دلچسپ، عجیب و غریب اور حیرت انگیز واقعات و آثار سائنس جن کی حقیقت سے آج تک پردہ نہ اُٹھا سکی…..
موجودہ دور میں انسان سائنسی ترقی کی بدولت کہکشانی نظام سے روشناس ہوچکا ہے، سمندر کی تہہ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ زمین کے بطن میں اور ستاروں سے آگے نئے جہانوں کی تلاش کے منصوبے بنارہا ہے۔ یوں تو سائنس نے انسان کے سامنے کائنات کے حقائق کھول کر رکھ دیے ہیں لیکن ہمارے اردگرد اب بھی بہت سے ایسے راز پوشیدہ ہیں جن سے آج تک پردہ نہیں اُٹھایا جاسکا ہے۔ آج بھی اس کرۂ ارض پر بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں اور کئی آثار ایسے موجود ہیں جو صدیوں سے انسانی عقل کے لیے حیرت کا باعث بنے ہوئے ہیں اور جن کے متعلق سائنس سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ ایسے ہی کچھ عجیب وغریب اور حیرت انگیز واقعات یا آ ثار کا تذکرہ ہم آپ کے سامنے ہرماہ پیش کریں گے….
کششِ ثقل سے آزاد… انسان
کیا آپ نے کبھی پانی چڑھائی کی جانب بہتے ، یا کسی شے کو ڈھلوان کی بجائے چڑھائی کی جانب لڑھکتے دیکھا ہے….؟ دنیا کے کئی مقامات ایسے ہیں جہاں کششِ تقل کم ہوجاتی ہے اور بعض انسانوں میں بھی یہ صلاحیت دیکھی گئی ہے!
گزشتہ اقساط میں ہم نے کرۂارض مقامات کا تذکرہ پیش کیا تھا ہیں جہاں کششِ.ثقل کی بے ضابطگی پائی جاتی ہے ۔ ارضیات دان اب تک اس کی وجہ معلوم نہیں کرسکے ہیں۔ اس ماہ ہم چندایسےانسانوں کا تذکرہ بیان کررہے ہیں جنہوں نے کششِ ثقل کو شکست دی ….!
قدیم کتابوں میں ایسے تذکرے ملتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ بعض انسانوں کے پاس ایسی صلاحیتیں تھیں جس کے ذریعہ وہ کشش ثقل کو تسخیر کرلیتے تھے۔ مثلاً اہرامِ مصر کے تعمیرکے متعلق ایک نظریہ یہ بھی مشہور ہے کہ اس کے معمار کشش تقل کی تسخیر کا علم رکھتے تھے اور ٹنوں وزنی پتھروں کو ہوا میں معلق کرکے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے تھے۔
اسی طرح حضرت سلیمانؑ کے تذکرے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ کو کشش ثقل سے آزادی پر پوری دسترس حاصل تھی ۔ آپؑ کا تخت ہوا میں تیرتا تھا۔ آپؑ کے دربار میں ایسے افراد موجودتھے جنہوں نے ملکہ سبا کا تخت ہزاروں میل کے فاصلے سے پلک چھپکنے سے بھی کم عرصے میں حضرت سلیمانؑ کے دربار میں حاضر کردیا۔
اسی طرح اولیائے اکرامِ کے بھی بے شمار واقعات اس بات کا ثبو ت پیش کرتے ہیں کہ انہیں بھی کششِ ثقل پر دسترس حاصل تھی۔ مشہور واقعہ ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی جوتیوں نے فضا میں پرواز کی اور ایک ساحر کو جو فضا میں اُڑ رہا تھا زمین پر آنے پر مجبور کردیا۔
حضرت جہانیاں جہاں گشت کے متعلق بھی مشہور ہے کہ آپؒ بغیر کسی وسیلے کے ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچ جایا کرتے تھے۔
موجودہ سائنسدان ان واقعات کو ماضی کی قیاسآرائیاں اورضعیف الاعتقادی قرار دیتے ہیں۔ لیکن اُنیسویں صدی عیسوی میں یورپ میں ایک شخص نے کشش ثقل کو شکست دینے کے مظاہرے کرکے سینکڑوں لوگوں کو ورطۂ حیرت میں ڈالے رکھا….!
لندن شہر میں 16 دسمبر 1868ء کے روز ایک حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا، ایک شخص اپنے گھر کی کھڑکی سے اُڑتا ہوا نکلا، اور لندن کے ایک بازار میں آکر اُتر گیا، تھوڑی دیر بعد وہ دوبارہ زمین سے اُٹھا اور اُڑتا ہوا تقریباً 80 فٹ کی بلندی تک پہنچ گیا۔
ہوامیں اڑنے کا یہ ناقابل یقین واقعہ کافی عرصہ موضوع بحث بنا رہا، لندن کے لوگوں کے لئے یہ ایک ناقابل یقین نظارہ تھا۔ لیکن یہ اور اسی نوعیت کے دیگر واقعات وکٹورین دور کے اِس شخص جس کانام ڈینئل ڈینگلس ہوم تھا، کے لئے روز مرہ کا معمول تھے۔ وہ ناصرف یہ کہ ہوا میں معلّق ہوجاتا تھا بلکہ زمین سے اس کی بلندی بعض اوقات اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ اس میں کسی قسم کی نظربند ی یا شعبدہ بازی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔اس کے علاوہ ہوم دہکتے ہوئے کوئلوں اور بھاری سے بھاری فرنیچر کو انگلی سے چھوئے بغیر صرف اپنی ذہنی قوت کی مدد سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پر رکھ سکتا تھا۔
ڈی ڈی ہوم اپنی اس صلاحیت کو اسٹیج پر بھی پرفارم کرتا تھا، اس کے فضامیں معلق ہونے کی صلاحیت کا مظاہرہ دیکھنے کے لئے لوگ دور دور سے آتے تھے۔ اُس کا ایک کرتب اسٹیج پر بہت مشہور تھا جس میں وہ ایک لڑکی کو دو تلواروں کے سہارے ہوا میں لٹاتا یعنی ایک تلوار لڑکی کی کمر پر ٹکتی اور دوسری اُس کی گردن پر پھر تھوڑی دیر بعد وہ دونوں تلواریں نیچے سے نکال لیتا، مگر لڑکی پھر بھی ہوا میں معلق رہتی لوگ یہ کرتب دیکھ کر بہت خوش ہوتے اور اُسے داد دئیے بغیر نہیں رہتے۔ ہوم صرف یہی نہیں کرتا تھا بلکہ ایک مرتبہ اُس نے اپنے گھر کی ڈائننگ ٹیبل کو بھی اپنی اس صلاحیت سے ہوا میں معلق کرنے کا مظاہرہ کیا۔ اس کے علاوہ ایک بڑے پیانو کو بھی اُس نے ذہن سے ہوا میں 4 فٹ اوپر تک اُٹھایا۔ ایک مرتبہ اُس نے دہکتے ہوئے کوئلوں کو ایک ساتھ ہوا میں بلند کیا، جسے دیکھ کر وہاں پر موجود لوگوں کو اپنی آنکھوں پر اعتبار نہیں آیا۔
ان مظاہروں کو دیکھنے والے کوئی ضعیف الاعتقاد لوگ نہیں تھے بلکہ روس کے شاہ زار الیگزینڈرچنی، فرانس کے بادشاہ نپولین سوئم اور ہالینڈ کی ملکہ صوفیہ کے علاوہ اس عہد کے ادیبوں اور دانشوروں میں سے الیگزینڈر ڈویا، ولیم ٹھیکرے اور جنِرسکن جیسے معروف ادیب اس کی صلاحیتوں سے متاثر ہوئے۔
ہارورڈیونیورسٹی کے سائنس دانوں اور پروفیسرکے علاوہ وکٹورین عہد کا مشہور سائنسدان ولیم کرو کس، اخبار نویس جے جی کرافورڈ، ممتاز ڈرامہ نویس رابرٹ بیل اور اس دور کے مشہور اخباروں کے ایڈیٹروں نے بھی اس کے مظاہرے دیکھے اور داد دئیے بغیر نہ رہ سکے۔
ہوم چالیس برس تک فضا میں بلندہونے اورکسی کی مدد کے بغیر فضا میں تیرنے کا مظاہرہ کرتا رہا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چالیس برس تک کوئی بھی شخص اسے جعلساز یا نوسر با ز ثابت نہ کر سکا۔ ہوم کی اس حیرت انگیز صلاحیت سے حسد میں مبتلا ہو کر اُس کے بدخواہوں نے اُس کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کیا کہ وہ ایسی کسی قوت کا مالک نہیں ہے جس میں انسان کشش ثقل سے آزاد ہوکر ہوا میں پرواز کرنے لگے۔
یہ محض نظر بندی یا وہم ہے، اُس کے خلاف کہا گیا کہ وہ لوگوں کی نظر بندی کرکے اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے۔ پہلے تو ہوم نے اُن کی اس بات سے انکار کیا مگر جب پراپیگنڈہ بند نہیں ہوا تو ہوم نے اُن لوگوں کو جو اُس کے خلاف زہر اُگل رہے تھے، ایک جگہ بلواکر اپنی اس صلاحیت کا مظاہرہ کیا، اُن لوگوں کا خیال تھا کہ ہوم مکمل تاریکی میں رہ کر اپنے کمالات دکھائے گا لیکن ہوم تاریکی یا نیم تاریکی کے سخت خلا ف تھا، وہ مکمل روشنی میں ہوتا اور اس کی ایک ایک حرکت دیکھنے والوں کی نظر میں رہتی۔
لوگوں نے ہوم کو تمام الزامات سے بری کردیا اور اُس کی ماورائی صلاحیت کو تسلیم کرلیا چنانچہ وہ لوگ جو ہوم پر الزامات لگا رہے تھے اُنہیں سبکی اُٹھانا پڑی۔
وکٹورین عہد کے مشہور سائنسدان سرولیم کرو کس نے جب ہوم پر تجر بات شروع کئے توبیشتر لوگوں کو یقین تھاکہ اب چند ہی دنوں کی بات ہے جب کروکس اس بات کا اعلان کردے گا کہ ہوم بھی نراشعبد ہ باز اور جعلساز ہے۔سرولیم کرو کس خود بھی اس کے ہر مظاہرہ کو جھٹلانے کے شد ت سے خواہش مند تھے اور انہوں نے ہوم کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کئے لیکن وہ ناکام رہے اور تسلیم کرنا پڑا کہ ہوم کے پا س واقعی کوئی ایسی ماورائی صلاحیت ہے جس کا احاطہ انسانی عقل نہیں کر سکتی ۔
ہوم بھی واحد شخص نہیں تھا جو اس قوت کا مالک ہو۔ ایسا ہی ایک واقعہ سولہویں صدی میں بھی ظہور پذیر ہوچکا ہے، نیسٹ جوزف نامی لڑکا،جو عیسائیوں کی ایک تنظیم (Franciscan) کا رکن تھا اکثر اوقات ہوا میں اُڑتا اور کرتب دکھاتا رہتا تھا۔
ایک خاتون مسز ڈیوڈنیل جو ماورائی علوم پر تحقیق میں ایک بڑا نام ہیں۔ وہ اپنی ایک کتاب (Mysteries Et Magic en Tibet) میں لکھتی ہیں کہ ‘‘میں 1931ء سے 1945 تک تقریباً 15 سال تک تبتTibet میں رہی، وہاں پر باقاعدہ روحانی صلاحیتیں اُجاگر کرنے کے لئے تربیت دی جاتی ہے’’۔
وہ لکھتی ہیں کہ ‘‘ایک لڑکا جو روز میرے سامنے تربیت حاصل کرنے جاتا تھا دیکھتے ہی دیکھتے اُس نے ایسی ماورائی صلاحیت حاصل کرلی کہ وہ لوہے کا بھاری بھرکم لباس پہن کر ہوا میں اُڑتا پھرتا تھا’’۔
وہ مزید لکھتی ہیں کہ ‘‘یہ صلاحیت صرف اور صرف اپنی روح سے روشناس ہوکر حاصل کی جاسکتی ہے اور کوئی بھی شخص روحانی ٹریننگ حاصل کرکے کشش ثقل سے آزاد ہوسکتا ہے’’۔
انیسویں صدی میں ایون کلِن اور سبھیہ پلوار نامی جوگی کے ہوا میں معلق ہونے کے مظاہرے مشہور ہوئے۔ موجودہ دورمیں بھی کئی لوگ موجود ہیں جو کھلے عام ہوا میں معلق ہونے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان میں مشہور شعبدہ باز کرس اینجل اور ڈیوڈ بلین کا نام قابلِ ذکر ہے۔لیکن موجودہ دورمیں ہونے والے اکثر مظاہرے شعبدے بازی یا کیمرا ٹرکس کا نتیجہ ہوتے ہیں۔لیکن ڈینیل ڈنگلس ہوم نے حکمرانوں، مفکروں، سائنسدانوں اور اخباری رپوٹروں کے سامنے مظاہرے کیے اور اس کے مظاہروں کی جانچ پڑتال بھی کی گئی اور سائنسدان اس کے متعلق کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرسکے۔
کشش ثقل کو شکست دینے کے لیے سائنسدانوں نے مادی طور پر بھی کئی کوششیں کی ہیں، اس ضمن میں مشہور مغربی سائنسدان نکولا ٹیسلا کا نام سرفہرت ہے، جس نے انڈکشن موٹر اور ٹیسلا کوائل ایجاد کیے اور مقناطیس پر بے شمار تجربات کیے۔ کہا جاتا ہے کہ نکولا ٹیسلا سپر کنڈکٹر اور برقی مقناطیسی قوت کے ذریعہ خفیہ طور پر کشش ثقل پر قابو پانے کے تجربات کررہا تھا ، مگر اس کی موت کے بعد اس کے تجربات اور کاغذات کو حکام نے ضبط کرلیا۔
حال ہی میں اسرائیل کی تل ابیب یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے اشیاء کو ہوا میں معلق کرنے کا راز دریافت کر لیا ہے اور ایک ایسا کامیاب تجربہ کیا ہے جس کے ذریعے اشیاء کو ہوا میں معلق کیا جاسکے گا۔ یہ برف سے جمی ہوئی ڈسک، میٹل ٹریک پر ہوا میں معلق ہے جب کہ اسے مختلف زاویوں میں گھمایا بھی جاسکتا ہے۔ کوآنٹم لاکنگ نامی یہ عمل سپر کنڈیکٹر اور الیکٹرو میگنیٹ کے باہمی ملاپ سے کیا گیا ہے۔
مقناطیس اور سپر کنڈکٹر کی مدد سے سائنسدان مادی طور پر کشش ثقل پر دسترس حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن کیا سائنسدان کبھی ڈینیل ڈنگلس ہوم اور اس جیسے نابغۂ روزگار لوگ کی صلاحیتوں کی عقلی توجہیہ بیان کرسکیں گے …. طبیعات کے معروف سائنسدان سرالیور لاج کا کہنا تھا کہ جس طرح سائنسی طور پر تسلیم شدہ قوتیں مثلاً مقناطیسی کشش یا الیکٹرک سٹی خفیہ انداز میں کام کرتی ہیں مگر سب انہیں تسلیم کرتے ہیں اور ان کے وجود پہ ایمان رکھتے ہیں اسی طرح اس کائنات میں بہت سی قوتیں ایسی بھی ہیں جو انتہائی پوشیدگی سے اپنا کام سرانجام دے رہی ہیں۔ مگر بظاہر ان کے وجود کا سراغ نہیں ملتا محض اسی وجہ سے ان کا انکار کرنا نادانی ہو گی۔
ستمبر 2012ء۔