حصہ 11
نوجوانوں اور طالب علموں کے لیے مراقبہ
گزشتہ سے پیوستہ
ہرانسان کی شخصیت کے دو روپ ہوتے ہیں۔
ایک ظاہری روپ …. اور
ایک باطنی روپ….
باطنی روپ کی نمائندگی طرزفکر سے ہوتی ہے۔
انسان کی فکر مثبت ،تعمیری اور راست بازی پر مشتمل ہوگی تو یہ خوبیاں یا اوصاف اس کے طور اطوار،اس کی مشغولیات ،بات چیت اورلین دین وغیرہ سے بخوبی ظاہر ہوں گے،اگر طرزفکر میں منفی پہلو مثلاً حسد، کینہ،بغض،شک، طمع، احساس کمتری،خوف جیسی کیفیات حاوی ہیں تو ایسے آدمی کے عموی رویے بھی ان صفات کا اثر لیے ہوئے ہوں گے۔
نوجوانی کا دور سیکھنے اور تربیت حاصل کرنے کا دور ہے ۔ آپ چاہیں تو مثبت چیزیں سیکھ کر انہیں اپنی شخصیت کا حصہ بنالیں، چاہیں تو منفی چیزوں کا اثر قبول کرکے انہیں اپنی شخصیت کا حصہ بنالیں۔ اس دور میں سیکھی ہوئی باتیں اور اختیار کی گئی عادتیں بنیاد کا کام دیتے ہوئے شخصیت کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔
آیئے چند ایسی خصوصیات یا اوصاف پر گفتگو کرتے ہیں جو آپ کی شخصیت اور کردار کی مثبت اور تعمیری تشکیل میں معاون ثابت ہوں گی ۔جن کی بدولت اعلیٰ مقام کا حصول آپ کے لئے آسان ہوجائے گا ۔
متحرک رہنا سیکھیے
آج کے ترقی یافتہ اور مسابقت (Competition) سے بھرپور دور میں تیز رفتاری ایک اہم صفت ہے ۔ واضح رہے کہ تیزرفتاری کا مطلب جلدبازی نہیں ۔ تیزرفتاری سے میری مراد متحرک (Mobile) رہنا اور مختلف کاموں کی انجام دہی کے لئے اپنے آپ کو آمادہ اور تیار رکھنا ہے ۔ اس بات کو اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ سستی، کاہلی، تن آسانی سے اپنے آپ کو بچایئے ۔ چستی اور پھرتی پیدا کیجئے ۔ چستی پھرتیلے پن کا تعلق صرف جسمانی صحت سے نہیں یہ ایک ذہنی رویہ بھی ہے
وقت کو استعمال کرنا سیکھیے
آپ نے کبھی اندازہ لگایا ہے کہ چوبیس گھنٹوں میں کتنا وقت آپ تعمیری سرگرمیوں میں صرف کرتے ہیں۔ دن بھر میں کتنا وقت آپ استعمال میں لاتے ہیں اور کتنا ضائع کردیتے ہیں۔
آیئے جائزہ لیتے ہیں۔
چوبیس گھنٹوں میں سے تقریباً آٹھ گھنٹے تو عموماً رات کی نیند میں صرف ہوتے ہیں۔ باقی سولہ گھنٹوں میں اسکول، کالج یا یونیورسٹی میں پانچ یا چھ گھنٹے صرف ہوئے۔ تاہم یہ پانچ یا چھ گھنٹے بھی عموماً مکمل طور پر تعلیمی سرگرمیوں میں صرف نہیں ہوتے۔ کسی دن ایک دو یا تین پیریڈ خالی بھی گزر جاتے ہیں۔ اکثر طلباء خالی پیریڈ کا یہ وقت آپس میں خوش گپیاں کرتے ہوئے یعنی غیر تعلیمی سرگرمیوں میں گزار دیتے ہیں بہت کم طلبہ و طالبات خالی پیریڈ ز میں ملنے والے وقت کو مطالعہ یا تعلیمی گفتگو (Discusion) میں صرف کرتے ہیں۔
اسکول، کالج، یونیورسٹی کے بعد گھر آئے کھانا کھایا۔ تھوڑی دیر آرام کیا،ٹی وی دیکھا ،شام کو دوستوں سے میل ملاقات ہوئی یا ٹی وی دیکھا… گھر پر یا ٹیوشن سینٹر میں عموماً ایک یاڈیڑھ گھنٹہ پڑھائی پر صرف کیا اور پھر نیند کی وادیوں میں جاپہنچے۔
آپ خود اندازہ لگائیں صرف ایک دن میں مجموعی طور پر ہمارا وقت کتنا استعمال ہوتا ہے اور کتنا وقت بے کار اور غیر تعمیری کاموں کی وجہ سے ضائع ہوجاتا ہے ۔
وقت کے استعمال کے سلسلے میں آپ اپنا جائزہ لیجئے۔ زندگی میں کامیابی اور اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے لئے وقت کا بہترین اور زیادہ سے زیادہ استعمال سیکھئے ۔
اچھی گفتگو کرنا سیکھیے
ہر انسان اپنے خیالات ، جذبات اور احساسات سے دوسروں کو اپنی گفتگو کے ذریعے ہی آگاہ کرتا ہے۔ قوتِگویائی دوسرے حیوانوں پر انسان کا خصوصی امتیاز ہے۔ قوت گویائی کی وجہ سے ہی بولیاں اور زبانیں وجود میں آئی ہیں ۔ اسی وجہ سے گفتگو کا فن وجود میں آیا ۔
ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور دیگر حلقوں میں اس کی موجودگی کا احساس کیا جائے، اسے اہمیت دی جائے اور اس کی غیرحاضری میں اس کی کمی محسوس کی جائے ۔ اس مقصد کے حصول کا آسان راستہ گفتگو کے فن پر عبور حاصل کرنا ہے ۔ شیریں کلامی اور اخلاق پر ہماری مذہبی تعلیمات میں بھی بڑا زور دیا گیا۔
ایک مرتبہ مشہور فلسفی ارسطو کے پاس ایک شخص آیا اور بہت دیر تک خاموش بیٹھا رہا ۔ ارسطو نے اس سے کہا
’’اے شخص میرے ساتھ کچھ گفتگو کر تاکہ میں تجھے پرکھوں کیونکہ کسی شخص کی گفتار ہی اس کی شناختِ کردار اور اس کے حسن اخلاق کے اظہار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے‘‘۔
اچھی طرح گفتگو کیجئے…. اپنی گفتگو میں اچھے الفاظ استعمال کیجئے ۔ اپنی گفتگو کو مختلف واقعات کے حوالوں ، اشعار ، لطائف اور شگفتہ باتوں سے سجانے کی کوششکیجئے۔
اچھا سامع بنیے
لوگوں میں مقبولیت اور ہر دلعزیزی حاصل کرنے کے لئے فن گفتگو کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ۔ ہر انسان اپنے خیالات وجذبات کا اظہار کرنا چاہتا ہے لیکن جیسے اچھی طرح بات کرنے کی اہمیت ہے ایسے ہی دوسروں کی بات توجہ اور تحمل سے سننا بھی ایک بڑا وصف ہے ۔ اگر اعداد و شمار اکٹھے کئے جائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اچھی طرح گفتگو کرنے والوں کی تعداد تو زیادہ ہے لیکن اچھا سامع ہونے کی صفت والے لوگ کم ہیں ۔ گفتگو ہمیشہ دو یا دو سے زائد اشخاص کے درمیان ہوتی ہے ۔ دوران گفتگو دوسرے شریک گفتگو کو بھی بولنے کا پورا پورا موقع دیجئے اور اس کی بات پوری توجہ سے سُنیے ۔
جو شخص دوسروں کی بات یا ان کے مسائل توجہ وتحمل ، ہمدردی سے سنتا ہے لوگ اسے پسند کرتے ہیں ، عزت واحترام دیتے ہیں ۔
دوران گفتگو دوسروں کو بولنے کا بھرپور موقع دیجئے انہیں توجہ سے سُنیے ۔ اگر آپ اپنی بات میں کوئی ایسا نکتہ بیان کرنا چاہتے ہیں جو اس موقع پر کسی اور نے بھی بیان کیا ہے تو اس بات کو اپنی بات کہنے کے بجائے اس طرح کہیں کہ جیسا کہ فلاں صاحب نے بھی کہا ہے کہ ….
مثبت رویہ اور طرز فکر اپنائیے
زندگی کے مختلف میدانوں میں مختلف معاملات کا سامنا کرنا ہوتا ہے ۔ گھر ، خاندان ، محلہ ، اسکول ، کالج ، یونیورسٹی یا عملی زندگی کا کوئی شعبہ ہو حالات و واقعات آپ کی مرضی کے مطابق وقوع پذیر نہیں ہوتے ، ہر فرد اپنے گھر میں خود کو سب سے زیادہ مطمئن اور باسہولت محسوس کرتا ہے لیکن گھر میں بھی ہر کام آپ کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتا ۔ آپ کے اردگرد رہنے والے سب لوگ آپ کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی نہیں رکھتے ۔ رشتہداروں ، اہل محلہ یا تعلیمی ادارے کے ساتھیوں میں سے بعض کے ساتھ آپ مسابقت Competitionکی حالت میں بھی ہوتے ہیں ۔ اس مسابقت میں کسی کو آپ پیچھے چھوڑتے ہیں کوئی آپ کو پیچھے چھوڑتا ہے ۔ایسے موقعوں پر اپنے حریفوں سے بدگمانی اختیار نہ کیجئے ۔ ان سے مقابلہ کیجئے لیکن ان کی ذاتی مخالفت نہ کیجئے۔ اپنے Competitorکو طنز ، تضحیک اور ملامت کا نشانہ مت بنائیے ۔ زندگی کے کسی شعبہ میں تعلیمی یا پیشہ ورانہ یا فنی مسابقت کو ذاتی مخالفت میں تبدیل نہ کیجئے ۔ دوسروں کی اچھائیوں اور خوبیوں کو دیکھئے ۔ ان کی خامیوں اور برائیوں پر نظر نہ رکھیے ۔ ساتھی طالب علموں کی کامیابیوں پر خوشی کا اظہار کیجئے خواہ اس نے آپ کو ہی ہرایا ہو ۔ رشتہ داروں ، دوستوں، ساتھیوں کی غیبت مت کیجئے ۔ان پر شک مت کیجئے ۔ ان کے پیٹھ پیچھے اور ان کے سامنے ان کی تعریف کیجئے اور ان کی حوصلہ افزائی کیجئے ۔ ہر شخص کوزندگی میں مختلف طرح کی صورتحال سے گزرنا پڑتا ہے۔ بعض صورتحال ناخوشگوار ، ناپسندیدہ اور غیرمطلوب ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں ہر معاملہ کے روشن پہلو پر نظر رکھنے کی صلاحیت کو ابھاریئے ۔ کسی معاملہ کو محض منفی پہلو سے دیکھنے والے اداسی اور یاسیت میں مبتلا رہتے ہیں جبکہ روشن پہلو پر نظر رکھنے والے خوش ، مسرور اور شاداب رہتے ہیں۔ ان کی جسمانی اور ذہنی صحت بھی اچھی رہتی ہے ۔
پُر امید رہیے
زندگی واقعات اور حادثات سے عبارت ہے ۔ واقعات آپ کے لئے خوشگوار بھی ہوسکتے ہیں ناخوشگوار بھی۔ زندگی میں خوشیوں کے ساتھ ساتھ حادثات اور سانحات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ۔ میں نے کئی لوگ ایسے بھی دیکھے ہیں جنہیں ڈھیروں خوشیاں ملیں پھر بھی وہ بہت مسرور وشاداں ، خوشیوںسے کھیلتے ہوئے نظر نہ آئے مگر کسی ہلکے سے غم نے انہیں بہت اداس ، افسردہ وبیزار کردیا۔ یاد رکھیے خوشی باہر سے نہیں ملتی ، خوشی تو آپ کے اپنے اندر سے پھوٹتی ہے جیسے کوئی چشمہ زمین سے پھوٹتا ہے ۔ خوشی ایک صفت ایک صلاحیت کے طورپر آپ کے وجود میں موجود ہے ۔ آپ کا کام اسے متحرک کرنا ہے ۔ اگر اداسی اور یاسیت کے جذبات آپ کی ذات پر غلبہ حاصل کرلیں تو خوش رہنے کی صلاحیت دب کر رہ جائے گی پھر پرندوں کی مہکار ، پھولوں کا کھلنا ، بچوں کی معصوم وشریر مسکراہٹ ، بہار کی آمد اور آپ کے اردگرد جابجا پھیلا ہوا قدرت کا حسن بھی آپ کو خوش نہ کرسکے گا ۔
نہ کلی ہے وجہ نظر کشی نہ کنول کے پھول میں تازگی
فقط اک دل کی شگفتگی سبب نشاط بہار ہے
جو لوگ پرامید رہنا سیکھ لیتے ہیں وہ خوش رہنے کا گُر بھی جان لیتے ہیں۔
حالات کیسے ہی ناموافق کیوں نہ ہوں ہمیشہ پرامید رہنے کی کوشش کیجئے ۔ مایوس نہ ہوں۔ مایوسی انسانی شخصیت کو اس طرح کھوکھلا اور ناتواں کردیتی ہے جیسے دیمک لکڑی کو ۔ پرامید رہنا خوشی ہے مایوسی غم ہے ۔
جو لوگ مثبت طرزفکر اختیار کرلیتے ہیں وہ ہمیشہ پرامید رہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ زندگی میں کسی حادثہ ، نقصان یاجذباتی صدمہ پر انہیں دکھ اور افسوس نہیں ہوتا ۔ ایسا نہیں ہے ۔مثبت طرزفکر کے حامل لوگ ایسے تمام واقعات پر عام لوگوں کی طرح دکھ وغم محسوس کرتے ہیں مگر یہ دکھ ، رنج وغم ان کی شخصیت پر منفی اثرات نہیں ڈالتے ۔ ان میں مایوسی پیدا نہیں ہوتی ۔
ناکامی سے کامیابی کشید کیجیے
زندگی میں ہر کام کا نتیجہ آپ کی مرضی کے مطابق برآمد نہیں ہوتا ۔ نہ ہی تمام خواہشات پوری ہوتی ہیں ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد گرامی ہے ’’ میں نے اللہ کو اپنے ارادہ کی ناکامی سے پہچانا ‘‘ ۔
دور طالبعلمی یا نوعمری میں زیادہ تر لڑکوں کو تعلیمی میدان میں کامیابی اور پسندیدہ کیریئر کے حصول میں مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے ۔ جبکہ لڑکیوں کو ان مسائل کے ساتھ ساتھ شادی بیاہ کے مسائل کا سامنا بھی ہوسکتا ہے ۔ فرض کریں کہ ایک طالبعلم کی سب سے بڑی تمنا میڈیکل کالج میں داخلہ حاصل کرنا ہے لیکن پری میڈیکل میں وہ اتنے نمبر نہیں لاسکا کہ اپنی اس خواہش کی تکمیل کرسکے اور اس طرح ڈاکٹر بننے کا اس کا خواب ادھورا ہے۔ زندگی کے اس مرحلہ پر اس طالبعلم کو ایک بڑی ناکامی کا سامنا ہے ۔
میٹرک یا انٹر میں بظاہر محنت کے باوجود اگر کم نمبرملیں تو بہت سے طالبعلموں کو شدید ذہنی دھچکہ پہنچتا ہے ۔ اسی طرح اور میدانوں میں حسب توقع نتائج نہ ملنے کا معاملہ ہے لیکن زندگی کا یہی وہ مرحلہ ہے جہاں سے آپ نے اپنے لئے ان راہوں کا انتخاب کرنا ہے جو آپ کو کامیابی دلاتی چلی جائیں۔
ناکامیوں سے مایوس ہوکر ہمت ہارکر نہ بیٹھ جائیں ۔ ناکامیوں سے بھی کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کیجئے ۔ کرنے والے توبڑی بڑی خرابیوں سے بھی کسی نہ کسی طرح خیر کی صورت نکال لیتے ہیں۔ یہ صلاحیت آپ کے اندر بھی موجود ہے بس اسے متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔
مشکل پسند بنیے ، چیلنج قبول کیجیے
انسان کی کامیابیوں اور کامرانیوں میں قسمت کا جتنا بھی دخل ہو انسانی جدوجہد اور کوشش کی بہرحال اپنی اہمیت ہے ۔
زندگی میں اعلیٰ مقام ان لوگوں کے حصے میں آتا ہے جو اس کے لئے محنت اور کوشش کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں سیلف میڈ انسانوں کے کتنے ہی واقعات اخبارات ورسائل اور کتابوں کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ ایسے واقعات امریکہ، کینیڈا ، یورپ اوردیگر مستحکم معاشروں میں ہی نہیں ہوتے ہمارے ملک میں بھی ایسی مثالیں بکثرت موجود ہیں۔ کتنے ہی افراد ہیں جنہوں نے بالکل زیرو یا بالکل نچلی سطح سے عملی زندگی کا آغاز کیا لیکن مسلسل سخت لگن ، ہمت ، مشکل پسندی ، چیلنج قبول کرنے کی صلاحیت کے بل پر کامیابی وکامرانی حاصل کرتے چلے گئے ۔ ان کا شمار ملک وقوم کے ممتاز اشخاص میں ہونے لگا ۔
زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے نوجوانوں کو ایک صفت ضرور اختیار کرنی چاہئے اوروہ ہے مشکل پسندی اور چیلنج قبول کرنے کی صفت ۔ تن آسانی، سستی، کاہلی سے بچیے ۔ اگر سانپ سیڑھی کے کھیل سے مثال دی جائے تو مشکل پسندی اورچیلنج قبول کرنا سیڑھی ہے جبکہ تن آسانی سستی ، کاہلی سانپ ہیں جو بڑھتی ہوئی گوٹ کو بہت نیچے گرادیتے ہیں۔
کامیاب زندگی اور معاشرے میں اعلیٰ مقام کا عزم کیجیے
آپ آج طالبعلم ہیں ۔ آپ کا تعلق متوسط طبقہ سے بھی ہوسکتا ہے ، امیر طبقہ سے بھی اور غریب طبقہ سے بھی ہوسکتا ہے ۔ آپ کا موجودہ خاندانی پس منظر یا معاشی اسٹیٹس جو بھی ہو آپ اپنے لئے ایک کامیاب زندگی اور معاشروں میں اعلیٰ مقام کا عزم کیجئے ۔
میرے اسکول کا ایک ساتھی تھا ، اس کے والد سائٹ میں ایک مل میں مزدوری کیا کرتے تھے ۔ ان کی رہائش کراچی کی ایک کچی آبادی میں تھی ۔ انتہائی غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والا یہ لڑکا اسکول کے زمانے ہی میں اپنے مستقبل کے بارے میں پرعزم تھا ۔ اس نے انتہائی دشوار حالات میں سخت محنت کرکے تعلیم حاصل کی ۔ اسے انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخلہ ملا ۔ تعلیم کے حصول کے بعد مختلف مراحل سے گزرتا ہوا آج وہ حکومت سندھ میں ایک بڑے عہدہ پر فائز ہے ۔
میرے سامنے ایسی ایک دو نہیں کئی مثالیں ہیں ۔ مہنگی مہنگی فیسوں والے بڑے نام والے اسکول ، والدین کے بے جا ناز نخرے زندگی میں کامیابی کی ضمانت فراہم نہیں کرتے ۔ کامیابی عزم کرنے والے اور محنت کرنے والے کو ملتی ہے۔
اپنے لئے ایک نمایاں مقام کے حصول کا عزم کیجئے۔ خوشحالی کی خواہش کیجئے اور اس خواہش کی تکمیل کے لئے اپنے اندر صلاحیتیں اور خوبیاں پیدا کیجئے ۔ دولت کا حصول آپ کا حق ہے ۔ دولتمندی بذات خودکوئی بری چیز نہیں ہے ۔ دولت پاکر غرور وتکبر اور دوسروں کو کمتر سمجھنا برا ہے ۔ یہ ایسی برائی ہے جو اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے ۔ دولت کے بارے میں حضور اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ’’دولت پرہیزگاری میں اچھی معاون ہے ‘‘ ۔ دولت کے حصول کی خواہش اور اس کے لئے جدوجہد کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی عہد کیجئے کہ آپ اپنی دولت کو اپنے اہل خانہ اور معاشرے کی بھلائیوں کے لئے استعمال کریں گے ۔ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ تکبر وغرور سے محفوظ رکھیں اور آپ کو عاجزی انکساری ، مروت اور دوسروں کے لئے محبت کرنے والا دل عطا فرمائیں۔
غصہ نہ کیجیے اشتعال میں نہ آئیے
انسان کی بڑی کمزوریوں میں سے ایک کمزوری غصہ ہے ۔ زندگی میں مختلف ناموافق اور مخالف حالات پیش آتے ہیں ۔ آپ غور کیجئے کہ ہم زیادہ تر کب اور کس پر غصہ کرتے ہیں۔ ان لوگوں پرکرتے ہیں جن پر ہمارا بس چلتا ہے ۔ عموماً ہم غصہ ان لوگوں پر کرتے ہیں جو ہمارے بس میں ہوتے ہیں یا جنہیں ہم اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں ۔ سڑک پر موٹر سائیکل چلاتے وقت اگر ٹریفک پولیس کا سپاہی ہمیں روک لے تو خواہ اس نے ہمیں غلط ہی کیوں نہ روکا ہو ، ہم اس پر غصہ کا اظہار نہیں کرتے ۔ اس وقت ہم اپنے جذبات پر قابو رکھتے ہیں لیکن ایسے کسی شخص سے جو ہمارے بس میں ہو ، معمولی سی غلطی بھی سرزد ہوجائے تو بعض اوقات ہم اس پر غصہ سے پھٹ پڑتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ناموافق یا مرضی کے خلاف واقعات پر اپنا ردعمل ہمارے اختیار میں ہوتا ہے ۔
سامنے والا کمزور ہو تو ہم بے قابو ہوجاتے ہیں۔ اگر سامنے والا طاقتور ہو تو ہم ضبط کرتے ہیں ۔
اس سے یہ بات سامنے آئی کہ ہم ضبط کرسکتے ہیں ۔ پھر کیوں نہ ان لوگوں کے سامنے بھی ہم اشتعال میں نہ آئیں اور ضبط وتحمل سے کام لیں جن پر ہمارا اختیار چلتا ہے جو ہمارے بس میں ہیں یا ہم سے کمزور ہیں۔
تعمیر شخصیت میں مراقبہ ہماری کس طرح مدد کرتا ہے
ایک بہتر ، مثبت اور پُرکشش شخصیت کی تشکیل میں بہت سے عناصر اور عوامل اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان میں سے کئی عناصر وعوامل ایسے ہیں جن پرمراقبہ سے حاصل ہونے والی توانائیوں کے نمایاں اثرات ہوتے ہیں۔ وجود انسانی پر مراقبہ کے مثبت اور تعمیری اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی خانوں میں تقسیم یا درجہ بندی اس طرح کی جاسکتی ہے :
-1جسمانی صحت پر مراقبہ کے اثرات
2-دماغی صحت پر مراقبہ کے اثرات
3-ذہنی صحت اور رَوَّیوں پر مراقبہ کے اثرات
جسمانی صحت
جسمانی طورپر صحتمند رہنے کے لئے متوازن غذا ، ورزش، نیند وبیداری کا مناسب دورانیہ اورچند دیگر معمولات میں باقاعدگی کی ضرورت ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ جسمانی صحت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ آپ کے اعصاب پُرسکون رہیں، دورانِ خون ٹھیک کام کرتا رہے اور جسم کے ایک ایک خلیہ تک آکسیجن کی فراہمی اس کی ضرورت کے مطابق ہو ۔
مراقبہ اور سانس کی مشقوں کے ذریعے یہ مقاصد آسانی سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
دماغی صحت
اپنی بہتر کارکردگی کے لئے دماغ کی اولین ضرورت بڑی مقدار میں آکسیجن کی فراہمی ہے ۔ جسم کے ہر نظام اور ہر عضو اور ہر خلیہ کی کارکردگی دماغ کے تابع ہے ۔ ماں کے پیٹ سے زندگی کی آخری سانس تک دماغ متواتر اور مسلسل جسم کے ایک ایک حصے اور ایک ایک نظام کو ان کے مقررہ افعال کی انجام دہی کے لئے احکامات صادر کرتا رہتا ہے ۔ انسان کے سانس لینے ، بھوک لگنے ، پیاس لگنے، بیداری ، نیند پرورش و نشونما غرضیکہ ہر عمل کا تعلق براہِ راست دماغ سے ہے ۔
مراقبہ کا عمل دماغ پر براہ راست اپنے مثبت اثرات مرتب کرتا ہے ۔ مراقبہ دماغ کو اس کی کارکردگی بہتر بنانے میں مدد فراہم کرتا ہے ۔ دماغ کی بہتر کارکردگی جسمانی اعضاء اور جسمانی نظام کے لئے بہتری کا سبب بنتی ہے… اس طرح سانس کی مشقوں اور مراقبہ سے ایک طرف تو ہمیں براہِ راست فائدہ ہوتا ہے دوسری طرف مراقبہ کے ذریعے دماغ کی کارکردگی بہتر ہونے سے جسمانی نظام بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔
ذہنی صحت اور رویہ
عام جسمانی صحت اورآپ کی ظاہری ووضع قطع سے زیادہ آپ کی شخصیت کا اظہار آپ کے رویّوں اور طرزعمل سے ہوتا ہے ۔
آپ کاطرزعمل آپ کی طرزفکر سے منسلک ہے ۔ آپ کیا ہیں….؟
آپ در حقیقت وہ ہیں جو آپ سوچتے ہیں۔ جو کچھ آپ سوچتے ہیں اگر وہ مثبت اور تعمیری ہے تو آپ کی شخصیت کا مجموعی تاثر مثبت اور تعمیری ہوتا ہے ۔ اگر آپ کی سوچ منفی اور تخریبی ہے تو یہ بھی آپ کے طرزعمل سے واضح ہوجائے گا۔غرض کہ آپ کی سوچ ہی ،سوچ یا فکرہی ہوتی ہے جو آخر کارآپ کی شخصیت کا حوالہ اور پہچان بن جاتی ہے ۔
مراقبہ کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ قرار دیا جاسکتا ہے کہ مراقبہ کے ذریعے شخصیت کے مثبت عوامل میں زیادہ سے زیادہ اضافہ اور منفی عوامل میں بہت کمی کی جاسکتی ہے ۔
شخصیت کے مثبت عوامل میں محبت ، خیرخواہی ، تعمیر، ایثار وقربانی ، مثبت طرزفکر ، روشن خیالی ، امید ، عزم و حوصلہ ، بہتر یادداشت ، فہم ودانش ، بصیرت وحکمت شامل ہیں۔
شخصیت کے منفی عوامل میں شک ، مایوسی ، طمع ، منفی اندازفکر ، نفرت ، بدخواہی ، تخریب ، ناامیدی ، شکستہ دلی وپست ہمتی وغیرہ شامل ہیں۔
تعلیمی میدان میں کامیابی ، علم سے بصیرت ودانش حاصل کرنے ، معاشرہ کا ایک مفید ومؤثر رکن بننے ، کامیاب وپُرمسرت زندگی بسر کرنے کے لئے اپنی شخصیت کو درکار اعلیٰ اوصاف سے مزیّن کرنے کے لیے آپ مراقبہ سے بہت زیادہ مدد حاصل کرسکتے ہیں ۔
علم کا حصول زندگی کے لئے بہت ضروری ہے لیکن کامیاب افراد اور کامیاب معاشروں کے لئے صرف علم کا حصول ہی مطلوب ومقصود نہیں ہے ۔ بذات خود علم ایک بے کار یا کم مؤثر چیز بھی ثابت ہوسکتا ہے ۔ علم کا حصول اس وقت تک اپنا مقصد پورا نہیں کرتا جب تک اس کے ساتھ دانش وبصیرت حاصل نہ ہو ۔ جس علم سے دانش وبصیرت حاصل نہ ہو اس کا کیا فائدہ ۔ محض یہ جان لینا کافی نہیں کہ یہ الف ہے یہ ب ہے ، یہ Aہے یہ Bہے ۔ علم کی اصل افادیت اس وقت ہے کہ جب علم کا صحیح استعمال ہو ۔ علم کا استعمال دانش وبصیرت کے بغیر ادھورا ہے ۔ طالبعلم کو اس بات کا اہتمام کرنا چاہئے کہ اسے علم کے ساتھ ساتھ دانش وبصیرت بھی حاصل ہو ۔
ایک طالبعلم کو دانش وبصیرت کے حصول میں مراقبہ مدد دے سکتا ہے ۔ علم کتابوں ، استاد اور مدرسہ سے حاصل کیجئے ۔ دانش وبصیرت دیگر ذرائع اور طریقوں کے ساتھ ساتھ مراقبہ سے بھی حاصل کرنے کی کوشش کیجئے۔
مضبوط ومؤثر بنیادوں پر شخصیت کی تعمیر و کردارسازی کے لئے ،شخصیت میں مختلف مثبت خصوصیات کی افزائش کے لئے ماہرین مختلف مشقیں تجویز کرتے ہیں۔
آیئے مراقبہ کرتے ہیں کے قارئین کے لیے خصوصاًطالبعلموں کے لیے ذہنی صلاحیتوں اور یادداشت میں اضافہ ، پڑھائی میں دل لگنے اور خوداعتمادی میں اضافہ کے لیے ایک مشق تجویز کی جارہی ہے ۔ اس تمام عمل کے لئے چوبیس گھنٹوںمیں سے محض چند منٹ درکار ہیں۔ ان مشقوں سے توقع ہے کہ طالبعلم نہ صرف اپنے مختلف اسباق یاد کرنے اور ذہن میں محفوظ رکھنے میں سہولت محسوس کریں گے بلکہ علم کے حصول اور اردگرد کے ماحول سے حاصل ہونے والی اطلاعات سے دانش وبصیرت کے حصول کی صلاحیت بھی جلاء پائے گی ۔
اس عمل میں قرآنی آیت، اسمائے الہٰیہ کا ورد، درودشریف کا ورد اور مراقبہ شامل ہے ۔
قرآنی آیت :رب زدنی علما
درود خضری : صلی اللہ تعالیٰ علیٰ حبیبہ محمد وسلم
اسمائے الہٰیہ : یااللہ یاعلیم یاشہید یاہادی یارشید
صبح نماز فجر کی ادائیگی کے بعد یا پھر رات عشاء کی نماز کے بعد یا رات سونے سے پہلے فرش یا لکڑی کے تخت پر مصلّہ بچھاکر ایسی اندازِ نشت میں بیٹھئے جس میں آپ آرام محسوس کرتے ہوں ۔
کچھ دیر پُرسکون حالت میں یونہی بیٹھے رہیے اور گہرے گہرے سانس لیجئے ۔ پھر ناک کے ذریعے پھیپھڑوں کو ہوا سے خوب بھرلیجئے ۔ چند سیکنڈ سانس روکے رکھیں پھر منہ کے ذریعے پھیپھڑوں کی جمع شدہ ہوا کو باہر خارج کردیں ۔ اس طرح کہ ہونٹوں کو گولائی میں لاکر آہستہ آہستہ سانس باہر نکال دیں۔ جب سانس اچھی طرح باہر نکل جائے تو چند لمحے رک کر پھر دوبارہ منہ بند کرکے ناک کے ذریعے سانس لیں اور اچھی طرح ہوا سے پھیپھڑوں کوبھرلیں یعنی یہ عمل دہرائیں۔ ابتداء میں سانس کا یہ چکر پانچ مرتبہ کیا جاسکتا ہے پھر آہستہ آہستہ اس تعداد کو بڑھاتے بڑھاتے چند روز میں اکیس تک کردیں۔
سانس کی مشق مکمل کرنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ کے اسماء یااللہ یاعلیم یاشہید یا ہادی یارشید کا ایک سو ایک مرتبہ ورد کریں ۔ اسماء الٰہیہ کے ورد کے بعد 100 مرتبہ درودِ خضری
صلی اﷲ تعالیٰ علیٰ حبیبہ محمد وآلہ وسلم
کا ورد کریں۔
اب مراقبہ شروع کریں ۔ مراقبہ میں آنکھیں بند کرکے یہ تصور کریں کہ آسمان سے نیلے رنگ کی روشنیوں کی بارش ہورہی ہے ۔ اس تصور میں مشکل ہو تو یوں محسوس کریں کہ آپ کے اردگرد کا ماحول نیلا ہے بالکل ایسا جیسے کہ اگر کمرے میں رات کے وقت صرف نیلے رنگ کا بلب روشن کیا جائے تو کمرے کی ہرشئے نیلے رنگ کی روشنی سے رنگ جاتی ہے ۔
صبح مراقبے کے بعد ہلکی ورزش بھی کریں ۔ رات کو مراقبہ کرنے والے طالب علم رات کا کھانا مراقبہ سے تقریباً ڈھائی گھنٹہ قبل کھالیں ۔قرآن کی آیت
ربّ زدنی علمًا
اکیس مرتبہ پڑھ کر شہد پر دم کرکے پئیں۔
(جاری ہے)
۔
مئی 2013ء