Notice: Function WP_Scripts::localize was called incorrectly. The $l10n parameter must be an array. To pass arbitrary data to scripts, use the wp_add_inline_script() function instead. براہ مہربانی، مزید معلومات کے لیے WordPress میں ڈی بگنگ پڑھیے۔ (یہ پیغام ورژن 5.7.0 میں شامل کر دیا گیا۔) in /home/zhzs30majasl/public_html/wp-includes/functions.php on line 6078
انسان کو کھلی کتاب کی طرح پڑھیے – 9 – روحانی ڈائجسٹـ
اتوار , 13 اکتوبر 2024

Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu
Roohani Digest Online APP
Roohani Digest Online APP

انسان کو کھلی کتاب کی طرح پڑھیے – 9

مئی 2020ء – قسط نمبر 9

سیکھیے….! جسم کی بو لی


علم حاصل کرنے کے لئے کتابیں پڑھی جاتی ہیں لیکن دنیا کو سمجھنا اور پڑھنا اس سے بھی زیادہ اہم ہے اور اس کے لئے انسانوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ آج کے دور میں باڈی لینگویج روز بروز اہمیت اختیار کرتی جارہی ہے اس فن کے ذریعے دوسروں کو ایک کھلی کتاب کی مانند پڑھاجاسکتا ہے۔ لوگوں کی جسمانی حرکات و سکنات کے ذریعے شخصیت اور رویوں کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔


 

 

 

Language of Reaction

ردعمل کی زبان


باڈی لینگویج کے سبق میں اب تک ہم نے کسی انسان کے چند انفرادی قسم کے ہاتھ، پاؤں، جسمانی حرکات و سکنات کے انداز کا جائزہ لیا ہے۔ اب ہم ان کی کیفیتوں کا جائزہ لیں گے۔
آج ہم آپ کو بتائیں گے کہ کسی انسان کے ردعمل پر اس کی باڈی کیا انداز اپناتی ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ شخص اندرونی طور پر کس طرح کی سوچ ، مزاج اور رویہ رکھتا ہے اور کسی بات پر اس کا اصل رویہ اور ردعمل کیا ہے۔
کسی بات کے ردعمل میں لوگ اپنی حقیقی سوچ اور احساسات کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جسمانی حرکات و سکنات کو سمجھ کر کسی بھی شخص کے بارے میں بہت کچھ جانا جاسکتا ہے۔
سامنے والے شخص کے دماغ میں کیا چل رہا ہے اور وہ کیا چاہتا ہے؟ یہ جاننے کے لیے باڈی لینگویج یا جسمانی زبان کو سمجھنا بہترین طریقہ ہے۔ اس لیے چاہے دفتر کی میٹنگ ہو، کاروبار کے حوالے سے کسی سے مل رہے ہوں یا کسی خاص فرد سے پہلی ملاقات کر رہے ہوں یا پھر بچوں کے ساتھ ہی کیوں نہ ہوں، ان پہلوؤں پر ضرور غور کرنا چاہیے، یہ جاننا بہت اہم ہے کہ فرد کیا کہہ رہا ہے اور اس کا جسم کیا کہانی بیان کر رہا ہے۔ آخری بات یہ کہ چاہے کسی کے دماغ میں موجود خیال کے بارے میں ہم نہ جانتے ہوں، لیکن اس کی جسمانی زبان سے بہت کچھ سمجھ سکتے ہیں۔ جب الفاظ اور جسمانی زبان ایک دوسرے کا ساتھ دیتے نہ دکھائی دیں ،تو سمجھ جائیں کہ معاملہ گڑبڑ ہے۔

 


چہرے کے تاثرات سے واضح ہورہا ہے کہ کون سا گروپ مطمئن ہے اور کس گروپ کے ارکان سخت غصے میں ہے

 

باڈی لینگویج کے ماہرین نے لوگوں کی تحقیق اور جائزے کے بعد کسی ردعمل میں کیفیات اور رویوں کو ترتیب دینے اور ان کی وجوہات کو جاننے کی کوشش کی ہے۔ان میں چار کیفیات زیادہ نمایاں ہیں۔ یہ چار کیفیات ہیں:

  1. صاف گوئی ، کشادگی Openness،
  2. مدافعت Defensiveness،
  3. شک و شبہ ،جانچ Evaluation،
  4. اندازہ و اندیشہ Suspicion،

یہ بہت ہی کم ممکن ہوا ہے کہ تمام انداز اور اسٹائل ایک خوشے کی مانند سمٹ آئے ہوں۔ تاہم چند مشاہدات یہ بتا سکتے ہیں کہ کسی ردعمل کے وقت اس شخص کی کیا کیفیت ہے اور وہ کیا سوچ رہا ہے۔ اس شخص کی کیفیت میں واضح فرق محسوس کرتے ہوئے اس کی جذباتی تحریکات اور ان کی سمت کا بھی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
اس دوران یہ بات بھی مشاہدے میں آئے گی کہ لوگ کس طرح صاف گوئی سے مدافعت میں تبدیل ہوتے ہیں۔ باڈی لینگویج کے ماہرین نے چند جوڑوں کو گروپوں میں تقسیم کیا ہے تاکہ شک، مدافعت، اعتماد، تعاون، ضبط نفس اور صاف گوئی کے وقت ان کی مختلف کیفیتوں میں مشابہت اور تفاوت کو دکھایا یا اجاگر کیا جاسکے۔
اکثر لوگ غیر لفظی Nonverbally رابطے کے ذریعے اندرونی جذبات کا کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں۔ اگر ان کے لفظی Verbally بیانات جذبات سے ملتے جلتے ہوں اور ان کے انداز سے ان کی اندرونی کیفیت ظاہر ہو رہی ہو تو وہ غالباً سچ کہہ رہے ہوتے ہیں۔

Openness

صاف گوئی

معروف انگریزی ادیب سموئیل جانسن اپنی کتاب امیر حبشہ راسیلاس Rasselas ، میں لکھتےہیں ۔
‘‘ایک نوجوان جس نے ابھی زمانے کا کچھ تجربہ نہیں کیا، ہر کسی پر اعتماد کرتا ہے۔ وہ صاف گوئی اور خوش دلی کےساتھ سب سے ملتا ہے، مگر اس کا تجربہ کار باپ جس نے زندگی میں اپنی صاف گوئی اور خوش دلی سے بڑے دھوکے کھائے ہیں اکثر اوقات اپنے بیٹے پر ناراض ہوتا ہے اور کئی بار اسے اس سے باز رہنے کی تلقین کرتا ہے۔’’
جب ایک بار لوگوں پر یہ ظاہر ہوجائے کہ وہ اپنے انداز اور حرکات کا شعور کے ذریعے جائزہ لے سکتے ہیں۔ تو سب سے زیادہ وہ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ ‘‘میں یہ کیسے بتا سکتا ہوں، جب کوئی جھوٹ بول رہا ہو ۔’’


1960 کی دہائی میں امریکی ٹیلی ویژن پروگرام ‘‘To Tell the Truth’’ آتا تھا جو اس ضمن میں دلچسپی رکھنے والے افراد کی اہلیت کو پرکھنے کے لیے ایک لیبارٹری کا کام دے سکتا ہے۔ اس طرح سچ بولنے والوں کو جھوٹ بولنے والوں کی صف سے علیحدہ کرسکتے کیا جاسکتا ہے۔
اس پروگرام میں چار شخصیات کو بطور ایک پینل مدعو کیا جاتا تھا اور ان کے سامنے تین افراد کو پیش کیا جاتا۔ پینل کے لوگ ان تینوں سے سوالات کرتے ہیں ۔ ان میں سے دو فرد جھوٹ بول کر اپنی اصلیت کو چھاپنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ تیسرا سچ بولتا ہے۔ ان کے چہرے کے تاثرات اور جسمانی حرکات کا ان کے منہ سے ادا ہونے والے الفاظ کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے پینل کے لوگ سچ بولنے والے کو تلاش کرتے ہیں۔ باڈی لینگویج کے ذریعہ بھی حیلہ بہانہ یا ٹال مٹول کرنے والوں کو تلاش کیا جاسکتا ہے۔
جعل سازی کرنے یا جھوٹ بولنے والوں کی حرکات اور انداز جن سے مدافعت، اخفا پسندی اور پردہ داری ظاہر ہوتی ہو، کے بارے میں ہم ذرا بعد میں بات کریں گے۔ ان حرکات اور انداز کی صاف گوئی کو پرکھتے ہوئے جھوٹ بولنے والے افراد کی شناخت کرنے میں مدد ملتی ہے۔
صاف گوئی، کشادگی اور کھلے پن کے بہت سے انداز ہیں۔


ان میں کھلے ہوئے ہاتھ (تصویر 1)ایک ایسا انداز ہے جسے ماہرین خلوص اور صاف گوئی کا اظہار قرار دیتے ہیں۔ اٹلی کے رہنے والے اس انداز کا آزادانہ استعمال کرتے ہیں۔
انسانی تاریخ میں ، کھلے ہاتھ کا تعلق سچائی، دیانت داری ، بیعت اور تسلیم سے ہے۔ کھلے ہاتھ کشادگی اور دیانت داری کا اظہار ہے، وہ شخص یہ دکھانا چاہتا ہے کہ اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔‘‘دیکھو ، میرے پاس چھپانے کو کچھ نہیں ہے۔’’


دل پر ہاتھ کی ہتھیلی کے ساتھ بہت سے حلف اٹھائے جاتے ہیں ، اور جب کوئی عدالت میں ثبوت دے رہا ہوتا ہے تو ہتھیلی کو ہوا میں رکھا جاتا ہے، حلف لیتے ہوئے مقدس کتاب بائیں ہاتھ میں رکھی جاتی ہے اور دائیں ہاتھ سے کھلی ہتھیلی اوپر کی جانب اٹھائیجاتی ہے۔
جب لوگ کھلم کھلا یا اعلانیہ طور پر اپنی محرومی اور مایوسی کا اظہار کرتے ہیں تو وہ اپنے ہاتھوں کو اپنے سینے کے سامنے کھلے رکھتے ہوئے اسی طرح کا پوز بناتے ہیں ۔ ‘‘تمہیں مجھ سے کیا چاہیے’’ کندھوں کو جھٹکنے کا انداز (تصویر نمبر 2)بھی ہتھیلیوں کو اوپر کی طرف کرتے ہوئے ہاتھ کھولنے کے اندازجیسا ہے۔


روزانہ ، لوگ کھلے ہتھیلی کو دو بنیادی مقامات پر استعمال کرتے ہیں۔ پہلی ہتھیلی کا رخ اوپر کی طرف ہوتا ہے ، جس کا تعلق سچائی، دیانتداری ، صاف گوئی بیعت اور تسلیم سے ہے۔ دوسری ہتھیلی کا رخ نیچے کی جانب ہوتا گویا وہ تھامے ہوئے ہے یا روکا ہوا ہے۔


اداکار اداکاری کے دوران مختلف تاثرات دیتے ہوئے اس انداز کا بہت استعمال کرتے ہیں۔ بچے جب کسی بات پر فخر کرتے ہیں کہ انہوں نے بڑا کارنامہ انجام دیا ہے، کسی کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے۔ مثلاً کھانا ختم کرتے ہوئے یا دودھ پی کر خالی بوتل ہمیں دکھاتے ہوئے وہ اپنے ہاتھوں سے ہمیں بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ انہوں نے کھانا کھا لیا ہے اور دودھ پی لیا ہے۔ جب وہ کسی خاص قسم کی صورت حال کے بارے میں مشکوک یا خود کو خطا وار سمجھتے ہیں تو یا تو وہ اپنے ہاتھوں کو اپنے پیچھے یا جیبوں کےا ندر چھپانے کی کوشش کرتےہیں۔
باڈی لینگویج میں کسی شخص کی صاف گوئی اور دیانتداری دریافت کرنے کا ایک نہایت قیمتی طریقہ یہ ہے کہ گفتگو کے دوران اس شخص کی ہتھیلیوں کی پوزیشن دیکھی جائے۔


مثال کے طور پر ، جب لوگ مکمل طور پر کشادہ یا صاف گو ہونے کا اعتراف کرتے ہیں تو وہ ایک یا دونوں ہتھیلیوں کو دوسرے شخص کے پاس تھام لیں گے اور کچھ ایسا کہیں گے، ‘‘میں آپ کےساتھ ہوں۔’’
جب کوئی لوگوں کے سامنے کھلنا شروع کرتا ہے یا سچ بولنے والا ہے ، تو وہ اپنی ہتھیلیوں کا سارا حصہ یا کسی دوسرے شخص کے سامنے بے نقاب کردے گا۔ زیادہ تر باڈی لینگویج کی طرح یہ بھی بالکل لاشعوری اشارہ ہے ، جس سے آپ کو یہ احساس مل جاتا ہے کہ دوسرا شخص سچ کہہ رہا ہے۔

جب بچہ جھوٹ بول رہا ہے یا کچھ چھپا رہا ہے ، تو اس کی ہتھیلیاں اس کی پیٹھ کے پیچھے چھپی ہوتی ہیں۔ اسی طرح ، شوہر بیوی سے یا ملازم مالک سے یا کوئی شخص اپنے دوستوں دفتر کے لوگوں یا گھر والوں سے کوئی بات چھپانا چاہتا ہے وہ اکثر اپنی ہتھیلیوں کو اپنی جیب میں یا بازو کی پوزیشن میں چھپا دیتا ہے اس طرح چھپی ہوئی ہتھیلیاں یہ اشارہ دے سکتی ہیں کہ وہ شخص اس حقیقت کو چھپائے ہوئے ہے۔

قسط نمبر 3 میں ہم بتاچکے ہیں کہ جھوٹ بولنے یا چھپانے والا شخص غیر ارادی طور پر اپنے چہرے، گردن یا منہ پر ہاتھ پھیرتا رہتا ہے اور ناک یا کان کو کھجاتا نظر آتا ہے۔عموما! چھوٹے بچے یا ٹین ایجرز جھوٹ بولتے وقت منہ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بچے عموماً پورا منہ چھپاتے ہیں، ٹین ایجرز آدھا منہ اور چہرہ چھپاتے ہیں اور بڑی عمر کے افراد ہونٹوں اور ناک کے درمیان انگلی رکھتے ہیں ۔


مارکیٹنگ میں سیلز مین کو اکثر صارفین کی بےنقاب ہتھیلیوں کی تلاش کرنا سکھایا جاتا ہے جب وہ اس کی وجہ بتاتا ہے کہ وہ مصنوعات کو کیوں نہیں خرید سکتا ، کیونکہ صرف کھلی ہتھیلیوں کے ساتھ ہی درست وجوہات دی جاتی ہیں۔
عام طور پر گریبان کے بٹن کھول کر رکھنا شریف لوگوں کا شیوہ نہیں مانا جاتا، نوجوان بڑوں کے سامنے جھجھک اور شرم محسوس کرتے ہیں لیکن ایسے لوگ جن سے ان کی دوستی ہو۔ وہ ان کے سامنے اپنے گریبان یا کوٹ کے بٹن بڑی آسانی کے ساتھ کھول لیں گے۔ حتیٰ کہ وہ ان کی موجودگی میں اپنا کوٹ بھی اتار لیں گے۔
یہ ایک طرح کا صاف گوئی، کشادگی اور کھلےپن کا اظہار ہے۔

 


دفاعی پوزیشن 

اس تصویر کوغور سے دیکھیں : بائیں جانب والا شخص کھلی ہوئی ہتھیلیاں، پیر آگے ، سر اوپر ، کوٹ کے بٹن کھلے، بازو اور ٹانگیں الگ ، جسم آگے جھکے ہوئے اور مسکراہٹ کے اشاروں سے کھلے دل اور ایمانداری کے اظہار کے لئے بہترین مثال پیش کررہا ہے۔
دوسری جانب بیٹھی خاتون اپنی کرسی پر ٹکی بیٹھی ہیں اور اس کی ٹانگیں (دفاعی پوزیشن میں )ایک دوسرے پر چڑھی ہوئی ہیں ، اس کا بازو بھی (دفاعی پوزیشن میں ) جزوی طور خود کو روکے ہوئے ہے۔ مٹھی بھینچی ہوئی ( جو مخالفت کی علامت ہے)ہے ، سر نیچے ہے چانچ اور تنقیدی اشارہ (چہرے پر ہاتھ ) استعمال کررہی ہے۔
بیچ میں آدمی ہاتھوں کو مخروطی انداز میں کھڑا رکھے ہوئے اشارہ استعمال کر رہا ہے ، جو اس بات کا اشارہ کرتا ہے کہ وہ خود کو پراعتماد یا برتر محسوس کرتا ہے ، اور وہ ٹانگ کے اوپر ٹانگ رکھنے کی پوزیشن میں بیٹھا ہوا ہے ، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا رویہ مسابقتی Competitive یا مباحثی Argumentativeہے۔

 


مشہور برطانوی صحافی ڈیوڈ فراسٹ اپنے ٹیلی ویژن پروگرام میں انٹرویو کے لیے آنے والے مہمان کو خوش آمدید کہتے ہوئے باقاعدگی سے اپنے کوٹ کے بٹن کھولتا ہے۔
جمیکا میں ہونے والے سیمینار میں بتایا گیا کہ وہاں ایک بزنس کانفرنس کے دوران جب لوگوں نے اپنے کوٹ اتارنے شروع کیے تو وہ یہ ظاہر کر رہے تھے کہ ہمارے درمیان ایک قسم کا معاہدہممکن ہے۔
ایک بزنس مین جب گفتگو کے دوران یہ محسوس کرے کہ اب معاہدہ ہونا ممکن نہیں تو وہ اپنا کوٹ اٹھا کر پہننا شروع کردے گا یا پہنے ہوئے کوٹ کے بٹن نہیں کھولے گا۔
چارلس ڈراون نے بھی اسی باہمی میل جول کو محسوس کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ اس نے اکثر جانوروں کا اس طرح اطاعت پسندی دکھاتے ہوئے مشاہدہ کیا ہے۔ جب وہ اپنی پشت کے بل بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔
اس نے نوٹ کیا کہ اس قسم کی صورت حال میں حتیٰ کہ ایک دوسرے کے دشمن جانور بھی اپنے مدمقابل کو نیچا دکھانے کی کوشش نہیںکرتے۔
ڈاکٹر لیون اسمتھ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اپنی پشت کے بل اس طرح بیٹھے ہوئے اطاعت پسندی کی کیفیت کا اظہار کرنا بھیڑیوں اور کتوں کا کام ہے۔
مختلف ویڈیوز پر اس قسم کے مباحثوں کا تجزیہ کرتے ہوئے ماہرین نے ایسے افراد کے درمیان جنہوں نے اپنے کوٹ کے بٹن کھول لیے اور جنہوں نے اپنے کوٹ کے بٹن نہیں کھولے بڑی حد تک مفاہمت کا مشاہدہ کیا۔ بہت سے افراد جنہوں نے مدافعانہ انداز میں ہاتھوں کو اپنی چھاتی پر باندھ رکھا تھا۔ انہوں نے بھی اپنی جیکٹ کے بٹن بند کیے ہوئے تھے۔ ان میں سے جس نے موضوع کی حمایت میں اپنے ذہن کو تبدیل کیا اس نے فطری طور پر اپنے کوٹ کے بٹن کھول دیے۔
جب ایسے افراد یا گروپوں کے درمیان مذاکرات خوش گوار ماحول میں ہوتے ہیں تو ہم ایسے ماحول کو ریکارڈ کرلیتے ہیں۔ بیٹھے ہوئے افراد اپنے کوٹ کے بٹن کھول لیتے ہیں اور ذرا سی حرکت کرکے کرسی کے کنارے پر ڈیسک یا میز کے قریب ہوجاتے ہیں اسی دوران ان کے درمیان گفتگو ہوتی ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ اب ان کے درمیان کوئی سمجھوتہ یا معاہدہ ہوجائے گا۔

(جاری ہے)

 

مئی 2020ء

 

یہ بھی دیکھیں

انسان کو کھلی کتاب کی طرح پڑھیے – 2

اکتوبر 2019ء –  قسط نمبر 2 سیکھیے….! جسم کی بو لی علم حاصل کرنے کے …

انسان کو کھلی کتاب کی طرح پڑھیے – 1

ستمبر 2019ء –  قسط نمبر 1 سیکھیے….! جسم کی بو لی علم حاصل کرنے کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے