کے ساتھ اوریم اور تُمیم بھی لگے ہوتے ہیں۔

بوڑھے نے نصیحت کے انداز میں لڑکے کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ اچھا ! اب میرا کام ختم ، لیکن جانے سے پہلے ایک چھوٹی سی کہانی سُن لو:
‘‘ایک تاجر نے اپنے بیٹے سے کہا کہ جاؤ اور دنیا کے سب سے عقلمند اور جہاں دیدہ عالم سے یہ معلوم کرو کہ
‘‘ابدی خوشی کا راز کیا ہے’’۔
وہ لڑکا وہاں سے روانہ ہوا اور تقریباً کوئی چالیس دن تک صحرا و بیابان میں بھٹکتا رہا ۔ آخر کار ایک قصبہ میں پہاڑی کے اوپر واقع ایک قلعہ تک اُس کی رسائی ہوگئی۔ کسی نے اُسے بتایا کہ یہیں وہ دانشمند اور صاحب بصیرت عالم رہتا ہے۔
لڑکے کی توقع تویہ تھی کہ اس قلعہ میں کتب خانوں کی طرح کتابوں کے ڈھیر لگے ہوں گے اور اس علمی ماحول میں کسی بزرگ درویش سے اس کی ملاقات ہو گی۔ لیکن جب وہ قلعہ میں داخل ہوا امید کے برخلاف اُس نے دیکھا کہ وہ قلعہ تو ایک خوبصورت محل جیسا تھا، وہاں تو انتہائی بڑا اور سرگرم بازار لگا ہوا ہے۔
اس کاروباری ماحول میں تاجروں کا آنا جانا لگا ہوا تھا۔ کچھ لوگ اِدھر اُدھر کھڑے ہو کر گفتگو میں مصروف تھے۔ کہیں سازندوں کا ایک چھوٹا طائفہ بیٹھا ہلکی موسیقی کی دھنیں بجا رہا ہےاور ایک طرف بڑی سی میز پر انواع و اقسام کی کھانے پینے کی اشیاء کی تھالیاں بھی سجی ہوئی تھیں تھیں۔
لڑکے کی نظریں اس دانا عالم کو ڈھونڈ رہی تھیں ۔ پوچھنے پر محل کے ایک حصہ کی جانب اشارہ کیا گیا جہاں ایک کمرے میں خوشنما لباس میں ایک ایک شخص بیٹھا کچھ لوگوں سے گفتگو میں مصروف تھا ۔ کمرے کے باہر اس سے ملاقات کے لیے لوگوں کی ایک بھیڑ تھی۔ وہ شخص بہت مصروف تھا لیکن پھر بھی ہر ایک فرد سے ایک ایک کرکے بات کررہا تھا۔ سب لوگوں سے ملاقات میں تقریباً دو گھنٹہ لگ گیے اس کے بعد ہی وہ نوجوان کی طرف متوجہ ہوا۔
پہلے اس داناعالم نے پوری توجہ سے نوجوان کی بات سنی اور پھر کہا:‘‘دیکھو نوجوان !فی الحال تو میرے پاس اتنی فرصت نہیں ہے کہ تمہیں تفصیل سے بتاسکوں کہ دائمی خوشی کا راز کیا ہے۔ البتّہ تم ایسا کرو کہ ذرا یہ پورا محل گھوم پھر لو اور پھر دو گھنٹہ بعد میرے پاس آنا۔ جب تک میں ان کاموں سے فارغ بھی ہو جاؤں گا۔ ہاں البتّہ اِس دوران میرا ایک کام کرنا کہ یہ چمچہ جس میں چند قطرے تیل کے پڑے ہوئے ہیں، اپنے ساتھ رکھنا اور یہ خیال رہے کہ گھومنے کے دوران یہ تیل گرنے نہ پائے۔


