Notice: Function WP_Scripts::localize was called incorrectly. The $l10n parameter must be an array. To pass arbitrary data to scripts, use the wp_add_inline_script() function instead. براہ مہربانی، مزید معلومات کے لیے WordPress میں ڈی بگنگ پڑھیے۔ (یہ پیغام ورژن 5.7.0 میں شامل کر دیا گیا۔) in /home/zhzs30majasl/public_html/wp-includes/functions.php on line 6078
کشورِ ظلمات ۔ قسط 15 – روحانی ڈائجسٹـ
جمعہ , 8 نومبر 2024

Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu
Roohani Digest Online APP
Roohani Digest Online APP

کشورِ ظلمات ۔ قسط 15

تاریکی کے دیس میں بسنے والی مخلوق کے اسرار پر مشتمل دلچسپ کہانی….

 

’’اندھیرا بھی روشنی ہے‘‘….
یہ حضرت قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے….
جس چیز کو ہم اندھیرا کہتے ہیں اُس میں بھی ایک وسیع دنیا آباد ہے۔ اُس دنیا میں بھی زندگی اپنے تمام رنگوں کے ساتھ حرکت میں ہے…. ہم نے چونکہ اندھیرے کو خوف کی
علامت بنا دیا ہے، اس لئے اندھیرے میں روشن یہ دنیا ہم پر منکشف نہیں ہوتی…. لیکن ایسے واقعات اکثرو بیشتر پیش آتے رہتے ہیں جب کشورِ ظلمات کے مظاہر کے ادراک
کا احساس ہونے لگتا ہے…. سائنسی علوم کے ماہرین بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کائنات میں زندگی بیِشمار پیکر میں جلوہ گر ہوسکتی ہے…. سائنسی تحقیق کے مطابق
ایک زندگی وہ ہے جو ’’پروٹین اِن واٹر‘‘ کے فارمولے سے وجود میں آئی ہے۔ ہم انسان جو پروٹین اور پانی سے مرکب ہیں اپنی غذا ہائیڈروجن اور کاربن کے سالمات سے حاصل
کرتے ہیں، لیکن اگر کوئی مخلوق ’’پروٹین اِن ایمونیا‘‘ کے فارمولے پر تخلیق ہوئی ہو تو اُسے ایسی غذا کی ضرورت ہرگز نہ ہوگی جو انسان استعمال کرتے ہیں…. ممکن ہے وہ فضا
سے انرجی جذب کرکے اپنی زندگی برقرار رکھتی ہو!…. ممکن ہے کہ اُن کے جسم میں نظام ہضم کے آلات مثلاً معدہ، جگر، گردے، آنتیں وغیرہ بھی موجود نہ ہوں!…. اُن
کے جسم کی ہیئت ہمارے تصور سے بالکل ماوریٰ ہو!…. ممکن ہے کہ اُن کا جسم وزن سے بالکل آزاد ہو!…. وہ ہوا میں اُڑسکتی ہو!…. اتنی لطیف ہوکہ چشم زدن میں
ہماری نظروں سے غائب ہوجائے!…. وہ مختلف شکلیں اختیار کرسکتی ہو!…. مابعد الحیاتیات کے ماہرین خیال کرتے ہیں کہ کائنات میں ایسی مخلوق کا پایا جانا جانا
بعیدازامکان ہرگز نہیں ہے….
ظلمات کے معنی ہیں….تاریکی…. اور کشور کے معنی دیس یا وطن کے ہیں…. تاریکی کے دیس میں آباد ایک مخلوق سے متعارف کرانے والی یہ کہانی فرضی واقعات پر
مبنی ہے….  کسی قسم کی مماثلت اتفاقیہ ہوگی….

 

(پندرہویں قسط)

حرا کار کی چابیاں سنبھالتی ہوئی باہر نکلی اور گاڑی اسٹارٹ کرکے، تیزی کے ساتھ ویئر ہائوس کے سامنے جاپہنچی…. ایڈمن آفیسر نجم بھی وہاں موجود تھا…. اس نے حرا کو دیکھا تو پیر پٹخ کر رہ گیا….
فائر بریگیڈ کے عملے نے جان توڑ کوشش کے بعد ویئر ہائوس میں اسٹور کئے ہوئے بنڈلوں کی بڑی تعداد کو نذرِ آتش ہونے سے بچالیا…. ایڈمن آفیسر اس بات پر مصر تھا کہ آگ شارٹ سرکٹ کے باعث لگی ہے…. حرا نے ایڈمن آفیسر کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا لیکن اپنے چہرے کے تاثرات سے یہ بھی ظاہر نہیں ہونے دیا کہ وہ اُس کی بات سے متفق نہیں ہے۔
اُس نے پورے ویئرہائوس کا اچھی طرح جائزہ لیا…. فی الوقت تو اُسے کچھ سمجھ میں نہیں آسکا…. چنانچہ اُس نے ہدایت دی کہ کل تک کسی بھی چیز کو اِدھر سے اُدھر نہ کیا جائے…. اگلے روز صبح ہی صبح اُس نے فوٹو گرافر کو بلوالیا…. فوٹوگرافر نے مختلف زاویوں سے تصاویر اُتاریں اور دو ڈھائی گھنٹوں میں پازیٹیو اُس کو پیش کردئیے….۔ انشورنس کمپنی کے نمائندے نے بھی ویئر ہائوس کا جائزہ لیا تھا…. اور اُن کے فوٹوگرافر نے تصاویر بھی اُتاری تھیں…. اُس نے انشورنس کے نمائندے سے درخواست کی تھی کہ آپ کے فوٹو گرافر کی تصاویر بھی مجھے درکار ہیں…. شام تک وہ تصاویر بھی آگئیں….حرا کافی دیر تک تمام تصاویر کا جائزہ لیتی رہی….۔ اُسے سخت تھکن محسوس ہو رہی تھی۔ اُس نے تمام تصاویر اکھٹی کیں اور میز کی دراز میں رکھ کر جب دراز بند کرنے لگی تو اوپر رکھی ہوئی تصویر کو دیکھ کر اُس کے ذہن میں ایک جھماکہ ہوا….۔
اُس نے فوراً اُس تصویر کو نکالا اور بغور دیکھنے لگی…. اب اُسے احساس ہوا کہ وہ اصل معاملے کی تہہ تک پہنچ جائے گی۔
یہ تصویر انشورنس کمپنی کے فوٹو گرافر نے اُتاری تھی…. حرا نے جس فوٹو گرافر سے تصویریں بنوائی تھیں اُس کی رہنمائی یقینا ایڈمن آفیسر نے ہی کی ہوگی….۔ اس لئے کہ جب حرا نے فوٹو گرافر کو ویئر ہائوس بھجوایا تھا فوراً ہی ایڈمن آفیسر نے انٹرکام پر اُس سے رابطہ کرکے اعتراضات کی بھرمار کر دی تھی….
میڈم! یہ انشورنس کمپنی کا کام ہے…. جب انشورنس کمپنی سے ہمارا سارا نقصان پورا ہوجائے گا تو ہم بلاوجہ اُن کے لئے شک کی بنیادیں کیوں استوار کریں!….میڈم!…. ابھی بھی وقت ہے…. اگر کہیں اِس وقت انشورنس کمپنی کا نمائندہ آگیا تو معاملہ گڑ بڑ ہوجائے گا…. میڈم! میں فوٹوگرافر کو منع کردوں…. اُس کے آنے جانے کا کرایہ میں اپنی جیب سے دے دوں گا!….۔
’’نجم صاحب! مجھے دو گھنٹے کے اندر اندر فوٹو گرافس چاہئیں!‘‘…. حرا نے یہ کہہ کر فون بند کردیا…. پھر اُس کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ انشورنس کمپنی والوں سے بات کرکے اُن کی اُتاری ہوئی تصاویر بھی حاصل کی جائیں…. اگر کوئی گڑبڑ ہے تو وہ سامنے آجائے گی…. اور اگر ایسی کوئی بات نہیں ہے تو شک دُور ہوجائے گا….
انشورنس کمپنی کے نمائندے سے اُس نے فون پر بات کی تو معلوم ہوا کہ وہ فیض انکل کے دوست ضمیر صاحب ہیں…. حرا نے تصاویر کے لئے کہا تو وہ بخوشی راضی ہوگئے…. حرا نے کہا کہ یہ تصاویر اُس کو اس طرح بھیجی جائیں کہ آفس میں کسی کو اس کی بھنک بھی نہ لگے، لہٰذا اُنہوں نے کورئیر سروس کے ذریعے تصاویر بھجوائیں جو حرا کو شام تک وصول ہوگئیں۔ حرا نے ضمیر صاحب کو فون ملایا…. ’’ضمیر صاحب! اگر آپ مناسب سمجھیں تو مجھے آپ کی رپورٹ کی بھی ایک کاپی چاہئے…. یہ میں Unofficially درخواست کر رہی ہوں…. آپ یا آپ کی کمپنی جو بھی فیصلہ کرے گی میں اُس پر بالکل اثرانداز نہیں ہوں گی….۔ بلکہ ممکن ہے کہ اس طرح آپ کی کمپنی کا فائدہ بھی ہوجائے‘‘….
’’بھئی تم میری بیٹی کی طرح ہو…. میں تمہیں انکار نہیں کرسکتا…. مجھے ایسا لگتا ہے کہ تم کسی پریشانی میں مبتلا ہو…. اگر مناسب سمجھو تو مجھ سے ڈسکس کرلو ، شاید میں تمہاری کچھ مدد کرسکوں‘‘…. ضمیر صاحب نے کہا
’’ضمیر صاحب مجھے آپ کی ہیلپ کی ضرورت یقینا پڑے گی…. لیکن پہلے میں خود کسی نتیجے پر پہنچ جائوں…. تو آپ کل رپورٹ بھجوا رہے ہیں‘‘….
’’رپورٹ بننے میں تو ابھی ایک ہفتہ لگ جائے گا…. لیکن تمہیں کس قسم کی معلومات درکار ہیں؟…. مجھے بتائو میں کل تمہیں فیکس کردوں گا‘‘….
حرا نے کچھ سوالات ضمیر صاحب کو لکھوادئیے پھر اس نے کراچی میں ڈائریکٹر صاحب کو فون پر اب تک کی تمام تفصیلات بتائیں۔ اُنہوں نے کہا کہ حرا تم فکر نہ کرو ہم تمہارے ساتھ ہیں…. پھر اُس نے فیض انکل سے بات کی…. اپنے خدشات کے حوالے سے اُس نے فیض انکل کی رائے لی تو فیض انکل نے کہا ’’اگر آدمی کو یہ یقین ہو کہ وہ حق پر ہے اور اُس کا دل بھی گواہی دے رہا ہو تو پھر اُسے ڈٹ جانا چاہئے…. نتیجہ تو اللہ کے اختیار میں ہے‘‘….۔
حرا نے فیض انکل کو بتایا ’’انکل اب تک تسلسل سے کئی واقعات سامنے آئے ہیں…. سیکورٹی گارڈ کا بے ہوش ہونا…. پھر اُس کی یادداشت ختم ہوجانا…. یہ بات تو طے ہے کہ ایڈمن آفیسر اور ویئرہائوس انچارج آپس میں ملے ہوئے ہیں…. ممکن ہے مزید افراد بھی ان کے ساتھ شامل ہوں…. کل یا پرسوں تک کوئی واضح صورتحال سامنے آجائے گی…. لیکن ان واقعات میں ایک نہایت واقعہ عجیب اور تسلسل سے بالکل الگ معلوم ہوتا ہے‘‘….
’’ہاں بتائو!‘‘…. فیض انکل نے کہا
’’چند روز پہلے آدھی رات گزرنے کے بعد کتے بہت زیادہ شور کرنے لگے تھے…. وہ عجیب و غریب انداز سے بھونکتے تھے…. جس طرح وہ کسی مشکوک آدمی کو دیکھ کر بھونکتے ہیں…. ایسا انداز نہیں تھا…. بلکہ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وہ بہت خوفزدہ ہوں…. پھر دو کتوں کی یکے بعد دیگرے جلی ہوئی لاشیں ملی…. اس میں عجیب اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ لاشیں جہاں جلی ہوئی پائی گئیں…. وہاں اردگرد بلکہ دُور دُور تک آگ کیا چنگاری کا نام و نشان تک نہیں تھا…. ایسا لگتا تھا کہ ان جلی ہوئی لاشوں کو کوئی بڑی احتیاط کے ساتھ رکھ گیا ہے۔ سیکیورٹی انچارج شوکت کا خیال تھا کہ شاید شرارتی لڑکوں نے پاگل کتے کو مارنے کے بعد جلادیا ہو لیکن بعد میں اُس نے گرائونڈ میں کھیلنے والے بچوں سے معلومات کرائیں تو اس خیال کی تصدیق نہیں ہوسکی…. پھر اگر کتے کو مار کر جلایا گیا ہوتا تو اردگرد کہیں نہ کہیں تو آگ کا نشان تو ضرور ہوتا…. ایسا کچھ نہ تھا…. چونکہ دوسرا مسئلہ اس قدر شدّت کے ساتھ سامنے آیا کہ میں ان واقعات کو بھول ہی گئی تھی…. آج آپ سے بات ہوئی تو ابھی یہ سب کچھ یاد آیا ہے‘‘….
’’بیٹا ابھی تم ویئر ہائوس کا کیس پوری توجہ کے ساتھ حل کرو…. پھر اگر ایسی کوئی بات ہو تو اُسی روز مجھے بتانا…. اور ہاں اپنا خیال رکھنا!‘‘…. پھر دعائوں کے ساتھ فیض انکل نے فون بند کردیا….
انشورنس کمپنی کے فوٹو گرافر کی اُتاری گئیں کئی تصاویر کو دیکھ کر یہ شک شدّت کے ساتھ اُبھر رہا تھا کہ ایکسپورٹ کئے جانے والے ہزاروں بنڈلوں میں تین چار سو کے قریب بنڈلوں کو الگ کیا گیا اور پھر اُنہیں نیچے رکھ کر آگ لگادی گئی…. جس سے دوسرے بنڈلوں نے بھی آگ پکڑلی…. ساتھ ہی ایک بڑا ستون تھا جس پر الیکٹرک سوئچ بورڈ نصب تھا….۔ وہ سوئچ بورڈ اور جلے ہوئے کچھ تار جلے ہوئے بنڈلوں کی راکھ پر پائے گئے…. اگر شارٹ سرکٹ ہوتا تو بجلی کے تاروں میں آگ لگ جاتی اور تاروں کی آگ سے سب سے پہلے ہزاروں بنڈلوں کی لاٹ میں سے سب سے اوپر رکھے گئے بنڈلوں میں آگ لگتی…. اس لئے کہ چھت پر لگے بجلی کے تاروں کا اُن سے فاصلہ محض تین چار فٹ ہوگا…. لیکن آگ ستون کے قریب رکھے ہوئے بنڈلوں میں لگی تھی…. جنہیں یقینا کسی نے جان بوجھ کر نیچے رکھا تھا….
اگلے روز دس بجے تک ضمیر صاحب کا فیکس بھی آگیا…. اُن کے تجزئیے کے مطابق آگ رات کے بارہ بجے سے ساڑھے بارہ بجے کے درمیان کسی وقت لگی ہے…. آگ نے دائیں سے بائیں کی طرف پھیلنا شروع کیا…. اور آگ کے شعلوں کی بلندی چار فٹ تک تھی…. حرا نے ضمیر صاحب کا فون پر شکریہ ادا کیا…. پھر ایک درخواست کی کہ کیا وہ کسی لیبارٹری سے جلے ہوئے بنڈلوں کی راکھ کا Analysis کرواکر رپورٹ آج ہی دے سکتے ہیں؟….
اُنہوں نے کہا ’’دیکھو بھئی…. ہونے کو تو سب کچھ ہوسکتا ہے…. راکھ کے نمونے میں نے بھی لئے تھے اور اُنہیں لیبارٹری بھجوادیا تھا…. ان کی رپورٹ تو دو تین روز میں ہی مل سکے گی…. لیکن ایک طریقہ یہ ہے کہ اگر تم الگ سے راکھ کا نمونہ بھجوادو تو میں ایک گھنٹے میں ہی تمہارے لئے رپورٹ نکلواسکتا ہوں….۔ بس کچھ رقم زیادہ خرچ ہوجائے گی‘‘….
’’ضمیر صاحب آپ خرچے کی فکر نہ کریں…. بس یہ کام آج ہی فائنل ہوجائے تو آپ کی عنایت ہوگی‘‘….
’’ارے یہ کیسی غیروں کی سی باتیں کر رہی ہو…. بھئی فیض میرا بہت اچھا دوست ہے…. ۔ ابھی کل رات ہی میری اُس سے بات ہوئی ہے…. تم میری بیٹی کی طرح ہو…. بلکہ تم آج رات کو گھر آئو میں تمہیں اپنی فیملی سے ملوائوں گا…. تمہارا دل بھی بہل جائے گا…. میرے دو بیٹے شادی شدہ ہیں اُن کے بچے ہیں…. اور میری ایک بیٹی ندا ابھی کالج میں پڑھ رہی ہے…. بڑا بھرا پُرا گھر ہے…. ماشاء اللہ خوب رونق رہتی ہے…. ندا تو تم سے مل کر بہت خوش ہوگی‘‘….۔ ’’میں ضرور آئوں گی انکل!…. لیکن ابھی یہ کیس حل ہوجائے‘‘….
’’کیس جب تمہارے ہاتھ میں اللہ نے دیا ہے تو یقینا اس کا حل بھی ہوجائے گا‘‘….
حرا نے ضمیر صاحب سے فون پر بات کرنے کے بعد سیکیورٹی انچارج شوکت کو بلوایا اور اُس سے کہا کہ وہ ویئر ہائوس سے تھوڑی سی راکھ پلاسٹک کی تھیلی میں لے کر ضمیر صاحب کے پاس اُن کے آفس پہنچ جائے۔
تھوڑی دیر کے بعد شوکت نے فون پر بتایا کہ ’’ویئر ہائوس کی تو راتوں رات صفائی ہوگئی ہے…. صبح کراچی کے لئیق صاحب کو ایڈمن آفیسر نے چارج بھی دے دیا ہے‘‘….
’’تم یہ معلوم کروائو کہ جلی ہوئی راکھ کہاں پھنکوائی گئی ہے؟‘‘….
’’میڈیم جی! معلوم کیا کروانا ہے…. مجھے معلوم ہے کہ کچرا کہاں ڈالا جاتا ہے…. بس یہ دعا کریں کہ وہاں سے سٹی گورنمنٹ کے ٹرک نے کچرا نہ اُٹھا لیا ہو ورنہ ہمیں کچھ نہیں ملے گا‘‘….۔
’’اللہ مالک ہے…. اب تم ایسا کرنا کہ کئی جگہ سے راکھ لینا…. یعنی کئی تھیلیاں بنالینا…. اس لئے اب تو سب آپس میں مکس ہوگئی ہوگی‘‘….
’’جی ایسا ہی کروں گا‘‘…. پھر وہ اپنے کام میں لگ گئی…. کچھ دیر بعد اُس کی سیکریٹری نے اطلاع دی کہ ایڈمن آفیسر نجم صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں….
’’لیکن!…. چلو اچھا بھیج دو‘‘…. حرا نے کہا
ایڈمن آفیسر آتے ہی بڑبڑانے لگا ’’میڈم جی! یہ کراچی سے جو لئیق صاحب آئے ہیں یہ ہمارے ہاں نہیں چل سکتے…. کراچی میں اتنا زیادہ کام نہیں ہے…. اور یہ کافی سُست بھی ہیں…. بڑا مشکل ہوجائے گا جی!‘‘….۔
’’ابھی تو انہی سے کام چلائیے نجم صاحب…. ڈائریکٹر صاحب کا حکم ہے…. ہم کچھ بھی نہیںکرسکتے‘‘…. حرا نے مسکراتے ہوئے کہا
’’نہیں جی!…. کیوں نہیں کرسکتے!…. آپ رپورٹ بھیج دیں کہ یہ بندہ ہمارے کام کا نہیں ہے‘‘…. ۔ایڈمن آفیسر نے زور دیتے ہوئے کہا
’’نجم صاحب! آپ تو ماشاء اللہ بہت تجربہ کار آدمی ہیں…. آپ خود جانتے ہیں کہ جس بندے کو چارج سنبھالے چند گھنٹے گزرے ہوں اُس کے بارے میں کوئی اچھی یا بُری رپورٹ تیار نہیں ہوسکتی…. تین مہینے سے پہلے تو ڈائریکٹر صاحب کوئی رپورٹ قبول ہی نہیں کریں گے‘‘….۔
’’آپ اپنی ریپوٹیشن اور کرسی بچانے کے لئے ایسا کہہ رہی ہیں…. کام تو ہمیں لینا ہوتا ہے…. ہمیں دیکھنا ہوتا ہے…. آپ کو ہماری اور ہمارے لوگوں کی پریشانی کا کوئی خیال نہیں ہے‘‘…. وہ ہتھے سے اُکھڑنے لگا
’’آپ غلط بات کر رہے ہیں‘‘ حرا کو بھی غصہ آگیا…. پھر اُس نے اپنے غصّے پر قابو پاتے ہوئے کہا ’’مجھے بالکل آپ ہی لوگوں کے مفاد کا خیال ہے…. لیکن آپ ہی مشورہ دیجئے کہ میں کیا کروں؟…. لئیق صاحب اس گروپ آف کمپنیز سے گزشتہ بیس سالوں سے وابستہ ہیں…. اب میں ایک ہی دن میں اُن کی خراب رپورٹ کیسے دے سکتی ہوں اور کیا میری ایسی کسی رپورٹ کو ہیڈ آفس کوئی اہمیت بھی دے گا؟…. آپ تسلّی رکھیں اگر کوئی خامی یا غلطی نظر آئی تو میں ضرور ڈائریکٹر صاحب کے سامنے پیش کردوں گی‘‘….۔
ایڈمن آفیسر مشکوک نظروں سے حرا کی طرف دیکھتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ حرا بدستور مسکراتی رہی…. اس کے بعد حرا نے ویئر ہائوس کے نئے انچارج لئیق صاحب کو بلوایا….۔ کچھ دیر بعد وہ بہت سی فائلوں کے ہمراہ آن پہنچے….۔
’’کل ڈائریکٹر صاحب نے‘‘…. لئیق صاحب نے تفصیل بیان کرنی چاہی تو حرا نے بات کاٹتے ہوئے کہا ’’مجھے سب معلوم ہے آپ وضاحت نہ کریں…. ہاںبتائیے ڈائریکٹر صاحب کی ہدایت پر آپ نے فائلیں چیک کیں؟‘‘….۔
’’میڈم! وہاں تو سارا نظام ہی تلپٹ ہے…. فائلیں تک تو ترتیب سے رکھی ہوئی نہیں ہیں …. معلوم نہیں کیسے کام ہورہا تھا‘‘….۔
’’آپ کو اسی لئے تو بلوایا گیا ہے‘‘….
ابھی حرا فائلیں ہی چیک کر رہی تھی کہ سیکریٹری نے بتایا کہ ضمیر صاحب تشریف لائے ہیں….
’’لئیق صاحب! آپ یہ فائلیں یہی چھوڑ جائیں…. انشاء اللہ کل آپ سے تفصیلی بات ہوگی‘‘….
لئیق صاحب رُخصت ہوئے تو ضمیر صاحب حرا کے آفس میں داخل ہوگئے…. وہ حرا کو دیکھتے ہی بولے ’’بھئی تمہارا شک درست نکلا‘‘….۔ پھر اُنہوں نے بیٹھ کر تفصیل بتائی، جو کچھ یوں تھی کہ راکھ کے چھ پیکٹ شوکت نے پہنچائے تھے…. اُن میں سے چار پیکٹ کے تجزیہ سے معلوم ہوا کہ یہ کاٹن کی راکھ ہے…. اور باقی دو پیکٹوں کی راکھ سے معلوم ہوا کہ یہ کوئی نشہ آور شئے تھی….
’’یعنی میرا شک درست تھا کہ کمپنی کے مال کے ساتھ کچھ غیر قانونی اشیاء بھی ایکسپورٹ ہو رہی ہیں…. ویئر ہائوس انچارج کی تبدیلی سے یہ بھانڈا پھوٹ سکتا تھا چنانچہ دوسرے روز جانے والے سامان میں نشہ آور اشیاء کے بنڈل جلا دئیے گئے…. ضمیر صاحب آپ نے آگ لگنے کا جو وقت بتایا ہے، میری تفتیس کے مطابق اُس دوران فیکٹری کی بجلی گئی ہوئی تھی…. جب آگ چاروں طرف پھیل گئی تب وہاں بجلی آئی ہے…. اور پھر شارٹ سرکٹ کی بات اس لئے بھی درست تسلیم نہیں کی جاسکتی ہے کہ نیچے رکھے گئے بنڈل جلے ہیں اوپر کے بالکل محفوظ ہیں۔
لیبارٹری کی رپورٹ آنے کے بعد باقی ساری گتھیاں خودبخود سلجھتی چلی گئیں…. ڈائریکٹر صاحب کراچی سے شام تک آگئے تھے…. ایڈمن آفیسر کو شاید بھنک لگ گئی تھی چنانچہ وہ بیرونِ ملک فرار ہونے کی کوشش میں ایئرپورٹ پر پکڑ لیا گیا…. فیصل آباد میں یہاں کے سابقہ ویئر ہائوس انچارج کو بھی گرفتار کرلیا گیا اور پھر کئی مزید گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں…. یہ لوگ گزشتہ چار سالوں سے یہ کام کر رہے تھے…. اور کمپنی کے مال میں چھپاکر نشہ آور اشیاء بیرونِ ملک سپلائی کر رہے تھے…. بیرونِ ملک بھی ان کے مضبوط رابطے موجود تھے…. اگر خدانخواستہ یہ مال پکڑا جاتا تو کمپنی کے ساتھ ساتھ ملک کی بھی بدنامی ہوتی…. حکومت تک یہ اطلاع پہنچی تو حکومت نے حرا کو ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا…. حرا بہت مسرور تھی…. رات کافی دیر تک وہ فیض انکل سے فون پر بات کرتی رہی….
اس دوران اچانک بڑی زور کا دھماکہ ہوا…. ایسا جیسے بجلی کڑکتی ہے…. فیض انکل کو ہولڈ کرواکر اُس نے باہر نکل کر دیکھا تو سامنے میدان کے کنارے لگا ہوا درخت کوئلہ ہوچکا تھا…. شاید بجلی گری ہوگی…. اُس نے سوچا…. چوکیدار بھی ساتھ کھڑا تھا، کہنے لگا ’’یہ سب سائنسی ترقی کا عذاب ہے‘‘….۔
’’وہ کیسے؟‘‘…. حرا نے پوچھا
’’دیکھیں تو…. آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہیں ہے اور اس پر بجلی گری اور یہ کوئلہ ہوگیا‘‘….۔
’’تو اس میں سائنسی ترقی کہاں سے آگئی؟‘‘….۔
’’تو اور کیا ہے؟‘‘….۔
وہ چوکیدار کو باہر چھوڑ کر واپس اندر آئی اور فیض انکل کو تفصیل بتانے لگی پھر اس نے پوچھا ’’انکل ایسا کیوں کر ہوا؟…. اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟‘‘….۔
’’ہوں!…. شاید!…. نہیں!…. بلکہ میں کل صبح کی فلائٹ سے خود لاہور آجاتا ہوں‘‘….

 

(جاری ہے)

جون 2004ء

یہ بھی دیکھیں

کشورِ ظلمات ۔ قسط 9

تاریکی کے دیس میں بسنے والی مخلوق کے اسرار پر مشتمل دلچسپ کہانی….     …

کشورِ ظلمات ۔ قسط 8

تاریکی کے دیس میں بسنے والی مخلوق کے اسرار پر مشتمل دلچسپ کہانی….     …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے