نومبر 2019ء – قسط نمبر 3
سیکھیے….! جسم کی بو لی
علم حاصل کرنے کے لئے کتابیں پڑھی جاتی ہیں لیکن دنیا کو سمجھنا اور پڑھنا اس سے بھی زیادہ اہم ہے اور اس کے لئے انسانوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ آج کے دور میں باڈی لینگویج روز بروز اہمیت اختیار کرتی جارہی ہے اس فن کے ذریعے دوسروں کو ایک کھلی کتاب کی مانند پڑھاجاسکتا ہے۔ لوگوں کی جسمانی حرکات و سکنات کے ذریعے شخصیت اور رویوں کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
باڈی لینگوج میں قدرتی طور سے انسان اپنے اعضا کا استعمال، اپنے ارد گرد کے ماحول اور سچویشن کے حساب سے کرتا ہے۔ انسان جب باتیں کرتا ہے تو صرف اس کی زبان ہی استعمال نہیں ہوتی بلکہ اس کا پورا وجود جن میں اس کے ہاتھ ، پیر، آنکھوں، دیگر فیس ایکشپریشنز شامل ہیں، اس کے جذبات کی عکاسی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ بس کوئی اسے سمجھنے والا ہو۔ یعنی ضروری نہیں ہے کہ انسان زبان سے کچھ کہے تو ہی ہر بات کی وضاحت ہو، کچھ باتوں کا پتہ انسان کی حرکات سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ بس موقع کے حساب سے ان حرکات کا صحیح مطلب اخذ کرنے والا ہونا چاہئے۔
امریکا کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس کی ایک تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ انسانوں کے درمیان رابطے میں الفاظ کا کردار صرف سات فیصد ہوتا ہے۔ باقی میں سے اڑتیس فیصد آواز کے لہجے اور پچپن فیصد جسمانی زبان یعنی باڈی لینگویج سے ہوتا ہے۔
اب خود ہی اندازہ لگالیجیے کہ جسمانی حرکات و سکنات کو سمجھ کر آپ کسی بھی شخص کے بارے میں کتنا کچھ جان سکتے ہیں۔ اس لیے چاہے آپ دفتر کی کسی میٹنگ میں ہوں، کاروبار کے حوالے سے کسی سے مل رہے ہوں یا کسی خاص فرد سے پہلی بارملاقات کر رہے ہوں یا پھر اپنے بچوں کے ساتھ ہوں، ان پہلوؤں پر ضرور غور کریں۔
Mouth & Lips
منہ اور ہونٹ
باڈی لینگوج میں ماؤتھ یعنی منہ اور ہونٹوں کی حرکات اور ان حرکات سے ابھرنے والے تاثرات بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ کسی کی بات کے جواب میں ہلکی سے مسکراہٹ ، کسی کو دیکھ کر منہ بنانا، ہونٹوں کو دانتوں میں دبا لینا وغیرہ وغیرہ ۔
آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہتے ہوں ان حرکات سے ضرور واقف ہوں گے ، یا آپ بھی ان میں سے کوئی نہ کوئی حرکت بلا اختیار ضرور کرتے ہوں گے۔ ان ساری حرکات میں پنہاں تاثرات ہی معنی رکھتے ہیں ، جن کو دیکھ کر سامنے والا اس کے معنی اخذ کر سکتا ہے۔ چہرے پہ مسکراہٹ کا ہونا اچھی بات ہے ، لیکن یہ بھی جان لیجیے کہ ہمیشہ مسکرانے کا مطلب بھی خوش گوار نہیں ہوتا۔
Finger in Mouth
ہونٹ چبانا، منہ میں انگلی دبانا
ہر طرح کے جذبات اور احساسات کو محسوس کرنے والے انسان کو قدرت نے ان کے اظہار کے لئے مختلف طریقے بھی سکھا دئیے ہیں۔ ان طریقوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو باآسانی سامنے والے کی کیفیات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
جیسے اگر کوئی انسان دوران گفتگو یا پھر کسی کونے میں اکیلے بیٹھا ہونٹ چباتا نظر آئے تو جان لیں کہ اسے کسی پریشانی یا پھر خوف کا سامنا ہے، ایسی پریشانی جسے سامنے لانے سے وہ گریز کر رہا ہے، اگر آپ نہ تو پریشان ہیں اور نہ ہی کسی خوف میں مبتلا ہیں لیکن پھر بھی ہونٹ چبانے کی عادت میں مبتلا ہیں تو اس عادت سے جلد چھٹکارہ حاصل کریں ورنہ لوگ آپ کو خواہ مخواہ پریشان حال سمجھ کر آپ کی دل جوئی کرنے نہ بیٹھ جائیں۔
دانتوں تلے انگلیاں دبانا بھی پریشانی یا خوف کا اشارہ کرتا ہے۔
Mouth Guard Gesture
ہونٹوں کو دبالینا ، منہ بند کرنا
ہونٹوں کو دبانا ، منہ کو ہاتھ سے چھپانا یا ہونٹ سینا، عموماً لوگ ایسا اس وقت کرتے ہیں جب وہ لوگوں کو کسی بات کا جواب نہ دینا چاہ رہے ہوں۔
Turn Up or Down
ہونٹوں کا ابھار یا جھکاؤ
ہیپی فیس اور سیڈ فیس تو سب نے ہی دیکھا ہوگا۔ اس انداز میں بھی کچھ ایسے ہی تاثرات سامنے آتے ہیں۔ اگر سامنے والا آپ کے کسی فیصلے سے خوش ہوجائے تو اس کے ہونٹ ہلکے سے اوپر کی جانب اٹھ جاتے ہیں یعنی ان کا ابھارنا جو کہ ہیپی فیس دکھائی دیتا ہے، دوسری جانب اگر وہ آپ کے فیصلے سے ناخوش ہوجائے تو ہونٹوں کا انداز یکسر بدل جاتا ہے ، یعنی ہونٹ اگر نیچے کی جانب آجائیں یعنی ان میں جھکاؤ پیدا ہوجائے تو یہ سیڈ فیس کو ظاہر کرتا ہے۔
جب آدمی زیادہ دُکھ سے دوچار ہوتا ہے تو اس کے ہونٹ مزید جھک جاتے ہیں، اسے ذرا سا منہ نکل آنا یا منہ اتر جانا کہتے ہیں۔ یہ کسی دکھ تکلیف کے باعث بھی ہو سکتا ہے ۔
Face of Liar
جھوٹے کا منہ
پنوکیو Pinocchio کی کہانی تو کئی قارئین نے پڑھی ہوگی ، پنوکیو کے کردار کی خاص بات یہ تھی کہ وہ جب بھی جھوٹ بولتا تھا تو اس کی ناک لمبی ہونا شروع ہو جاتی تھی جس سے وہ پکڑا جاتا تھا۔
ماہرین کا کہناہےکہ جس طرح بڑے سے بڑا ماہر مجرم اپنے پیچھے کوئی ایسی نشانی چھوڑ جاتا ہے جو اس تک پہنچنے میں مدد دیتی ہے اسی طرح ہر جھوٹے سے بھی کوئی ایسی حرکت ضرور سرزد ہوجاتی ہے جس سے شک کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ماہرین کا کہناہے کسی شخص کی حرکات و سکنات کی بنا پر آسانی سے یہ تعین کیا جاسکتا ہے کہ وہ سچ بول رہاہے یا جھوٹ۔ جھوٹا شخص آنکھ ملاکر بات کرنے سے کتراتا ہے۔ جھوٹ بولنے والا غیر ارادی طور پر اپنے چہرے، گردن یا منہ پر ہاتھ پھیرتا رہتا ہے اور ناک یا کان کو کھجاتا نظر آتا ہے۔
عموما! چھوٹی عمر کے بچے یا ٹین ایجرز جھوٹ بولتے وقت منہ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بچے عموماً پورا منہ چھپاتے ہیں، ٹین ایجرز آدھا منہ اور چہرہ چھپاتے ہیں اور بڑی عمر کے افراد ہونٹوں اور ناک کے درمیان انگلی رکھتے ہیں ۔
کینیڈا کی برٹش کولمبیا یونیورسٹی کے ماہر ڈاکٹر لین برنکے (Leanne Ten Brinke)کہتے ہیں کہ آپ صرف مسکراہٹ کا انداز دیکھ کر ہی یہ قیاس کرسکتے ہیں کہ آپ کا مخاطب سچ بول رہا ہے یا سچ کو چھپا رہا ہے کیونکہ انسانی جذبات جھوٹ کاساتھ نہیں دیتے۔ اگر کوئی شخص اپنی گفتگو میں مسرت، دکھ یا محبت کا اظہار کررہاہو اور وہ اپنے اظہار میں سچا نہ ہوتو اس کی مسکراہٹ میں چہرے کے سارے اعصاب ساتھ نہیں دیتے ایسے وقت میں اس شخص کے چہرے پر تاثرات تاخیر سے ظاہر ہوں گے اور اچانک غائب ہوجائیں گے۔ جب کہ نیچرل مسکراہٹ میں پورا چہرا مسکراتا ہے، سچے جذبات زبانی اظہار سے پہلے ہی چہرے پر آجاتے ہیں اور اور مصنوئی مسکراہٹ جتنی جلدی چہرے پہ سجائی جاتی ہے اتنی ہی جلدی غائب ہو جاتی ہے۔ اصل مسکراہٹ دیر تک قائم رہتی ہے۔
جھوٹ بولنے والے کئی افراد اپنی باتوں کا یقین دلانے اور نارمل نظر آنے کے لیے مسکراہٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ ڈاکٹر برنکے کہتے ہیں کہ حقیقی مسکراہٹ میں چہرے کے سارے اعصاب حصہ لیتے ہیں اوردیکھنے والے کو پورا چہرہ کھلا ہوا سا دکھائی دیتا ہے۔ سچی مسکراہٹ دیر تک قائم رہتی ہے اور آہستہ آہستہ تحلیل ہوتی ہے۔ جب کہ زبردستی کی مسکراہٹ صرف ہونٹوں اور اس کے آس پاس کے اعصاب تک محدود رہتی ہے۔ منصوعی مسکراہٹ کے دوران گال اور آنکھوں کی بھوئیں اپنی نارمل حالت میں رہتی ہیں۔
Real or Fake Smile
حقیقی اور مصنوعی مسکراہٹ
جب کوئی مسکرائے، تو اس کے لب تو دھوکا دے سکتے ہیں، لیکن آنکھیں کبھی نہیں دیتیں۔ حقیقی مسکراہٹ آنکھوں تک جاپہنچتی ہے اور اس کے اردگرد جھریاں بنالیتی ہیں۔ لوگ اپنی حقیقی سوچ اور احساسات کو چھپانے کے لیے بھی مسکراتے ہیں،اس لیے جب بھی کوئی آپ کے سامنے مسکرائے، تو دیکھیں کہ اس کی آنکھوں کے کناروں پر جھریاں ہیں یا نہیں؟ اگر ایسا نہیں ،تو جان لیں کہ اس کی مسکراہٹ کچھ چھپا رہی ہے۔
Three Type of Smiles
تین قسم کی مسکراہٹیں
مسکراہٹ انسانی زندگی میں اظہار کے اُن طریقوں میں سے ایک ہے جن کا سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ تاہم کبھی کبھار اس کا خفیہ کوڈ کھولنا مشکل ہو جاتا ہے۔ برطانوی اخبار ڈیلی میل کے مطابق ایک ریسرچ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مسکراہٹ بنیادی طور پر تین طرح کی ہوتی ہے اور ہر مسکراہٹ کا اپنا عضلاتی امتزاج ہوتا ہے۔
یونیورسٹی آف وِسکونسن میڈیسن میں نفسیات کی پروفیسر پاؤلا نیڈنٹال Paula Niedenthal کہتی ہیں کہ ‘‘سکراہٹوں کے بیچ امتیاز کرنے کے لیے سائنس دان حقیقی اور غیر حقیقی مسکراہٹ پر توجہ مرکوز کرتے ہیں’’۔
اس سلسلے میں لوگوں میں یہ خیال پھیلا ہوا ہے کہ صرف خوشی کی حالت میں سامنے آنے والی مسکراہٹ ہی حقیقی ہوتی ہے ، ایسا سمجھنا چہرے کے اتنے اہم اظہار کو سمجھنے کے لیے ہماری سوچ کو محدود کر دیتا ہے۔
یہ بات سب جانتے ہیں کہ مسکراہٹ کی ذمہدار رخسار کی بڑی ہڈی ہوتی ہے۔ اس کام میں گالوں کے نیچے موجود عضلات اپنا کردار ادا کرتے ہیں جو انسانی مُنہ کے دونوں کونوں کو کھینچتے ہیں۔ شکل بگاڑنے، منہ بنانے میں 43مسلز کو محنت کرنا پڑتی ہے جبکہ مسکراتے وقت صرف 17مسلز کو کام کرنا پڑتاہے۔
سائنس دان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مسکراہٹ تین قسم کی ہوتی ہے۔ انعامی ، الحاقی اور غلبے والی ۔
انعامیReward مسکراہٹ غالبا سب سے زیادہ بدیہی ہوتی ہے۔ یہ وہ قسم ہے جس کا استعمال ہم بچے کے ساتھ اُس وقت کرتے ہیں جب وہ ہماری مرضی کے کام کرتا ہے۔ یہ مسکراہٹ رخسار کے عضلات کی متوازن اُٹھان ، بھنوؤں کے اوپر جانے اور ہونٹ کے ذرا سے کھنچاؤ سے سامنے آتی ہے۔
الحاقی Affiliativeمسکراہٹ انسان کی جانب سے درگزر یا ملاپ اور الحاق کا اظہار کرتی ہے۔ محققین کے مطابق اس مسکراہٹ سے یہ پیغام بھی دیا جا سکتا ہے کہ آپ سامنے والے کے لیے کسی قسم کا خطرہ نہیں ہیں۔ مسکراہٹ کی اس قسم میں بھی منُہ کی متوازن اٹھان استعمال ہوتی ہے تاہم ہونٹ پر دباؤ کے ساتھ اور اس حالت میں دانت بھی نظر نہیں آتے۔
تیسری قسم کی مسکراہٹ یعنی غلبے والی dominanceمسکراہٹ کا استعمال معاشرتی حیثیت کے اظہار کے لیے ہوتا ہے۔ واضح طور پر یہ غیر متوازن مسکراہٹ ہوتی ہے جس سے عدم احترام کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس کے دوران بھنوؤیں اور گال دونوں اوپر کو چڑھتے ہیں۔
مسکراہٹ
امریکا کی کنساس یونیورسٹی کی 2012 کی تحقیق کے مطابق مسکراہٹ سے ذہنی تناؤ میں کمی آتی ہے جس کی وجہ دل کی دھڑکن کی رفتار میں کمی آنا ہوتی ہے اور یہ عمل ہمارے ذہن پر سوار تناؤ کو کم کرنے میں مددگار ہوتا ہے، اس طرح مشکل حالات میں خود کو تناؤ سے محفوظ رکھ کر چیلنجز کا سامنا کرنا آسان ہوجاتا ہے۔
دماغ منفی چیزوں کو زیادہ شدت سے محسوس کرتا ہے تاہم مسکرانے کی عادت ہمارے ذہن کو زیادہ مثبت اور پر امید رہنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ مسکراہٹ، چاہے آپ خوشی محسوس نہ بھی کررہے ہوں، تب بھی مزاج یا موڈ پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے۔
ڈارون نے تو 1872ءمیں ہی کہہ دیا تھا کہ چہرے کے تاثرات میں تبدیلی جذباتی تناؤ کو تبدیل کردیتے ہیں۔ اب سوئیڈن کی اپسلا یونیورسٹی کی تازہ تحقیق میں اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ مصنوعی مسکراہٹ نہ صرف مزاج پر اثرانداز ہوتی ہے بلکہ اسے خوش گوار بھی بنادیتی ہے۔ اب چاہے کتنا بھی غصہ یا مشکل حالات ہوں اور ہم واقعی خوشی محسوس نہ کررہا ہو تب بھی مسکراہٹ کے ذریعے اپنے مزاج کو بہتر بنانا آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔
(جاری ہے)