عالمی شہرت یافتہ موٹیویشنل مصنف، ماہرِتعلیم اور بزنس مین اسٹیفن رچرڈ کوؤی نے 1989ء میں دی سیون ہیبٹس آف ہائیلی ایفیکٹو پیپلThe 7 Habits of Highly Effective People نامی کتاب لکھی۔ عالمی سطح پر بیسٹ سیلر ہونے کے ساتھ اب تک 75 ممالک میں 40 زبانوں میں دو کروڑ پچاس لاکھ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔
اس کتاب میں اسٹیفن نے بتایا کہ دنیا کے بااثر ترین اور کامیاب انسانوں میں سات عادات مشترک ہوتی ہیں اور انہی عادات کی بنیاد پر ان کے کردار کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ ان کی یہی عادتیں ان کے مستقبل کو بھی روشن بناتی ہیں۔ ان سات عادات کو سمجھ لینے اور اپنانے سے نوجوان اپنی زندگی کامیاب بنا سکتے ہیں ۔
ذیل میں ہم اسٹیفن کوؤی کی شہرۂ آفاق کتاب The 7 Habits of Highly Effective People ‘‘کامیاب اور پُراثرلوگوں کی 7 عادتیں ’’ کے خلاصے کی پانچویں قسط نوجوان قارئین کے لیے پیش کررہے ہیں۔
قسط نمبر 5
عادت : 6
Synergize
سائی نرجی / اتحادِ عمل
سائی نرجی (Synergy)کا مطلب ہے انرجی کا اتحاد۔
سائی نرجائز کہتے ہیں ان انرجیوں کی مطابقت پذیری یا تال میل بٹھانے کو۔ سادہ الفاظ میں سمجھیں تو Synergize کرنے کا مطلب ہے تخلیق کرننے کے لیے باہمی تعاون فراہم کرنا یااتحادِ عمل بنانا۔ یہ وہ عمل ہے جس کے نتیجے میں ‘‘دو دماغ ایک سے بہتر ’’اور ‘‘ایک اور ایک گیارہ ’’ہوتے ہیں۔
دو آدمی کسی گاؤں میں ایک پیڑ سے سیب توڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔ پر سیب تھوڑے اُوپر تھے اور کافی کوششوں کے بعد بھی دونوں اُس تک پہنچ نہیں پارہے تھے ۔ پھر دونوں نے سوچ کر فیصلہ کیا کہ ایک آدمی دُوسرے کے کندھے پر چڑھ کر سیب توڑ لے گا ۔ اس طرح اُنہوں نے کئی سیب توڑ لیے۔
یہ مثال بتاتی ہے کہ جب ہم لوگوں کے ساتھ ٹیم میں کام کرتے ہیں تب ہم اپنی استعدا د کو جِتنا چاہے اُتنا بڑھا سکتے ہیں۔ اس سے ہمیں اپنے مقاصد کو پُورا کرنے میں کافی آسانی ہو جاتی ہے۔
سائی نرجی ایک ٹیم ورک ہے۔ افراد کی ایک ٹیم میں ہر بندے کی اپنی اپنی انرجی ہوتی ہے۔ ان انرجیز کا مجموعہ سائنرجی کہلاتا ہے۔
سائی نرجی Synergy کی عادت ہمیں ہمیشہ ایک ٹیمTeam کی طرح مِل کر کام کرنے کے لیے اُبھارتی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ خود اپنے آپ ہی نہیں ہوجاتا۔ یہ ایک پروسیس ہے، اس کے ذریعے لوگ اپنے تجربے اور مہارت کو استعمال میں لاتے ہیں۔ اکیلے کے بجائے وہ ایک ساتھ مل کر اچھا نتیجہ دیتے ہیں۔ ہم ایک ساتھ مل کر بہت کچھ تلاش کرسکتے ہیں۔
سائی نرجی کب آتی ہے….؟
جب ٹیم بنتی ہے اور ٹیم کب بنتی ہے؟ ….
جب آپ کے اندر حوصلہ ہو دوسروں کو برداشت کرنے کا۔ دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے ، دوسروں کے مزاج کو سمجھنے کا، ان کی غلطیوں کو برداشت کرنے کا۔
دوسروں کے نکتہ نظر ، مقاصد اور دوسروں کی ترجیحات کو سمجھنے کا حوصلہ آپ میں ہوتو سائی نرجی بنتی ہے۔
کامیاب اور پُراثر لوگ یہ جانتے ہیں کہ ترقی ہمیشہ ایک ٹیم کی شکل میں ہوتی ہے۔ اکیلے ترقی کرنا آسان نہیں۔ کسی مقصد کے حصول کے لیے ٹیم بنالینا ایک بہت بڑی صلاحیت ہے۔
اگر آپ اپنے مقصد کے حصول کے لئے لوگوں کو ساتھ جوڑ سکتےہیں۔ ان لوگوں کے مزاج کو سمجھتے ہوئے ان کی ضرورتوں کو اپنے ساتھ جوڑ لیتے ہیں۔ ایسی صورت میں آپ ایک لیڈر بن جاتے ہیں اور کام کو اگلے درجے میں لے کرچلتےہیں۔
اتحاد عمل اور ہم آہنگی کی اعلیٰ ترین شکلیں انسان کے چاروں منفرد اثاثوں کی طرف توجہ مرکز کرتی ہیں۔ یہ جیت کا مقصد اور ہم احساسی پر مبنی روابط کی مہارت ہوتی ہیں۔ اس کے نتائج کراماتی نوعیت کے ہوتے ہیں، ہم نئے متبادلات تخلیق کرتے ہیں۔ ایسے متبادلات جن کا پہلے کوئی وجود ہینہیں ہوتا۔
سائی نرجی دراصل اصولوں پر مبنی لیڈر شب کا نچوڑ ہے ۔ یہ لوگوں میں پنہاں بےپناہ طاقت کو سامنے لاتا ہے اور انہیں آپس میں مجتمع کرتا ہے۔ یہ باقی تمام عادات کے مجموعے کا اظہار بھی ہے ۔ہم نے ابھی تک جتنی بھی عادتیں پڑھی ہیں یعنی پانچ عادتوں کی مشق ہمیں اس چھٹی عادت سائنرجی یعنی اتحاد عمل کے لیے تیار کرتی ہے۔
سائی نرجی یا اتحاد عمل کیا ہے….؟
اگر آسان لفظوں میں اس کی تعریف کی جائے تو ارسطو کے مطابق اس کا مطلب ہے کہ
"the whole is greater than the sum of its parts.”
~ً Aristotle
‘‘اتحاد کا نتیجہ عناصر کے مجموعہ سے بڑا ہوتا ہے’’۔
اس کا مطلب ہے کہ وہ تعلق جو مختلف حصوں کا آپس میں ہوتا ہے وہ بذات خود اپنے اندر ایک حصہ ہوتا ہے اور یہ محض ایک حصہ نہیں ہوتا بلکہ یہ سب سے زیادہ عمل انگیز، سب سے زیادہ طاقتور، سب سے زیادہ متحد کرنے والا اور سب سے زیادہ جذبہ پیدا کرنے والا حصہ ہوتا ہے۔
کوئی بھی تخلیقی عمل ایک خوفزدہ کرنے والا عمل بھی ہوتا ہے اس لیے کہ آپ کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ کیا ہونے والا ہے اور آپ کا عمل آپ کو کہاں لے جائے گا، آپ نہیں جانتے کہ آگے چل کر آپ کو کن نئے چیلنجوں اور خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خطرات کو مول لینے کے لیے ایک اندرونی تحفظ درکار ہوتا ہے ۔ اس کی وجہ سے مہم جوئی کا جذبہ، دریافت کا جذبہ اور تخلیق کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔
اس کے لیے آپ کو آرام و سکون اور سہولتوں کو چھوڑنا پڑتا ہے اور بالکل نئے اور نامعلوم خطرات سے بھرے جنگل میں اترنا پڑتا ہے۔ آپ ایک راستہ ڈھونڈنے والے مہم جو، کھوجی اور راہبر بن جاتے ہیں۔ آپ نئے ممکنات، علاقوں اور دنیاؤں کو دریافت کرتے ہیں تاکہ دوسرے لوگ آپ کی تقلید کرسکیں۔
سائی نرجی یعنی تخلیقی تعاون اور اتحادِ عمل فطرت میں ہر جگہ ہے۔ اگر آپ ایک ساتھ دو پودے لگاتے ہیں تو ان کی جڑیں آپس میں مدغم ہوجاتی ہیں اور مٹی کے معیار کو بہتر بنا دیتی ہیں اور دونوں پودوں کی نشو و نما بہتر طور پرہوتی ہے۔ بنسبت ان پودوں کے جنہیں علیحدہ علیحدہ لگایا جاتا ہے، اگر آپ لکڑی کے دو ٹکڑوں کو اکٹھا باندھ دیں تو وہ دونوں مل کر اس بوجھ سے کہیں زیادہ اٹھالیں گے جو علیحدہ علیحدہ دونوں ٹکڑے اٹھا سکتے ہیں۔ یہی ہے اتحاد کا نتیجہ جو عناصر کے مجموعہ سے بڑا ہوتا ہے، اس اصول میں ایک جمع ایک دو نہیں گیارہہوتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ فطرت سے سیکھے گئے سائی نرجی کے اس اصولوں کو اپنے سماجی تعلقات میں کس طرح اپنایا جائے….؟
ہماری گھریلو زندگی سائی نرجی کی پریکٹس کے بہت سے مواقع فراہم کرتی ہے۔ ایک عورت اور مرد مل کر ایک بچے کو اس دنیا میں لاتے ہیں یہ اتحاد عمل یعنی سائی نرجی کا شاہکار ہی تو ہے۔ سائی نرجی کا نچوڑ یہ ہے کہ اختلافات کی قدر کی جائے، ان کو عزت دی جائے، ان سے طاقت حاصل کی جائے اور کمزوریوں پر قابو پایا جائے۔
ہم سب عورت اور مرد کے طبعی و جسمانی فرق کو سمجھتے ہیں، طبعی فرق کی وجہ سے ہی دو لوگ قدرتی اور فطری ضرورت کو پورا کرتے ہوئے نئی زندگی تخلیق کرتے ہیں۔ اسی طرح دو لوگوں میں سماجی، ذہنی اور جذباتی فرق بھی ہوتے ہیں۔ کیا زندگی کو نئی، بہتر اور زبردست قسم کی صورتحال میں ڈھالنے کے لیے یہ فرق استعمال میں نہیں لائے جاسکتے….؟ ایسی صورتحال جو باہمی اطمینان کا ماحول پیدا کرسکے، جو لوگوں میں حوصلہ پیدا کرنے، ان کی قدر بڑھانے کا باعث بن سکے جو لوگوں میں بالغ نظری پیدا کرے اور انہیں خود مختاری بخشے اور پھر درجہ بہ درجہ انہیں باہمی انحصار کی طرف لے جاسکے….؟
جب آپ سائی نرجی پر مبنی تعلق قائم کرتے ہیں تو دوسرے معنوں میں آپ خود اپنے لیے نئے اظہار اور متبادل راہ کے مواقع پیدا کرتے ہیں۔
آپ اس یقین کے ساتھ کام شروع کرتے ہیں کہ دو فریقین میں زیادہ بصیرت پیدا ہوگی اور باہمی سیکھنے سے یہ بصیرت اور جذبہ مزید بصیرت، ہنرمندی اور ترقی کی طرف لے جائے گا۔
غیر موثر لوگ اپنی ساری زندگی غیر استعمال شدہ صلاحیتوں کے ساتھ گزار دیتے ہیں اور سائینرجی کا صحیح تجربہ انہیں کبھی زندگی میں ہو ہی نہیں پاتا۔ ہوتا ہے تو بس معمولی سا اور کبھی کبھار۔ مثلاً کسی کھیل میں جہاں انہیں کچھ عرصے کے لیے صحیح معنوں میں ٹیم اسپرٹ کا تجربہ ہوا ہو یا کبھی وہ ہنگامی صورتحال میں گھر گئے ہوں اور ان کے ساتھ لوگوں نے اعلیٰ تعاون کا مظاہرہ کیا ہو، یا پھر اپنی انا اور تکبر کو پس پشت ڈال کر انہوں نے کسی کی مدد کی ہو، جان بچائی ہو اور کسی کی مشکل کا حل نکالا ہو۔
تقریباً تمام تخلیقی کوششیں عموما غیر متوقع نتائج کی حامل ہوتی ہے۔ اکثر یہ مشکوک لگتی ہیں، آر یا پار کی کیفیت، جیسے کسی بات کا تُکّا لگانا کہ کبھی لگ گیا کبھی نہ لگا۔ جب تک لوگوں میں اس غیریقینی کیفیت برداشت کرنے کا حوصلہ نہ ہو اور وہ اپنے تحفظ کا احساس اپنی اندرونی اقدار اور اصولوں سے حاصل نہ کرتے ہوں، انہیں تخلیقی کوششیں بہت خوفزدہ اور ناخوش کردیتی ہیں۔
عام طور پر شروع میں ایک لمحہ ایسا ہوتا ہے جس کے لیے بڑی ہمت درکار ہوتی ہے۔ جب آپ یہ عمل شروع کرتے ہیں تو پھر دوسرے بھی اعتماد اور ایمانداری کے ساتھ کھلنے لگتے ہیں اور پھر سائی نرجی (اتحادِ عمل/ تخلیقی تعاون) کا پروسس شروع ہوجاتا ہے ا ور زیادہ سے زیادہ تخلیقی صورت اختیار کرتا چلا جاتا ہے ۔ اس کا انجام ایسی بصیرت اور منصوبوں کی صورت میں ہوتا ہے کہ جس کا ابتداء میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
سائی نرجی کے اس عمل میں ایک وقت ایسا آتا ہےجب لوگوں کے درمیان ابلاغ کے لیے الفاظ کی اہمیت نہیں رہتی وہ ایک دوسرے کا مطلب بغیر کہے فوراً سمجھ لیتے ہیں۔ اس مرحلے کے بعد بصیرت کی نئی دنیائیں جنم لیتی ہیں، نئے تناظرPerspective سامنے آتے ہیں، نئی انقلابی فکر Paradigm اپنے اندر نئے امکانات لے کر آتی ہے اور پھر نئے متبادلاتکھلتےہیں ۔
سائی نرجی ولولہ انگیزی، تحریک اور جوش پیدا کرتی ہے۔
مندرجہ ذیل ڈایاگرام وضاحت کرتا ہے کہ باہمی روابط کے مختلف درجات میں قریبی اعتماد کس طرح ہم ربط ہوتا ہے۔
اگر تعاون اور اعتماد نہ ہو تو رابطہ بھی انتہائی نچلے درجے کا ہوتا ہے۔ اس طرح کے روابط میں دفاعی رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اپنے تحفظ کی کوشش کی جاتی ہے اور اکثر قانونی زبان استعمال کی جاتی ہے تاکہ اپنا پلا بھاری رکھا جاسکے اور اگر حالات ناگوار ہوجائیں تو آسانی سے بچایا جاسکے۔ اس طرح کے ابلاغ صرف جیت/ہار اور یا ہار ہار یعنی اپنی جیت کے لیے دوسروں کی ، یا پھر اگر میری ہار ہوتو دوسرا بھی نہ جیتے جیسی سوچ ہی پیدا ۛۛۛکرتی ہے ۔ یہ بالکل موثر نہیں ہوتا، اس میں P/PC توازن بالکل نہیں ہوتا اور یہ انسان کو مزید دفاعی اور خود غرضی پر مبنی رویے کی طرف لے جاتا ہے۔
درمیانی درجے پر محض تعظیمی روابط ہوتے ہیں۔ اس سطح پر کافی حد تک بالغ نظر لوگ آپس میں رابطہ کرتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کا احترام تو کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ شعوری طور پر کسی ناموافق صورتحال سے بچنے کی کوشش بھی کرتے رہتے ہیں، لہٰذا ان کا تعلق مہذبانہ تو ہوتا ہے لیکن اس میں ایک دوسرے کے احساس کو نہیں سمجھا جاتا۔ یہ لوگ طاہری سطح پر تو ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں لیکن یہ گہرائی کے ساتھ ایک دوسرے کے زاویہ نظر اور نظریات کو پرکھنے کی کوشش نہیں کرتے جس کی وجہ سے ان کے تعلقات میں نئے مواقع پیدا نہیں ہوتے۔
ا س طرح کا ابلاغ زیادہ تر ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جو اپنی اپنی جگہ خودمختار ہوں، بعض اوقات یہ ایک دوسرے پر انحصار پر یقین رکھنے والے لوگوں کے درمیان بھی ہوتا ہے لیکن اس میں تخلیقی ممکنات کی کھڑکیاں نہیں کھلتیں، زیادہ تر سمجھوتہ ہی ہوتا ہے۔ سمجھوتے کا مطلب ایک جمع ایک برابر ہے ڈیڑھ 1+1=1.5 ، یعنی دونوں فریقین کچھ کھوتے ہیں اور کچھ پاتے ہیں۔
تعلق کا اعلٰی درجہ سائی نرجی ہے ، جس کا مطلب ایک جمع ایک دو، گیارہ اور گیارہ ہزار کے برابر بھی ہوسکتا ہے۔ اعلیٰ درجہ کے اعتماد اور تعاون پر مبنی یہ تعلق ایسے حل پیش کرتا ہے کہ جو پہلے تمام پیش کیے گئے نتائج کی نسبت بہتر ہوتے ہیں ۔ یہ اعتماد و تعاون تخلیقی مواقع فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح ایک منفرد قسم کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے جو سب کو مطمئن کرسکتا ہے، جیت جیت یعنی سب کی جیت۔ چاہے یہ مختصر ہی کیوں نہ ہو، پھر بھی اس میں P/PC توازن قائم رہتا ہے۔
اس بات کا بہتر اندازہ لگانے کے لیے کہ ہمارے باہمی روابط کے درجات ہمارے باہمی انحصار کو کس طرح مزید پر اثر بناتے ہیں، مندرجہ ذیل واقعہ دیکھیں:
چھٹیاں شروع ہونے والی ہیں اور شوہر اپنی فیملی کو لے کر کسی خوشگوار مقام پر سیر و تفریح کے لیے جانا چاہتا ہے لیکن اس کی بیوی ان چھٹیوں میں اپنی بیمار ماں کے پاس جاکر اس کی تیمارداری کرنا چاہتی ہے۔ یہاں میاں بیوی کے درمیان اختلافات ایک انتہائی بڑے منفی تجربے کی صورت اختیار کرسکتے ہیں۔ اس اختلاف رائے کا نتیجہ کسی نہ کسی سمجھوتے کی صورت میں ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ علیحدہ علیحدہ اپنی ترجیحات پر عمل کریں۔ خاوند بچوں کو لے کر سیر و تفریح کے لیے چلا جائے اور بیوی اپنی ماں کے پاس چلی جائے اور وہ دونوں اپنے فیصلے پر راضی خوشی بھی ہوں، لیکن ساتھ ساتھ دونوں کو احساس جرم بھی ہوگا۔ بچوں کو بھی اس چیز کا احساس ہوگا اور شاید وہ اپنی چھٹیوں سے لطف اندوز نہ ہوسکیں۔
ہوسکتا ہے کہ شوہر بیوی کی بات مان لے اور سیر تفریح کے بجائے بچوں کے ساتھ بیوی کی ماں کے پاس پہنچ جائے لیکن اسے بچوں کی چھٹیاں خراب ہونے کا ملال رہے گا۔ اگر بیوی اپنے شوہر کی بات مان لے لیکن وہ مستقل اپنی ماں کے بارے ہی میں پریشان رہےگی۔ آخرکار وہ جس بھی سمجھوتے پر پہنچیں گے ، آنے والے کئی سالوں تک اس کاذکر ہوتا رہے گا اور ایک دوسرے کی بے حسی، نظر اندازی اور غلط فیصلہ کا رونا رویا جائے گا۔ بات بات پر جھگڑے کی بنیاد بنا رہے گا۔
یہ اختلاف رائے میاں اور بیوی میں کشیدگی پیدا کرسکتا ہے اور ان کے تعلقات میں مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے یہی صورتحال انہیں ایک دوسرے کے اور قریب لانے کا باعث بھی بن جائے اور تعلقات کی ایک مزید اعلیٰ سطح مہیاہوسکے۔
اگر انہوں نے اپنے اندر باہمی انحصار کی پر اثر عادات پیدا کر رکھی ہیں تو پھر وہ اپنے اختلافات کو بالکل ایک نئے زاویہ نظر سے حل کرنے کی کوشش کریں گے۔
چونکہ ان کے جذباتی اکاؤنٹ میں بڑی رقمیں جمع ہیں لہٰذا ان کے درمیان بہت زیادہ بھروسہ اور اعتماد ہے اور واضح ابلاغ ہے چونکہ وہ جیت/جیت میں سوچتے ہیں لہٰذا ان کا تیسرے متبادل میں یقین ہے۔ ایک ایسا متبادل جو دونوں کے لیے فائدہ مند ہو اور اس حل سے بہتر ہو جو ان دونوں نے علیحدہ علیحدہ تجویز کیے تھے۔ چونکہ وہ ایک دوسرے کو احساس اور توجہ کےساتھ سنتے ہیں اور پہلے دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں لہٰذا ان کے درمیان ان کی اقدار اور ترجیحات کی جامع تصویر قائم رہتی ہے اور انہیں بہتر فیصلہ کرنے میں مدد دیتی ہے۔ ان سب کا مجموعہ یعنی بھرا ہوا جذباتی اکاؤنٹ، جیت جیت کی سوچ، اور پہلے دوسرے کو سمجھنے کی کوشش، سائی نرجی کے لیے ایک آئیڈیل صورتحال پیدا کردیتا ہے۔
اسے ‘‘درمیانی راہ’’ کہتے ہیں۔ یہاں ‘‘درمیانی راہ ’’ کا مطلب سمجھوتہ نہیں ہے، اس کا مطلب ہے اعلیٰ، جیسے کہ تکون کا اوپر والا زاویہ۔
درمیانی اور اعلیٰ راہ کی تلاش میں دونوں میاں بیوی کو احساس ہوتا ہے کہ ان کی محبت اور ان کا تعلق ان کے اتحاد عمل کا حصہ ہیں۔ وہ اپنے اندر اتحاد عمل یعنی سائی نرجی پیدا کرتے ہیں۔ وہ اس وقت تبادلہ خیال کرتے ہیں جب تک کہ وہ کسی ایسے حل تک نہیں پہنچ جاتے جو دونوں کو مطمئن کرسکے۔ یہ ان کی اپنی اپنی ترجیحات کی نسبت بہتر ہے۔ یہ اتحاد عمل پر مبنی حل ہے جو کہ P اور PC دونوں کو تقویت بخشتا ہے۔
تیسرے متبادل، درمیانی راہ کی تخلیق دراصل زاویہ نظر کی ایک بڑی تبدیلی ہے اور یہ تبدیلی دو شاخوں میں منقسم ہونے کے بجائے نئے ممکنات کی طرف ہے۔ لیکن نتائج میں فرق دیکھیے !
جو لوگ باہمی انحصار میں رہ کر فیصلے کرتے ہیں وہ کس قدر منفی توانائی خرچ کرتے ہیں۔ دوسروں کو ان کی غلطیوں کا احساس دلانے میں ، سیاسی چالوں میں، مقابلہ بازی میں، مخالفت میں، اپنا دفاع کرنے میں کتنا وقت برباد کیا جاتا ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ آپ ڈھلان کی طرف گاڑی چلا رہے ہوں اور ایک پاؤں اسپیڈ بڑھا رہا ہو اور دوسرا پاؤں بریک دبا رہا ہو!…. اور بجائے بریک پر سے پاؤں ہٹانے کے بہت سے لوگ اسپیڈ بڑھانے میں لگے رہتے ہیں۔ ان کا زیادہ زور دباؤ ڈالنے پر ہوتا ، خطابت کے زور پر، منطق اور دلائل کے زور پر اپنی پوزیشن مستحکم کرنے پر ہوتا ہے۔
مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ دوسروں پر بہت زیادہ انحصار کرنے والے لوگ باہمی انحصار میں کامیاب ہونے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کا انحصار یا تو اپنی پوزیشن اور رتبہ پر ہوتا ہے اور ان کا مطمع نظر جیت/ہار ہوتا ہے۔ یا پھر ان کا انحصار اس خواہش پر ہوتا ہے کہ وہ دوسروں میں مقبول ہوسکیں۔ لہٰذا انہیں ہار/جیت بھی قبول ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ باہمی جیت کی تکنیک کی بات تو کریں لیکن وہ سنجیدگی سے سننا نہیں چاہتے، وہ تو بس چالاکی سے ساز باز اور جوڑ توڑ کرکے کام نکلوانا چاہتے ہیں اور اس ماحول میں سائی نرجی یعنی اتحاد عمل اور تخلیقی تعاون نہیں پنپ سکتا۔
تحفظات اور خدشات میں مبتلا لوگ چاہتے ہیں کہ حقائق ان کے زاویہ نظر کے مطابق ہی ہوں۔ دوسروں کی نقالی کرنا ان کی بہت بڑی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسروں کی سوچ کو وہ اپنی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ وہ اس بات کو محسوس نہیں کرتے کہ تعلقات کی اصل مظبوطی دوسروں کا نقطہ نظر معلوم کرنے میں مضمر ہوتی ہے۔ ایک جیسا نقطہ نظر ہونا، یکتائی نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ اتحاد ہوتا ہے۔ اتحاد عمل کا نچوڑ یہ ہوتا ہے کہ اختلاف رائے کی قدر کی جائے۔
آپس میں اتحاد عمل ((Synergy قائم کرنے کی کلید یہ ہے کہ پہلے اپنے اندر اتحادعمل پیدا کیا جائے۔ لوگوں کے درمیان اتحادعمل کا نچوڑ پہلی تین عادات کے اصولوں میں ہے۔ یہ ہمیں اندرونی تحفظ مہیا کرتی ہے جو کہ لوگوں کے ساتھ کھلنےا ور پراعتماد ہونے کے لیے ضروری ہے۔
جب کسی شخص کی اپنے دائیں دماغ کی وجدانی، تخلیقی اور بصری `قوت تک رسائی ہو اور وہ بیک وقت بائیں دماغ کی تجرباتی، منطقی اور زبانی صفات پر بھی دسترس رکھتا ہو تو پھر اس کا مطلب ہوتا ہے کہ پورا دماغ کام کر رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہمارے دماغ میں ایک ذہنی وروحانی سائی نرجی Synergy پیدا ہورہی ہوتی ہے اور یہ خصوصیت زندگی کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے بہترین ذریعہ Tool ہے۔ کیونکہ زندگی محض منطق کا نام نہیں بلکہ یہ جذبات کا نام بھی ہے۔
اختلافات کی قدر کرنا سائی نرجی کا نچوڑ ہے۔ لوگوں کے درمیان ذہنی ، جذباتی اور نفسیاتی اختلافات ہوتے رہتے ہیں۔ ان اختلافات کو سمجھنے کی بنیادی کلید یہ ہے کہ یہ ادراک کیا جائے کہ لوگ دنیا کو اس طرح نہیں دیکھتے جیسے کہ وہ حقیقتاً ہے بلکہ ویسے دیکھتے ہیں جیسا کہ وہ خود سوچتے ہیں۔
اگر میرا یہی زاویہ نظر رہا تو پھر میں کبھی بھی باہمی انحصار نہیں پاسکوں گابلکہ اپنے اوپر بھی انحصار نہیں کرسکوں گا۔ میرے اپنے زاویہ نظر کی مشروطیت ہی مجھے محدود کیے رکھے گی۔
جو شخص صحیح معنوں میں پُر اثر ہوتا ہے اس میں عجز و انکسار اور احترام ہوتا ہے۔ وہ اپنے ادراک کی حدود کو بھی جانتا ہے اور دوسروں کے دل و دماغ میں موجود بےبہا وسائل کا بھی قدر دان ہوتا ہے۔ ایسا شخص اختلافات کی قدر کرتا ہے کیوں کہ ان اختلافات کو سمجھنے سے اس کے علم میں اضافہ ہوتا ہے، حقیقت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ جب ہم صرف اپنے تجربات تک محدود ہوجاتے ہیں تو پھر ہم بیرونی معلومات کی کمی کے مسائل میں پھنسجاتے ہیں ۔
کیا یہ منطقی بات ہے کہ دو لوگوں کا کسی بات پر اختلاف رائے ہو اور دونوں صحیح ہوں….؟
یہ منطقی نہیں یہ نفسیاتی ہے اور یہ بالکل حقیقت ہے۔
ہم پہلے بھی تجربہ کرچکے ہیں کہ ہم دونوں ایک ہی تصویر دیکھ رہے ہی ، اس تصویر میں آپ نوجوان دوشیزہ دیکھتے ہیں، اور میں بوڑھی عورت دیکھتا ہوں اور ہم دونوں صحیح ہیں۔ ہم دونوں ایک ہی طرح کی سیاہ لکیریں اور ان کے درمیان سفید جگہ دیکھ رہے ہیں۔ لیکن ہم انہیں مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں اس لیے کہ ہم اسے اپنی اپنی سوچ (نفسیات)کے انداز کے مطابق دیکھ رہے ہیں۔
جب تک ہم اپنے ادراک کے اختلافات کو نہیں سمجھیں گے، تب تک ہم ایک دوسرے کی قدر نہیں کریں گے۔
میں صرف بوڑھی عورت دیکھ رہا ہوں مگر مجھے یہ اندازہ ہوگا کہ آپ کچھ اور دیکھ رہے ہیں اور میں آپ کے زاویہ نظر کی قدر کرتا ہوں، آپ کے ادراک کی قدر کرتا ہوں۔ جب مجھے ادراک کے فرق کا احساس ہوجاتا ہے تو میں کہتا ہوں ‘‘ٹھیک ہے ، آپ اسے مختلف انداز میں دیکھتے ہو! تو مجھے سمجھاؤ کہ آپ کیا دیکھ رہے ہو۔’’
اگر دو افراد ایک ہی جیسی رائے دے رہے ہوں تو ایک غیر ضروری ہوجاتی ہے۔ میں ایسے شخص سے بات چیت میں دلچسپی نہیں رکھنا چاہوں گا جو مجھے وہی بات بتائے جو میں پہلے سے جانتا ہوں۔ میں ان سے بات کرنا چاہوں گا جو مجھ سے مختلف سوچ ، علم رکھتے ہوں گے۔
میں اس اختلاف رائے کا قدر دان ہوں۔ ایسا کرنے سے ناصرف یہ کہ میں اپنے علم اور آگاہی میں اضافہ کرتا ہوں بلکہ میں آپ کی بات کو بھی تسلیم کرتا ہوں اور آپ کو نفسیاتی تعاون فراہم کرتا ہوں۔ دراصل میں بریک سے پاؤں اٹھالیتا ہوں اور خرچ ہونے والی اپنی اس منفی انرجی کو خارج کر دینے کا موقع فراہم کرتا ہوں جو آپ خواہ مخواہ اپنی پوزیشن کو درست ثابت کرنے میں خرچ کر رہے تھے۔ اس طرح میں سائی نرجی کے لیے ماحول قائم کرتا ہوں۔
باہمی انحصار کی صورتحال میں سائی نرجی ایسی منفی طاقتوں سے نپٹنے کے لیے مددگار ہوتی ہے، جو ترقی اور تبدیلی کے خلاف کام کر رہی ہوتی ہیں۔
ایک سماجی ماہر کرٹ لیون Kurt Lewin نے Force Field Analysis نامی ایک ماڈل تیار کیا ، اس ماڈل میں انہوں نے وضاحت کی کہ کسی بھی کارکردگی کی موجودہ سطح دراصل ایک توازن کا نتیجہ ہوتا ہے اور یہ ڈرائیونگ فورس Driving Forceیعنی توازن چلانے، اکسانے اور حوصلہ و ہمت دینے والی قوتوں اور ریسٹریننگ فورس Restraining Force یعنی مزاحمت، رکاوٹ ڈالنے اور حوصلہ شکنی کرنے والی قوتوں کے درمیان ہوتا ہے۔
ہمت اور حوصلہ افزائی کرنے والی قوتیں (ڈرائیونگ فورس )اوپر کی طرف اٹھاتی ہیں اور رکاوٹ ڈالنے والی یا حوصلہ شکنی کرنے والی قوتیں (ریسٹریننگ فورس )نیچے کی طرف کھینچتی ہیں۔
حوصلہ افزاء قوتیں (ڈرائیونگ فورس ) عام طور پر مثبت، مناسب، معقول ، منطقی اور کفائیت شعار ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس رکاوٹ ڈالنے والی قوتیں (ریسٹریننگ فورس ) عام طور پر منفی، جذباتی، غیر منطقی ، غیر شعوری اور سماجی/ نفسیاتی ہوتی ہیں۔ دونوں طرح کی قوتیں حقیقی ہوتی ہیں اور تبدیلی سے نمٹنے کے لیے دونوں کو استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہیں۔
مثال کے طور پر آپ کے خاندان میں ایک خاص طرح کی ‘‘فضا’’ قائم ہے۔ مثبت اور منفی یا دونوں طرح کے تعلقات ایک خاص سطح پر موجود ہیں۔ جذبات کے اظہار میں محتاط یا غیر محتاط ہونا۔ خاندان کے افراد کے درمیان گفتگو میں ایک دوسرے کے احترام کا بہت خیال رکھا جانا یا احترام بالکل نہیں رکھنا۔
ہوسکتا ہے کہ آپ اس ماحول کو تبدیل کرنا چاہیں۔ ممکن ہے آپ ایسی فضا قائم کرنا چاہیں کہ جو زیادہ مثبت ہو، زیادہ باہمی احترام پر مبنی، کھلی اور پراعتماد ہو۔ ایسا کرنے کےلیے آپ کی منطقی وجوہات و دلائل ہی وہ ڈرائیونگ فورس ہیں جو اس فضا کو قائم کرنے میں مددگار ہوں گے۔
لیکن محض ان قوتوں کو بڑھانا کافی نہیں ہے۔ کچھ قوتیں آپ کی کوششوں کے خلاف کام کریں گی۔ بچوں کے درمیان مسابقتی جذبہ، گھریلو زندگی کے بارے میں آپ اور آپ کے شریک حیات کی مختلف یا متضاد سوچیں، خاندان کے ماحول میں پختہ ہوجانے والی عادتیں اور آپ کے وقت اور توانائی پر دوسری ذمہ داریاں اور مطالبات۔
ہوسکتا ہے کہ ڈرائیونگ فورس کو بڑھانے سے کچھ عرصہ کے لیے آپ مطلوبہ نتائج حاصل کرسکیں لیکن جب تک ریسٹریننگ فورس موجود ہیں یہ کام مشکل ہی رہے گا۔ یہ بالکل اس طرح ہے کہ جیسے آپ کسی اسپرنگ کو دبا رہے ہوں۔ آپ جتنا زور سے اسے دباتے ہیں اسی قدر زور سے واپس آتا ہے۔ اس طرح مسلسل زور آزمائی کے بعد احساس ہوگا کہ لوگ جیسے تھے ویسے ہی ہیں اور یہ کہ انہیں تبدیل کرنا بہت مشکل ہے۔
لیکن جب آپ سائی نرجی کو متعارف کرواتے ہیں تو آپ عادت نمبر 4 کا جذبہ، عادت نمبر 5 کی مہارت اور عادت نمبر 6 کا تعلق، سب ملا کر ریسٹریننگ فورس پر براہ راست استعمال کرتے ہیں۔ آپ ایسا ماحول پیدا کردیتے ہیں جہاں ان ریسٹریننگ فورسزکے بارے میں کھل کر بات کرسکتے ہیں۔آپ انہیں غیر منجمد کرکے ، جمود سے آزاد کرتے ہیں اور ایک نئی بصیرت پیدا کر لیتے ہیں جو کہ ان ریسٹریننگ فورس کو ڈرائیونگ فورس میں تبدیل کردیتی ہے۔
آپ مسائل کے حل کے لیے لوگوں کو اس میں شامل کرلیتے ہیں اور اس طرح شامل کرتے ہیں کہ انہیں یہ مسئلہ اپنا اپنا لگنے لگتا ہے اور سب مل کر اس کو حل کرنے میں لگ جاتے ہیں۔
نتائج کے طور پر نئے اور مشترکہ اہداف تخلیق پاتے ہیں اور یہ سب مثبت انداز میں ڈرائیونگ فورس یعنی اوپر کو اٹھانے والی حوصلہ افزاء قوت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
ماحولیات میں ایکو لوجی کا لفظ بنیادی طور پر قدرت میں سائی نرجی یعنی اتحادِ عمل اور مطابقت پزیدی کو بیان کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ قدرت کے نظام میں ہر چیز کا تعلق ہر دوسری چیز سے ہے۔ اسی طرح باہمی تعلقات میں ہی تخلیقی قوتیں پھلتی پھولتی اور بڑھتی ہیں، بالکل اسی طرح کہ جیسے 7 عادات کی اصل طاقت آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلق میں ہےانفرادی طور پر یہ عادات اپنے اندر اتنی طاقت نہیں رکھتیں۔
خاندان ، کمپنی، اداروں یا آرگنائزیشن میں بھی سائی نرجی پر مبنی ماحول دراصل مختلف حصوں کے آپس میں تعلق کی وجہ ہی سے وجود میں آتا ہے۔ وابستگی جس قدر حقیقی ہوگی، اسی قدر ہر کسی کی تخلیقی صلاحیتیں کھل کر سامنے آئیں گے ۔
سائی نرجی ہمیشہ کام کرتی ہے۔
جب آپ دونوں متبادلات دیکھ رہے ہوں یعنی اپنا اور دوسرے کا نقطہ نظر…. تو پھر آپ سائی نرجی پر مبنی تیسرا متبادل ‘‘درمیانی راہ’’بھی دیکھ سکتےہیں۔ یاد رہے تیسرا متبادل ہمیشہ موجود ہوتا ہے اور اگر آپ جیت/جیت کے فلسفے کے ساتھ کام کریں اور صحیح معنوں میں دوسروں کو سمجھنے کی کوشش کریں تو آپ کو ایسا حل مل جاتا ہے جو سب کے لیے فائدہ مند ہوگا۔
درج ذیل نکات پر عمل کیجیے:
کسی ایسے فرد کو چُنیں جو عام طور پر آپ کے برعکس مختلف انداز میں چیزوں کو دیکھتا ہے۔ ایسے ممکنہ حالات کے بارے میں سوچیں جن کے ذریعے آپ ان اختلافات کو عبور اور تیسرے متبادلات کو حاصل کرسکیں۔ اس کے لیے آپ اپنے کسی موجود منصوبہ یا مسئلے پر اس کی رائے لیں اور اس کی رائے کے اختلافات کی قدر کریں۔
ایسے لوگوں کی ایک لسٹ بنائیں، جو آپ کو ذہنی طور پر پریشان کرتے ہوں۔ وہ لوگ جو آپ سے مختلف آراء رکھتے ہیں۔
کیا آپ ان کےساتھ سائی نرجی میں شامل ہوسکتےہیں….؟ یہ تبھی ممکن ہوسکتا ہے کہ اگر خود آپ میں اندرونی احساس تحفظ موجود ہو اور آپ اختلافات کی قدر کرنا جانتے ہوں….؟
کسی ایسے مواقع کی نشاندہی کریں کہ جس میں آپ زیادہ ٹیم ورک اور سائی نرجی چاہتے ہیں۔ سائی نرجیکو حاصل کرنے اور اُسے تقویت دینے کےلیے کیسے حالات درکار ہوں گے….؟ اور آپ ان حالات کو پیدا کرنے کے لیے کیا کرسکتے ہیں۔
آئندہ جب آپ کی کسی کے ساتھ ناموافقت یااختلاف رائے پیدا ہو اور صورتحال تنازع و تصادم کی صورت اختیار کر لے تو اس شخص کے درپردہ خیالات کو سمجھنے کی کوشش کریں اور پھر اس شخص کے خیالات کو اس کے سامنے ایک تخلیقی اور باہمی طور پر فائدہ مند انداز سے پیش کریں ۔
ترجمہ: ہرمیس
(جاری ہے)