اب وہ نوجوان محل کو دیکھنے کی خاطر وہاں سے نکلا، اس نے تمام ضروری راستے اور سیڑھیاں طے کیں اوپر چڑھائی پر بھی گیا اور نیچے بھی اُترا، لیکن اِس دوران اُس کی نظریں چمچے ہی پر مرتکز رہیں کہ مبادا تیل کے قطرے گر نہ جائیں۔ جس کی حفاظت کا ذمہ اسے دانا عالم نے دیا تھا۔
دو گھنٹہ بعد جب وہ واپس آیا تو وہ دانا عالم لوگوں سے ملاقات سے فارغ ہوگیا تھا، اس نے اُس لڑکے کو دیکھتے ہی کہا ‘‘اوہ اچھا تم آگئے ، پورا محل گھوم لیا….’’
پھر دانا عالم نے لڑکے سے گفتگو شروع کی ‘‘تم نے دیکھا کھانے کی میز کے پاس کی دیواروں پر انتہائی حسین و خوبصور ت گلکاری شدہ غلاف ٹنگا ہوا ہے جسے فارس سے منگوایا گیا ہے ، اور تم نے محل کے باغ کو دیکھا کتنا دلکش ہے، اسے تیار کرنے میں مالی کو دس سال لگے تھے اور کیا تم نے میرے کتب خانے میں رکھی وہ کتابیں دیکھیں جن پر خوبصورت نقشی والی چرمی جِلدیں چڑھی ہوئی ہیں…. ؟’’
دانا عالم کے محل کے متعلق ان سوالات پر نوجوان کو بڑی شرمندگی کا احساس ہوا۔ اس نے سوچا کہ وہ تو محل میں کچھ بھی صحیح سے نہیں دیکھ پایا ، اُس کی ساری توجہ تو محض چمچہ کے تیل پر رہی کہ کہیں وہ گر نا جائے ، جو دانا عالم نے اسے انتہائی بھروسہ سے دیا تھا۔ اس عالم نے لڑکے سے کہا کہ
‘‘تم کسی شخص کی باتوں پر اس وقت تک یقین نہیں کرسکتے جب تک تم خود اس کے بارے میں جانتے نہ ہو۔ میں نے اپنے محل کے بارے میں جو کچھ بتایا ، اسے سنتے ہوئے تمہارے چہرے پر یقین کا عنصر نظر نہیں آہا، اس پر تمہیں تبھی یقین آئے گا جب تک دیکھ نہ لو، اب دوبارہ واپس جاؤ اور میرے اِس محل کو اچھی طرح دیکھو، کہ اس میں کس قدر خوبصورت اور حیرت انگیز دنیا آباد ہے، تبھی میں سمجھوں گا کہ خوشی کا دائمی راز جو میں تمہیں بتاؤں گا تم اس پر یقین کرو گے۔ یہ تمہارا امتحان ہے۔ ’’
نوجوان کو ذرا اطمینان ہوا ، اور پھر اُس نے چمچہ اٹھا کر دوبارہ محل کا دورہ شروع کر دیا، اس مرتبہ اس نے ہر چیز کو بغور دیکھا۔ چھت اور دیواروں پر آویزاں فن کے نمونوں کو دیکھا۔ باغ کی سیر کی، قلعہ سے نظر آنے والے پہاڑوں اور ارد گرد کے مناظر دیکھے۔ جو کچھ سازو سامان ، ظروف اور آرائش کی اشیاء خوبصورتی کے ساتھ محل کے مختلف حصوں میں آویزاں کی گئی تھیں اُن سے بھی محظوظ ہوا، پھولوں کی خوبصورتی اور مہک محسوس کی۔ لذیذ خوانوں کو چکھا، اور واپس آ کر اس عالم کو ایک ایک چیز کی تفصیل اور اپنے تاثرات بیان کئے۔
‘‘لیکن تیل کے ان قطروں کا کیا ہوا، جس کی حفاظت کی ذمہ داری میں نے تمہیں دی تھی۔’’ دانا عالم کے سوال پر نوجوان چونک اٹھا ۔ اس کی نظر جب چمچ پر پڑی تو وہ خالی تھا۔ تیل کے قطرے گر چکے تھے۔
اب دانا عالم نے لڑکے کو سمجھانے کے انداز میں کہا ‘‘اچھا اب میری یہ بات غور سے سنو اور یاد رکھو :
‘‘دائمی خوشی کا راز اِسی بات میں پنہاں ہے کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے اس کے تمام عجائبات کو دیکھو ضرور لیکن اِس طرح کے تیل کے قطروں کو یعنی جو تمہاری ذمہ داریاں ہیں انہیں فراموش نہ کیا جائے۔’’
نوجوان چرواہا خاموشی سے اس بوڑھے کی بیان کردہ حکایت سن رہا تھا۔ اس کی بات پوری طرح سمجھ چکا تھا۔ چرواہے بھی تو بستی بستی کا سفر کرتے ہیں لیکن بھیڑوں کو نہیں بھولتے۔
بوڑھے نے لڑکے کو آخری مرتبہ غورسے دیکھا اور کچھ پڑھتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ سے لڑکے کے سر کے اوپر پھیرے اور اپنی بھیڑوں کو لے کر ایک طرف چل دیا۔

 

تحریر : پاؤلو کویلہو ; ترجمہ: ابن وصی
(جاری ہے)

 

یہ بھی دیکھیں

تلاش (کیمیاگر) قسط 13

تیرہویں قسط …. ….(گزشتہ سے پوستہ)   لڑکی کے چلے جانے پر لڑکا اس دن …

تلاش (کیمیاگر) قسط 12

بارہویں قسط ….(گزشتہ سے پوستہ)   لڑکے کا رُواں رُواں گواہی دے رہا تھا کہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے