حصہ 7
زندگی مسائل اورجدوجہد سے عبارت ہے۔ایک شخص کی زندگی میں بے شمار ایسے مقامات آتے ہیں جب اسے کسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے سخت ذہنی اورجسمانی کاوش کی ضرورت ہوتی ہے ۔عموماً وہ لوگ اس دنیا میں زیادہ کامیاب گردانے جاتے ہیں جو مختلف حالات کا مقابلہ تحمل ،بردباری اورٹھنڈے دل ودماغ سے کرتے ہیں اس کے برعکس جلد بازی، جذباتیت اور غصہ حالات کو بگاڑ کی طرف مائل کرتے ہیں۔کیا اس کامطلب یہ ہے کہ کبھی جلد بازی سے کام نہ لیا جائے، ایسا سوچنا غالباً انسانی فطرت کو نہ سمجھنے کے مترادف ہوگا۔ محبت ،نفرت ،خوشی ،غم، تحمل، غصہ یہ سب انسان کی شخصیت کا حصہ ہیں اوران کا اظہار بھی فطری ہے جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ اعتدال اورمیانہ روی ہے۔
غصہ:
غصہ کیا ہے….؟ یہ دراصل حالات ومعاملات کے اپنی مرضی کے مطابق تکمیل پذیرنہ ہونے پر ایک ذہنی رد عمل کا نام ہے۔ جب ہم اپنے کاموں کی انجام دہی میں یاارادوں کی تکمیل میں رکاوٹ محسوس کرتے ہیں تو ہمارا ردعمل غصے کی صورت میں بھی ظاہر ہوسکتاہے تاہم یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہرقسم کی رکاوٹ غصہ کا سبب نہیں بنتی۔آسان سی مثال ہے کہ اگر موسم کی خرابی کے باعث آپ کا امتحان مقررہ تاریخ پر نہ ہوسکے تو آپ کوغصہ نہیں آئے گا لیکن اگر کسی ضروری کام سے گھر سے نکلتے ہوئے کسی وجہ سے آپ کو دیر ہونے لگے تو آپ کوغصہ آنے لگے گا۔آپ نے اکثر یہ بات نوٹ کی ہوگی کہ آپ اس وقت غصہ کرتے ہیں یا غصہ میں آجاتے ہیں جب کوئی کام آپ کی منشاء کےمطابق نہ ہو پارہاہو مثلاً بچے کو پڑھاتے ہوئے آپ اس وقت غصہ کرتے ہیں جب آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کی تمام تر محنت کے باوجود وہ پڑھائی پرپوری توجہ نہیں دے رہا ہے۔ دفتر میں اپنے ماتحتوں پر آپ اس وقت غصہ کرتے ہیں جب آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ان لوگوں نے کام کی انجام دہی میں اپنی پوری صلاحتیں استعمال نہیں کیں ہیں۔ کام کی نوعیت خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو مگر اس کی من پسند تکمیل ہمارے لیے انا کا مسئلہ بن جاتی ہے اورمخالفانہ مسائل انا پر چوٹ کے مترادف ہوتے ہیں نتیجتاً اپنی بےعزتی کے احساس ،بے بسی ،محرومی یا مایوسی پر ہم جھلّااٹھتے ہیں۔ یہ صورتحال اعصاب پر بوجھ کا باعث بنتی ہے اور ہم وقتی طورپر شور مچا کر ڈانٹ ڈپٹ کرکے یا چیخنے چلانے سے اس دباؤ کو دورکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب ایک انسان شدید غصہ کی صورت میں ہوتاہے تو اس کا ذہن اعصاب اورجسم شدید تناؤ کی حالت میں ہوتے ہیں۔جسم کے مختلف نظام اپنی معمول کی کارکردگی میں اس تناؤ کے سبب مزاحمت محسوس کرتے ہیں نتیجتاً جسمانی طورپر مختلف منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں مثلاً دوران خون بڑھ جاتاہے ،نظام ہاضمہ متاثر ہوتاہے(اسی لیے کےکھانا کھاتے وقت غصہ کرنا صحت کے لیےبُرا سمجھا جاتاہے) نیند متاثر ہوتی ہے اورچڑچراپن پیدا ہوجاتا ہے۔ہر وقت غصہ میں رہنے والا شخص مختلف جسمانی بیماریوں اورذہنی دباؤ کے سبب خود اپنی کارکردگی گھٹانے کے علاوہ معاشرہ میں بھی اپنے لیے اچھا مرتبہ حاصل کرنے میں کما حقہ،کامیاب نہیں ہوپاتا اس لیے کہ ایک چڑچڑے مزاج اورغصیلے شخص کو لوگ مجبور اً تو برداشت کرسکتے ہیں مگر ایسا شخص عام طورپر ہر دل عزیز اورلوگوں میں مقبول نہیں ہوسکتا۔
مذکورہ بالا اسباب کے علاوہ غصہ کے بعض جسمانی اسباب بھی ہوسکتے ہیں مثلاً خون میں شکر کی کمی یا زیادتی بلڈ پریشر کی زیادتی ،ایسی بیماریاں جن کی وجہ سے انسان قلت خون کا شکارہوجاتاہے۔ عام جسمانی کمزوری اوربعض اعصابی امراض وغیرہ کی موجودگی میں بھی اکثر لوگ غصہ سے مغلوب ہوجاتے ہیں۔ اب دوصورتیں ہمارے سامنے ہیں ایک یہ کہ جو لوگ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتے اوراکثر غصہ میں رہتے ہیں ان کو کئی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں دوسرے یہ کہ کئی بیماریاں ایسی ہیں جن کی وجہ سے انسان جلد غصہ میں آجاتاہے۔
کسی خاص واقعے پر ہمارے ردعمل کا انداز ہماری ذہنیت اورہماری شخصیت کو واضح کرتاہے۔
متوازن اورگریس فل شخصیت کی تشکیل کےلیے اور زندگی میں کامیابیاں پانے کے لیے دیگر کئی عوامل کے ساتھ ساتھ اپنے جذبات اوراپنے ردعمل پر قابو پانا بھی انتہائی ضروری ہے۔ انسان کئی ناپسندیدہ یا مخالفانہ معاملات پر جو ردعمل ظاہر کرتاہے ان پر سب سے زیادہ نمایاں غصہ ہے۔ غصہ گوکہ ایک فطری ردعمل ہے لیکن غصہ کی زیادتی کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔کسی شخص میں تکبر اورغرور غصہ کی وجہ سے ہوسکتاہے تو کہیں ذہن وجسمانی کمزوری غصہ کی وجہ سے ہوسکتی ہے۔
کبر، انسانوں کے لیے ایک بہت بُری صفت ہے۔ کبر میں مبتلا آدمی دوسروں کو حقیر سمجھتاہے۔ دوسروں کی خوشیوں پر اورکامیابیوں پر تنگ دلی محسوس کرتاہے۔ اپنے سے چھوٹوں اوراپنے ماتحتوں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر بھی تحمل اوربرداشت سے کام نہیں لیتا اوراپنے ردعمل کا اظہار شدید غصے کے ذریعے کرتاہے۔
دولت ،اختیارات ،خاندان،برادری ،کاروبار یا ملازمت میں بہترپوزیشن سے بعض لوگ کبر میں مبتلاہوجاتے ہیں۔ کبر میں مبتلا کئی لوگ غصہ سے مغلوب نظرآتے ہیں۔لوگوں کی ایک بڑی تعداد کسی ذہنی یا جسمانی کمزوری کی وجہ سے بھی غصہ کرتی نظر آتی ہے۔ ایسے لوگ ان لوگوں پر غصہ کرتے ہیں ان پر ان کاکچھ زور چلتاہے۔ مثال کے طورپر نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کی بڑی تعداد اپنے گھر میں والدین یا بہن بھائیوں کے سامنے خوب غصہ کرتی نظرآتی ہے۔ایسے کئی نوجوانوں سے میری بات بھی ہوئی ہے۔ میں نے پوچھا بھائی غصہ کیوں کرتے ہو….؟نوجوان نے کہا کہ دراصل میں کوئی غلط بات برداشت نہیں کرسکتا۔جب گھر پر کوئی غلط کام ہو،اصولوں کے خلاف کوئی بات ہو تو مجھے بہت غصہ آتاہے۔ میں نے کہا …. چلو تمہاری بات مان لیتے ہیں۔ یہ بتاؤ کہ تم نے کبھی اپنے پروفیسر یا اپنے آفسر کے سامنے بھی غصہ کیا ہے….؟ نہیں، ایسا کرنے سے تو میرا بہت نقصان ہوجاتا۔یار….!تو پھرگھر میں غصہ کا اظہار کیوں کرتے ہو….؟اس لیے کہ وہاں سب تمہاری سنتے ہیں اوراپنے گھر والوں کے سامنے تمہیں کسی قسم کے نقصان کاخوف نہیں ہے۔اس مثال سے یہ واضح ہوتاہے کہ مختلف مخالفانہ یا ناپسندیدہ حالات میں ممکنہ نتائج کا احساس ہمارے ردعمل کا تعین کرتاہے۔
دیکھئے…. ! ایک شخص جو اپنے گھر میں یا اپنے ماتحتوں کے سامنے غصہ سے چیخنے چلانے لگتاہے وہی شخص اپنے آْفیسر یا اپنے کسٹمر کے سامنے کئی ناگوار باتیں سننے کے باوجود غصہ کا اظہار نہیں کرتا۔
اس کامطلب یہ ہوا کہ اگر ہم چاہیں تو انتہائی ناپسندیدہ اورسخت مخالفانہ حالات میں بھی اپنے منفی ردعمل پر قابو پاسکتے ہیں۔
اس کام کے لیے ہم مراقبہ سے خوب مدد لے سکتے ہیں۔مراقبہ کا عمل دراصل انسانی دماغ میں کئی تبدیلیوں کا سبب بنتاہے۔ سائنسدانوں کے مشاہدات وتجربات سے واضح ہوا ہے کہ مراقبہ کرنے سے داماغ کے ان حصوں کی تحریکات بڑھ جاتی ہیں جن کا تعلق سیکھنے ،سمجھنے ، ذہانت اوربصیرت جیسے خیالات سے ہے اوران حصوں کی تحریکات کم ہوجاتی ہے جن کاتعلق ہیجان ،مایوسی اورغصے وغیرہ سے ہے۔اس طرح اب سائنسی تحقیقات کے ذریعہ بھی یہ شواہد مل گئے ہیں کہ جذبات پر کنٹرول Emotional Controlکے لیے مراقبہ بہت مفید وموثر ایکسرسائز ہے۔موجودہ دور میں انسانوں میں Emotional Quotient یعنی E.Qکو Intelligence Quotient یعنیI.Qسے بھی زیادہ اہمیت دی جارہی ہے۔ E.Qلیول کو بہتر بنانے کے لیے بھی مراقبہ بہت زیادہ مددگار ثابت ہوسکتاہے۔اگر آپ کی طبیعت میں غصہ زیادہ ہے تو اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوا کہ آپ کا E.Qلیول کم ہے۔غصے پر قابو پاکر اپنی شخصیت کو بہتر اوردوسروں کے لیے زیادہ پسندیدہ بن جائیے۔ اس مقصد کے لیے ….آیئے مراقبہ کرتے ہیں۔
۔
(جاری ہے)
جنوری 2013ء